شیطان انسان کا دشمن ہے ، بعض اوقات نیک نیت اور نیک عمل لوگ بهی ایک حد تک غیرشعوری طور پر اس کے فریب میں آجاتے ہیں. اگر ہمارے اباجی ( سیدنا آد م علیہ السلام ) کو اس نے فریب دیا تها تو ہم اور آپ کس شمار میں ہیں؟ اللہ تعالی ہم سب کو اس کے شر سے محفوظ رکهے اور صحابہ کرام رض کے بارے میں اگر ہم غیرشعوری طور پر بهی افراط و تفریط کا شکار ہوئے ہوں تو اللہ تعالی ہمیں اور ہمارے تمام بهائیوں اور ہمارے بزرگوں سے بهی ایسی فکری لغزشوں پر درگزر فرمائے. آمین.
صحابہ کرام کے بارے میں اس شیطانی فریب کی چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں.
1۔ مثلا زید کہتا ہے کہ فلاں فلاں اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو چونکہ صحبت نبوی کی زیادہ مدت حاصل نہیں ہوئی اس لئے ان کی بقول زید پوری قلب ماہیت نہ ہوسکی. یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خود زید کی قلب ماہیت ہوئی ہے یا نہیں؟ اگر وہ دعوی کرے کہ اس کی قلب ماہیت ہوچکی ہے تو زید کے اپنے مفروضے کے تحت قلب ماہیت کے لئے مثلا دس سال کی صحبت نبوی درکار ہو تو جسے پانچ سال کی صحبت حاصل ہوئی اس کی قلب ماہیت پچاس فیصد ہوئی ، اور جسے دو سال کی صحبت میسر آئی اس کی قلب ماہیت بیس فیصد ہوئی ، اور جسے زید کی طرح ایک ثانیے ( سیکنڈ) کے کروڑویں حصے کی بهی صحبت نبوی حاصل نہ ہوئی، خود زید کے اپنے مفروضے کے تحت اس کی قلب ماہیت صفر فیصد ہوئی. پس دوسری شق خودبخود ثابت ہوگئی کہ زید کے اپنے ہی مفروضے کے تحت زید کی قلب ماہیت سرے سے ہی نہیں ہوئی. اس صورت میں کون عقلمند زید کی صحابہ کرام رض کے متعلق بیہودہ رائے کو قبول کرنے پر آمادہ ہوگا؟
2۔ اور مثلا زید کہتا ہے کہ صحابہ کرام رض ( معاذاللہ ) معیارحق نہیں ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا خود زید بهی معیارحق ہے یا نہیں؟ اگر وہ معیارحق ہونے کا دعوی کرے تو اس کا یہ دعوی قطعا قابل قبول نہیں ہوسکتا کیونکہ جب اس کے بقول صحابہ کرام تک معیارحق نہیں ہیں تو زید کیسے معیارحق بن گیا؟ پس دوسری شق خودبخود ثابت ہوگئی کہ زید خود اپنے مفروضے کے مطابق معیارحق نہیں ہے. حق کا متضاد لفظ باطل اور ضلال ( گمراہی) ہے. قرآن کریم میں بهی ہے : فماذا بعدالحق الاالضلال ” تو حق کے بعد سوائے گمراہی کے اور ہے ہی کیا؟” جب زید خود اپنے ہی دعوے کی روشنی میں معیارحق نہ ہوا تو لازما معیارضلال ہوا، گو وہ زبان سے اس کا اعتراف نہ کرے. کیونکہ اگر ایک شخص یہ کہے کہ میں صحتمند نہیں ہوں تو دوسری شق یعنی اس کا بیمار ہونا خودبخود ثابت ہوگئی گو وہ زبان سے یہ نہ کہے کہ میں بیمار ہوں. جب زید معیارضلال ٹهرا تو اس کی رائے تو کسی عام شخص کے بارے میں بهی معتبر نہیں ہوسکتی چہ جائیکہ صحابہ کرام کے متعلق اس کی لغویات کو کوئی وزن دیا جائے.
یہاں یہ یاد رہے کہ ہر باطل گو خطا بهی ہے لیکن ہر خطا کو باطل نہیں کہا جاسکتا’ ورنہ اجتہادی مسائل میں خطا کرنے والے مجتہد کو بموجب حدیث اکہرے اور خطا نہ کرنے والے کو دوہرے اجر کا مستحق قرار نہ دیا جاتا. کیا اہل باطل بهی اجر کے مستحق ہوا کرتے ہیں؟ پس رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد دیگر افراد کے معصوم عن الخطا نہ ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ بشمول صحابہ کرام ان میں کوئی بهی معیارحق نہیں ہے. امت محمدیہ میں بے شک رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اعلی ترین اور اولین معیارحق ہیں. اس کا یہ مطلب نہیں کہ صحابہ کرام معیارحق نہیں رہے بلکہ کتاب اللہ ( قرآن کریم ) کی نظری رہنمائی کے ساتهہ ساتهہ رجال اللہ کی عملی رہنمائی بهی لوگوں کو ہمیشہ حاصل رہے گی. یہی وجہ ہے کہ سورہ فاتحہ میں جن منعم علیهم (انعام یافتہ) لوگوں کے صراط مستقیم پر چلائے رکهنے کی ہمیں دعا سکهائی گئی ہے ان میں حضرات انبیاء علیهم السلام کے علاوہ صدیقین ، شہداء اور صالحین بهی شامل ہیں. حالانکہ حضرات انبیاء علیهم السلام تو بالاتفاق معصوم عن الخطا ہیں لیکن منعم علیهم ( انعام یافتہ) لوگوں کے باقی تینوں گروہ معصوم عن الخطا نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود ان کا راستہ صراط مستقیم ہے. پس کوئی زمانہ بهی ایسے رجال اللہ سے خالی نہیں رہتا. یہی لوگ معیارحق ہیں ورنہ انہیں اہل حق اور صراط مستقیم پر چلنے والا کیسے کہا جا سکتا ہے؟
یہاں کچهہ لوگوں نے افراط سے کام لیتے ہوئے یہ سمجهہ لیا کہ دنیا میں ہر زمانے میں کسی زندہ امام معصوم کا وجود ناگزیر ہے تو کچهہ لوگوں نے تفریط سے کام لیتے ہوئے ناحق یہ سمجهہ لیا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی بهی معیارحق نہیں. جس طرح انبیاء علیهم السلام کے معیارحق ہونے کے باوجود ان کے مراتب اور درجات باہم متفاوت ہیں یکساں نہیں ، اسی طرح انبیاء علیهم السلام کے بعد دیگر اہل حق اور معیارحق لوگوں کے مراتب و درجات بهی یکساں نہیں کیونکہ کمالات کے بهی بے انتہا مراتب ہیں. اہل حق کے باہم اختلافات سے بهی ان کا معیارحق ہونا متاثر نہیں ہوتا. زید اگر یہ کہے کہ جنگ جمل کے معاملے میں حضرت علی رض معیارحق ہیں یا حضرت عائشہ رض ؟ یا جنگ صفین کے معاملے میں حضرت علی رض معیارحق ہیں یا حضرت معاویہ رض؟ تو ہم زید سے یہ پوچهنے میں حق بجانب ہوں گے کہ بنی اسرائیل کی گئوسالہ پرستی کے معاملے میں حضرت موسی علیہ السلام نے حالت غضب میں حضرت ہارون علیہ السلام کو سر اور داڑهی سے پکڑ کر اپنی طرف کهینچنا شروع کردیا تها تو کیا حضرت موسی علیہ السلام معیارحق تهے یا حضرت هارون علیہ السلام ؟ . یہاں تحقیقی جواب یہ ہے کہ غیر معصوم کی اگر کوئی غلطی یقینی دلائل سے ثابت ہوجائے تو غلطی میں اس کی اتباع نہیں کی جائیگی ، لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ سرے سے معیارحق ہی نہیں رہا. اسی طرح معصوم عن الخطا یعنی پیغمبر کی کسی خطائے اجتہادی کا یقینی و قطعی علم ہوجائے تو اس میں پیغمبر کی اتباع بهی درست نہ ہوگی مثلا حضرت نوح علیہ السلام کا اپنے متوفی کافر بیٹے کے لئے اللہ تعالی سے دعا کرنا ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کی اس کے مخلص بیٹے کی دلجوئی کے لئے نماز جنازہ پڑهانا وغیرہ ایسی مثالیں ہیں جن کی اتباع جائز نہیں. ان کی ایسی اجتہادی خطاوں اور ان خطاوں میں ان کی عدم اتباع سے یہ نتیجہ اخذ کرنا حماقت ہے کہ پیغمبر ( معاذاللہ) سرے سے معیارحق ہی نہیں رہا. حضرات انبیاء علیهم السلام کو معصوم عن الخطا اس معنی میں کہا جاتا ہے کہ گناہ کے تو وہ قریب بهی نہیں پهٹکتے. بتقاضائے بشریت وہ کبهی خطائے اجتہادی کا شکار ہوں تو لازما انہیں اس پر اطلاع اور خطا کی اصلاح کردی جاتی ہے. دیگر افراد امت کے لئے خطائے اجتہادی سرے سے قابل مواخذہ ہی نہیں اور اللہ کے نیک بندے گناہ پر اصرار کرتے ہی نہیں بلکہ ایسے غیر معصوم حضرات گناہ کو گناہ سمجهتے اور اس سے توبہ کرتے ہیں، تو یہاں بهی وہ دوسروں کے لئے توبہ کے لحاظ سے معیارحق ٹهرتے ہیں. جس طرح پیغمبر کی اجتہادی خطا میں اس کی اتباع جائز نہیں لیکن اس سے اس کا معیارحق ہونا متاثر نہیں ہوتا اسی طرح غیرمعصوم کا گناہ یا اس کی کسی خطائے اجتہادی کا یقینی علم حاصل ہوجائے تو اس گناہ اور خطائے اجتہادی میں اس کی اتباع نہیں ہوگی، لیکن اس سے اس کا معیارحق ہونا بهی متاثر نہیں ہوگا.
