صلح نامہ حدیبیہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو حکم دیا کہ سب اپنے اپنے قربانی کے جانور ذبح کریں، تو پہلے پہل کوئی ایک بهی اس حکم کی تعمیل کے لئے نہیں اٹها ، بعد میں جب تعمیل بهی کی تو اس میں بهی ان کی دلی رضامندی شامل نہیں تهی اور وہ اس قدر رنجیدہ تهے کہ ایک دوسرے کے بال مونڈتے ہوئے لگتا تها کہ شدت غم سے وہ ایک دوسرے کے گلے کاٹ بیٹهیں گے.بعد میں جب اللہ تعالی نے اسے فتح مبین قرار دیا تو پهر کہیں جاکر سب کو اطمینان اور خوشی ہوئی. اس سے جو بہت سی اہم باتیں معلوم ہوتی ہیں ان میں سے ایک اہم بات یہ بهی ہے کہ کسی معقول عذر کی بنا پر سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی عدم تعمیل بهی عنداللہ جرم نہیں، تو کسی خلیفہ راشد کے کسی حکم کی عدم تعمیل کیونکر جرم ہوسکتی ہے؟ رسول کی رسالت و نبوت کا انکار کرنا یا اقرار کے باوجود اس کے حکم کو سرے سے حجت( واجب التسلیم) ہی نہ سمجهنا اور بات ہے لیکن کسی معقول عذر کی بنا پر تعمیل نہ کرنا بالکل دوسری بات ہے. صلح حدیبیہ والے معاملے میں پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی عدم تعمیل اور پهر دلی رضامندی کے بغیر تعمیل پر صحابہ کرام رض کو ہرگز فاسق نہیں کہا جا سکتا. کیونکہ اس کا ان کے پاس ان کے خیال میں معقول عذر یہ تها کہ صلح کی شرائط بظاہر مسلمانوں کے مفاد کے سراسر خلاف نظر آرہی تهیں.وہ یہ سمجهتے تهے کہ شاید وحی کے بغیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے محض اپنی صلح جویانہ صوابدید اور طبعی نرم خوئی کی بناء پر ان شرائط کو قبول کرلیا ہے اور شاید وحی کے ذریعہ صورت حال بدل جائے. لیکن جب وحی خداوندی سے بهی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے موقف کی تائید و توثیق ہوگئی تو وہ پوری طرح مطمئن ہوگئے. انہوں نے ( معاذاللہ ثم معاذاللہ) آپ کی رسالت یا آپ کے حکم کی حجیت سے ہرگز انکار نہیں کیا تها. اس طرح کی عدم تعمیل تو کهلا کفر ہے اور اگر عدم تعمیل تساہل و تکاسل کی بناء پر ہو لیکن تعمیل نہ کرنے والا حاکم مجاز کے حکم کی حجیت کا منکر نہ ہو تو وہ فاسق و فاجر تو ہے کافر نہیں.
ان امور کی روشنی میں ہم سیدنا حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اور سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت کی طرف آتے ہیں. اس طرح کی باتیں کہ سیدنا معاویہ رض کی خلافت پر تو صحابہ کرام کا اجماع تها لیکن حضرت علی رض کی خلافت پر اجماع نہیں ہوا ، ایک سطحی سوچ کی غماز ہیں بلکہ کہنا یوں چاہئیے کہ حضرت معاویہ رض کی بیعت خلافت پر صحابہ کرام کا اجماع ہوگیا لیکن حضرت علی رض کی بیعت خلافت پر صحابہ کرام کا اجماع نہیں ہوا. جہاں تک نفس خلافت کا تعلق ہے تو سیدنا حضرت علی رض کی خلافت ہمیشہ متفق علیها رہی ہے. خلافت راشدہ اور امارت و حکومت کا فرق ہم ان مباحث میں قبل ازیں بیان کرچکے ہیں. حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ سے مصالحت سے پہلے حضرت معاویہ رض نے کبهی بهی اپنی خلافت کا دعوی یا اعلان نہیں فرمایا، لہذا ان ایام میں آپ خلیفہ نہیں بلکہ صرف امیر و حاکم تهے اور آپ کی بیعت امارت بهی متفق علیها نہیں تهی.
