کسی فرد یا گروہ کے بنیادی عقائد کا تعلّق اس کے کائنات اور زندگی کی تخلیق کے نظریے سے بہت گہرا ہوتا ہے لہٰذا کسی بھی معاشرتی ڈاکٹرائن یا نظریہ حیات کی بنیاد ٹھوس عقلی اور علمی دلائل پر ہونی چاہیے، کیونکہ جدید معاشرتی نظریات سیکولرازم، لبرل ازم اور ان کے محرّک سائنسی نظریات کائنات کے خالق کا انکار کرتے ہیں لہٰذا ان کا طائرانہ جائزہ لینا ضروری ہے تاکہ ان کے فلسفے کی عقلی بنیاد کی مضبوطی کا تعیّن ہوسکے۔آئیے دیکھتے ہیں کہ سائنسی اور جدید ہونے کا دعویٰ کرنے والے لبرل ازم اور سیکولر ازم کی اخلاقی اور نظریاتی بنیادیں اگر ہیں توکتنی مضبوط ہیں؟
کائنات کیسے بنی؟
کائنات اور زندگی کی تخلیق کے حوالے سے ان نظریات حیات کی بنیادیں سائنس اور سائنسی دریافتوں پر استوار تو ہیں مگر یہ اساس کتنی کھوکھلی یا مضبوط ہیں اس کا اندازہ جدید ایم تھیوری M-Theory سے لگایا جاسکتا ہے۔ گو کہ سائنس ٹھوس حقائق پر ہی انحصار کرتی ہے لیکن یہ تھیوری سائنسی مفکرّین کے خوابی تخیّلات کی مثال ہے۔ سپر اسٹرنگ تھیوریز Super-String-Theories کو یکجا کر کے سائنسدان ایک نئی تھیوری پر کام کر رہے ہیں جسے ایم۔تھیوری کا نام دیا جارہا ہے۔ اس مشترکہ تھیوری کی بنیاد خلا کے چند حقیقی مظاہر یعنی کانٹم غیر یقینی-Quantum-uncertainity ، کرَوڈ اسپیس( Curved-Space)، سپر سمِٹری Super-Symmetry، کوارک Quark، اسٹرنگ String اور ملٹی ڈائمنشن Multidimension پر مبنی ہے۔ ایم تھیوری فریم ورک میں ان سب کو مدغم کیا جارہا ہے۔ایم تھیوری کائنات کے خود بخود وجود میں آنے کے تخیّل کو ایک منطقی جواز دینے کی کاوش ہے۔ یہ انتہائی پیچیدہ ہے اور اس کو عام انسان نہیں سمجھ سکتا. اس کے لیے فزکس کا ماہر ہونا ضروری ہے۔ اس کو مختصراً یوں سمجھیں کہ انتہائی پیچیدہ سائنسی مساوات کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اگر ہم 500 کو 500 سے 10 دفعہ ضرب در ضرب دیتے چلے جائیں تو اس کے حاصل کے برابر کائناتیں خود بخود بنیں اور فنا ہوئیں! یعنی لاتعداد۔ آکسفرڈ یونیورسٹی میں سٹیون ہاکنگ کے کولیگ ماہر طبیعات سر راجرپینروز کے مطابق ہاکنگ کی گرینڈ ڈیزائن میں پیش کی گئی ایم تھیوری تھیوری بھی نہیں بلکہ یہ آئیڈیاز، امیدوں اور خواہشوں کا مجموعہ ہے۔انکی یہ ویڈیو دیکھیے۔
اب تخلیق کے مرحلے کی سائنسی روداد کا بھی مختصر ساجائزہ لیتے ہیں۔اپنی کتاب دی گرینڈ ڈیزائن کے صفحہ 226 پر اسٹیون ہاکنگ لکھتے ہیں،
”اگر کائنات کی کْل توانائی کو ہمیشہ صفر ہی رہنا ہے اور کسی جسم کی تخلیق کے لیے توانائی ہی ضروری ہے تو کائنات کی تخلیق نیست nothing سے کیسے ہوسکتی ہے؟ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہاں پر کشش ثقل gravity کا قانون ہو کیونکہ ثقل میں کشش اور ثقل کی توانائی منفی ہے۔ یہ منفی توانائی اس مثبت توانائی کو متوازن کرسکتی ہے جو مادّے کی تخلیق کے لیے ضروری ہے، لیکن یہ اتنا آسان نہیں ہے”۔یہی سائنسدان اسی کتاب کے صفحہ 227 پر رقمطراز ہیں: ”کیونکہ ایک قانونِ کشش ثقل موجود ہے تو کائنات نیست nothing سے اپنے آپ کو خود تخلیق کرسکتی ہے اور کرے گی! “