پس یہاں اصل حقیقت یہ ہے کہ صحیح العقیدہ ادنی سے ادنی مسلمان بهی اپنی حیثیت اور مقام کے مطابق یوں معیارحق ہے کہ اگر غیرمسلم اس کی پیروی کرتے ہوئے کفر چهوڑ کر اسلام قبول کریں اور بالفرض فسق و فجور کے باوجود ان کی موت اسلام پر ہی واقع ہو تو بهی اللہ چاہے اسے ویسے ہی معاف فرمادے ورنہ زود یا بدیر جہنم کے دائمی عذاب سے تو وہ نجات پا ہی جائیگا. پس کسی کا معیارحق ہونا اور بات ہے اور معصوم عن الخطا ہونا بالکل دوسری بات ہے، یعنی ہر معصوم عن الخطا یقینا معیارحق بهی ہے لیکن کسی کا معیارحق ہونا اس امر کو مستلزم نہیں کہ وہ لازما معصوم عن الخطا بهی ہو..فتدبر و تشکر.
3۔ مثلا زید کہتا ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ باغی تهے یا ان کی حکومت سلطان جور تهی، وغیرہ..تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا زید کو اپنے متعلق یہ قطعی یقین ہے کہ اس کی موت ایمان اور اعمال صالحہ پر ہوگی؟ اگر اسے یقین ہے تو اس کے متعلق وحی تو موجود نہیں. یقینا اس نے اپنی عقل سے فیصلہ کیا ہوگا. عقل میں بالاتفاق خطا کا احتمال ہے. لہذا دوسری شق ہی صحیح ہوسکتی ہے کہ زید کو اپنی عاقبت کا یقینی علم نہیں. صرف اللہ ہی کو اس کا یقینی علم ہے. اس لئے زید اپنے علم کے اعتبار سے مجہول العاقبہ ہوا ، گو شیطان نے اسے معلوم العاقبہ ہونے کا فریب دے رکها ہو.
ادھر تمام صحابہ کرام (رضی اللہ عنهم) معلوم العاقبہ ہیں کیونکہ ان کے متعلق اللہ تعالی کا واضح اعلان ہے کہ وہ اپنے نبی اور اس کے ساتهہ ایمان لانے والوں کو رسوا نہیں کرے گا : یوم لا یخزی اللہ النبی والذین آمنوا معه. پس دیگر صحابہ کرام کی طرح حضرت معاویہ رض کے حسن عاقبت کا یقینی علم قرآن کریم سے حاصل ہوگیا. اگر کہا جائے کہ حضرت معاویہ رض صحابی ہی نہیں ہیں بلکہ ( معاذاللہ ) منافق تهے تو سورہ تحریم میں مذکورہ مضمون والی آیت کے ساتهہ فورا بعد اللہ تعالی نے اپنے نبی کو مخاطب کرتے ہوئے حکم دیا کہ :” اے نبی! تو کافروں اور منافقوں کے خلاف جهاد کر اور ان پر سختی بهی کر.بےشک ان کا ٹهکانا جہنم ہے اور وہ برا ٹهکانا ہے” رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہرگز ہرگز حضرت معاویہ رض پر کوئی سختی نہیں فرمائی بلکہ الٹا انہیں اپنا کاتب وحی مقرر فرمایا. ان کے والد حضرت ابوسفیان رض کے گهر کو دارالامان قرار دیا. غزوہ حنین و اوطاس کے بےشمار مال غنیمت سے بظاہر اصل مستحقین انصار مدینہ کو کچهہ بهی نہیں دیا اور مہاجرین کو بهی بہت کم دیا اور ان غنیمتوں کا بیشتر حصہ نومسلم قریش مکہ وغیرہ مولفتہ القلوب کو دیا. خود حضرت ابوسفیان رض اور ان کے خاندان کے گهر کو بهی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اموال غنیمت سے بهر دیا. پورے خاندان کا آپ نے بےحد اعزاز و اکرام فرمایا.
اگر کہا جائے کہ منافقین پر سختی کرنے کا موقع رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش نہیں آیا تها تو اللہ تعالی پر الزام آئے گا کہ اسے پتہ بهی تها کہ منافقین پر سختی کر نے کی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سرے سے ضرورت ہی پیش نہیں آئیگی پهر بهی اس نے خاص نبی ہی کو مجاطب کرتے ہوئے منافقین پر سختی کرنے کا حکم ( معاذاللہ) خوامخواہ اور بلا ضرورت دے ڈالا اور آپ کو یہ بهی نہ بتایا کہ جس خاندان پر آپ اتنی عنایات فرما رہے ہیں یہ خاندان تو (معاذاللہ) فی الحال منافق ہے یا آپ کے بعد ( معاذاللہ) باغی اور مرتد ہوجائے گا. اللہ کا کلام ہر عیب سے پاک ہے . پس جب زید مجہول العاقبہ ہونے کے باوجود معلوم العاقبہ اصحاب رسول کو ( معاذاللہ) باغی یا فاسق وغیرہ قرار دے گا تو یقینا اپنی حد سے تجاوز کرے گا. حد سے تجاوز ہی تو ظلم اور بغاوت ہے. پس زید خود ظالم اور باغی ثابت ہوا اور اس کے ظلم اور اس کی بدظنی کا شکار صحابہ کرام رض مظلوم ہوئے. اگر ان مظلوم صحابہ کرام نے مثلا حضرت معاویہ رض نے قیامت کے دن ایسے ظالموں کو خدانخواستہ معاف نہ کیا تو لینے کے دینے پڑ جائیں گے. خصوصا جب کہ زید کے دل میں کسی بهی صحابی رسول کے خلاف بغض و نفرت بهی ہو محض فکری لغزش نہ ہو.
