امید ہے تم خیریت سے ہوگے ۔ سچی بات تو یہ ہے کہ میں بڑا حیران ہوا جب تم نے مجھے دعوت دہریت دی۔ بقول تمہارے گویامجھے بھی دقیانوسیت سے کنارہ کش ہوکہ تمہارا ہم آہنگ ہوجانا چاہیئے۔ یہ میرے لیئے ایک دلچسپ چیلنج ثابت ہوا کیونکہ پھر میں نے دل جمی سے تمہارے افکارات کا جائزہ لیااور اپنے نظریات کی عقلی بنیادوں کو بھی ٹٹولا۔
مجھے تمہارے اس طرز فکر پر اعتراض ہے کہ تم مجھے غیر سائنسی خیالات کا حامل سمجھتے ہو۔ میری استدعا یہ ہے کہ تم برتری کی غیر حقیقی کیفیت سے نکلو اور میری باتوں کی عقل اور سائنس کی بنیاد پر تردید کرو۔ دیکھو یار ہمارے اطراف بے شمار لوگ ادھورے نظریات کے ساتھ زندہ ہیں۔ وہ بہت سے تشنہ سوالات کو پس پشت ڈال کر بھی اپنے حال میں مست اور شاداں ہیں۔ لیکن حقیقت آشنائی کی تمنّا ہی انسان کے شرف کی تکمیل کی کنجی ہے اور وہی ہم دونوں کو دوست رکھے ہوئے ہے۔ میں تمہاری دوستی کی قدر کرتا ہوں کہ تم مجھے سوچنے پر مجبور کرتے رہتے ہو۔
میں نے تمہارے اٹھائے سوالوں پر غور کیا تو مناسب سمجھا کہ ہم خط کے ذریعے اپنے خیالات کا اظہار کرکے دوبدو تکرار سے بچ جائیں گے اور ہمیں کافی وقت ملے گا کہ ایک دوسرے کے خیالات کا ٹھنڈے دل سے جائزہ لے سکیں۔ تمہاری سائنس کی معلومات بہت اچھی ہیں اور یہی وہ عقلی، منطقی اور فلسفیانہ بنیاد ہے جس پر ہم کسی نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں۔
پچھلی دفعہ جب میں نے تمہاری توجہ اس طرف مبذول کرائی کہ اگر تم درست ہوئے یعنی تمہارے نظریات برحق ہوئے تو مرنے کے بعدمیرا کچھ بھی نقصان نہیں جبکہ اگر میں درست ثابت ہوا تو تم تلخ معاملات کا کیسے سامنا کروگے تو تمہاری آنکھوں میں لمحے بھر کے لیئے ابھرنے والی ویرانی کسی خوف کی نشاندہی کر رہی تھی حالانکہ تم بظاہر ہنس پڑے تھے۔ اسی لیئے میں چاہتا ہوں کہ ہم کھلے دل سے ہر پہلو پر غور کریں۔
تمہاری یہ بات کہ مذہب اور سائنس الگ الگ ہیں درست نہیں ہے کیونکہ انسان ایک اکائی ہے اور اس سے منسلک ہر عمل اور خیال اسی اکائی کا حصہ ہے۔ مذہب، سائنس، فنون ِ لطیفہ، معیشت، معاشرت اور انسانی زندگی کے تمام عوامل آپس میں گندھے ہوئے ہیں انکو الگ الگ لا تعلّق خانوں میں بند کرنا غیر فطری ہے۔ مختلف شعبوں کو الگ قرار دینا ایک فرار ہے کیونکہ جب کوئی گروہ غیر فطری مادّی نقطۂ نظر سے بہت سی باتوں کی مربوط تشریح نہیں کرپاتا تو خفّت سے بچنے کے لیئے ایسے نظریات کا سہارا لیتا ہے۔
حقائق کی تلاش میں میرے اور تمہارے درمیان کائنات ، زندگی اور انسان کی تخلیق ہی بنیادی طور پر زیر بحث رہی ہے کہ یہ سب کیونکر ممکن ہوا ہوگا۔ تم نے جتنے بھی سائنسی دریافتوں اور مفروضات کے حوالے دیئے میں نے ان سب پر بہت غور کیا اور تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ تقریباً تمام بنیادی اور اہم ترین نظریات اور تھیوریز پر تو تمام سائنسدانوں کا ہی آپس میں اتفاق نہیں ہے۔ یعنی کوئی بھی متفق اور مکمل perfect سائنسی نظریہ نہ کائنات کی تخلیق پر اور نہ ہی مادّے سے زندگی کے بننے پر ہے۔
