اہل سنت کے نزدیک ضروری ہے کہ ایک شخص ”دل کی تصدیق“ کے ذریعے بھی شرک سے دامن کش ہو، ”زبان کے اقرار“ کے ذریعے بھی اور پھر ”عملاً“ بھی شرک کو خیرباد کہے۔ اہل سنت کے نزدیک شرک و کفر ’دل کی تکذیب‘ کے ذریعے بھی ہوسکتا ہے، ’زبان کے انکار‘ کے ذریعے بھی، اور ’عمل‘ سے افعالِ شرک میں ملوث ہو کر بھی۔
ایک طرف مرجئہ ہیں جن کے نزدیک کسی بھی ’عمل‘ سے آدمی کفر وشرک کا مرتکب نہیں ہوسکتا جب تک وہ ’دل کی تصدیق‘ اور ’زبان کے اقرار‘ سے دستبردار نہیں ہوتا۔ دوسری طرف خوارج ہیں جو ہر اُس ’عمل‘ کی بنا پر جو کبائر میں آتا ہو آدمی کو کافر قرار دیتے ہیں۔ اِن دونوں گمراہیوں کے بیچ، راہِ وسط و اعتدال پر، اہل سنت ہیں جن کے نزدیک ”ایمان“ کیلئے ’دل کی تصدیق‘ بھی لازم ہے، ’زبان کا اقرار‘ بھی اور ’جوارح کا عمل‘ بھی، البتہ ’جوارح کے عمل‘ کی بابت اہلسنت کے ہاں تفصیل پائی جاتی ہے: ہر کبیرہ گناہ سے کفر لازم نہیں آتا، سوائے کبائر میں سے ان اعمال کے جو نصوصِ شریعت کی رو سے ”کفر اکبر“ یا ”شرک اکبر“ کی جنس میں آتے ہوں اور جوکہ ”نواقضِ اسلام“ کی ذیل میں علمائے اہلسنت نے بیان کر دیے ہیں .
پس ایک انحراف ارجاءکے راستے سے آتا ہے، خواہ وہ کلی ارجاءہو یا جزوی۔ ایک انحراف خارجیت کے راستے سے آتا ہے، خواہ وہ کلی خارجیت ہو یا جزوی۔ اہل سنت کے ہاں جو تکفیر حق ہے، اس کو نہ ماننا تفریط ہے، اور ایسے شخص میں ارجاءکے شعبوں میں سے کوئی شعبہ پایا جاسکتا ہے۔ اہل سنت کے ہاں جو تکفیر ناحق ہے، اس کا ارتکاب کرنا افراط ہے، اور ایسے شخص میں خارجیت کے شعبوں میں سے کوئی شعبہ پایا جاسکتا ہے۔ جہاں موجودہ دور کے ’تکفیری‘ پرانے دور کے ’خوارج‘ ہی کا ایک کلی یا جزوی تسلسل ہیں وہاں آج کے دور کے وہ بہت سے ’مذہبی طبقے‘ جو نواقضِ اسلام ایسے افعال پر کفر اور شرک کی وعید سنانے پر سیخ پا ہوجاتے ہیں، ’ارجاء‘ کے باقیات کا درجہ رکھتے ہیں خواہ کلی طور پر اور خواہ جزوی طور پر۔
جبکہ وہ نکتہ ور جو یہود ونصاریٰ تو کیا ہندوؤں تک کو ’کافر‘ یا ’مشرک‘ قرار دینے پر معترض ہیں ان کیلئے ’مرجئہ‘ سے بھی کوئی بڑا لفظ درکار ہے۔ ’مرجئہ‘ کا لفظ اِن کی گمراہی کے قد کاٹھ پر بہت چھوٹا ہے اور اِن کے غلو کی صحیح عکاسی سے حد درجہ قاصر۔
اِس پر کوئی کلام نہیں کہ ’تکفیری‘ تاریخ اسلامی کے انحرافات میں سے ایک انحراف ہیں۔ لیکن ہر ’انحراف‘ کو جانچنے کیلئے ایک ’استقامت‘ درکار ہے۔ یہ طے کرنے کیلئے کہ آیا کوئی چیز ’ٹیڑھی‘ ہے اور اگر ہے تو ’کتنی ٹیڑھی‘ ہے، خود آپ کو ایک ’سیدھے خط‘ پر پایا جانا ہوتا ہے! سب سے پہلے آپ کو وہ حوالہ referring point درکار ہوتا ہے جو باقی سب جہتوں کیلئے ایک صحیح مرجع بن سکے۔ لہٰذا سب سے پہلے خود آپ کا ”اہل سنت“ ہونا ضروری ہے۔ آپ کا وہ پیمانہ جس سے آپ پیمائش کرنے میں لگے ہیں، بلکہ جس کے بل پر آپ دوسروں کی ’تصحیح‘ کرنے میں لگے ہیں، سب سے پہلے اس ’پیمانے‘ کا ”اصولِ اہلسنت“ سے ثبوت ہونا ضروری ہے۔ تو پھر یہ بتائیے مسائلِ ایمان وکفر کے باب میں آپ نے ”اصولِ اہلسنت“ پر کیا پڑھ رکھا ہے؟’اہل بدعت‘ کا تعین ”اہل سنت“ ہی کو referring point مان لینے کے بعد ہوسکتا ہے۔ جو چیز ضروری ہے وہ یہ کہ سب سے پہلے آپ اپنا ’پیمانہ‘ چیک کریں۔ سب سے پہلے آپ اپنا referring point متعین کریں۔ سب سے پہلے آپ اِس بات کا فیصلہ کریں کہ ائمہء سنت کے نزدیک افعالِ شرک یا افعالِ کفر کیا ہیں اور اِس سے متعلقہ مباحث اگر جاننے کے ہیں تو وہ کیا ہیں؟ عین وہ کونسا نقطہ ہے جہاں سے مرجئہ اور اہلسنت کے راستے الگ الگ ہوتے ہیں اور عین وہ کونسا نقطہ ہے جہاں سے خوارج اور اہلسنت کی راہیں جدا جدا ہوتی ہیں؟ پھر خود بخود واضح ہونے لگے گا کہ افراط کہاں ہے اور تفریط کہاں؟ بصورتِ دیگر یہ ایک بحث ہے جس کا نہ کوئی نقطہء آغاز ہے اور نہ نقطہء اختتام۔
یہ ایک نہایت انصاف کی بات ہے۔ جو شخص بھی ایک حق جو کی نظر سے ’فرقوں‘ اور ’انحرافات‘ کا مطالعہ کرنا چاہتا ہے ، اس کے ہر ہر باب میں اس شخص کو اِس ’نقطہء وسط‘ ہی کی تلاش سب سے پہلے کرنا ہوگی۔ پھر ہی یہ ممکن ہے کہ گمراہی کی ہر ہر جہت اُس کو خوب خوب نظر آنے لگے۔ یہ نہ ہو تو ’فرقوں‘ کے مطالعہ کا ہر باب دراصل ایک ’جدلیات‘ diallect سے عبارت ہوتا ہے یعنی دو انتہاؤں کے بیچ نری ایک کھینچاتانی۔.دو انتہائیں ایک دوسری کے حق میں حَکَم نہیں ہو سکتیں۔ اہل وسط ہی اہل عدل ہوسکتے ہیں۔ چنانچہ دیکھا گیا ہے اہلسنت ہی ہر ہر باب میں فرقوں کے مابین حَکَم بنتے اور بن سکتے ہیں۔ یہ اِن کا ایک فطری منصب ہے اور آپ سے آپ اِن کو حاصل ہوجاتا ہے، بشرطیکہ یہ اپنے منہجِ حق کو پورے زور اور قوت کے ساتھ سامنے لے کر آئیں۔اِس بات پر شرعی حقائق بھی شاہد ہیں اور تاریخی وقائع بھی ۔۔ مثلا یہ ممکن نہیں کہ رافضی یہ بتائیں کہ ناصبی کون ہوتے ہیں یا ناصبی یہ بتائیں کہ رافضی کون ہوتے ہیں۔
رافضی وہ ہیں جو اہل بیت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تعظیم کی آڑ میں صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر طعن وتشنیع کریں اور جوکہ آج بھی بے حد زیادہ ہیں۔ ناصبی وہ ہیں جو صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی توقیر کی آڑ میں اہل بیت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حق میں گستاخی کریں، اور یہ بھی کچھ نہ کچھ ابھی پائے جاتے ہیں۔ بیچ میں، راہِ وسط و اعتدال پر، اہل سنت ہیں جو اِس بات کو ہی گمراہی کا نقطہء آغاز سمجھتے ہیں کہ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور اہل بیت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دو متحارب کیمپوں میں بانٹ کر دیکھا جائے۔ اہلسنت کے ہاں ہر دو کی تعظیم ایمان کا حصہ ہے اور ہر دو کی توہین ایمان کے منافی اور سراسر گمراہی۔
