خدا کو تسلیم کیے بنا کائنات کی تخلیق کے لیے تین طرح کے نقطہ نظر پیش کیے جاتے ہیں.
٭پہلا نظریہ : یہ کائنات ہمیشہ سے موجود ہے اور ہمیشہ کے لیے رہے گی.
کائنات کے ہمیشہ سے موجود ہونے کا نظریہ قدیم یونان سے چلا آ رہا ہے لیکن اس دعوے کی سب بڑی مخالف آج کی جدید سائنس ہے جو اس کائنات کے مشاہدہ کی بنیاد پر یقین سے یہ بات کہہ رہی ہے کہ یہ کائنات ایک مخصوص وقت میں شروع ہوئی اور پھر یہ ختم بھی ہو جائے گی.
اگر اس دعوے کو ہم منطقی طور پر بھی دیکھیں تو کائنات کے ہمیشہ سے موجود ہونے کے لیے لازم ہے کہ اس کا ماضی لامحدود ہو ریاضی کی زبان میں اسے infinity کہتے ہیں.
لیکن یہ لامحدود (infinite) کا نظریہ حقیقی زندگی میں کوئی معنی نہیں رکھتا. اس کی ایک سادہ سی مثال یہ ہے کہ infinity میں سے سو کو مائنس کیا جائے تو ریاضی میں اس کا جواب infinite ہی آئے گا جبکہ منطقی طور پر یہ اس لامحدود میں سے سو اشیاء کم ہونا چاہیے. لیکن ریاضی میں ایسا ہوتا نہیں. اسی لیے infinite past کا نظریہ کسی بھی طور پر منطقی نہیں ہے. اور سائنس کے مطابق اگر کائنات کا ماضی لامحدود ہوتا تو یہ اپنی تمام انرجی آج ختم کر چکی ہوتی اور اس میں موجود قوتیں اس کی تباہی کا باعث بن جاتی جو کہ مستقبل میں ہونے کا امکان ہے. یعنی اگر ماضی لامحدود ہوتا تو آج ہم موجود نہ ہوتے
اس کے علاوہ آج سائنس اس بات پر متفق ہو چکی ہے کہ اس سب کا ایک نقطہ آغاز تھا اور ایک نقطہ انجام بھی ہو گا.)مسلمان تو پہلے سے اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ کائنات ہمیشہ سے نہیں تھی اسے اللہ نے بنایا ہے(
٭دوسرا نظریہ : کائنات بنا کسی علت یا وجہ کے خودبخود وجود میں آئی اور یہ کچھ نہیں میں سے کچھ پیدا ہو گیا All this came from nothing . یعنی یہ سب کچھ بنا کسی وجہ کے خود بخود وجود میں آیا. نہ اس سے پہلے کوئی ہستی، کوئی ذات تھی نہ اس کے بعد کوئی ہستی کوئی ذات اس سارے عمل کی وجہ بنی.
سائنس دانوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو اس بات کو مانتے ہیں کہ ایسا ممکن ہے یعنی پہلے کچھ نہیں تھا اور یہ سب خودبخود وجود میں آ گیا. لیکن اس سب کے ممکن ہونے کے لیے وہ کہتے ہیں کہ پہلے ایک نظام موجود تھا جیسے quantum vacuum کہتے ہیں جس میں Quantum fluctuations پیدا ہوتی تھی . یہ عمل در عمل کا ایک ایسا نظام تھا جس میں چیزیں تیزی سے بنتی اور بدلتی تھی. یعنی مادہ اور ضد مادہ(matter and antimatter) بنتے اور ایک دوسرے کو ختم کرتے تھے. اس کی وجہ سے big bang ہوا اور پھر یہ کائنات وجود میں آ گئی.
لیکن یہاں یہ بات نوٹ کرنے والی ہے کہ سائنس دان جب کہتے ہیں کہ پہلے کچھ نہیں تھا پھر اچانک سب کچھ آ گیا کہیں سے تو اس دوران وہ quantum vacuum نامی ایک شہ کی موجودگی کا کہتے ہیں کہ اس سب سے پہلے وہ موجود تھا.یعنی جو دعوی وہ خود کر رہے ہیں پھر خود ہی اس کی نفی بھی کر رہے ہیں. کیونکہ یہ quantum vacuum کچھ ہے یہ وجود رکھنے والی شہ ہے اسے ہم nothing نہیں کہہ سکتے.
منطقی طور پر جب سوچا جاتا ہے تو فلسفہ اس بات کو نہیں مانتا کہ کوئی شہ بنا کسی وجہ کے خود بخود وجود میں آ جائے اور ” کچھ نہیں میں سے کچھ پیدا ہو جائے” .