۔ذرا غور کریں کہ بقول ان کے تخلیق سے قبل جب کچھ نہیں تھا تو نیست nothing میں کشش ثقل کا قانون کیسے موجود ہوا؟ یعنی عدم میں اگر کوئی قانون موجود تھا تو وہ ماحول عدم یا نیست nothing نہیں ہوسکتا۔ مزید یہ کہ کشش کا تو تعلّق ہی مادے کے موجود ہونے سے ہے، مادہ ہے تو کشش ہے ورنہ کشش نہیں۔ اور اگر وہاں کشش ہے تو وہ نیست nothing نہیں۔
یہی سائنسدان اسی صفحے پر آگے لکھتے ہیں،
”یہ اچانک تخلیقSpontaneous-creation ہی ہے کہ جس کی وجہ ہے یہاں نیست nothing کے بجائے کچھ something ہے۔کائنات کیوں موجود ہے اور ہم کیوں موجود ہیں، اس کے لیے خدا کوبیچ میں لانے کی ضرورت نہیں کہ جس نے کوئی نیلا کاغذ سلگا کر کائنات کو چلادیا۔“
ارے جناب آپ خود ہی تو فرمارہے ہیں کہ کائنات خود بنی مگر باہر سے کشش کی قوّت کی موجودگی سے تو یہ بھی تو بتائیں کہ یہ قوّت (اس) تخلیق سے پہلے کیسے موجود ہوئی؟ یہ تضاد کیسا؟
یہاں پر مذہب اور خدا سے کوئی دیرینہ بغض صاف عیاں ہے کیونکہ سائنس دانوں کے پاس اچانک تخلیق کا کوئی ٹھوس مواد نہیں ہے تو یہ زبردستی فرض کرلیا گیا ہے کہ کائنات کی ابتدا سے پہلے ایک قانون کشش ثقل موجود تھا۔ یہ کسی نظریے کو زبردستی ٹھونسنے یا کھینچ تان کر سائنسی بنانے کی منفرد مثال ہے جو بذات خود غیرسائنسی، غیرمنطقی اور غیر عقلی ہے۔ اسے جدید سائنس کا تخلیق کائنات کا انتہائی غیرمنطقی مفروضہ hypothesis ہی کہا جاسکتا ہے۔
اگر اس کا دوسرا استدلال یہ لایا جائے کہ بگ بینگ کے اندر قانون کشش ثقل موجود تھا لہٰذا تخلیق ہوئی، تو پھر آپ نیست کو زیربحث ہی کیوں لارہے ہیں؟ اس جملے میں نیست یا nothing کا تذکرہ ہی ظاہر کرتا ہے کہ تخلیق کائنات میں کسی بیرونی قوّت کے اثر انداز ہونے کو سائنس قبول کرنے پر مجبور ہے۔تو وہ قوّت تو ابھی تلاش کرنی ہے نا!
تخلیقِ کائنات کی سائنسی تشریح :
”کیونکہ قانونِ کشش ثقل کی وجہ سے کائنات خود بخود بن سکتی ہے لہٰذا اس عمل سے لاتعداد کائناتیں بنتی، ٹوٹتی اور فنا ہوتی رہیں لیکن ہماری کائنات اْن لاتعداد میں ایک ہے جو فنا نہیں ہوئی۔ بےشمار کائناتوں کی تخلیق اور فنا کے دوران کسی ایک کا قائم رہ جاناامکانات میں ہے! یہ ایک اتفاق ہے اور قانون امکان Law-of-probability کے تحت ممکن ہے، طبعی قوانین، فطری قوّتیں اور زندگی بھی ماحولیاتی اتّفاق سے وجود میں آئے۔ سارانظام کائنات انہی طبعی قوانین پر چل رہا ہے۔“
یہ کتنا عقلی اور منطقی ہے خود فیصلہ کرلیں۔
تخلیق کائنات کی مذہبی تشریح:
مندرجہ بالا تشریح کا ماحصل یہ بھی تو ہوا کہ اگر کوئی قوّت یعنی کشش کائنات کے وجود سے پہلے بھی موجود تھی جس کے اثرانداز ہونے سے کائنات بنی ہے تو سائنس اس کو کوئی بھی نام دے ہم اسے لامحدود قوّت والی ہستی کا اذن کہتے ہیں۔ یہ تو اللہ کی لامحدود ہستی کا ارادہ تھا جس نے کائنات تخلیق کی اور اس کے نظام کو چلانے کے قوانین بنائے جن کو ہم آفاقی قوانین کہتے ہیں۔ کشش یا کوئی مخفی بیرونی کردار اس لیے موجود ہوگا کہ اس کی تخلیق پہلے کی گئی ہوگی یعنی یہ ایک تخلیقی پراسس کا حصہ رہا ہوگا۔ ۔ یہی منطقی اور عقلی استدلال ہے جو سائنسی توجیہ میں مفقود ہے۔ سائنس ایک طرف خدا سے لاتعلْقّی کا اظہار کرتی تو دوسری طرف مجبوری میں اشارتاً قبول بھی کرتی ہے۔