مثلاً بگ بینگ جو کائنات کی اچانک ابتدا کا مقبول سائنسی مفروضہ یا نظریہ ہے ابھی بھی سائنسی قانون کی حیثیت حاصل نہیں کرپایا جسکا مطلب یہ ہوا کہ بگ بینگ کائنات کے درجہ بدرجہ ترقی اور آج تک کی شکل اختیار کرنے کے مشاہدے کی سائنسی تشریح تو ہے لیکن کائنات کے عدم سے وجود میں آنے کی کوئی متفقہ تشریح پورا انٹرنیٹ کھنگال کر بھی میں ڈھونڈھ نہیں پایا۔ یعنی یہ پتہ تو چلا کی کائنات بگ بینگ سے نکلی یا بنی لیکن یہ نہیں پتہ چلتا کہ کن سائنسی قوانین اور شواہد کی بنیاد پر کائنات بگ بینگ میں وارد ہوئی؟ اگر تمہارے پاس کوئی لنک ہے تو مجھے ضرور بھیجنا۔ بگ بینگ کی جو وضاحت سب سے قابل سائنسدان اسٹیون ہاکنگ نے کی ہے وہ بذات خود بہت عجیب ہے ۔ تمہاری معلومات کے لیئے میں یہاں لکھ بھی دیتا ہوں۔ اپنی کتاب گرینڈ ڈیزائن کے صفحہ ۱۸۱ پر وہ لکھتے ہیں کہ::
“کیونکہ ایک قانون ، قانونِ ثقل موجود ہے اس لیئے کائنات نہ صرف نیست nothingسے خود کو بناسکتی ہے بلکہ بنائے گی”اب دیکھو یار نیست Nothing کا مطلب تو ہوتا ہی کچھ بھی نہ ہونا تو اس میں قانون کہاں سے وارد ہوگیا؟ اور قانون بذات خود بھی صرف تشریح کرتا ہے کہ کن حالات میں کیا ہوگا۔ اب اس قانون نے کائنات کیسے بنائی یہ تم مجھے ضرور سمجھانا۔
یہی سائنسدان ایک لیکچر میں یہ وضاحت کرتا ہے کہ بگ بینگ سے پہلے ایک سنگو لیریٹی singularity یعنی اکائیت تھی جہاں سے یا جس سے بگ بینگ کی ابتدا ہوئی، یہ بات پیچیدہ لگتی ہے اور وضاحت مانگتی ہے کیونکہ وہ یہ بھی کہتا ہے کہ کائنات بننے کے بعد اس اکائیت سے سارے رابطے ختم ہوگئے اور وہ گویا معدوم ہوگئی! گویا اب اس کو ثابت نہیں کیا جاسکتا اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ اس کا ایک تخیّل ہی ہے جس کی کوئی سائنسی تشریح نہیں۔ اس کی اس بات کی کوئی منطق تو ہوگی لیکن اس میں میری نظریاتی مدد کا سامان بھی تو ہے ذرا غور کرنا! تمہارے مطالعے کے لیئے میں لیکچر کا لنک بھی دے رہا ہوں۔ لیکن پہلے اس کی ایک جھلک دیکھ لو کہ وہ کیسے بگ بینگ سے پہلے ایک کائنات یا ماحول کا تذکرہ کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے:
……….. …………………………………………………
“At this time, the Big Bang, all the matter in the universe, would have been on top of itself. The density would have been infinite. It would have been what is called, a singularity. At a singularity, all the laws of physics would have broken down. This means that the state of the universe, after the Big Bang, will not depend on anything that may have happened before, because the deterministic laws that govern the universe will break down in the Big Bang. The universe will evolve from the Big Bang, completely independently of what it was like before. Even the amount of matter in the universe, can be different to what it was before the Big Bang, as the Law of Conservation of Matter, will break down at the Big Bang.
