علامہ اقبال نے تصور ِحقیقت کے حوالے سے ایک سوال کیا تھا:
’’چیست عالم، چیست آدم، چیست حق‘‘
ساری انسانی تاریخ میں، تمام تہذیبوں میں تصورِ خدا، تصورِ انسان اور تصورِ کائنات سے متعلق اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے ایک ہی روزنِ دید تھا، حقیقت پر نظر کرنے کا ایک ہی دریچہ تھا: پیغامِ خدا وندی ۔ پھرایک انحراف ہوا۔ مغربِ جدید کی تہذیب کے فکری سفر کا رخ کسی اور جانب ہوگیا۔ دنیا کی تاریخ میں ایک فکری انقلاب واقع ہوا۔ جدیدیت کا روزنِ دید کچھ اور تھا ، حقیقی اور غیر حقیقی کا تعین ایک اورزاویے، کسی اور دریچے سے کیا گیا تھا: تصورِ خداتبدیل ہوا، تصورِ انسان میں تغیر آیا اور تصورِ کائنات بدل گیا۔ ان کے جلو میں انسان، کائنات اورانسانی معاشرے کی ہر چیز کے معنی بدل گئے اور رفتہ رفتہ حیات وکائنات کی معنویت، جوازِوجوداور منتہا و مقصود کا سارا سوال بے معنویت کی نذر ہوگیا۔ انسان کی وہ مشترکہ میراثِ فکر جس کی ’’جلوہ گاہ تہ نقاب‘‘ پنہاں تھی رد کر دی گئی کہ ’’محفل نو‘‘ کی نگاہ ظاہر پرستی کی اسیر ہو چکی تھی۔ چمن ہست و بود ایک نئی ہوا کی زد میں تھا۔ ’’کچھ اورآج کل کے کلیموں کا طور‘‘ تھا۔تاریخ فکرِ انسانی پر وحیِ خدا وندی کے بعد اگر کوئی چیز اس گہرائی و گیرائی سے اثر انداز ہوئی تھی تو وہ جدیدیت کا لایا ہوا یہ فکری انقلاب تھا!
اس فکری انقلاب نے صحنِ مغرب سے نکل کر باقی دنیا اور عالم اسلام کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ ’’عہد نو‘‘ کی اس برقِ خرمن سوز سے کوئی صحرا، کوئی گلشن ایمن نہ رہا۔ ’’اس نئی آگ کا اقوام کہن‘‘ بھی ایندھن بنیں اور’’ملت رختم رسل ؐ بھی ’’شعلہ بہ پیراہن ‘‘ہو گئی۔ ’’دل کے ہنگامے مئے مغرب نے کر ڈالے خموش‘‘۔
ڈاکٹر سہیل عمر صاحب کی یہ تحریر اس منظر نامے کا مطالعہ کرتی ہے جو علامہ اقبال کی نظم و نثر کا محوری، مرکزی سوال رہاہے۔ اسکا ذیادہ حصہ تصورِ خدا اور تصورِ انسان کو موضوع بناتا ہے اور ا س میں در آنے والے فساد کا تجزیہ کرتا ہے۔
٭٭
عرفانِ ذات
Know Thyself اَعْرِفْ نَفسَکَ بِنَفْسِک)کا جملہ عام طور پر استعمال کیا جاتا ہے، لیکن اس کے صحیح مفہوم سے بہت کم لوگ واقف ہیں۔ یہ جملہ ابتدا ہی میں اس بات پر زور دیتاہے کہ کوئی ظاہری تعلیم اس قابل نہیں کہ حقیقی معرفت عطا کر سکے اور یہ حقیقی معرفت انسان کو اپنی ذات ہی میں مل سکتی ہے، کیونکہ یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ علم شخصی ادراک ہی کے ذریعے حاصل کیا جا سکتاہے۔
اس شخصی ادراک کے بغیر کسی تعلیم کا مؤثر نتیجہ برآمد نہیں ہو سکتا اور اس تعلیم سے ایسا علم حاصل نہیں ہو سکتا جو اس کے طالب کے اندر ذاتی بازگشت کو بیدار نہ کر سکے۔ یہی وجہ ہے کہ افلاطون کہتا ہے کہ ’’وہ سب کچھ جو انسان سیکھتا ہے، وہ پہلے ہی سے اس کے اندر موجود ہوتا ہے۔‘‘انسان کے تمام تجربات اور وہ سبھی چیزیں جو اس کے گردو پیش میں موجود ہوتی ہیں، اس کے اندر ایک ایسے ایمان کو بیدار کرنے کا موقع فراہم کرتی ہیں، جو اس کے اندر موجود ہوتا ہے۔ اس آگاہی کو وہ anamnesis کا نام دیتا ہے اور یہ لفظ reminiscence کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔
اگر یہ تمام تر علم کے لیے درست ہے، تو پھر یہ ہر طرح کے اعلیٰ اور عمیق علم کے لیے بھی صحیح ہے، اور جب انسان اس علم کے حصول کے لیے سعی کرتا ہے تو پھر سب ظاہری اور محسوس ذرائع ناکافی ہوتے چلے جاتے ہیں، یہاں تک کہ وہ بالآخر ہر قسم کی افادیت کھو دیتے ہیں۔ اگر وہ کسی حد تک حکمت تک رسائی کے لیے مدد دے سکتے ہیں تو وہ حقیقتاً اس کو حاصل کرنے میں بے اثر ثابت ہوتے ہیں۔ ہندوستان میں عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ حقیقی گُرو یا شیخ خارجی دنیا میں نہیں بلکہ انسان کی اپنی ذات ہی میں موجود ہوتا ہے، اگرچہ شروع شروع میں خارجی اعانت مفید ثابت ہو سکتی ہے اور اس اعانت سے انسان اپنی ذات میں یا اپنی ذات سے اس چیز کو پانے کی کوشش کرتا ہے، جو اسے کہیں اور نہیں ملتی اور بالخصوص اس چیز کو پانے کے لیے سرگرداں رہتا ہے جو ذہنی علم کی سطح سے بلند ہوتی ہے۔بعض احوال کو محسوس کرنے کے لیے ان تک رسائی ضروری ہے۔ یہ احوال ہمیشہ وجود کی گہرائیوں تک چلے جاتے ہیں اور ان کا رخ ایک مرکزکی جانب ہوتا ہے، جس کے لیے قلب کی علامت کو استعمال کیا جاتا ہے۔ اس مرکز تک احساسِ انسانی کو منتقل ہونا چاہیے تاکہ وہ حقیقی معرفت کی منزل تک پہنچنے میں کامیاب ہو سکے۔ قدیم اسرار انہی ذہنی احوال کو قلب میں منتقل کرنے کے مختلف درجات تھے۔ ڈیلفی کے ہیکل میں ایک پتھر تھا جس کو Omphalos کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ یہ پتھر انسانی وجود اور اس کے ساتھ ساتھ کائنات کا بھی مرکز سمجھا جاتاتھا۔ یہی عالم اکبر (Macrocosm) اور عالم اصغر(Microcosm) یعنی انسان کے درمیان مقامِ توافق ہے، تاکہ جو وہ انسانوں میں ہے، اس کا آپس میں براہ راست تعلق پیدا ہو جائے۔( میکرو کوزم، مائیکرو کوزم کے لیے ر ک : SC, pp. 78,175, 255, 263, 289; SFSS, pp. 97, 218, 304, 431, 433. EH, pp. 30, 31; Comptes rendus, (=CR) Paris: Editions traditionnelles, 1973, p. 21.)
ابن سینا کا قول ہے:
وتحسب انک جرم صغیر
وفیک انطوی العالم الاکبر
تمھارا خیال ہے کہ تم چھوٹا سا بدن ہو، حالانکہ یہ تم ہی ہو، جس میں عالم اکبر پوشیدہ ہے۔
عالم اکبر اور عالم اصغر (انسان) کے درمیان مشابہت کی وجہ یہ ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے کی مثل ہیں۔جن عناصر نے ان کو ترکیب دی ہے، ان کے توافق سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سب سے پہلے انسان کو اپنے بارے میں جاننا چاہیے اور اس کے بعد وہ اشیائے دیگر کوبھی جان سکتا ہے، کیونکہ یہ سچ ہے کہ وہ اپنی ذات ہی میں تمام چیزوں کو تلاش کر سکتا ہے۔ اسی بنا پر بعض علوم میں ذو معنویت پائی جاتی ہے۔ ان میں سے بیشتر علوم قدیم حکمت کا حصہ تھے اور ان سے تقریباً ہمارے تمام معاصرین نا واقف ہیں۔ اپنے خارجی پہلو کے اعتبار سے یہ علوم عالم اکبر کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور اس جہت سے اس کی تعبیر صحیح ہے۔ لیکن اسی کے ساتھ ان میں اس سے گہرے معنی بھی پنہاں ہیں، جو انسان اور طریق باطنی کی جانب اشارہ کرتے ہیں، جس پر عمل پیرا ہو کر وہ اپنی ذات میں حقیقی معرفت کا ادراک کر سکتے ہیں یعنی خاص اپنے وجود کا ادراک۔ اس کے متعلق ارسطوکا قول ہے۔ ’’عالم اپنے علم کا عین ہے۔‘‘ جہاں معرفت اپنے ظواہر اور عکس کے بجائے حقیقی طور پر موجود ہو گی وہاں معرفت اور وجود ایک دوسرے میں مندرج ہو کر ایک ہی چیز بن جاتے ہیں۔
