شریعت نے مباشراورمتسبب کے حکم میں فرق کیاہے اور یہ کہ شریعت کے قواعد کی رو سے فعل مباشر ہی کیطرف منسوب کیاجاتاہے،الا یہ کہ مباشر متسبب کے ہاتھ میں ایک آلےکی حیثیت رکھتاہوں۔ظاہرہےووٹرز یا ٹیکس دہندگان کویہ طاقت حاصل نہیں ہوتی کہ حکومت اور فوج کی حیثیت ان کے ہاتھ میں ایک آلے کی سی رہ جائے۔اس لئےووٹرز یا ٹیکس دہندگان کی طرف”المباشرۃ بالقتال”کافعل منسوب نہیں کیاجاسکتا۔
اس امر کی مزید وضاحت کےلئےکہ،شریعت نے براہِ راست اور بلواسطہ جنگ میں حصہ لینے کے درمیان فرق برتاہے،عہدِ رسالت میں جنگوں میں خواتین کی شرکت کے مسئلہ پرذراتفصیلی بحث پیش کی جاتی ہے۔یہ ایک معلوم اورمسلم حقیقت ہے کہ خواتین نے کئی غزوات میں زخمیوں کی مرہم پٹی اوردیگرخدمات انجام دی ہیں۔دیکھنایہ ہےکہ ان کی اس نوعیت کی شرکت کو فقہائےکرام کس طرح دیکھتےہیں اوراس کا کیا حکم متعین کرتےہیں؟امام محمد بن الحسن الشیبانی اس ضمن میں فرماتےہیں: [جہاں تک عمررسیدہ خواتین کا تعلق ہے تواس میں کوئی حرج نہیں کہ زخمیوں کی طبی مدد کےلئے بڑےلشکروں کےساتھ نکلیں]۔(شرح الکتاب السیر الکبیر، باب الجہاد ما یسع منہ وما لا یسع،ج1 ص128)
آگے وہ امِ عطیہ رضی اللہ عنہا کی مثال پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے اس مقصد کےلئے سات غزوات میں رسول اللہ ﷺ کےساتھ شرکت کی اور وہ کھانا پکاتی، پیاسوں کوپانی پلاتی اور زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی تھیں۔اسکے بعد انتہائی اہم تصریح کرتےہیں : [لیکن یہ بات مجھے پسند نہیں ہیں کہ وہ لڑائی میں حصہ لیں۔]
۔(ایضاََ)
اس سے معلوم ہواکہ میدانِ جنگ میں جاکر بھی مقاتلین کےلیے کھانا پکانے،پانی پلانے اوران کے زخمیوں کی مرہم پٹی کرنےکے اعمال کو بھی براہِ راست لڑائی میں حصہ لینے(المباشرۃ بالقتال)سے یکسر مختلف کام ہیں۔اسی لئے اس کا حکم بھی مختلف ہے۔مثال کے طور پر مالِ غنیمت میں صرف اسی کا مقررہ حصہ(سھم)ہوتا تھاجو لڑائی میں حصہ لیتاتھا۔جو لوگ میدانِ جنگ میں موجودتوہوتے مگرجنگ میں حصہ نہیں لیتے،جیسے بچے،عورتیں یا غلام،تو انہیں مالِ غنیمت میں حصہ نہیں ملتا ۔البتہ غلام یادیگر غیرمقاتلین جنگ میں حصہ لیتے تو انہیں مناسب سا انعام(رضخ)،جس کی مقدار حکمران کی صوابدید پر منحصر ہوتی تھی،دیاجاتا۔خواتین کےلئے حکم یہ تھا کہ اگر جنگ میں براہِ راست حصہ لینے کے بجائے دیگر نوعیت کی خدمات سرانجام دیں تو انہیں رضخ دیاجاتا۔چنانچہ امام شیبانی فرماتےہیں:
[ہمارے نزدیک بچے کےلئےغنیمت میں حصہ نہیں ہے۔۔۔۔۔بچوں کےعلاوہ دیگرغیرمقاتلین کو غیر مقدر حصہ ملےگا بشرط یہ کہ وہ لڑائی میں شریک ہوں۔البتہ عورتوں کو یہ غیر مقدر حصہ ملےگا (خواہ وہ لڑائی میں براہِ راست حصہ نہ لے)جب وہ زخمیوں کی دیکھ بھال اور غازیوں کےلئے کھانا پکانے کےلیے(فوج کےساتھ )جائیں۔]۔(ایضاََ،ج3 ص67)