Since events before the Big Bang have no observational consequences, one may as well cut them out of the theory, and say that time began at the Big Bang. Events before the Big Bang, are simply not defined, because there’s no way one could measure what happened at them.”
“بگ بینگ کے وقت تمام مادّہ تلے اوپر ہوگا۔ کمیّت لامحدود ہوگی، اسے ایک اکائیت singularityکہا جاسکتا ہے ۔ اس اکائیت میں تمام طبعی قوانین ٹوٹ گئے ہونگے۔ اسکا مطلب یہ ہوا کہ کائنات کی شکل بگ بینگ کے بعدایسی کسی بات پر منحصر نہیں ہوگی جو اس سے پہلے ہو ئی ہو! اس لیئے کہ کائنات کو چلانے والے تمام طبعی قوانین بگ بینگ میں ٹوٹ گئے ہونگے ۔ کائنات بگ بینگ میں سے ظاہر ہوگی اُس حالت سے مکمّل طور پر آزاد کہ پہلے جیسے رہی ہو! یہاں تک کہ مادّے کی مقدار بھی اس سے مختلف ہوگی کہ جو بگ بینگ سے پہلے تھی کیونکہ مادے کی بقاء کا قانون بگ بینگ میں ٹوٹ گیا۔ اب بگ بینگ سے قبل کے معاملات سے کوئی نتیجہ بررابطہ مشاہدے میں نہیں اس لیئے اسے تھیوری سے نکال دیتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ وقت بگ بینگ سے شروع ہوا۔ بگ بینگ سے پہلے کے واقعات کی کوئی تشریح نہیں ہے کیونکہ ایسا کوئی طریقہ نہیں ہے کہ ہم پیمائش کرسکیں کہ اس میں کیا ہوا تھا۔”
……
دوست ذرا غور کرو کہ:
بگ بینگ سے پہلے کسی ماحول میں موجود نامعلوم اکائیت کی بات کرکے سائنسدان انکار خدا کے حوالے سے اپنا کیس کمزور تو نہیں کر رہے؟یا کہیں ایسا تو نہیں کہ جدید تحقیقات نے انکو خدا کے حوالے سے علمی اور نظریاتی طور پر محصور کرنا شروع کردیا ہے؟
میں ایک اور حوالہ دے رہا ہوں جہاں پر بتیس چوٹی کے سائنسدانوں نے بگ بینگ کو ناقابل عمل قرار دیا اور کہا کہ مختلف مفروضے لاکر اس کو قابل عمل بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اسکو ضرور دیکھنا۔
میرا مقصد یہ بتانا ہے کہ کائنات کی ابتداء کے حوالے سے بھی سائنس ابھی تک کوئی مستند اور متّفقہ نظریہ نہیں دے سکی ہے۔ اگر کوئی ہے تو بتائو۔ میں نے یہ بات نوٹ کی ہے کہ جدید سائنس کی پیش رفت کے حوالے سے تشنہ اور متنازعہ نکات کو عام لوگوں سے چھپایا جاتا ہے اور یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ بڑا بریک تھرو ہو گیا ہے لیکن در حقیقت تحقیق میں یہ حصولِ علم کے سنگ میل تو ہوسکتے ہیں مگر کسی ضمن میں علم ِکامل کے حصول کا ڈھنڈورا پیٹنا غلط ہی ہے۔
دیکھو کوئی بھی عام انسان کامن سینس سے ہی معاملات کو دیکھے گا۔ اب جدید دریافت جسے ہگز پارٹیکل کا نام دیا گیا ہے اس کے متعلق سائنس کہتی ہے ،( اگر میں غلط ہوں تو اصلاح کردینا)کہ یہ فیلڈ پوری کائنات میں پھیلی ہوئی ہے اور ہر ایٹم کو کمیت اس سے چھو کر ملتی ہے۔ اب دوسرا سائنسی نظریہ کہتا ہے کہ کائنات روشنی کی رفتارسے بھی شائدزائد رفتار سے غبارے کی طرح پھیل رہی ہے۔ اگر دونوں باتیں درست ہیں جو میں سمجھتا ہوں کہ ہوں گی تو یہ بتائو کہ اس پھیلتی کائنات میں مزید ہگز پارٹیکل کہاں سے آرہے ہیں؟ غبارہ تو پھولتا ہی بیرونی ہوا کے اندر آنے سے تو یہاں پر کیا کوئی نیا اور اچھوتاطبعی قانون ہے کہ کائنات بغیر بیرونی عامل کے پھیل بھی رہی ہے اور پارٹیکل سے بھری بھی ہوئی ہے۔ تو یہ انتہائی اہم نکتہ ،جس پر تحقیق ہورہی ہوگی، ہم کو آپ کو نہیں بتایا گیا ہوسکتا ہے کہ اس کا کوئی سائنسی جواز بھی تلاش کر لیا گیا ہو جس کا ہمیں ابھی علم نہیں۔ ایک بات اور کہ ہگز فیلڈ نہ نظر آتی ہے اور نہ وزن رکھتی ہے مگر ہر ایٹم کو کمیت دیتی ہے! ہے نہ یہ ایک طلسم! مگر اس کے پیچھے کیا کوئی کنٹرولر نہیں؟
اسی لیئے میں سائنسی تھیوریز اور نظریات کو ادھورے علوم کہتا ہوں، کیونکہ مسلسل ریسرچ کا مطلب یہی ہے کہ ہمارا کائناتی علم ابھی مکمل نہیں ہوا۔ تمہارا خیال کیا ہے؟
اب ایک دوسرے اہم موضوع پر کچھ بات مناسب ہوگی کہ مادّے میں زندگی کیسے آئی۔ اس بارے میں جو تم نے بتایا تو میں نے غور بھی کیا اور تحقیق بھی کی تاکہ تم سے سائنسی حوالے سے ہی بات کروں۔ یہاں بھی سائنسدانوں میں ہی اتفاق نہیں گویایہاں بھی سائنسداں یک سو نہیں۔ یہ نظریہ ارتقاء بھی قانون نہیں ہے بلکہ اس پر تحقیق ہورہی ہے۔ میں تمہارے لیئے ایک دلچسپ سائٹ کا ایڈریس دے رہا ہوں جس سے اندازہ ہوگا کہ ارتقاء میں ایک بڑے سائنسدان Hoyle کی نظر میں مادّے سے زندگی کے خود بخود ظہور کے کتنے امکانات ہیں۔ یہ متعلقہ اقتباس تم کو سوچ میں ضرور ڈالے گا۔
…………………………………..
Here is the relevant part of that quote by Hoyle:
“If you stir up simple nonorganic molecules like water, ammonia, methane, carbon dioxide and hydrogen cyanide with almost any form of intense energy … some of the molecules reassemble themselves into amino acids … demonstrated … by Stanley Miller and Harold Urey. The … building blocks of proteins can therefore be produced by natural means. But this is far from proving that life could have evolved in this way. No one has shown that the correct arrangements of amino acids, like the orderings in enzymes, can be produced by this method
۔۔۔۔۔۔۔۔
The first instance that I am aware of Hoyle’s use of that metaphor was reported in the science journal Nature in 1981:
“Hoyle said last week that … the origin of life … the information content of the higher forms of life is represented by the number 10 to the power 40 000 – representing the specificity with which some 2,000 genes, each of which might be chosen from 10 to the power 20 nucleotide sequences of the appropriate length …. The chance that higher life forms might have emerged in this way is comparable with the chance that `a tornado sweeping through a junk-yard might assemble a Boeing 747 from the materials therein’. ” (Hoyle, F., in “Hoyle on evolution,” Nature, Vol. 294, 12 November 1981, p.105).