حضرت معاویہ رض کا حلم اور بردباری ضرب المثل ہے.ظن غالب ہے کہ وہ ایسی فکری لغزش والوں کو معاف کردیں گے لیکن جن کے دل میں ان کے خلاف بغض ہے تو ممکن ہے کہ حضرت معاویہ رض یہ کہیں:”اے اللہ! اگر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے مجهے بالفرض باغی کہا تها تو وہ مقام و مرتبے میں مجهہ سے بلند اور وصف صحابیت میں میرے شریک ہیں جسطرح حضرت موسی علیہ السلام مقام و مرتبے میں حضرت هارون علیہ السلام سے بلند اور وصف نبوت میں ان کے شریک ہیں، تو جسطرح حضرت موسی علیہ السلام کا حضرت هارون علیہ السلام سے سختی سے پیش آنا اور انہیں ریش مبارک سے پکڑ کر اپنی طرف کهینچنا دوسروں کے لئے قطعا یہ جواز پیدا نہیں کرتا کہ وه بهی حضرت هارون علیہ السلام سے اسی طرح کا رویہ اختیار کریں اسی طرح میرے بهائی حضرت علی رض کو تو مجهے باغی وغیرہ کہنے کا حق ہوسکتا ہے لیکن اپنی حیثیت اور انجام سے بےخبر بعد کے لوگ مجهے باغی قرار دینے والے کون ہوتے ہیں؟ اگر میں انہیں واقعی باغی اور فاسق و فاجر نظر آرہا تها تو یہ برادران یوسف کے حال پر ہی غور کرلیتے. انہوں نے حضرت یوسف علیہ السلام کو کنویں میں پهینکا. اپنے باپ حضرت یعقوب علیہ السلام کو دهوکہ دیا اور ان سے جهوٹ بولا. سالہاسال تک انہیں پریشان کئے رکها. انہیں رلائے رکها کہ حتی کہ ان کی بینائی متاثر ہوئی. ان کے ظاہری یہ سنگین جرائم عام لوگوں کے خلاف نہیں بلکہ اپنے حقیقی باپ اور حقیقی بهائی کے خلاف سرزد ہوئے. پهر عام بهائی یا عام باپ کے خلاف نہیں بلکہ نبی بهائی اور نبی باپ کے خلاف تهے. انہوں نے بهائی کی اخوت اور باپ کی ابوت کا لحاظ تو کیا کرنا تها، نبوت جیسے عظیم اور ارفع مقام کو بهی انہوں نے سرے سے فراموش کردیا تها. لیکن اے اللہ! جب تونے انہیں معاف فرمادیا اور ان کی مغفرت کا ذکر قرآن کریم میں یوں فرمادیا کہ ان کےبهائی حضرت یوسف علیہ السلام نے انہیں معاف فرمادیا اور ان کے والدماجد حضرت یعقوب علیہ السلام نے ان کے لئے استغفار کیا ( جو اللہ کے حکم اور اجازت کے بغیر ممکن نہیں) تو کسی کے لئے بهی تونے ان کے خلاف لب کشائی کی گنجائش نہ چهوڑی. کسی کے لئے یہ جواز نہ چهوڑا کہ وہ عدل عدل کی دہائی دے اور اس طرح کے تبصرے کرے کہ اللہ تعالی کے ہاں گنجائش ہی نہیں ہے.
اے اللہ! کسی سے عدل کرنا ہو یا کسی کو معاف فرمانا ہو تو ہرگز تو لوگوں سے پوچهہ کر ایسا کرنے کا پابند نہیں ہے. اسی طرح اے اللہ! جب تونے تمام اصحاب رسول کی مغفرت فرمادی اور قرآن کریم میں اس مضمون کو جابجا مختلف طریقوں سے بیان فرمادیا اور یہ بهی اعلان فرمادیا کہ اللہ بروز قیامت نبی کو اور اس کے ساتهہ ایمان لانے والوں کو رسوا نہیں کرے گا ، تو کسی کو کیا حق تها کہ وہ تجهے بزعم خویش انصاف کا سبق پڑهانے لگے اور میرے خلاف یا کسی بهی صحابی رسول کے خلاف بغض و نفرت رکهتا ہوا لب کشائی کرتا پهرے؟ اے اللہ! حقوق العباد میں جن بندوں کا حق ضائع ہوا ہو ، تو اگر چاہے تو اپنی رحمت کاملہ سے ان کا ضائع کردہ حق ہی پورا نہیں کردیتا بلکہ ان کے دل میں حق ضائع کرنے والوں کے خلاف نفرت کی بجائے محبت پیدا فرماکر انہیں اس بات پر آمادہ کر دیتا ہے کہ وہ حق ضائع کرنے والوں کو خوشی خوشی معاف کردیں. مثلا غزوہ احد میں میدان جنگ چهوڑنے والوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حق ضائع کیا. ان کی وجہ سے آپ کو سخت جسمانی اذیت بهی اٹهانا پڑی لیکن اے اللہ! اس کے باوجود تونے اپنے پیغمبر کے دل کو اپنے ان اصحاب کے لئے نرم کردیا تاکہ اللہ کے بعد اس کا رسول بهی ان لوگوں کو معاف کرے تو ہنسی خوشی معاف کرے. اور پهر جن مشرکین نے غزوہ احد میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کو خصوصا تکلیف پہنچائی تهی ان کے متعلق بهی اے اللہ! تونے اپنے پیغمبر کے دل کو نرم کردیا اور پیغمبر علیہ السلام نے فتح مکہ کے موقع پر ان لوگوں کو ایسے ہی فراخ دلی سے معاف فرمادیا جیسے حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بهائیوں کو معاف فرما دیا تها اور ان سب قریش مکہ کو اسلام قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائی سواے گنتی کے چند لوگوں کے جو اسی دوران مرکهپ گئے. اے اللہ! جب یہ واضح ہے کہ تیرے رسول( صلی اللہ علیہ وسلم) کے اصحاب سے بغض و نفرت رکهنے والے اور انہیں باغی و فاسق قرار دینے والے خود ظالم ہیں تو ہمارے اور ان کے درمیان فیصلہ فرما.”
ممکن ہے کہ اس مشکل گهڑی میں زید رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سفارش کی امید رکهے لیکن اسے آپ سے یہ سننا پڑے:” منافقین میرے اصحاب پر غصے سے انگلیاں کاٹتے تهے تو مجهے اللہ تعالی نے ان کے لئے یوں بد دعا کرنے کا حکم دیا : موتوا بغیظکم. ” تم اپنے غصے میں مرجاو” تو جو میرے اصحاب کا دشمن ہو اس کے لئے مجهے یہ حکم ہے کہ میں اس کے متعلق بد دعا کروں نہ کہ سفارش کروں. اللہ تعالی اس مشکل گهڑی سے ہمیں بچائے. آمین.
4۔حضرات انبیاء کرام علیهم السلام کی حسن عاقبت متفق علیہ ہے ، لہذا ہمارے علم کے لحاظ سے ان کا معلوم العاقبہ ہونا سرے سے اختلافی ہے ہی نہیں. جہاں تک صحابہ کرام رض کا تعلق ہے تو ان کی تین جماعتوں مہاجرین ، انصار اور مولفتہ القلوب کے حسن عاقبت کی چونکہ یقینی اور محکم خبریں قرآن کریم نے دی ہیں لہذا ہمارے علم کے اعتبار سے یہ خوش نصیب حضرات بهی یقینا معلوم العاقبہ ہیں. اگر معلوم العاقبہ لوگوں کی طرف منسوب خلاف شریعت اعمال و افعال کے متعلق اخبار و روایات کی صحت سو فیصد یقینی بهی ہو تو بهی ان حضرات سے بدگمانی اور شکایت کا قطعا کوئی جواز نہیں. اگر ایسی خبروں کا صحیح ہونا ہی محل نظر ہو تو معلوم العاقبہ حضرات کے متعلق بدگمانی اور شکایت تو بطریق اولی سخت ناپسندیدہ بلکہ گناہ کبیرہ ہے.