عورتوں کا غنیمت میں حصہ نہیں ہوتا کیونکہ وہ جنگ میں حصہ نہیں لیتیں۔ تاہم یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہےکہ اگر وہ جنگ میں زخمیوں کی تیمارداری کریں یا کسی اور طریقے سے جنگ میں حصہ لیں تب بھی ان کو مالِ غنیمت میں مقررہ حصہ (سھم)نہیں ملے گا۔البتہ اس صورت میں امام ان کی کارکردگی کے اعتراف میں انہیں مالِ غنیمت میں ہی کچھ مال بطورِ انعام (رضخ)دےگا۔اسکی وجہ یہ ہےکہ مالِ غنیمت میں مقررہ حصہ مقاتلین کے لیےہے جبکہ عورتوں کے متعلق مفروضہ یہ ہےکہ اصلاََ غیرمقاتلہ ہے۔تاہم قتال میں حصہ لینے کی وجہ سے وہ غنیمت میں سے کچھ حصہ لینے کی مستحق ہوجاتی ہے۔یہ حصہ باقاعدہ مقاتل کے حصہ کے برابر تو نہیں ہوتا لیکن اسے اس بات کے اعتراف میں دیاجاتاہے کہ اس جنگ میں حصہ لیاتھا۔گویا وہ وقتی طور پر مقاتلہ ہوگئی تھی۔امام سرخسیؒ نے واضح کیاہےکہ سھم ہویا رضخ،چونکہ ہر دوصورتوں میں اس کی ادائیگی مالِ غنیمت میں ہوتی ہے اس لئے ادائیگی کا استحقاق جنگ میں حصہ لینے کی وجہ سے ہوتا ہے۔( شرح الکتاب السیر الکبیر،باب سھمان الخیل فی دارالحرب،ج3،،ص49) ان دونوں میں فرق صرف یہ ہے کہ سھم باقاعدہ مقاتل کو ادا کیا جاتاہے جب کہ رضخ اس کو ادا کیا جاتاہے جوباقاعدہ مقاتل نہ ہو مگر کسی موقع پر قتال میں حصہ لے۔
یہاں اس معاملے سے متعلق ایک اور اہم اصول کی طرف بھی توجہ دلانی ضروری ہےکہ اسلامی قانون کی رو سے دشمن مقاتلین کو امان دینے کا اختیارصرف اسی مسلمان کو حاصل ہوگا جوجنگ میں حصہ لے۔چنانچہ مسلمان تاجر کو خواہ وہ دارالحرب میں گیا ہو،یہ اختیار حاصل نہیں ہےکیونکہ وہ دارالحرب میں تجارت کےلئےجاتاہے،جسے جہاد میں شامل نہیں سمجھاجاتا۔جبکہ مسلمان عورت کو یہ اختیار حاصل ہے خواہ وہ مجاہدین کےساتھ محض کھانا پکانے یا مرہم پٹی کےلئے جاتی ہوکیونکہ اس کے یہ افعال جہاد میں شمار سمجھےجاتےہیں۔
امام شیبانی عورت کے امان کےاختیار کےلئے سیدہ زینب رضی اللہ عنہا اورسیدہ ام ہانی رضی اللہ عنہا کے واقعات سے استدلال کرتے ہیں۔امام سرخسی اس ضمن میں قانونی اصول کی وضاحت جن الفاظ میں کرتے ہیں وہ اہم ہیں:[اس حکم کا سبب یہ ہےکہ عورت جہاد کی اہلیت رکھتی ہے کیونکہ وہ مال کےذریعے جہاد کرتی ہے اور جان کےذریعے بھی کیونکہ وہ بیماروں کو طبی امداد فراہم کرنے اور روٹی پکانےکےلئےجاتی ہے اور اس کی جانب سے جہاد ہے۔]۔(المبسوط،ج10 ص73)
اس سے یہ حقیقت واضح ہوئی کہ طبی امداد کی فراہمی، جنگ کےلئے مالی تعاون اور اس نوعیت کے دیگر کاموں کو فقہائےکرام “جہاد” میں شامل سمجھتے ہیں اور اس اصول پر بعض احکام کی بنا بھی کرتے ہیں لیکن وہ اسےالمباشرۃ بالقتال نہیں مانتے اور اسی وجہ سے عورتوں کو جنگ میں جائز ہدف نہیں مانتے تھے۔یہی حکم ان تمام لوگوں کےلئے ہیں جوجنگ میں” براہِ راست”حصہ نہیں لیتے۔
معاہد ومستأمن (غیر ملکی سفیر وسیاح وغیرہ) کوعمداً یا خطاً قتل کرنے کی حرمت:
