اکثر و بیشتر مذھبی اور مغربی فکر میں پاۓ جانے والے تصورات آزادی کو بری طرح خلط ملط کرکے ”اسلام بھی انسانی آزادی کا حامی ھے” کا دعوی داغ دیا جاتا ھے، یہی نہیں بلکہ یہاں تک کہہ دیا جاتا ھے کہ ”اصل آزادی تو ھے ہی اسلام میں”۔
اچھی طرح سمھنا چاھئے کہ تصور آزادی دو معنی میں استعمال ھوتا ھے، ایک آزادی بطور صلاحیت (freedom as ability) دوسرا آزادی بطور قدر (freedom as value)۔ آزادی بطور صلاحیت کا معنی انسان کی اس صلاحیت کا اقرار کرنا ھے کہ انسان اپنے ارادے سے ایک عمل اختیار یا رد کرنے کی صلاحیت رکھتا ھے (ان معنی میں آزادی ‘جبروقدر’ کی بحث سے جنم لینے والا ایک تصور ھے)، یعنی جس طرح انسان میں سماعت و بصارت وغیرہ کی صلاحیت ھے اسی طرح کسی درجے میں ارادے کی آزادی کی صلاحیت بھی ھے۔ مذہبی تصور آزادی کی حقیقت بس اتنی ھی ھے، مذھبی فکر میں آزادی خیر و شر کی تعیین و تفہیم میں کوئ اصولی حیثیت نہیں رکھتی (یہی وجہ ھے کہ کسی فقہی ڈسکورس میں آزادی کو مصدر شریعت نہیں سمجھا گیا)۔ اسکے مقابلے میں آزادی بطور قدر کا معنی یہ ھے کہ انسان کے اس ارادہ کر سکنے کی صلاحیت کو بالذات مقصد اور قدر (خیر) گرداننا ھے نیز اس میں اضافے کو اصل الاصول مان کر خیر وشر کے معاملات طے کرنا ھے۔ آسان الفاظ میں آزادی بطور قدر کا معنی آزادی کو خود آزادی کے پیمانے پر جانچنا ھے، نہ کہ اس سے ماوراء اور باہر کسی دوسرے پیمانے پر۔ مغربی ڈسکورس میں تصور آزادی اس دوسرے معنی میں استعمال ھوتا ھے۔
ایک آسان مثال سے اس فرق کو سمجھا جاسکتا ھے۔ فرض کریں آپ اپنے لڑکے کو اپنی مرضی سے شادی کرنے کی آزادی دیتے ہیں۔ وہ لڑکا ایک لڑکے یا خسرے سے شادی کرکے اسے گھر لے آتا ھے۔ اس موقع پر اگر آپ یہ کہیں کہ یہ عمل جائز نہیں کیونکہ شرع میں اسکی اجازت نہیں، تو اس صورت میں آپ آزادی کو آزادی کے اصول پر نہیں بلکہ اس سے باہر کسی دوسرے پیمانے (شرع) پر جانچ رھے ہیں، لہذا آپ ‘آزادی بطور قدر’ کو نہیں مان رھے کیونکہ آپ ‘حقوق’ اخذ کرنے کیلئے آزادی کے علاوہ کسی دیگر پیمانے کو بنیاد بنا رھے ہیں۔ اس کے مقابلے میں مغربی ڈسکورس میں آزادی کو آزادی سے ماوراء کسی دوسرے تصور پر جانچنے کا نہ تو کوئ تصور و پیمانہ موجود ھے اور نہ ہی اسکی گنجائش، یہاں آزادی (صلاحیت) کو جانچنے کا جائز پیمانہ صرف یہ ھے کہ آیا اس عمل سے آزادی (بحیثیت اصول) میں اضافہ ھوتا ھے یا نہیں۔ چنانچہ مغربی فکر میں لڑکے کی لڑکے یا خسرے سے اس شادی کو جائز و مستحسن عمل سمجھا جاۓ گا کیونکہ اسکے ذریعے اظہار ذات کا ایک نیا طریقہ دریافت کرلیا گیا، یعنی فرد کے اپنے ارادے کو چاھنے اور اسے حاصل کرسکنے میں اضافہ ھوگیا۔
خلاصہ یہ کہ مذھبی ڈسکورس میں قدر آزادی نہیں بلکہ عبدیت ھے، یعنی یہاں اھم بات یہ نہیں کہ انسان جو چاھنا چاھتا ھے اسے چاھنے لائق بنتا جا رہا ھے یا نہیں بلکہ قابل قدر بات یہ ھے کہ انسان وہ چاہ رہا ھے یا نہیں جو خدا چاھتا ھے کہ وہ چاھے۔ دوسرے لفظوں میں یہاں قدر ‘آزادی بطور قدر کی نفی’ کرکے فنا کے درجے پر فائز ھونے کی کوشش کرنا ھے۔ چنانچہ معلوم ھوا کہ آزادی بطور قدر کا اصل مطلب عبدیت کی نفی کرکے اپنے رب کا باغی بن جانا ھے۔ اسی لئے مغربی تصور آزادی کی درست قرآنی تعبیر ‘بغی’ (سرکشی) کے الفاظ سے ھوتی ھے نہ کہ مذھبی تصور آزادی سے۔