حضرت خضر علیہ السلام کے بظاہر انتہائی خلاف شریعت کاموں پر حضرت موسی علیہ السلام کو جو اشکالات پیش آئے تو وہ اس لئے قطعا بے وزن اور کالعدم قرار پائے کہ حضرت خضر علیہ السلام کا مقرب بارگاہ الہی ہونا اللہ تعالی نے واضح فرمادیا. جب معلوم العاقبہ لوگوں کے خلاف حضرت موسی علیہ السلام جیسی اولوالعزم اور عظیم المرتبت شخصیت کے اشکالات بهی کالعدم ٹهرے تو ایسے حضرات کے بارے میں من و شما کی کیا حیثیت ہے کہ ہم ان کے حقیقی یا مفروضہ خلاف شریعت کاموں کی شماریات مرتب کریں؟ اگر کسی معلوم العاقبہ کے خلاف کسی بدنصیب کے قلب ماوءف میں بغض و عناد کارفرما ہو تو ایسے ملحدین تو انبیاء علیهم السلام کے خلاف بهی انتہائی سنگین جرائم منسوب کرتے رہے ہیں. چنانچہ وہ کون سا ایسا گناہ ہے جو یہود و نصاری نے حضرات انبیاء علیهم السلام کی طرف منسوب نہیں کیا؟ پس اگر کسی خاص شخص یا گروہ کے مغفور و مرحوم ہونیکی اطلاع اللہ اور اس کے رسول نے دی ہو اور یہ خبر قطعی الثبوت اور قطعی الدلالہ ہو تو ایسے لوگ بظاہر کتنے ہی خلاف شرع کام کرتے نظر آئیں تو بهی ان کا انجام بہرحال اچها ہوگا، ورنہ اللہ تعالی جو عالم الغیب والشهادہ ہے ان کے حسن عاقبت کی خبریں ہی ہمیں کیوں دیتا؟
غور کیجئیے برادران یوسف علیہ السلام کے یقینی جرائم کے مقابلے میں صحابہ کرام کے حقیقی یا مفروضہ جرائم تو عشرعشیر کی حیثیت بهی نہیں رکهتے. اگر حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بهائیوں کو لاتثریب علیکم الیوم کی بشارت سنائی تهی تو بعینہہ یہی بشارت رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بهی فتح مکہ کے موقع پر اہل مکہ کو سنائی تهی. اگر برادران یوسف علیہ السلام مغفور و مرحوم ہیں تو سیدالمرسلین سے عفو و درگزر کی بشارت پانے والے مولفتہ القلوب اہل مکہ بهی یقینا مغفور و مرحوم ہیں. یہاں یہ ملحوظ رہے کہ قرآن کریم سے جن اصحاب رسول کے حسن عاقبت کی یقینی خبریں ہمیں حاصل ہوتی ہیں تو ان کا تعلق صرف اور صرف مہاجرین و انصار اور فتح مکہ کے موقع پر اسلام قبول کرنے والے مولفتہ القلوب اہل مکہ سے ہے. چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد صحابہ کرام کی مذکورہ بالا تینوں جماعتوں میں سے کوئی ایک فرد بهی ہرگز ( پهر دہرائیے ) ہرگز مرتد نہیں ہوا.
سورہ المائدہ میں ہے :- یا ایهاالذین آمنوا من یرتد منکم عن دینه فسوف یاتی اللہ بقوم یحبهم و یحبونه اذلة علی المومنین اعزة على الكافرين يجاهدون في سبيل الله ولا يخافون لومة لائم ذالک فضل اللہ یوتیه من یشآء واللہ واسع علیم( المائدہ54).” ائے لوگو جو ایمان لائے ہو تم سے جو کوئی اپنے دین سے پهر جائے تو اللہ عنقریب ایسے لوگ لائےگا جن سے وہ محبت کرتا ہوگا اور وہ اس سے محبت کرتے ہوں گے،ایمان والوں پر نرمی کرنیوالے ہوں گے ، کافروں پر سخت ہوں گے،اللہ کے راستے میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے،یہ اللہ کا فضل ہے وہ اسے جس کو چاہتا ہے دیتا ہے اور اللہ بڑی وسعت والا ہے سب کچهہ جاننے والا ہے” اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد فتنہ ارتداد نمودار ہوا تها یا نہیں؟ اگر نہیں تو ارتداد کے حوالے سے مہاجرین و انصار اور مولفتہ القلوب پر کوئی اعتراض ہی نہ رہا. اگر فتنہ ارتداد ہوا تها اور یقینا ہوا تها تو مزید سوال پیدا ہوتا ہے کہ مذکورہ آیت ارتداد کی روشنی میں کیا اس فتنے کو کچلنے والے اور مانعین زکوه اور جهوٹے مدعیان نبوت کو ان کے منطقی انجام تک پہنچانے والے ان مہاجرین و انصار اور مولفتہ القلوب کے علاوہ کون لوگ تهے؟؟ اور کیا اللہ تعالی نے آیت میں ان لوگوں کو اپنا محبوب قرار نہیں دیا؟ کیا آیت کی رو سے ان پر اللہ تعالی کا خاص الخاص فضل نہیں تها؟ آیت کے آخر میں اللہ تعالی نے اپنے اسمائے حسنی “واسع اور علیم” کا جو ذکر فرمایا ہے تو کیا یہ حضرات اللہ تعالی کی وسعت مغفرت و رحمت میں سما نہیں گئے؟ اور کیا اللہ تعالی کو ان کے ماضی ، حال اور مستقبل کا پورا پورا علم نہیں تها؟’
کیا اللہ کو معلوم نہیں تها کہ بعد میں مسلمانوں کی دو جماعتوں کے درمیان جنگ ہوگی؟ ہر عقل سلیم رکهنے والا شخص یہی جواب دے گا کہ مہاجرین و انصار اور فتح مکہ کے موقع پر اسلام قبول کرنے والے مولفتہ القلوب اہل مکہ یقینا اللہ تعالی کے محبوب ہیں. ان پر اللہ تعالی کا خاص الخاص فضل و کرم ہے. اللہ تعالی کی وسعت مغفرت و رحمت نے انہیں اپنے اندر پوری طرح سمو لیا ہے اور یہ کہ اللہ تعالی کو معلوم تها کہ بعد میں مسلمانوں کی دو جماعتوں کے درمیان جنگ بهی ہوگی، تاہم ان میں خود صحابہ کرام کی بہت بڑی اکثریت شامل نہیں ہوگی. اگر کسی میں ہمت ہے تو ان جنگوں میں شہید ہونیوالے صرف سو صحابہ کرام کے اسمائے گرامی ہی مستند حوالوں سے پیش کردے. اللہ تعالی کو چونکہ خانہ جنگی کا علم تها اسی لئے سورہ الحجرات میں فرمایا کہ ” کہ اگر مومنین کی دو جماعتوں کے درمیان جنگ ہوجائے تو وہ بهی باہم بهائی بهائی ہیں، تم ان میں صلح کروادیا کرو.(الحجرات9-10). سب جانتے ہیں کہ صلح کرانے کا یہ عظیم الشان شرف اور مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگی بشارت کے عین مطابق آپ کے محبوب نواسے حضرت سیدنا حسن رضی اللہ تعالی عنہ کو حاصل ہوا. اور آپ نے ان دو جماعتوں کے مسلمانوں کو ہی دو عظیم جماعتیں قرار دیا.