اوپر کی بحث میں اس متعلق بھی تفصیل موجود ہے مسئلے کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے اسکو الگ سے بھی واضح کیا جاتا ہے۔ اسلام میں ذمی (وہ غیر مسلم جو مسلم ملک میں جزیہ(ٹیکس)دے کر رہتے ہیں) معاہد (جو اسلامی ملک میں معاہدے کے تحت آیا ہو) اور مستأمن (جسے مسلمانوں نے امان دی ہو) کو قتل کرنا حرام ہے۔ غیر ملکی سفیر یا سیاح انہی صورتوں کے تحت ہی مسلم ملکوں میں آتے ہیں اس لیے انکا قتل بھی حرام ہے۔ انکو قتل کرنے کے بارے میں شدید وعید وارد ہوئی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب صحیح بخاری حدیث نمبر: 3166 میں حدیث روایت فرمائی ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی رحمۃ للعالمین ﷺ نےفرمایا:’’مَنْ قَتَلَ مُعَاهَدًا لَمْ يَرِحْ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ، وَإِنَّ رِيحَهَا تُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ أَرْبَعِينَ عَامًا‘۔‘ ترجمہ:
(جس کسی نے معاہد کو قتل کیا وہ جنت کی خوشبو بھی نہ پاسکے گا حالانکہ اس کی خوشبو تو چالیس سال کی مسافت سے بھی سونگھی جاسکتی ہے)۔
امام بخاری رحمہ اللہ اسے کتاب الجزیۃ میں باب ’’إِثْمِ مَنْ قَتَلَ مُعَاهَدًا بِغَيْرِ جُرْمٍ‘‘ (جو کسی معاہدکو بلاجرم کے قتل کرے اس کا گناہ)کے تحت لے کر آئے ہیں ۔
اسی طرح سے اسے کتاب الدیات میں باب ’’إِثْمِ مَنْ قَتَلَ ذِمِّيًّا بِغَيْرِ جُرْمٍ‘‘ (جو کسی ذمی کو بلاجرم کے قتل کرے اس کا گناہ)کے تحت بھی لائے ہيں اور وہاں یہ الفاظ ہیں:’’مَنْ قَتَلَ نَفْسًا مُعَاهَدًا لَمْ يَرِحْ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ، وَإِنَّ رِيحَهَا لَيُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ أَرْبَعِينَ عَامًا‘‘
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں اسی حدیث کے ضمن میں ذمی اور معاہد کی تعریف کرتے ہوئےفرماتےہیں: اس سے مراد ہر وہ شخص جس کا مسلمانوں سے عہد ہو چاہے جزیہ کے ذریعے ہو یا حکمران کی جانب سے کسی معاہدے کے تحت ہو یا کسی بھی مسلمان نے اسے امان دی ہو۔
سیدنا ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’مَنْ قَتَلَ مُعَاهِدًا فِي غَيْرِ كُنْهِهِ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ‘‘۔ ترجمہ :(جس کسی نے معاہد کو بے وقت قتل کیا اللہ تعالی نے اس پر جنت حرام فرمادی)۔اسےامام ابو داود رحمہ اللہ نے حدیث نمبر:2760 اور امام نسائی رحمہ اللہ نےحدیث نمبر: 4747 میں صحیح سند کے ساتھ روایت فرمایا۔ امام نسائی رحمہ اللہ نے حدیث نمبر:4748 میں ان الفاظ کا اضافہ نقل فرمایا:’’أَنْ يَشُمَّ رِيحَهَا‘‘۔ ترجمہ :(اللہ تعالی نے اس پر حرام کردیا کہ وہ جنت کی خوشبو بھی سونگھ پائے)۔امام المنذری رحمہ اللہ نے الترغیب والترہیب 2/635 میں فرمایا: ’’فِي غَيْرِ كُنْهِهِ‘‘ کا معنی ہے بے وقت یعنی ایسے وقت میں قتل نہيں کیا جب اس کا قتل جائز تھا یعنی اس کا کوئی عہد ومعاہدہ نہیں تھا۔