رافضہ جو اس بات کو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ولایتِ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر وصیتیں کر کر کے گئے ایمان کی اساسیات میں سے جانتے ہیں، اہل بیت کی تعظیم کا حق ہی یہ جانتے ہیں کہ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حق پر (نعوذ باللہ) ڈاکہ ڈالنے والے صحابہ کو ظالم جانا جائے۔ واقعتاً اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حقِ حکمرانی پر صحابہ کیلئے واضح اور قطعی نصوص چھوڑ کر اور صحابہ سے اِس پر عہد لے لے کر گئے ہیں (جوکہ غلط ہے) تو صحابہ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا علی کو دیا ہوا یہ حق ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دے ڈالنا ظلم اور غصب ہی بنتا ہے۔۔ لہٰذا جن کے نزدیک علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حقِ ولایت کو ماننا ایمان کا حصہ ہے خود بخود ان کے نزدیک علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پچیس سال تک اِس ’حق‘ سے محروم رکھنا ظلم کہلائے گا اور علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو (نعوذ باللہ) اِس ’حق‘ سے محروم رکھنے والوں کو ’عدل پر‘ جاننا اور اِس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چھوڑی ہوئی (مزعومہ) نصوص اور وصیتوں کو بالائے طاق رکھنے والوں کو ’برحق‘ ماننا خود بخود ’ناصبیت‘ کہلائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ رافضیوں کے ہاں ہم اہلسنت کیلئے جو لفظ مستعمل ہے وہ ’ناصبیت‘ ہی ہے۔
دوسری جانب ناصبی ہیں جو معسکرِ شام کو خلیفہء راشد علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مقابلے میں برحق اور اولیٰ تر ثابت کرنے کیلئے بلکہ تو دور بنی امیہ میں اہل بیت پر روا رکھے گئے ظلم کو دلائلِ جواز فراہم کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں اور اپنی اِس کوشش میں اہل بیت کی وقعت کم کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے۔ نتیجہ یہ کہ جہاں رافضیوں نے کتب تاریخ میں مبالغہ اور دروغ کے دفتر لکھ رکھے ہیں وہاں ناصبیوں نے بھی اس مسئلہ کا ’دوسرا رخ‘ دکھانے کیلئے جھوٹ کے پلندے چھوڑے ہیں اور اِس پر پورا زور صرف کیا کہ اہل بیت کی عظمت کو مجروح کیا جائے۔ چنانچہ ہر وہ شخص جو اہل بیت کی بابت کوئی ناروا بات سننے کا روادار نہیں، وہ اِن ناصبیوں کے نزدیک ’تشیع سے متاثر‘ خیال کیا جاتا ہے اور ’رافضیت‘ کے ایک شعبے پر مانا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ نواصب نے طبری رحمۃ اللہ علیہ ایسے ائمہء سنت کو ’رافضی‘ کہنے سے دریغ نہ کیا۔ یہاں تک کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ تک اِس لقب سے نوازے گئے!
چنانچہ روافض سے پوچھیں تو وہ اہلسنت کو ہی ’نواصب‘ کہیں گے۔ ’نواصب‘ سے پوچھیں تو وہ اہلسنت کو ہی ’روافض‘ کے ساتھ ملائیں گے۔۔۔۔ یعنی ہر دو کا بولنا، اہلسنت ہی کا نقصان! ہر دو کا فروغ پانا، راہِ وسط کیلئے خسارہ!