بالفرض اس صلح کے باوجود اگر بعض لوگوں کے دلوں میں باہم کچهہ غیراختیاری رنجش باقی رہ بهی گئی ہو کیونکہ بعض اوقات قلبی کیفیات پر انسان کو اختیار نہیں ہوتا، تو اہل جنت کے متعلق اللہ تعالی کا سورہ الحجر میں ارشاد ہے:- ونزعنا ما فی صدورهم من غل اخوانا علی سرر متقبلین (الحجر47). “اور ہم ان کے سینوں میں جو بهی کینہ ہے اسے نکال باہر کریں گے، وہ بهائی بهائی بن کر تختوں پر آمنے سامنے بیٹهے ہوں گے.” اور سورہ الاعراف میں ہے : ونزعنا ما فی صدورهم من غل تجری من تحتهم الانهار.(الاعراف43). “اور ان کے سینوں میں جو بهی کینہ ہوگا ہم اسے نکال باہر کریں گے اور ان کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی” سورہ الحشر میں اللہ تعالی نے مہاجرین و انصار کی بےحد مدح فرمائی، پهر بعد میں آنیوالوں کے متعلق ارشاد فرمایا کہ وہ یوں دعا کیا کریں گے کہ اے ہمارے رب ! ہمیں بهی بخش دے اور ہمارے ان بهائیوں کو بهی بخش دے جو ہم سے پہلے ایمان لائے اور ہمارے دلوں میں ان ایمان والوں کے لئے کینہ نہ رکهنا. اے ہمارے رب! بے شک تو بڑا ہی مشفق اور مہربان ہے.(الحشر8-10). یعنی صحابہ کرام رض معصوم عن الخطا نہیں ، ان سے گناہ بهی صادر ہوسکتا ہے، لیکن ان کے گناہوں کی فہرست تیار کرنے کی بجائے ہمیں اپنے لئے بهی اور ان کے لئے بهی استغفار کا حکم ہے.
پهر سوچ لیجئیے کہ صحابہ کرام کے مفروضہ یا حقیقی جرائم برادران یوسف علیہ السلام کے حقیقی جرائم کا عشرعشیر بهی نہیں اور یہ بهی سوچ لیجئیے کہ اگر صحابہ کرام میں کسی بهی طرح کے محض انتظامی اور سیاسی نوعیت کے اختلافات پیدا ہی نہ ہوتے تو ان کے خلاف دلوں میں کینہ رکهنے کا کسی کو کوئی سبب ہی کیسے ملتا ؟ اور یہ بهی سوچ لیجئیے کہ اہل حق وہی ہیں جن کے دلوں میں سورہ حشر کے متعلقہ مضامین کی رو سے کینہ نہیں بلکہ وہ تو اس کینہ سے بچنے کی دعا مانگتے رہتے ہیں. وہ دعا جو خود اللہ تعالی نے ہی انہیں سکهائی ہے. عیاں را چہ بیاں
تحریر پروفیسر ظفر احمد
کیا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ باغی اور بدعتی تھے؟ انجینیئر محمد علی مرزا صاحب کو جواب | الحاد جدید کا علمی محاکمہ
May 29, 2019 at 12:08 pm[…] انجینیئر محمد علی مرزا صاحب نے اپنے ریسرچ پیپر المعروف ہائیڈروجن بم ’’واقعہ کربلا کا حقیقی پس منظر‘‘ میں جا بجا یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی صحابہ کرام کا گروہ، باغی گروہ تھا۔ اور وہ صرف انہیں باغی کہنے پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ اپنے کتابچے کے پانچویں باب بعنوان ’’حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو حکومت مل جانے کے بعد بتدریج اس امت پر کیسی ملوکیت مسلط ہوئی اور اس کا بھیانک نتیجہ کیا نکلا؟‘‘ میں، ص 25 پر، صحیح مسلم کی یہ حدیث بھی نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے بعد کچھ نالائق لوگ جانشین بنیں گے، وہ زبان سے جو کہیں گے، وہ کریں گے نہیں۔ اور جو ان سے ہاتھ سے جہاد کرے گا تو وہ مومن ہے، جو ان سے زبان سے جہاد کرے گا تو وہ مومن ہے، اور جو ان سے دل سے جہاد کرے گا تو وہ مومن ہے، اور اس کے بعد تو رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان نہیں ہے۔ اب یہ بدیانت اور خائن لوگ کس طرح سے وہ حدیثیں جو اپنے مفہوم میں عام ہیں، کھینچ تان کر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی صحابہ کرام پر چسپاں کرتے ہیں! ایک طرف انہیں رضی اللہ عنہ لکھ رہے ہیں اور صحابی مان رہے ہیں، دوسری طرف ان کی گردن اڑانے کو جہاد قرار دے رہے ہیں۔ بس ان کا مطالبہ صرف اتنا ہے کہ چونکہ فلاں صحابی رسول ہے، لہذا اس کی گردن اڑانے سے پہلے بس ’’رضی اللہ عنہ‘‘ پڑھ لینا تا کہ پورے ادب اور احترام سے گردن اڑائی جا سکے، معاذ اللہ، ثم معاذ اللہ۔ اور یہی کام مرزا صاحب اور ان کے فالوورز کر رہے ہیں کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو معاذ اللہ، شرابی، حرام خور، سود خور، بدعتی، باغی اور واجب القتل ثابت کرنے کے لیے پورا زور لگانے کے بعد بس استدعا یہ کر رہے ہوتے ہیں کہ یہ سب کچھ ماننے اور کہنے سے پہلے ان کے نام کے ساتھ ’’رضی اللہ عنہ‘‘ پڑھ لیا جائے، فیا اللعجب۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو بدعتی ثابت کرنے کے لیے مرزا صاحب نے صحیح بخاری کی ایک روایت کو دلیل بنایا ہے کہ جس میں یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی کی تعمیر کے موقع پر حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے کہا تھا کہ عمار کی کم بختی! اسے ایک باغی گروہ قتل کرے گا، عمار تو انہیں جنت کی طرف بلا رہا ہو گا اور وہ عمار کو آگ کی طرف بلا رہے ہوں گے۔ صحیح بخاری کی اس روایت کے بارے صحیح بات یہ ہے کہ امام بخاری نے یہ الفاظ ’’تقتله الفئة الباغية‘‘ کہ عمار کو باغی گروہ قتل کرے گا، اپنی صحیح بخاری میں درج نہیں کیے تھے، یہ صحیح بخاری میں راویوں کا ادراج اور اضافہ ہے۔ ابو مسعود الدمشقی متوفی 401ھ نے اپنی کتاب ’’اطراف الصحیحین‘‘ میں کہا ہے کہ یہ الفاظ کہ عمار کو باغی گروہ قتل کرے گا، امام بخاری نے نقل نہیں کیے ہیں۔ امام بیہقی رحمہ اللہ متوفی 458ھ اپنی کتاب دلائل النبوہ میں کہتے ہیں کہ امام بخاری نے اس روایت کو ’تقتله الفئة الباغية‘‘ کے الفاظ کے بغیر نقل کیا ہے۔ امام حمیدی رحمہ اللہ متوفی 488ھ نے اپنی کتاب ’’الجمع بین الصحیحین‘‘ میں کہا ہے کہ یہ الفاظ امام بخاری نے صحیح بخاری میں درج نہیں کیے تھے، یا اگر کیے بھی تھے تو انہیں حذف کر دیا تھا۔ ابن الاثیر الجزری متوفی 606ھ کہتے ہیں کہ میں نے صحیح بخاری کے ایک نسخے میں، وہ بھی متن میں نہیں بلکہ حواشی میں یہ الفاظ دیکھے ہیں جبکہ بقیہ نسخوں میں یہ الفاظ نہیں ہیں۔ امام مزی متوفی 742ھ اپنی کتاب تحفہ الاشراف میں اور امام ذہبی متوفی 748ھ اپنی کتاب تاریخ الاسلام میں کہتے ہیں کہ یہ الفاظ صحیح بخاری کی روایت میں نہیں ہیں۔ تو کہنے کا مقصد یہ ہے کہ صحیح بخاری کی روایت صرف اتنی سی ہے کہ اس میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی کی تعمیر کے موقع پر حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو کہا تھا کہ عمار تو انہیں جنت کی طرف بلا رہے ہیں اور وہ عمار کو آگ کی طرف بلا رہے ہیں اور اس سے مراد مشرکین مکہ تھے۔ صحیح بخاری کے اصل نسخوں میں ’’تقتله الفئة الباغية‘‘ کہ عمار کو باغی گروہ قتل کرے گا، کے الفاظ نہیں ہیں۔ صحیح بخاری کے شارح حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ الفاظ ’’تقتله الفئة الباغية‘‘ صحیح بخاری میں ادراج یعنی اضافہ ہے اور امام بخاری نے انہیں صحیح بخاری میں درج کرنے کے بعد نکال دیا تھا۔ اور اس کی وجہ یہ تھی کہ اس حدیث کے راوی ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے خود کہا تھا کہ انہوں نے یہ الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں سنے جبکہ بقیہ روایت سنی ہے۔ یہاں مرزا صاحب اور ان کے اندھے معتقدین دوسروں پر ’’منکرین حدیث‘‘ کا فتوی لگانا شروع کر دیتے ہیں کہ یہ بخاری مسلم کی حدیثوں کو نہیں مانتے، وہی پروپیگنڈا مہم جوئی، جس میں دلیل کی بجائے لوگوں کے جذبات سے کھیلنے کا کام زیادہ ہوتا ہے۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی روایات کی صحت پر اجماع ہے، ہم بھی یہی کہتے ہیں اور ہم اس موضوع پر ’’کیا صحیحین کی صحت پر اجماع ہے؟‘‘ کے عنوان سے مستقلا لکھ چکے ہیں کہ جسے گوگل کر کے پڑھا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی روایات پر جرح نہیں ہوئی یا جس نے جرح کی وہ منکر حدیث ہو گیا تو اس طرح تو سب سے پہلے منکر حدیث تو امام الدار قطنی ہوئے۔ تو محدثین ہی کی جماعت کی طرف سے صحیح بخاری اور صحیح مسلم پر جو نقد ہوئی ہے اور اس کے جو جوابات محدثین ہی کی ایک دوسری جماعت کی طرف سے دیے گئے ہیں، تو اس ساری رد وقدح سے صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے وہ چند ایک مقامات متعین ہوگئے ہیں کہ جن میں کچھ علل یا اوہام ہیں۔ اب بعد میں آنے والے، محدثین کی اس نقد کو نقل کریں تو اس کی تو گنجائش آج بھی ہے لیکن کسی نئی جرح یا نقد کا دروازہ کھولیں تو یہ درست منہج نہیں ہے۔ تو ہم نے تو صرف محدثین کو نقل کیا ہے، کوئی ایسی بات نہیں کی جو پہلوں نے نہ کی ہو۔ دوسری بات یہ ہے کہ محدثین کی اس نقد سے صحیح بخاری یا صحیح مسلم کی کوئی مکمل روایت ضعیف نہیں ہوتی بلکہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے بقول ان روایات میں موجود کچھ کلمات (phrases) علل اور اوہام کی وجہ سے درجہ ثبوت کو نہیں پہنچ پاتے، بقیہ روایت صحیح ہوتی ہے۔ یہ الفاظ یعنی ’’تقتله الفئة الباغية‘‘ صحیح بخاری کے علاوہ بھی کتب حدیث میں منقول ہیں، ان کے بارے تفصیل جاننے کے لیے اس موضوع پر ہماری تفصیلی ویڈیوز ملاحظہ فرمائیں۔ یہ تو ان الفاظ کے ثابت ہونے کی بحث ہوئی اور جہاں تک ان الفاظ کے معنی کی بات ہے تو ’’بغی‘‘ کا اصل معنی ’چاہت‘‘ ہے جیسا کہ قرآن مجید کی آیات ’’ابْتِغَاءَ مَرْضَاةِ اللَّهِ‘‘ یعنی اللہ کی رضا چاہنے کے لیے اور حدیث کے الفاظ ’’یا باغی الخیر‘‘ یعنی اے خیر کو چاہنے والے، میں یہی معنی مراد ہے۔ مرزا صاحب عربی کے اس لفظ کو اردو کے ’’باغی‘‘ کے معنی میں مراد لے رہے ہیں جبکہ عربی زبان میں ’’باغی‘‘ کا اصل معنی ’’چاہنے والا‘‘ ہے۔ البتہ بعض اوقات اس لفظ میں ’چاہت‘‘ کے ساتھ کسی معنی کا اضافہ ہو جاتا ہے جیسا کہ آیت مبارکہ ’’تَبْتَغِي مَرْضَاتَ أَزْوَاجِکَ‘‘ اور ’’فَإِنْ بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الأُخْرَى‘‘ میں وہ چاہنا ہے جو اپنے حق سے زائد ہو جبکہ ’’وَالَّذِينَ إِذَا أَصَابَهُمُ الْبَغْيُ‘‘ اور ’’وَيَنْهَى عَنْ الْفَحْشَاء وَالْمُنْکَر وَالْبَغْي‘‘ میں ’’بغی‘‘ سے مراد وہ چاہنا ہے جو آپ کا حق نہ ہو۔ یہ گہرا نکتہ ہے جسے سطحی ذہن کے لیے سمجھنا ممکن نہیں اور دوسرا جذباتی مزاج کے لیے بھی۔ تو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے گروہ کو اس معنی میں ’’باغی‘‘ کہا گیا ہے کہ وہ اپنا حق تو چاہ رہے ہیں یعنی قاتلین عثمان کا بدلہ لیکن اس سے زیادہ چاہ رہے ہیں جتنا ان کا بنتا ہے یعنی ان حالات میں قصاص چاہ رہے ہیں کہ جن حالات میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے وہ قصاص لینا ممکن نہ تھا۔ تو ’’باغی‘‘ اگر ’’متاول‘‘ یعنی تاویل کرتا ہو تو غلطی، اجتہادی ہوتی ہے۔ تو ’’بغی‘‘ دو قسم کی ہے؛ اپنے حق سے زیادہ مانگنا اور دوسرا جو حق نہیں ہے، وہ مانگنا۔ پہلے میں اجتہادی خطا ہوتی ہے اور دوسرے میں خطا ہی خطا ہے۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی ’’بغی‘‘، اجتہادی تھی اور اس کے دلائل یہ ہیں کہ امیر معاویہ کا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کے قتل پر راضی نہ ہونا بلکہ اس کا انکار کرنا کہ ہم نے تو کیا ہی نہیں بلکہ انہوں نے کیا ہے جو انہیں میدان جنگ میں لائے ہیں تو یہی اجتہادی خطا ہے، بھلے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا جواب درست ہو لیکن امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا قتل عمار کا عقیدہ بھی نہیں ہے اوررضا بھی نہیں ہے۔ تو یہ تو کم از کم ثابت ہو گیا کہ اسی لیے تو تاویل کی ہے، چاہے دوسروں کے نزدیک ان کی تاویل غلط بھی ہو، یہ گہری بحث ہے جو ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کی ہے۔ دوسرا صحابہ کی ایک جماعت حضرت علی اور معاویہ رضی اللہ عنہما میں سے کسی کی طرف سے بھی نہیں لڑی، اس حدیث کے معلوم ہونے کے بعد بھی۔ تو انہوں نے اس مسئلہ کو اجتہادی سمجھا، قطعی نہیں جیسا کہ سعد بن ابی وقاص، محمد بن مسلمہ، عبد اللہ بن عمر اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہم بلکہ اکثر کبار صحابہ کسی طرف سے بھی نہیں لڑے۔ تو یہ ان کے لیے جواب ہوا کہ جو ’’تقتله الفئة الباغية‘‘ کو روایت کا صحیح جز سمجھتے ہیں۔ تیسری بات یہ کہ صحیح بخاری کی روایت میں ہے:’’لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَقْتَتِلَ فِئَتَانِ دَعْوَاهُمَا وَاحِدَةٌ‘‘ ترجمہ: قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک کہ دو جماعتیں آپس میں نہ لڑیں اور ان دونوں کا دعوی ایک ہی ہو گا۔ امام ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ان دو جماعتوں سے مراد حضرت علی اور معاویہ رضی اللہ عنہما کی جماعتیں ہیں اور ان کے دعوی سے مراد ’’اسلام‘‘ ہے کہ دونوں ’’اسلام‘‘ کے نام پر لڑیں گے۔ یا پھر ان کے دعوی سے مراد یہ ہے کہ وہ دونوں ’’حق‘‘ پر ہونے کے دعویدار ہوں گے۔ اسی طرح صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ مسلمان تین گروہوں میں بٹ جائیں گے جن میں ایک خوارج ہوں گے اور مسلمانوں میں سے بقیہ دو گروہوں میں سے جو زیادہ حق پر ہو گا، وہ ان خوارج سے قتال کرے گا۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خوارج سے قتال کیا جبکہ حدیث کے الفاظ ہیں؛ ’’أَوْلَى الطَّائِفَتَيْنِ بِالْحَقِّ‘‘ یعنی مسلمانوں کے دو گروہوں میں جو گروہ حق سے زیادہ قریب ہو گا۔ یہ نہیں کہا کہ جو حق پر ہو گا بلکہ دونوں کو حق پر کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کو ’’احق‘‘ یعنی زیادہ حق پر کہا ہے اور وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا گروہ ہے۔ تو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا گروہ باغی یعنی اپنا حق چاہنے والا گروہ ہے، اگرچہ احق نہیں ہے۔مزید تفصیل […]
کیاامیرمعاویہ ؓ باغی اوربدعتی تھے؟انجنیئر محمدعلی مرزا صاحب کوجواب | الحاد جدید کا علمی محاکمہ
May 30, 2019 at 8:04 am[…] انجینیئر محمد علی مرزا صاحب نے اپنے ریسرچ پیپر المعروف ہائیڈروجن بم ’’واقعہ کربلا کا حقیقی پس منظر‘‘ میں جا بجا یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی صحابہ کرام کا گروہ، باغی گروہ تھا۔ اور وہ صرف انہیں باغی کہنے پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ اپنے کتابچے کے پانچویں باب بعنوان ’’حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو حکومت مل جانے کے بعد بتدریج اس امت پر کیسی ملوکیت مسلط ہوئی اور اس کا بھیانک نتیجہ کیا نکلا؟‘‘ میں، ص 25 پر، صحیح مسلم کی یہ حدیث بھی نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے بعد کچھ نالائق لوگ جانشین بنیں گے، وہ زبان سے جو کہیں گے، وہ کریں گے نہیں۔ اور جو ان سے ہاتھ سے جہاد کرے گا تو وہ مومن ہے، جو ان سے زبان سے جہاد کرے گا تو وہ مومن ہے، اور جو ان سے دل سے جہاد کرے گا تو وہ مومن ہے، اور اس کے بعد تو رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان نہیں ہے۔ اب یہ بدیانت اور خائن لوگ کس طرح سے وہ حدیثیں جو اپنے مفہوم میں عام ہیں، کھینچ تان کر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی صحابہ کرام پر چسپاں کرتے ہیں! ایک طرف انہیں رضی اللہ عنہ لکھ رہے ہیں اور صحابی مان رہے ہیں، دوسری طرف ان کی گردن اڑانے کو جہاد قرار دے رہے ہیں۔ بس ان کا مطالبہ صرف اتنا ہے کہ چونکہ فلاں صحابی رسول ہے، لہذا اس کی گردن اڑانے سے پہلے بس ’’رضی اللہ عنہ‘‘ پڑھ لینا تا کہ پورے ادب اور احترام سے گردن اڑائی جا سکے، معاذ اللہ، ثم معاذ اللہ۔ اور یہی کام مرزا صاحب اور ان کے فالوورز کر رہے ہیں کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو معاذ اللہ، شرابی، حرام خور، سود خور، بدعتی، باغی اور واجب القتل ثابت کرنے کے لیے پورا زور لگانے کے بعد بس استدعا یہ کر رہے ہوتے ہیں کہ یہ سب کچھ ماننے اور کہنے سے پہلے ان کے نام کے ساتھ ’’رضی اللہ عنہ‘‘ پڑھ لیا جائے، فیا اللعجب۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو بدعتی ثابت کرنے کے لیے مرزا صاحب نے صحیح بخاری کی ایک روایت کو دلیل بنایا ہے کہ جس میں یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی کی تعمیر کے موقع پر حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے کہا تھا کہ عمار کی کم بختی! اسے ایک باغی گروہ قتل کرے گا، عمار تو انہیں جنت کی طرف بلا رہا ہو گا اور وہ عمار کو آگ کی طرف بلا رہے ہوں گے۔ صحیح بخاری کی اس روایت کے بارے صحیح بات یہ ہے کہ امام بخاری نے یہ الفاظ ’’تقتله الفئة الباغية‘‘ کہ عمار کو باغی گروہ قتل کرے گا، اپنی صحیح بخاری میں درج نہیں کیے تھے، یہ صحیح بخاری میں راویوں کا ادراج اور اضافہ ہے۔ ابو مسعود الدمشقی متوفی 401ھ نے اپنی کتاب ’’اطراف الصحیحین‘‘ میں کہا ہے کہ یہ الفاظ کہ عمار کو باغی گروہ قتل کرے گا، امام بخاری نے نقل نہیں کیے ہیں۔ امام بیہقی رحمہ اللہ متوفی 458ھ اپنی کتاب دلائل النبوہ میں کہتے ہیں کہ امام بخاری نے اس روایت کو ’تقتله الفئة الباغية‘‘ کے الفاظ کے بغیر نقل کیا ہے۔ امام حمیدی رحمہ اللہ متوفی 488ھ نے اپنی کتاب ’’الجمع بین الصحیحین‘‘ میں کہا ہے کہ یہ الفاظ امام بخاری نے صحیح بخاری میں درج نہیں کیے تھے، یا اگر کیے بھی تھے تو انہیں حذف کر دیا تھا۔ ابن الاثیر الجزری متوفی 606ھ کہتے ہیں کہ میں نے صحیح بخاری کے ایک نسخے میں، وہ بھی متن میں نہیں بلکہ حواشی میں یہ الفاظ دیکھے ہیں جبکہ بقیہ نسخوں میں یہ الفاظ نہیں ہیں۔ امام مزی متوفی 742ھ اپنی کتاب تحفہ الاشراف میں اور امام ذہبی متوفی 748ھ اپنی کتاب تاریخ الاسلام میں کہتے ہیں کہ یہ الفاظ صحیح بخاری کی روایت میں نہیں ہیں۔ تو کہنے کا مقصد یہ ہے کہ صحیح بخاری کی روایت صرف اتنی سی ہے کہ اس میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی کی تعمیر کے موقع پر حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو کہا تھا کہ عمار تو انہیں جنت کی طرف بلا رہے ہیں اور وہ عمار کو آگ کی طرف بلا رہے ہیں اور اس سے مراد مشرکین مکہ تھے۔ صحیح بخاری کے اصل نسخوں میں ’’تقتله الفئة الباغية‘‘ کہ عمار کو باغی گروہ قتل کرے گا، کے الفاظ نہیں ہیں۔ صحیح بخاری کے شارح حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ الفاظ ’’تقتله الفئة الباغية‘‘ صحیح بخاری میں ادراج یعنی اضافہ ہے اور امام بخاری نے انہیں صحیح بخاری میں درج کرنے کے بعد نکال دیا تھا۔ اور اس کی وجہ یہ تھی کہ اس حدیث کے راوی ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے خود کہا تھا کہ انہوں نے یہ الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں سنے جبکہ بقیہ روایت سنی ہے۔ یہاں مرزا صاحب اور ان کے اندھے معتقدین دوسروں پر ’’منکرین حدیث‘‘ کا فتوی لگانا شروع کر دیتے ہیں کہ یہ بخاری مسلم کی حدیثوں کو نہیں مانتے، وہی پروپیگنڈا مہم جوئی، جس میں دلیل کی بجائے لوگوں کے جذبات سے کھیلنے کا کام زیادہ ہوتا ہے۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی روایات کی صحت پر اجماع ہے، ہم بھی یہی کہتے ہیں اور ہم اس موضوع پر ’’کیا صحیحین کی صحت پر اجماع ہے؟