خود ہی پڑھ لو کہ ایک بڑا سائنسدان کیا کہہ رہا ہے کہ سادے غیر نامیاتی مولیکیول جیسے پانی، امونیا، میتھین، کاربن ڈائی آکسائڈ اور ہائیڈروجن سایانائیڈ سے امینو ایسڈ اور پروٹین کے بلڈنگ بلاکس تو بن سکتے ہیں لیکن زندگی کی تخلیق دور از کار ہے اور جس کا کوئی تجرباتی مظاہرہ بھی نہیں ہوا!
اسی طرح یہ سائنسدان یہ بھی بتاتا ہے( شاید میرا ترجمہ تشنہ ہو) کہ کس طرح ایک برتر زندگی میں موجود معلومات گویا دس کو چالیس ہزار دفعہ ضرب در ضرب دینے سے حاصل ایک معین مقدار ہوتی ہے جو دو ہزار خاص جین کی ترتیب کے تئیں ترتیب پاتے ہیں اور یہ بھی ان جین میں سے چنے جاتے ہیں جن کی تعداد دس کو بیس دفعہ ضرب در ضرب دینے سے حاصل ہو۔ ان کروڑہاکروڑ معیّن تعداد اور لمبائی کے جین کی نیوکلائیڈ کی ایک خاص ترتیب میں ابھرکر زندگی تخلیق کرنے کے امکانات اتنے ہی ہیں جتنا کہ ایک بڑے گودام یا کسی یارڈ میں پڑے لاکھوں پرزوں کا کسی طوفان کے گزرنے سے بوئنگ جمبو طیّارہ بننے کے ہیں۔
اسی حیاتی ارتقاء کے حوالے سے اب ایک اور اہم عنوان کی بھی بات کرلیں۔ میرے ایک استفسار پر تم نے شاید ایسا ہی کچھ بتایا تھا کہ ڈارون نے ایک تھیوری دی ہے کہ ایک چیز ہوتی ہے نیچرل سلیکشن Natural-Selection،قدرت کا خودکار چنائو جس کی وجہ سے زندگی میں ارتقاء اور بہتری آتی رہتی ہے۔ اور کوئی بھی زندگی اس بارے میں خود فیصلہ کرتی ہے کہ کیا بہتر ہے، اور جس جس حیات میں یہ صلاحیت نہیں ہوتی وہ فنا ہوتی رہتی ہیں۔ اگر میں غلط سمجھا تو میری اصلاح کر دینا۔ لیکن اسکی منشاء میں جان گیا کہ ہر حیات اپنی بہتری اور بقاء کے لیئے ماحول سے مطابقت کرتی رہتی ہے جو نہیں کرتی فنا ہوتی رہتی ہے۔
مجھے تو یہ اصطلاح ارتقاء کے بے مثال اور انتہائی ترقی یافتہ نظم highly-advanced-systemکے اندر کسی نہ سمجھ میں آنے والے میکینزم کے مشاہدے obsevationکی تشریح لگی، صرف تشریح جس میں اسکے وقوع پذیر ہونے کاکوئی سائنسی جواز نہیں بتایا گیا ہے۔ اگر دقیق مشاہدے سے کسی میکینزم کو ادھورا یا بہت حد تک سمجھ بھی لیا جائے تو بھی یہ دریافت اس بات کی دلیل کیسے بنے گی کہ یہ سب خود ہورہا ہے؟ یہ عقدہ میری ناقص عقل میں نہیں آرہا تم ہی وضاحت کرنا۔ یعنی میرا سوال یہ ہے کہ خلیاتی حیات میں ایسا کیا ہے اور کیوں ہے کہ قدرتی چنا ئو natural-selection کا عمل ہوتا رہتا ہے ؟ یہ عمل جو آفاقی نظم لیئے ہوئے ہے کیا آزاد ہے اور کہیں سے کنٹرول نہیں ہوتا ؟