بحوالہ افلاطون یہ عکس حقیقت میں ایک حسی ادراک ہے، حتیٰ کے ذہنی علم، جو درجے میں اس سے برتر ہے، اس کا ماخذ بھی یہی حسیات ہیں، حقیقی معرفت عقل جزوی کی سطح سے بلند ہے اور اس کا یا اس کی ماہیت وجود کا تحقق تکوین عالم سے مماثلت رکھتا ہے، جس کے متعلق ہم نے سطورِ بالا میں ذکر کیا ہے یہی وجہ ہے کہ بعض علوم اس کو اس تکوین کے ظواہر کے تحت بیان کرتے ہیں۔ یہ ذومعنویت قدیم اسرار میں شامل کی گئی تھی اور تعلیم کی تمام اقسام میں بھی اس کا پتہ چلتا ہے اور مشرقی اقوام میں بھی اس کا یہی مقصد تھا۔ یہ تسلیم شدہ بات ہے کہ قرون وسطیٰ میں مغرب میں بھی یہ تعلیم موجود تھی، اگرچہ ان دنوں یہ اس حدتک منظرِ عام سے ہٹ گئی ہے کہ اہل مغرب کی اکثریت اس کی ماہیت حتیٰ کہ اس کے وجود سے ناواقف ہیں۔
محولہ بالا تصریحات کی روشنی میں ہم دیکھتے ہیں کہ حقیقی معرفت کی راہ عقلِ جزوی نہیں بلکہ نفس اور روح ہے اور اس میں ہم وجود کلی کا بھی اضافہ کر سکتے ہیں کیونکہ یہ حقیقی معرفت اس وجودکے (اس کے تمام احوال سمیت) ادراک کلی کے سوا کچھ نہیں اور یہی معرفت کی نہایت اور کمال ہے اور حکمت متعالیہ کا حصول اور جو کچھ نفس اور روح سے مخصوص ہے، اس کی حقیقت اس راستے کی مختلف منازل ہیں جو جوہر باطنی یا ذاتِ حقیقی کی طرف جاتا ہے۔ اس کا ادراک صرف اسی صورت میں ہو سکتاہے، جب وجود اپنے مرکز خاص تک پہنچ گیا ہو، اس کے قلب اور مرکز کے تمام اجزا ایک نقطے میں مرتکز ہو چکے ہوں، اور اس نقطے میں اس پر تمام اشیا ظاہر ہوتی ہوں اور وہ نقطہ ان سب پر اسی طرح محتوی ہو جیسا کہ مبدا اوّل میں تھا۔ یوں یہ تمام چیزوں کو فی نفسہٖ اور من نفسہٖ جان سکتا ہے جیسے وجود کی کلیت اپنے جوہر فرد کی وحدت میںظاہر ہوتی ہے۔
یہ اندازہ لگانا آسان ہے کہ یہ علم نفس کے جدید مفہوم سے کس قدر مختلف ہے اور اوّل الذکر ثانی الذکر سے نفس کی سچی اور عمیق معرفت کی وجہ سے اعلیٰ ہے۔ رہا مؤخر الذکر تو وہ اس راستے کا اولین قدم ہی ہو سکتا ہے۔ یہ بات ذہن نشین کرنا ضروری ہے کہ لفظ ’’نفس‘‘ کو عربی میں مستعمل معنی تک محدود نہیں کرنا چاہے، کیونکہ یہ لفظ زیرِ نظر عبارت کے عربی ترجمے میں بھی موجود ہے، جب کہ اس کا یونانی مترادف لفظ Psyche اصل جملہ میں نظر نہیں آتا۔ اسی وجہ اس لفظ کو صرف مروجہ مفہوم تک محدود نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ یہ ضروری ہے کہ اس میں اس سے بلند معنی پائے جائیں اور یہ معنی (ذات) یا ذاتِ حقیقی کے مترادف ہوں گے اور اسی سے اس مفہوم کی تصدیق ہوتی ہے جو حدیث شریف میں موجود ہے اور یونانی جملہ سے بھی مطابقت رکھتا ہے۔ حدیث یہ ہے:
’’مَنْ عَرَفَ نَفْسَہُ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّْہُ‘‘جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا، اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔
جب انسان اپنی ذات کو اپنے جوہر باطنی یا اپنے وجود کے مرکز میں پہچان لیتا ہے، تب اسے اپنے رب کی معرفت نصیب ہو جاتی ہے اور جب وہ اپنے رب کو پہچان لیتا ہے، تو اس کے ساتھ ہی ان تمام چیزوں کو بھی پہچان جاتا ہے، جو اس کے رب کی طرف سے آتی ہیں اور اسی کی طرف لوٹ جاتی ہیں۔ وہ اس مبدا الٰہی کی ارفع و اعلیٰ وحدت میں تمام اشیا کی معرفت حاصل کر لیتا ہے جس سے علی الاطلاق کوئی شے خارج نہیں۔ یہی مفہوم حضرت شیخ اکبر محی الدین ابن عربی کے اس قول میں پنہاں ہے کہ لا محدود سے کوئی شے باہر نہیں ہے۔
Know Thyself by Rene Guenon. ترجمہ ۔ ڈاکٹر سہیل عمر
استفادہ کتاب :حرف بہ حرف(ترجمے کے روزنِ دید سے’’عذاب ِ دانشِ حاضر‘‘ کا ایک مطالعہ) از محمد سہیل عمر، اقبال اکادمی پاکستان