‘‘ کے عنوان سے مستقلا لکھ چکے ہیں کہ جسے گوگل کر کے پڑھا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی روایات پر جرح نہیں ہوئی یا جس نے جرح کی وہ منکر حدیث ہو گیا تو اس طرح تو سب سے پہلے منکر حدیث تو امام الدار قطنی ہوئے۔ تو محدثین ہی کی جماعت کی طرف سے صحیح بخاری اور صحیح مسلم پر جو نقد ہوئی ہے اور اس کے جو جوابات محدثین ہی کی ایک دوسری جماعت کی طرف سے دیے گئے ہیں، تو اس ساری رد وقدح سے صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے وہ چند ایک مقامات متعین ہوگئے ہیں کہ جن میں کچھ علل یا اوہام ہیں۔ اب بعد میں آنے والے، محدثین کی اس نقد کو نقل کریں تو اس کی تو گنجائش آج بھی ہے لیکن کسی نئی جرح یا نقد کا دروازہ کھولیں تو یہ درست منہج نہیں ہے۔ تو ہم نے تو صرف محدثین کو نقل کیا ہے، کوئی ایسی بات نہیں کی جو پہلوں نے نہ کی ہو۔ دوسری بات یہ ہے کہ محدثین کی اس نقد سے صحیح بخاری یا صحیح مسلم کی کوئی مکمل روایت ضعیف نہیں ہوتی بلکہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے بقول ان روایات میں موجود کچھ کلمات (phrases) علل اور اوہام کی وجہ سے درجہ ثبوت کو نہیں پہنچ پاتے، بقیہ روایت صحیح ہوتی ہے۔ یہ الفاظ یعنی ’’تقتله الفئة الباغية‘‘ صحیح بخاری کے علاوہ بھی کتب حدیث میں منقول ہیں، ان کے بارے تفصیل جاننے کے لیے اس موضوع پر ہماری تفصیلی ویڈیوز ملاحظہ فرمائیں۔ یہ تو ان الفاظ کے ثابت ہونے کی بحث ہوئی اور جہاں تک ان الفاظ کے معنی کی بات ہے تو ’’بغی‘‘ کا اصل معنی ’چاہت‘‘ ہے جیسا کہ قرآن مجید کی آیات ’’ابْتِغَاءَ مَرْضَاةِ اللَّهِ‘‘ یعنی اللہ کی رضا چاہنے کے لیے اور حدیث کے الفاظ ’’یا باغی الخیر‘‘ یعنی اے خیر کو چاہنے والے، میں یہی معنی مراد ہے۔ مرزا صاحب عربی کے اس لفظ کو اردو کے ’’باغی‘‘ کے معنی میں مراد لے رہے ہیں جبکہ عربی زبان میں ’’باغی‘‘ کا اصل معنی ’’چاہنے والا‘‘ ہے۔ البتہ بعض اوقات اس لفظ میں ’چاہت‘‘ کے ساتھ کسی معنی کا اضافہ ہو جاتا ہے جیسا کہ آیت مبارکہ ’’تَبْتَغِي مَرْضَاتَ أَزْوَاجِکَ‘‘ اور ’’فَإِنْ بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الأُخْرَى‘‘ میں وہ چاہنا ہے جو اپنے حق سے زائد ہو جبکہ ’’وَالَّذِينَ إِذَا أَصَابَهُمُ الْبَغْيُ‘‘ اور ’’وَيَنْهَى عَنْ الْفَحْشَاء وَالْمُنْکَر وَالْبَغْي‘‘ میں ’’بغی‘‘ سے مراد وہ چاہنا ہے جو آپ کا حق نہ ہو۔ یہ گہرا نکتہ ہے جسے سطحی ذہن کے لیے سمجھنا ممکن نہیں اور دوسرا جذباتی مزاج کے لیے بھی۔ تو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے گروہ کو اس معنی میں ’’باغی‘‘ کہا گیا ہے کہ وہ اپنا حق تو چاہ رہے ہیں یعنی قاتلین عثمان کا بدلہ لیکن اس سے زیادہ چاہ رہے ہیں جتنا ان کا بنتا ہے یعنی ان حالات میں قصاص چاہ رہے ہیں کہ جن حالات میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے وہ قصاص لینا ممکن نہ تھا۔ تو ’’باغی‘‘ اگر ’’متاول‘‘ یعنی تاویل کرتا ہو تو غلطی، اجتہادی ہوتی ہے۔ تو ’’بغی‘‘ دو قسم کی ہے؛ اپنے حق سے زیادہ مانگنا اور دوسرا جو حق نہیں ہے، وہ مانگنا۔ پہلے میں اجتہادی خطا ہوتی ہے اور دوسرے میں خطا ہی خطا ہے۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی ’’بغی‘‘، اجتہادی تھی اور اس کے دلائل یہ ہیں کہ امیر معاویہ کا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کے قتل پر راضی نہ ہونا بلکہ اس کا انکار کرنا کہ ہم نے تو کیا ہی نہیں بلکہ انہوں نے کیا ہے جو انہیں میدان جنگ میں لائے ہیں تو یہی اجتہادی خطا ہے، بھلے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا جواب درست ہو لیکن امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا قتل عمار کا عقیدہ بھی نہیں ہے اوررضا بھی نہیں ہے۔ تو یہ تو کم از کم ثابت ہو گیا کہ اسی لیے تو تاویل کی ہے، چاہے دوسروں کے نزدیک ان کی تاویل غلط بھی ہو، یہ گہری بحث ہے جو ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کی ہے۔ دوسرا صحابہ کی ایک جماعت حضرت علی اور معاویہ رضی اللہ عنہما میں سے کسی کی طرف سے بھی نہیں لڑی، اس حدیث کے معلوم ہونے کے بعد بھی۔ تو انہوں نے اس مسئلہ کو اجتہادی سمجھا، قطعی نہیں جیسا کہ سعد بن ابی وقاص، محمد بن مسلمہ، عبد اللہ بن عمر اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہم بلکہ اکثر کبار صحابہ کسی طرف سے بھی نہیں لڑے۔ تو یہ ان کے لیے جواب ہوا کہ جو ’’تقتله الفئة الباغية‘‘ کو روایت کا صحیح جز سمجھتے ہیں۔ تیسری بات یہ کہ صحیح بخاری کی روایت میں ہے:’’لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَقْتَتِلَ فِئَتَانِ دَعْوَاهُمَا وَاحِدَةٌ‘‘ ترجمہ: قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک کہ دو جماعتیں آپس میں نہ لڑیں اور ان دونوں کا دعوی ایک ہی ہو گا۔ امام ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ان دو جماعتوں سے مراد حضرت علی اور معاویہ رضی اللہ عنہما کی جماعتیں ہیں اور ان کے دعوی سے مراد ’’اسلام‘‘ ہے کہ دونوں ’’اسلام‘‘ کے نام پر لڑیں گے۔ یا پھر ان کے دعوی سے مراد یہ ہے کہ وہ دونوں ’’حق‘‘ پر ہونے کے دعویدار ہوں گے۔ اسی طرح صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ مسلمان تین گروہوں میں بٹ جائیں گے جن میں ایک خوارج ہوں گے اور مسلمانوں میں سے بقیہ دو گروہوں میں سے جو زیادہ حق پر ہو گا، وہ ان خوارج سے قتال کرے گا۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خوارج سے قتال کیا جبکہ حدیث کے الفاظ ہیں؛ ’’أَوْلَى الطَّائِفَتَيْنِ بِالْحَقِّ‘‘ یعنی مسلمانوں کے دو گروہوں میں جو گروہ حق سے زیادہ قریب ہو گا۔ یہ نہیں کہا کہ جو حق پر ہو گا بلکہ دونوں کو حق پر کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کو ’’احق‘‘ یعنی زیادہ حق پر کہا ہے اور وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا گروہ ہے۔ تو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا گروہ باغی یعنی اپنا حق چاہنے والا گروہ ہے، اگرچہ احق نہیں ہے۔مزید تفصیل […]
تاریخ | الحاد جدید کا علمی محاکمہ
May 30, 2019 at 9:00 am[…] صحابہ ؓکے بارے میں شیطانی فریب-چند مثالیں […]