بات یہ ہے کہ دیکھنا چاہیے کہ آپ خدا کے سامنے کس پوسچر میں کھڑے ہیں؟
آپ خدا سے چڑے ہوئے ہیں اس لیے کہ وہ آپ کو کچھ کاموں سے منع کیوں کرتا ہے اور کچھ ایسے کاموں کو کرنے کو کہتا ہے جنہیں کرنے کو آپ کا دل تیار نہیں۔
اس چڑ میں آپ کو ایک عارضہ لاحق ہو گیا ہے جسے opposition defiant disorder کہتے ہیں۔ آپ نے خدا کی ہر بات کی نفی کرنی ہے، اس کا مضحکہ اڑانا ہے، اس کی باتوں کو اپنی مرضی کے الٹے سیدھے معنی پہنانے ہیں۔ اس کی بات کو کان لگا کر دھیان سے نہیں سننا اور ساری بات میں سے ایک ٹیڑھا مطلب نکال کر کج بحثی کرنی ہے۔
آپ نے مان لیا ہے اور آپ جتانا بھی یہی چاہتے ہیں کہ دنیا میں جو کچھ خیر ہے، ترقی ہے، انسانی ہمدردی اور علمی ترقی کے کام ہیں سب انسان نے خود کیے ہیں۔ اگر کہیں باغات سرسبز ہیں، کھیت کھلیان اناج اگلتے ہیں تو اس لیے کہ انسان نے محنت کر کے انہیں بنایا ہے۔ اگر کہیں انسان علمی و سائنسی ترقی کے زینے چڑھتا ہے تو اس لیے کہ وہ ذہین اور محنتی ہے۔ اگر کچھ انسانی بھلائی اور خدمت کے کام ہوتے ہیں تو اس لیے کہ کچھ لوگ ہمدرد واقع ہو گئے ہیں۔اگر کچھ لوگ خوبصورت ہیں تو اس لیے کہ وہ کچھ مخصوص نسلوں سے تعلق رکھتے ہیں۔
اور اس پر مستزاد یہ کہ چونکہ آج یہ خوشحالی، ترقی، حسن (بمعنی گورا رنگ اور نیلی آنکھیں)، انسانی بھلائی کے کام اور علمی ترقی پر غلبہ ان لوگوں کو حاصل ہے جنہوں نے خدا اور اس کے پیغام کومسترد کر دیا ہے، تو اس لیے گویا کہ یہ ساری خوشحالی اور بھلائی صرف انسان نہیں بلکہ خدا کے منکر انسان کی عقل، قابلیت اور محنت کا نتیجہ ہے۔
یہاں آپ کی خدا سے بیزاری خدا کے منکر غالب انسان کی مرعوبیت سے دوآتشہ ہو جاتی ہے۔ جب آپ “میں نہ مانوں“ پر آجاتے ہیں تو باتوں کے معنی بدل جاتے ہیں۔
حالانکہ اللہ بتاتا ہے کہ دنیا میں سبزہ اور پانی اور ہوائیں اور پرندے اور تتلیاں اور تارے اور جگنو اس لیے ہیں کہ انہیں اللہ نے ہمارے لیے تخلیق کیا ہے۔کھلیان اناجوں سے، سمندر مچھلیوں سے، زمین معدنی خزانے سے اور چراگاہیں مویشیوں سے اس لیے بھری ہیں کہ اللہ نے انہیں انسانوں کے لیے سامان رزق کے طور پر پیدا کیا۔ مائیں بچوں کوچھاتیوں سے لگاتی ہیں، راتوں کو جاگتی ہیں، اپنا آپ گھلاتی ہیں، باپ دن بھر محنت مزدوری کرتا ہے، دوست دلداری کرتا ہے، بیوی اور شوہر ایک دوسرے کے لیے مودت اور رحمت کے ساتھ ایک دوسرے کا لباس بنتے ہیں تو اس لیے کہ اللہ کو نسل انسانی کی بقا عزیز ہے۔
انسان علم و جستجو کے لیے زمین کا سینہ چیرتا ہے، آسمانوں کو کھنگالتا ہے، ذرے کا دل شق کر کے توانائی کا ذخیرہ دریافت کرتا ہے، انسانی جسم و ذہن کی دنیاؤں کا کھوج لگا کر بیماریوں کا علاج ڈھونڈتا ہے تو اس لیے کہ الرحمان نے علم کی جستجو کے ساتھ اسے تخلیق کیا اور دنیا کو اس کے لیے مسخر کردیا۔
جب آپ یہ پڑھتے جاتے ہیں، جب آپ کو خدا کی خلاقیت اوربے پناہ طاقت کے ساتھ اس کے جمال اوراس کی محبت کا عرفان ہوتا ہے تو آپ کا پوسچر تبدیل ہوجاتا ہے۔ آپ کا دل محبت، شکر اور بندگی کےجذبات سے لبریز ہوجاتا ہے۔ کندھے ڈھیلے ہوجاتے ہیں اور آنکھیں جھک جاتی ہیں۔