اس کا اندازہ آپ ایسے کر سکتے ہیں کہ اگر ہم کسی سے کہیں کہ یہ ٹیبل خودبخود بن گیا بنا کسی لکڑی کے اور یہ ایسی لکڑی ہے جو دنیا میں پائی ہی نہیں جاتی یعنی یہ لکڑی کائنات میں موجود ہی نہیں لیکن یہ ٹیبل اس لکڑی سے خودبخود بن کر میرے سامنے آ گیا ہے. تو یقیناً سننے والا اس بات کو کسی صورت تسلیم نہیں کرے گا کیونکہ یہ منطق کے خلاف ہے.
یہ کائنات اور اس میں موجود تمام مادی اشیاء علت و معلول کے اصول میں جکڑی ہوئی ہیں جبکہ اسلام کے تصور خدا کے مطابق خدا ان اصولوں سے نہ صرف پاک ہے بلکہ وہ ان کا پیدا کرنے والا ہے. یعنی وہ خود کائنات کے اصولوں کا خالق ہے اس لیے یہ اصول خود خدا کی ذات پر لاگو نہیں کیے جا سکتے.
٭تیسرا نظریہ : self creation.. یعنی اپنے آپ کو پیدا کرنا.
سائنس میں یہ نظریہ بھی ہے کہ کائنات نے خود ہی اپنے آپ کو تخلیق کر لیا ہے. یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی کہے یہ بچہ اپنی ہی ماں ہے. یا فلاں شخص نے اپنے آپ کو جنم دیا ہے.
مشہور سائنسدان Stephen Hawking اپنی کتاب the Grand Design میں کہتا ہے کہ self creating ممکن ہے لیکن ایسا ممکن ہونے کے لیے لازم ہے کہ ہمارے پاس کشش ثقل یعنی Gravity موجود ہو کیونکہ کائنات کی ٹوٹل انرجی اسی صورت میں صفر ہو گی جب gravity کو منفی انرجی مانا جاتا ہے . یہ ہم جانتے ہیں کہ کشش ثقل دو جسموں کے درمیان پائی جانے والی قوت کا نام ہے جس سے وہ ایک دوسرے کو اپنی طرف کھینچنے ہیں. لیکن آئن سٹائن نے گریویٹی کی ایک نئی تعریف فراہم کی جب اس نے کہا کہ گریویٹی مادہ کی وجہ سے space Time fabric میں جھکاؤ کی بدولت پیدا ہوتی ہے۔
اب اہم بات یہ ہے کہ کشش ثقل کے لیے مادہ کا ہونا لازم ہے یعنی یہ قوت مادہ کے بنا ممکن نہیں. لیکن سائنس یہ کہتی ہے کہ مادہ خود اپنے آپ کو جنم دے سکتا ہے اگر یہ قوت پہلے سے موجود ہو تو.
Some thing exists and doesn’t exist at the same time..
اس مفروضہ کا مطلب یہ بنتا ہے.اور اگر ہم مان لیں کہ کائنات نے خود کو تخلیق کیا اور کشش ثقل کسی طرح اس سب سے پہلے موجود تھی جس کی مدد سے یہ کائنات وجود میں آئی تو کیا یہ کشش ثقل کچھ نہیں ہے.This gravity is something, it’s not nothing.
یعنی اس نظریہ میں بھی سائنس خود اپنے آپ کو ہی غلط ثابت کر رہی ہے..اور منطقی طور پر دیکھا جائے توکوئی شہ ایک ہی وقت میں وجود اور عدم وجود کی حالت میں موجود نہیں ہو سکتی ”
سائنس کی بنیاد پر جب خدا کے وجود کو رد کیا جاتا ہے تو یہی تین نظریات پیش کیے جاتے ہیں. لیکن یہ تینوں نظریات بھی اپنے آپ میں مکمل نہیں ہیں اور ہمارے لیے اس کائنات کے وجود میں آنے کو مکمل طور پر قابل فہم بنانے سے قاصر ہیں. اس کے ساتھ یہ تینوں نظریات کائنات اور خود انسان کے وجود کو بامعنی بنانے سے قاصر ہیں. یعنی اگر ہم فرض کر لیں کہ ان تینوں میں سے کوئی ایک نظریہ درست ہے تو ہمیں اس کائنات کے وجود میں آنے اور اس میں انسان جیسی باشعور مخلوق کے پیدا ہونے کا کوئی مقصد نہیں ملتا. خدا کے تصور کے بنا یہ کائنات، اور انسان سب بے مقصد ہیں. اگر کائنات کا وجود بامعنی نہیں تو انسان سوچتا ہے کہ پھر اس دنیا میں اچھائی، برائی، نیکی اور بدی کا کوئی بھی تصور کیونکر بامعنی ہو سکتا ہے.
ہمارے تمام افعال و اعمال اور اس کائنات کو اگر کوئی نظریہ بامعنی بناتا ہے تو وہ ایک خدا کا تصور ہے جو واحد و یکتا ہے جس کا تصور انسانی تاریخ میں ہمیشہ سے موجود رہا ہے.
تحریر سہراب نصیر