دیکھیں کسی فطری میکینزم کے مشاہدے اور کوئی ٹھوس نتیجہ اخذ کرنے سے سے وہ علمی دریافت ایک آفاقی سچّائی بن سکتی ہے لیکن دریافت کرنے والے کی پراپرٹی نہیں بنتی اورنہ ہی اس بنیاد پر کہ کسی سائنسداں نے اسکی کھوج لگائی ہے تو اسکی ہر بات پر آمنّا و صدقنا کہنا لازمی ہو جاتا ہے، بلکہ ایسی کاوش آپ کے لیئے مزید مصیبت زدہ سوالات لیکر آسکتی ہے جیسا کہ میں نے پوچھا کہ یہ آٹو میٹک سسٹم ہے تو اسکا کنٹرول کہاں ہے؟ ہاں تم بھی مجھ سے یہ پوچھ سکتے ہو کہ خدا کو کس نے بنایا جس کا مدلّل جواب مناسب وقت پر دونگا۔
یہاں صرف تم پر یہ واضح کرنا تھا کہ جیسا کہ تمہارا خیال تھا سائنس دہریت کا علم ہے وہ غلط ہے بلکہ یہ انسان کی مشاہدات اور تحقیق کا علم ہے جو فطرت کا راز جاننے کے لیئے کی جاتی ہے اس پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہوتی بلکہ سائنسی علوم کو دہریت کا نقیب کہنا بد دیانتی ہے۔ سائنس صرف معلومات ہے اس سے جتنے دلائل تم لے سکتے ہو اتنے ہی میں لے سکتا ہوں۔ وہ سائنسدان جو اپنی ذاتی حیثیت کے بجائے علمی حیثیت میں خدا کا انکار کرتا ہے وہ دراصل حصول علم کی اخلاقی حد کو پامال کرتا ہے۔ سائنس دان اگر ریسرچ کا نتیجہ دیکر خاموش ہوجائے اور لاتعلق رہ کر ریسرچ کرے تو کسی کو کوئی اعتراض کیوں ہوگا مسئلہ مگر وہاں شروع ہوتا ہے جب سائنسدان اپنی علمی حیثیت میں اس علم کے حوالے سے خدا کا انکار کرتا ہے جیسے اسٹیون ہاکنگ، اس طرح یہ کسی شعبۂ علم پر قابض ہوکر ایک پارٹی بن جانا ہے۔
اب میری گزارش بھی سنو۔ میں سمجھتا ہوں کہ تم ایک سوچتا ہوا ذہن رکھتے ہو جو بہت اچھی بات ہے۔ تمہارا مسئلہ یہ ہے کہ تم ہر عقدے کو عقل سے حل کرنا چاہتے ہو یہ بھی مثبت بات ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جو بات عقل میں نہیں آئے وہیں پر تمہارے لیئے رکاوٹ آجاتی ہے۔ دیکھو ایک ہوتاہے کہ انسان عقل پر خودکو حاوی رکھے اور دوسری شکل یہ ہوتی ہے کہ انسان اپنے آپ اور عقل کو علم میں مقیّد کرلے۔ اگر تم غور کرو تو تم وہی کچھ کہہ رہے ہوتے ہو جو میں کہہ رہا ہوتا ہوں۔فرق صرف یہ ہے کہ تم علم کی بنیاد پر ایک حد سے آگے نہیں بڑھ پاتے۔ مثلاً میں کہتا ہوں کہ کائنات اللہ نے بنائی خود نہیں بنی، تم سائنس کی بنیاد یعنی علم کی بنیاد پر کہتے ہو کہ خود بنی لیکن دوسری طرف یہی سائنس کہتی ہے کہ ایک اکائی یعنی singularityسے بگ بینگ عیاں ہوا اور بگ بینگ سے پہلے کی اس اکائیت کا سائنس کو علم نہیں! ایک دوسری جگہ یہی سائنس کہتی ہے کہ قانون ثقل کی وجہ سے تخلیق ہوئی مگر قانون کیسے بنا اسکا پتہ نہیں۔ تو بات ایک ہی ہے بس تم ایک قدم پیچھے یعنی حاصل شدہ علم کی بنائی فصیل میں ہو اور انہی پیرامیٹر میں اپنی عقل کو استعمال کرتے ہو۔ جبکہ میں ایک برتر علم پر یقین بھی اپنی عقل کے تئیں رکھتا ہوں۔تم علم کو اگر صرف انسان کی پراپرٹی سمجھتے ہو تو یہ غلط ہے۔ میرا کہنا یہ ہے کہ تم کس جواز پر ایسی ہستی کو مسترد کرسکتے ہو جو انسان سے زیادہ علم رکھے جبکہ سائنسدان خود کہتے ہیں کہ کائنات میں انسان سے زیادہ قابل ، علم والی اور بہت زیادہ ترقی یافتہ مخلوق ہوسکتی ہے۔ یہ رہا لنک:
تو بھئی اگرکائنات میں انسان سے سو ہزار یا لاکھ گنا قابل مخلوق ہوسکتی ہے تو کائنات سے باہر،میرا مطلب ہے کہ اسی اکائیت singularityمیں جو سائنس کی رو سے معدوم ہوچکی ہے( لیکن کیا پتہ یہ ماحول موجود ہو!) لامحدود گنا علم والی ہستی کیوں نہیں ہوسکتی؟ دیکھو میں یہاں سائنسدان مسٹر ہاکنگ کا حوالہ دے رہا ہوں قرآن کا نہیں اس لیئے اس کی وضاحت ضرور کرنا۔ اگر خلائی مخلوق کے حوالے سے تم کو اور معلومات درکار ہو تو گوگل میں تو سب دھرا ہے۔
دیکھو دوست بہ حیثیت انسان تمہارے پاس عقل ہے جس کی وجہ سے ہی علم ہے تو تم علم سے برتر ہو۔ جہاں انسان کا علم معطّل ہوجائے تو پھر عقل اور شعور ہی آگے لیجاتے ہیں۔ تم خدا کو علم سے سمجھنا چاہتے ہو جبکہ میں نے اسے عقل سے بے دلیل مانا کیونکہ علم تو اپنی انتہا پر جاکر ہی اس قابل ہوگا کہ تمام پردے گرادے لیکن ہمارا علم تو ابھی نامکمل ہے۔ یہ بات تو تم بھی جانتے ہو کہ کائنات اور زندگی کی تشریح خدا کے بغیر جدید سائنس ابھی تک نہیں کرسکی ہے کیونکہ بے شمار نئے نکات سامنے آتے رہتے ہیں۔
چلو ایک اور نکتے پر بھی غور کرو کہ اگر بالفرض کائنات خود ہی بن گئی تب بھی اس میں موجود ہر چیز اور ہر خیال اپنا ایک منطقی جواز رکھ کر ہی عیاں ہوگا، غیر متعلق خیال آنے کی تشریح سائنسدان کیسے کریں گے جبکہ وہ خود ہی بتاتے ہیں کہ خیالات کیمیائی عمل سے پیدا ہوتے ہیں، تو دوست اگر خدا ہے ہی نہیں تو کو ئی کیمیکل فارمولہ خدا کا خیال لے کرظاہر ہوا ہی کیوں؟ اس خیال کو بھی تو نہیں ابھرنا تھا کیونکہ اس ضمن میں اگر میں تم کو صحیح مانوں توتصور خدا کا کوئی سائنسی اور منطقی جواز ہی نہیں بنتا لیکن یہ تو نہ صرف ہے بلکہ بڑی شدّت سے موجود ہے، تبھی تو ہم اس پر بات کر رہے ہیں۔ تم ہی اسکی وضا حت کروایسا کیوں ہوتا ہے؟