بعض کتابوں میں جو لکها ہے کہ حکمین کے فیصلے کے بعد لوگوں نے حضرت معاویہ رض کی بیعت خلافت کی تو وہاں خلافت اور امارت کے اس لطیف فرق کو نظر انداز کردیا گیا ہے کہ ہر خلیفہ لازما امیر بهی ہوتا ہے لیکن امارت و حکومت عام ہے اور ہر امیر اور حاکم کا خلیفہ ہونا ضروری نہیں چنانچہ حضرت معاویہ رض کی اسی بیعت امارت و حکومت کو بعض حضرات نے بیعت خلافت سمجهہ لیا اگر ایسا ہوتا تو حضرت معاویہ رض برملا حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت کو ناجائز اور غلط قرار دیتے اور ان کے مقابلے میں اپنی خلافت کے صحیح ہونیکا اعلان کرتے. ان کا آخر تک خیال یہی رہا کہ حضرت علی رض کا قاتلین عثمان رض سے قصاص لینے کے معاملے میں تاخیر سے کام لینا مفسدین کی شرارتوں کو تقویت پہنچا رہا ہے. چونکہ انہوں نے ان کی بیعت نہیں کی لہذا اپنے حلقے میں انہوں نے اپنے آپ کو امیر اور حاکم کے منصب پر قائم رکها نہ یہ کہ حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ سے مصالحت سے پہلے انہوں نے اپنے خلیفہ ہونے کا کوئی باقاعدہ اعلان کیا تها. ان ایام میں وہ امیروحاکم تهے خلیفہ نہیں تهے.
حضرت معاویہ رض نے کبهی بهی یہ دعوی نہیں فرمایا تها کہ حضرت علی رض کی خلافت غلط اور میری خلافت درست ہے. چونکہ انہوں نے بیعت خلافت سے انکار کیا تها، اس لئے حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے قصاص کے مطالبے کی تکمیل کی خاطر وہ اپنے حلقے میں اپنی امارت و حکومت قائم کئے ہوئے تهے نہ یہ کہ انہوں نے کبهی خلافت کا دعوی کیا تها.
حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ سے مصالحت کے بعد ان کی خلافت اور امارت و حکومت یکجا ہوگئی اور سب نے ان کی بیعت پر اتفاق بهی کرلیا. اس کے برعکس حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت راشدہ اور امارت و حکومت میں ایک دن کے لئے بهی تفریق نہیں ہوئی اور ان کی خلافت و امارت کے صحیح ہونے پر سب کا اجماع بهی تها لیکن معقول عذر کی بناء پر ان کی بیعت متفق علیها نہیں تهی. چنانچہ حضرت معاویہ رض اور ان کے ہمنوا حضرت عثمان رض کے خون کے قصاص کو مقدم اور حضرت علی رض کی بیعت کو موخر سمجهتے تهے. اگر حضرت معاویہ رض حضرت علی رض کی خلافت و امارت کو ( معاذاللہ) ناجائز سمجهتے تو یقینا مقابلے میں اپنی خلافت کا دعوی اور اعلان ضرور کرتے لیکن انہوں نے ایسا ہرگز نہیں کیا. پس حقیقت یہ ہے کہ حضرت علی رض کی خلافت راشدہ ایک ثانیے( سیکنڈ) کے لئے بهی صحابہ کرام اور بعد کے اہل حق لے لئے محل نظر نہیں رہی.
صرف معقول عذر کی بناء پر بعض صحابہ کرام کو بیعت سے انکار تها. اس کے برعکس حضرت حسن رض سے صلح سے پہلے تک سیدنا معاویہ رض کی امارت و حکومت متفق علیها نہیں تهی. چونکہ انہوں نے اس عبوری مدت میں اپنی خلافت کا کوئی دعوی کیا ہی نہیں تها تو ان کی خلافت کے متفق علیها ہونے اور نہ ہونے کا سوال ہی سرے سے پیدا نہیں ہوتا. حضرت حسن رض سے مصالحت کے بعد جب وہ باقاعدہ خلیفہ ہوئے تو بلاشبہہ صحابہ کرام کا ان کی خلافت پر اجماع ہوگیا ، جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگی بشارت کے مطابق آپ کے پیارے نواسے اور سیدنا علی رض کے پیارے صاحبزادے حضرت حسن رض کے مصالحانہ رویہ کو پورا پورا دخل حاصل ہے. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تها کہ میرا یہ بیٹا سردار ہے جو مسلمانوں کی دو عظیم جماعتوں کے درمیان صلح کروائے گا. خوب غور کیجئیے جب خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رض اور حضرت معاویہ رض دونوں کے ساتهیوں کو عظیم جماعتیں قرار دیا ہے تو ہمیں اس طرح کی مبہم مردم شماری کی بهلا ضرورت ہی کیا ہے کہ حضرت علی رض کی بیعت چند صحابہ کرام نے نہیں کی تهی یا بیعت نہ کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ تهی. پس ان حالات میں دونوں حضرات کی خلافت میں درحقیقت کوئی خلل پیدا نہیں ہوتا ، خصوصا حضرت علی رض کی خلافت کا برحق ہونا تو کبهی متنازع رہا ہی نہیں.