– اِسی طرح، قدریہ سے پوچھا جائے تو وہ اہلسنت کے موقف کو ’عقیدہء جبر‘ کا نام دیں گے۔ جبریہ سے پوچھ کر دیکھیں تو وہ اہلسنت کے اعتقادِ وسط سے اپنا عدم اطمینان ظاہر کرتے ہوئے اہلسنت عقیدہ کو ’قدریہ‘ کے ساتھ ملائیں گے!
پس۔۔۔۔ لازم ہے کہ ’مرجئہ‘ جب بھی بتائیں کہ ’خوارج‘ اور ’تکفیری‘ کون ہیں تو اُن کی تجویز کردہ تعریف کا انطباق کرنے سے اہلسنت ہی ’خوارج‘ اور ’تکفیری‘ نکلیں!
دوسری طرف، لازم ہے کہ ’خوارج‘ اور ’تکفیری‘ جب بھی یہ بتانے جائیں کہ ’مرجئہ‘ کون ہوتے ہیں (اور بلاشبہ کچھ گمنام لکھاریوں کے چھوٹے چھوٹے رسالے گردش کرتے اِس موضوع پر آپ دیکھ بھی سکیں گے)۔۔۔۔ لازم ہے کہ اِن تکفیری رجحانات کی دی ہوئی تعریفات کی رو سے بہت سے ائمہ واَعلامِ اہلسنت ’مرجئہ‘ نکلیں اور بہت سے داعیانِ دین پر ’مداہنت‘ کے فتوے لگیں!
پس جب بھی ایک گمراہی کے ہاتھ میں معاشرے کا ’مائیکروفون‘ آئے گا اور وہ ’دوسری طرف‘ کی گمراہی کا رد کرے گی تو اُس ’رد‘ کے تحت زیادہ تر اصولِ اہلسنت ہی کا خون ہو رہا ہوگا۔ جب بھی معاملہ ایک انتہا کے ہاتھ میں آئے گا اس کی مخالف انتہا کو ’رگیدنے‘ کا عمل دراصل اہلسنت کی زمین سے گزرے گااور اہلسنت افکار ہی کی فصلیں تہس نہس کرنے لگے گا۔ہاں البتہ اگر اہلسنت اُس وقت اور اُس خطے میں زندہ ہوں اور اپنے اصول کو صحیح انداز میں اور بروقت اور مطلوبہ قوت کے ساتھ سامنے لائیں، تو یہ ممکن ہے، بلکہ تو ہمیشہ یہ ہوا ہے، کہ دو منحرف انتہاؤں کی کشاکش کو اصول اہلسنت کی فتح مندی کا ذریعہ بنا دیا جائے!
چنانچہ یہ تو ایک طبعی بات ہے کہ فکرِ ارجاءسے متاثر یہاں کے مذہبی طبقے جب اپنے پیروکاروں کو ’تکفیریوں‘ کی بابت ’معلومات‘ دیں تو اُس وقت وہ توحید کے کئی ایک خالص اصیل مباحث کا ہی گلا گھونٹ رہے ہوں.۔اور یہ تو واضح ہے کہ آج اِس وقت ہمارے ہاں، بلکہ دنیا کے ایک بڑے حصے میں، یہی ہورہا ہے۔ اور اِس کو کوریج دینے میں بہت سی قوتوں کے بہت سے دور رس مقاصد کارفرما ہیں۔تو پھر کیا یہ درست ہوگا کہ مرجئہ یہ بتاتے پھریں کہ ’تکفیری‘ کون ہوتے ہیں، اور تکفیری یہ بتانے چلیں کہ ’مرجئہ‘ کون ہوتے ہیں؟ جبکہ حال یہ ہو کہ نہ مرجئہ اپنے آپ کو ’مرجئہ‘ کہیں اور نہ تکفیری اپنے آپ کو ’تکفیری‘ تسلیم کریں!’دونوں‘ کی بابت ٹھیک ٹھیک بات بتانے کا پس اگر کوئی اہل ہے تو وہ اہلسنت ہی ہوسکتے ہیں۔ اور ان شاءاللہ اہلسنت ہی یہ فرض انجام دیں گے، کہ دراصل یہ منصب ہی ان کیلئے بنا ہے!اہلسنت جب کھڑے ہوں تو یہ منصب ان کے پاس خود بخود آتا ہے!
استفادہ تحریر حامد کمال الدین، سہ ماہی ایقاظ