اب اس اہم مسئلہ کے کچھ اور پہلوؤں کو بھی دیکھتے ہیں کہ کائنات کا نظام بظاہر عام فہم ہے اور فطرت کے تمام مظاہروغیرہ ہر انسان کے لیے سمجھنا آسان ہیں اور فطری طور پر عام انسان خدا ہی کو خالق مانتا ہے لیکن دوسری طرف سائنسی طور پر ہم اس کائنات کی ابتدا کی ایسی تشریح نہیں دیکھتے ہیں کہ عام انسان آسانی سے سمجھ لے۔ ،ہمیں علمیت کی گہرائی میں آخر جانا ہی کیو ں پڑ رہا ہے؟مادّہ پرستوں سے سوال ہے کہ اگر کائنات اور زندگی ایک حادثہ یا اتفاق ہے تو:کیا کائنات اپنا کوئی ذہن بھی لے کر پیدا ہوئی کہ انسان کے ساتھ آنکھ مچولی کر رہی ہے؟کیا نیچرانسان سے زیادہ ذہین ہے؟نیچر میں علم کے ذخائر کہاں سے وارد ہورہے ہیں؟ جن اہم سوالوں میں سائنس تشریح سے بے بس ہے وہ بھی ملاحظہ کریں۔
۱۔ خیالات کے اجراء کا منبع کیا ہے۔
۲۔ ایٹم میں قوّت کہاں سے آتی ہے۔
۳۔ کائنات میں موجود قوّتیں کہاں سے آئی ہیں۔
۴۔ انسان اور حیوان بوڑھے کیوں ہوتے ہیں۔
۵۔ انسان کی خواہش اور اس کے عمل میں کیا طبعی تعلق ہے۔
۶۔ روشنی کے پارٹیکلز یعنی فوٹون اتنی رفتار سے کیوں اور کیسے سفر کرتے ہیں۔
انسانیت کے رہنما:
سوال یہی ہے کہ کیا انسانیت کی نظریاتی رہنُمائی ان چند لوگوں پر چھوڑی جاسکتی ہے جن کے اخلاص پر تو ہم شبہ نہیں کرتے کیونکہ وہ علمِ طبعیّات کے اصولوں کے حساب سے ہی تحقیق کر رہے ہیں لیکن غور طلب یہ بات ہے کہ ایک غیر یقینی اور غیر مصدّقہ نظریہ کس طرح انسانوں کے لیے مفید اور دائمی نظریہ حیات کی بنیاد بن سکتا ہے؟
جدید لامذہب فلسفے جن کی بنیاد مادیّت ہے مثلاً لبرل ازم، سیکولر ازم اور جمہوریت انسانیت کی رہنمائی کے ارفع مرتبہ پر فائزہونے کے اس لیئے اہل نہیں کیونکہ یہ انتہائی کمزور علمی بنیاد پر ایستادہ ہیں، انکے پاس انسان اور کائنات کے موجود ہونے سے متعلّق کوئی معقول عقلی نظریہ ہے ہی نہیں۔ اسی لیئے جدید معاشرتی نظریات انسان کو نہ تو ٹھوس حیاتی فلسفہ دیتے ہیں اور نہ ہی اخلاقیات کی کوئی مستند بنیاد بتاتے ہیں بلکہ خود انسان ہی کو بر تر قرار دے کراسے جمہوریت کے ذریعے ہر قانون اور اخلاق کی تشریح کا خوگر بناتے ہیں جو بے شمار خرابیوں کی بنیاد ہے۔
در حقیقت یہ جدید نظریات انسان کو محض علمی اور نظریاتی بحث میں الجھا کر اسکی منزل کودھندلا دیتے ہیں کیونکہ اگرانسا ن اپنے آپ کو صرف فطرتی اور طبعی ماحول سے جوڑتا ہے تو اخلاقیات کی وہ تمام بنیادیں اپنا جواز کھو دیتی ہیں جو الہاٰمی احکامات کی روشنی میں متعیّن ہوئی ہیں۔اس کی بہترین مثال ان لا مذہب نظریات اور اصولوں یعنی سیکولرازم اور لبرل ازم پر معاشرہ تعمیر کرنے والے وہ مغربی ممالک ہیں جہاں پر مادّی ترقّی تو بے مثال ہے لیکن دوسری طرف اب ایسے قوانین بن چکے ہیں جس میں مرد کی مرد سے شادی قانونی قرار دے دی گئیں ہیں اور جہاں مرد اور عورت بغیر نکاح کے قانونی طور پر رہ سکتے ہیں!
اب آگے مزید کیا ہوسکتا ہے عیاں ہے !
استفادہ تحریر مجیب الحق حقی
‘دہریت’ عقلمندی یا حماقت ؟ | الحاد جدید کا علمی محاکمہ
September 22, 2018 at 8:34 am[…] کچھ لکھ رہے ہیں وہ بھی عجیب ہے۔جیسا کہ ہم نے گزشتہ ایک تحریر میں تفصیلی تذکرہ کیا کہ اسٹیون ہاکنگ جو دہریت کے بڑے […]
شمس العارفین
April 22, 2020 at 10:05 pmاچھا مضمون ہے. کئی باتوں کی وضاحت کرتا ہے
ہاکنگ کے نظریات پر مزید کام کی ضرورت ہے