اب آپ کو سمجھ آنے لگتا ہے کہ جو خدا ذہن کی پیاس تخلیق کرتا ہے، اور اس پیاس کی سیرابی کے لیے سوچنے اور کتابیں لکھنے والے پیدا کرتا ہے۔ جو خدا کہانی سننے کا شوق دے کر بچے کو دنیا میں بھیجتا ہے اور کہانی تخلیق کرنے والے جادوئی ذہن تخلیق کرتا ہے۔ جو خدا خود “صاحب کتاب” ہے، جس کی کتاب ہر زمانے میں “بیسٹ سیلر” رہی، اس خدا نے اپنے نبی امی صلی اللہ وسلم کو کتاب سکھائی، اور معلم بنا دیا۔
جو خدا اپنی کتاب میں حکمت و دانش کے موتی بکھیر کر انسان کو سوچنے، غور فکر کرنے، علم حاصل کرنے اور لکھنے، پڑھنے اور قوت بیان کو استعمال کرنے کی بار بار ترغیب دلاتا ہے۔ جو خدا خود اپنی کتاب میں “ اچھی کہانیاں” ( احسن القصص) سناتا ہے کہ انسان کو کہانی سے متاثر ہو کر سبق لینے والا بھی اسی نے بنایا ہے۔ وہ خدا کیا علم دشمن ہوگا؟
اس خدا کے ماننے والوں نے اتنی کتابیں لکھیں کہ دشمنوں نے جب انہیں دریا برد کیا تو اندلس کے دریاؤں کا پانی ان کی روشنائی سے سیاہ ہوگیا۔ اس کے ماننے والوں کے مکتبوں کے تاریخ میں چرچے ہیں اور اس کے چاہنے والے علماء کے لیکچر سننے کو بیس، بیس ہزار کا مجمع ہوتا تھا۔ آپ اس خدا کی جنت کا مضحکہ اڑاتے ہیں کہ اس میں علم والوں کی تسکین کا سامان نہ ہوگا؟
آپ سمجھتے ہیں کہ علوم، ترقی، لائبریریاں، کتابیں، مکتبے، دانشمند اور حکیم، معلم اور کہانی کار، تخلیق اور دانشمندی، لیکچر اور تہذیب بس آج کے دور کی پیداوار ہے کہ آپ کی آنکھیں ان کو دیکھکر خیرہ ہوئی جاتی ہیں؟ اور ذہنی مرعوبیت آپ سے اول فول کہلواتی ہے۔
عامی ایسا سمجھے تو قبول ہے مگر “علم و دانش” والے ایسی باتیں کریں تو سوال بنتا ہے کہ چیری پکنگ کے بجائے خدا کی کتاب کو اس گہرائی سے کیوں نہ کھنگالا جیسا کہ فلاں دانشور کی کتاب کو کھنگالا؟
جنت کا وعدہ ایک سامنے کی بات ہے جسے ہمیشہ کٹ حجتی نے مذاق بنانے کی کوشش کی ہے۔ انسان زندگی کی تپش اور حسرتوں سے گھبراتا ہے، تو خدا اسے بتاتا ہے کہ گہرے سبز باغات تمہارے منتظر ہیں۔ انسان کو انسان کے ہاتھوں فساد، بدامنی، قتل و غارت، لوٹ مار اور جان ومال کے خوف نے عاجز کیا تو بتایا گیا کہ جنت ابدی امن کا مقام ہے۔ انسان کو اپنی خوہشات پر بہت سی وجوہات کی بنا پر پابندیاں لگانی پڑیں، تو امید دلائی گئی کہ وہاں کوئی قدغن نہ ہوگی۔
مگر ظاہر ہے کہ خواہشات اور نعمتیں یہاں پر بس نہیں ہوتیں۔ اس لیے انسان کی لامتناہی خواہشات اور ضروریات کے لیے فرمایا “وہاں ہر وہ شے ہوگی جس کی تمہیں چاہ ہے، اور وہاں وہ سب ہوگا جو تم مانگو۔”
مگر اس جنت کے لیے کندھے جھکانے ہوں گے، سجدہ ریز ہونا ہوگا، بات ماننی ہوگی، بھلائی کے کام اور محنت کرنی ہوگی۔ مستقل مزاجی اور صبر کرنا ہوگا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کے سامنے بگڑی ہوئی نا خلف اولاد کے بجائے ایک محبت کرنےوالے سوالی کی طرح حاضر رہنا ہوگا۔
وہ خود کہتا ہے ھل جزاء الاحسان الا الاحسان؟
تحریر جویریہ سعید