روافض نے خلفائے راشدین میں سے پہلے تین خلفاء کے حق میں افسوسناک تفریط ( تنقیص ) سے کام لیا کہ معاذاللہ وہ ظالم اور غاصب تهے اور چوتهے خلیفہ حضرت علی رض کے حق میں افراط ( غلو اور مبالغے ) سے کام لیتے ہوئے انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ بلا فصل قرار دے ڈالا. اس کے ردعمل میں بعض اہل حق روافض کی تفریط کا تعاقب کرتے ہوئے غیرشعوری طور پر حضرت علی رض کے حق میں خود بهی کسی حد تک تفریط کا شکار ہوگئے. ہم یہاں ” غیرشعوری ” کے کلمات اس لئے لائے ہیں کہ یہ حضرات سیدنا علی رض کو ایک طرف تو خلیفہ راشد بهی مانتے ہیں اور انہیں عشرہ مبشرہ میں بهی شمار کرتے ہیں لیکن دوسری طرف یہ بهی کہتے ہیں کہ آیت استخلاف میں اللہ تعالی نے مومنین صالحین سے جو تیسرا وعدہ امن اور بےخوفی کا فرمایا تها تو حضرت علی رض کے دور خلافت میں استخلاف فی الارض اور تمکین دین کے دونوں وعدے تو پورے ہوئے لیکن باہم خانہ جنگی کی وجہ سے امن قائم نہیں رہا. لہذا روافض جن خلفائے ثلاثہ کو معاذاللہ غاصب اور ظالم قرار دیتے ہیں تو آیت استخلاف کے حقیقی موعودلهم تو وہی ہیں جبکہ حضرت علی رض کے دور میں امن اور بےخوفی کی نعمت مسلمانوں کو حاصل نہیں تهی. ان حضرات کا ذہن ادھر منتقل نہ ہوا کہ اگر آیت استخلاف میں کئے گئے تینوں وعدے حضرت علی رض کے دور میں معاذاللہ پورے نہیں ہوئے بلکہ صرف دو ہی وعدے پورے ہوئے حالانکہ حضرت علی رض بهی دیگر اصحاب کی طرح ایمان و اعمال صالحہ کی دولت سے مالامال تهے تو ( معاذاللہ ثم معاذاللہ) اللہ تعالی کی طرف عہد شکنی منسوب ہوگی یا یہ ماننا پڑے گا کہ ( معاذاللہ ثم معاذاللہ) حضرت علی رض خلیفہ راشد تو کجا وہ تو ایمان اور اعمال صالحہ کی نعمت سے بهی محروم تهے.بلکہ سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو بهی خلافت راشدہ موعودہ بها سے نکال باہر کرنا ہوگا کیونکہ حضرت عثمان رض کے دور خلافت کے آخری ایام میں امن کہاں باقی رہا تها ؟. باغیوں نے کافی عرصے تک مدینہ منورہ میں قصرخلافت کا محاصرہ جاری رکها اور بالاخر آپ کو شہید کر ڈالا. پس اصل حقیقت یہ ہے کہ چاروں خلفاء کو تینوں نعمتیں علی وجہہ الکمال حاصل رہیں اور آیت استخلاف میں خوف سے مراد مطلق خوف نہیں بلکہ کفار کی جانب سے مسلمانوں کو لاحق ہونے والا وہ خوف مراد ہے جو نزول آیت کے وقت موجود اور بعد میں حسب وعدہ الہی یکسر نیست و نابود ہوگیا تها. اسی لئے تو روافض آیت استخلاف کے وعدوں کو صرف امام مهدی کے لئے تسلیم کرتے ہیں ، حالانکہ آیت میں ضمیر حاضر ” منکم ” موجود ہے اور یہ بات انتہائی نامعقول ہے کہ خطاب تو حاضرین سے ہو لیکن اس کا مصداق سینکڑوں برس بعد آنیوالی ہی کوئی ایک شخصیت ہو اور حاضرین میں سے ایک فرد بهی اس میں شامل نہ ہو.
تحریر پروفیسر ظفر احمد