قرآن کریم کے تصور ِجنت پر کئی قسم کے جتنے اعتراضات کئے جاتے ہیں ،ان کی وجہ قرآن پاک کے اسلوب ِبیان سے جہالت پر مبنی ہیں ،قرآن پاک کے کسی بھی بیان کردہ حقیقت کو سمجھنے کے لئے یہ سمجھنا بے حد ضروری ہے کہ قرآن کریم کے مخاطب کون لوگ ہیں ؟ قرآن کریم اپنے بیانات و خطابات میں کن کو خطاب کر رہا ہے ؟ اگر قرآن کریم کا مخاطب سمجھ لیا جائے تو اعتراضات بھی ختم ہوجائیں گے ۔
قرآن کریم نے جہنم و جنت کی جو بھی تفصیلات یا دیگر حقائق بیان کیے ہیں ،ان میں مخاطب بنی نوع انسان ہیں ،یعنی انسانوں کی عمر ،طبقہ ،قوم ،علمیت ،پیشہ ،جنس ،خطہ ،علاقہ ،زمانہ سے قطع نظر انسان کو بحیثیت انسان کے مخاطب کیا ہے ،مرد ہو یا عورت ،جوان ہو یا بوڑھا ،جاہل ہو یا عالم ،دیہاتی ہو یا شہری ،ترقی یافتہ ہو یا پسماندہ ،مغرب کا ہو یا مشرق کا ،قدیم زمانے کا ہو یا جدید زمانے کا ، فلسفی ہو سائنسدان ،تاجر ہو یا کاشتکار ،شاعر ہو یا شاعری سے متنفر ،ادیب ہو یا غیر ادیب ،الغرض جو بھی انسان اس روئے زمین پر پایا جاتا ہے ،قرآن کریم اس کو مخاطب کرتا ہے ،البتہ اس تخاطب میں انسانوں کو نظریات کے اعتبار سے بنیادی طو رپر دو اقسام مسلمان اور کافر میں تقسیم کیا ہے (پھر ان کے اندر منافقین ،اہل کتاب اور دیگر درجہ بندی کی گئی ہے )
اس لئے قرآن کریم جب کوئی حقیقت بیان کرتا ہے تو انسانوں میں سے علمیت ،اہلیت ،ذہانت کے اعتبار سے ادنی انسان سے لیکر عالی دماغ انسانوں کو بیک وقت مخاطب ہوتا ہے ،اب جنت کے بارے میں قرآن کریم کا بنیادی تصور یہ ہے کہ وہ ایک نہایت آرام دہ اور انسان کی جملہ خواہشات کے پوری ہونے کی جگہ ہے ، اب بنی نوع انسانوں کی کچھ خواہشات سب انسانوں میں مشترک ہیں ،مشرق کا انسان ہو یا مغرب کا ،جوان ہو یا بوڑھا ،عالم ہو یا جاہل ،ترقی یا فتہ ہو یا پسماندہ ،مرد ہو یا عورت ،قدیم ترین زمانے کا انسان ہو یا جدید انسان ،سب میں مشترک خواہشات اور سب کی بنیادی ضروریات تین ہیں :ایک کھانے پینے کی خواہش ،دو ، رہنے کے لئے اچھی جگہ کی خواہش ،تین جنسی خواہش ،
اس لئے قرآن کریم نے بنی نوع انسانوں کی تین مشترک ضروریات و خواہشات کو تفصیل سے بیان کیا ہے کہ جنت میں کیا کھانے ہونگے؟رہنے کی کیسی جگہیں ہونگی ؟اور جنسی ضروریات کا کیا سامان ہوگا ؟کیونکہ یہ ضروریات ایک دیہاتی اور گنوار کی بھی ہیں اور ایک اعلی ترقی یافتہ زندگی گزارنے والے تعلیم یافتہ انسان کی بھی ہیں ۔
اس کے بعد دوسرا مرحلہ انفرادی خواہشات کا آتا ہے ،جس میں کوئی جانوروں کا شوقین ہوتا ہے ،کوئی کتب بینی کا ،کوئی فلسفے کا رسیا ہوتا ہے تو کوئی آرٹ کا ،کوئی شاعرارانہ مزاج رکھتا ہے تو کئی خشک مزاج ،الغرض جتنے انسان ،اتنی ان کی پسند جد اجدا ،اس کے لئے قرآن کریم نے ایک کلیہ بیان کیا ہے کہ “وفیھا ما تشتھیہ الانفس”کہ جنت میں انسان کو وہ سب کچھ ملے گا ،جس کی وہ خواہش کرے گا ۔انفرادی خواہشات کو ایک تو بے شمار ہونے کی وجہ سے الگ الگ بیان کرنا ممکن نہیں ،دوسرا ایک کا شوق دوسرے انسان کی بیزاری ہوتی ہے ،اس لئے اگر بعض انفرادی خواشات کو بیان کرتے تو قران کریم کے مختلف حصے کچھ لوگوں کے لئے بیزاری کا سامان ہوتے ،جبکہ کچھ کی دلچسپی کا ،تو بنی نوع انسان کو مخاطب کرنے والا قران کریم کا مقصد فوت ہوجاتا ،زیدی صاحب سے عرض ہے کہ لائبریری کی افادیت پر کوئی کتاب لکھ کر پھر دیہاتیوں اور ان پڑھ لوگوں میں تقسیم کر دے ،تو خود بخود قرآن کے انداز ِتخاطب کی حکمت سمجھ آجائے گی،اس لئے ایک عالمی کتاب اور بنی نوع انسان کو مخاطب کرنے والی کتاب کو خاص موضوعات اور خاص طبقات کے لئے لکھی گئی کتب پر قیاس کرنا جہالت اور بے خبری ہے ۔
ہمیں لائبریری یا کتابوں کی ضرورت، اپنے نفس میں موجود، تجسس کی انمٹ خواہش کی تسکین کے لیے ہوتی ہے. جنت میں جب حجاب اٹھا دیے جائیں گے، تو تجسس بھی ختم ہو جائے گا، کون چاہے گا جو حقیقت کو براہ راست دیکھنے کے بجائے، کتابوں کے ذریعے حجابوں میں دیکھے.
مادی دنیا میں کتاب سے محبت، تصور حقیقت کے ساتھ محبت کا عکس ہے، لیکن جب اس ماورائے جہاں میں، جب حقیقت خود سامنے آشکار ہو جائے گی، تو کتاب کا نا ہونا ہی بہتر ہے، کیونکہ پھر کتاب حجاب دور کرنے کے بجائے، خود سراپا حجاب بن جائے گی.
تحریر سمیع اللہ سعدی، اطہر وقار عظیم