میں ایمانداری سے سمجھتا ہوں کہ تمہارا مسئلہ صرف خدا کو سمجھنا ہے۔ اگر ایک دفعہ تمہاری سمجھ میں یہ آگیا تو تمام ابہام ختم ہو سکتے ہیں۔ تمہاری ایک سخت ذہنی ساخت ہی اس میں رکاوٹ ہے۔ تم نے یہ سختی سے اخذ کیا ہواہے کہ مذہب ایک دقیانوسی طرز فکر ہے ، جب تک تم اس تنگ نظری سے نہیں نکلوگے اور کشادہ دل ہوکر غور نہیں کروگے تم اپنے نامکمل اور غیر عقلی نظریات کے ساتھ زندگی تو گزارتے رہو گے جیسا کہ کثیر تعداد ہمارے اطراف کر رہی ہے بلکہ بڑے دانشور بھی حال میں مگن ہیں لیکن اپنے حال میں مست تو حیوانات ہی رہتے ہیں انسان کا شرف یہی ہے کہ عقل کے طابع فول پروف نظریات کا خوگر ہو۔ دیکھو پرندے صرف غذا کی تلاش اور گھونسلہ بنانے میں ہی مصروف رہتے ہیں کیا انسان بھی یہی کرتا رہے؟
دیکھو دوست کائنات کی جبلّت یہی ہے کہ ہر چیز کو کوئی نہ کوئی بناتا ہے۔ انسان خود تخلیقات میں مصروف رہتا ہے۔ اب اگر انسانی تخلیق انسان کو نہیں پہچانتی تو اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان اپنی کسی تخلیق میں اپنے جیسا شعور ڈالنے کا علم اور طاقت نہیں رکھتا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اب انسان مصنوعی عقل بنانے اور اسکو مصنوعی انسان یعنی روبوٹ میں انسٹال کرنے کے قابل ہوگیا ہے۔ جدید روبوٹ مصنوعی ذہانت سے بڑے کام کرجاتے ہیں لیکن انسان کو اتنا ہی جان پاتے ہیں جتنا علم انکے پروگرام میں طے کردیا جاتا ہے۔ جبکہ دوسری طرف اللہ نے انسان میں اپنی صفات کا عکس ڈال کر اسے سب سے برتر مخلوق قرار دیا اور اس میں یہ صلاحیت منتقل کی کہ انسان اپنے رب کو پہچانے۔ آج ہم بھی اسی عقل کے تئیں کوئی فیصلہ کرتے ہیں ۔
میرے دوست کیا مجھے انسان کی کاوش کے بغیر روبوٹ بنتا دکھا سکتے ہو؟ نہیں نا!اگر انسان اس قابل ہوجاتا ہے کہ اپنی طرح روبوٹ کو عقل دیدے مگر خودکو اوجھل رکھے تو کیا روبوٹ انسان کو اپنا خالق تسلیم کرے گا اور کیا اس کے انسان کو تسلیم نہ کرنے سے انسان بے وجود ہو جائے گا؟
سمجھنے کی بات یہ ہے کہ یہ علم کے دائرے ہیں جس میں حیات مقیّد ہیں۔ ہر حیات اپنے دائرہ علم اور ایک قوّت کے ساتھ ہے، خواہ حشرات الارض ہوں یا چرند، پرند ، درند اور نباتات ہوں۔ اور یا انسان ہو!انسان اس دائرے سے باہر اپنی عقل ، غور اور فکرسے ہی جاسکتا ہے ایک عظیم تر دائرہ علم میں۔ جہاں وہ عظیم قوّت ہے جس کی کائنات کے ہر ہر پارٹیکل اورہر ہر عامل پر ہمہ وقت گرفت ہے۔
کیا تم ایسی قوّت کا ادراک کر سکتے ہو؟
دوست ذرا سوچو۔۔
تمہارا خیر اندیش
مجیب الحق حقی