اور فرمایا: اسے ابن حبان نے اپنی صحیح میں روایت فرمایا اور اس کے الفاظ ہیں:’’مَنْ قَتَلَ نَفْسًا مُعَاهَدَةً بِغَيْرِ حَقِّهَا، لَمْ يَرِحْ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ، وَ إِنَّ رِيحَ الْجَنَّةِ لَتُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ مِائَةِ عَامٍ‘‘۔ ترجمہ :(جس کسی نے ناحق کسی معاہد جان کو قتل کیا وہ جنت کی خوشبو بھی نہ پاسکے گا حالانکہ اس کی خوشبو تو سو سال کی مسافت سے سونگھی جاسکتی ہے)۔
شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے۔ جہاں تک معاملہ ہے کسی معاہد کو خطاً قتل کرنا تو اللہ تعالی نے اس بارے میں دیت اور کفارہ واجب قرار دیا ہے۔
فرمان الٰہی ہے:﴿وَاِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍۢ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَھُمْ مِّيْثَاقٌ فَدِيَةٌ مُّسَلَّمَةٌ اِلٰٓى اَھْلِهٖ وَتَحْرِيْرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنة ۚ فَمَنْ لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ ۡ تَوْبَةً مِّنَ اللّٰهِ ۭ وَكَانَ اللّٰهُ عَلِيْمًا حَكِيْمًا﴾
ترجمہ :اور اگر مقتول اس قوم سے ہو کہ تم میں اور ان میں عہد و پیمان ہے تو خون بہا لازم ہے، جو اس کے کنبے والوں کو پہنچایا جائے اور ایک مسلمان غلام آزاد کرنا بھی ضروری ہے، پس جو نہ پائے اس کے ذمے لگاتار دو مہینے کے روزے ہیں اللہ تعالیٰ سے بخشوانے کے لئے ، اور اللہ تعالیٰ بخوبی جاننے والا اور حکمت والا ہے۔(النساء: 92)
استفادہ کتاب’ جہاد، مزاحمت اور بغاوت از ڈاکٹر مشتاق احمد
کیاتمام ٹیکس دہندگان مقاتلین (جنگ لڑنےوالے) میں شمارہونگے ؟ | الحاد جدید کا علمی محاکمہ
March 31, 2018 at 9:20 am[…] عموما جنگ میں براہ راست حصہ لینے والوں کو مقاتلین شمار کیا جاتا ہے ، یہاں یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ” جنگ میں براہِ راست حصہ لینے”سےکیا مراد ہے؟بعض لوگوں کی جانب سے یہ رائے سامنےآئی ہےکہ چونکہ فوج کےاخراجات ان ٹیکسوں سے پورے کئے جاتے ہیں جو حکومت اپنے شہریوں پرلگاتی ہے اس لیےہروہ شخص مقاتل ہے جو ٹیکس اداکرتاہے کیونکہ اس طرح وہ مال کے ذریعےقتال میں حصہ لے رہاہے۔اسی طرح ان لوگوں کے نزدیک وہ تمام دانشور، ماہرین اور اہلِ علم بھی مقاتل شمار ہونگےجن کی آراءیانظریات کسی طور جنگ میں ممدومعاون ہوں۔حقیقت یہ ہےکہ اگر اس رائے کو تسلیم کیا گیا توپورےاسلامی آداب القتال کا حلیہ ہی تبدیل ہوجائےگا۔ رسول اللہ ﷺکےزمانے میں بھی جنگوں کےلئے سرمائےکی ضرورت ہوتی لیکن کیا آپ ﷺ نےہراس شخص کو مقاتل قراردےدیا جس نے جنگ کےلئےفنڈ میں ذراسابھی فنڈ میں حصہ ڈالاہو؟ہرشخص جانتاہےکہ غزوہء بدر میں شکست کے بعد اہلِ مکہ کےہرمردوعورت نےبدلے کےلئے تیاری میں بھرپور حصہ لیا اور غزوہءاحد کےلئےباقاعدہFund Rising ہوئی۔خودقرآن کریم اس پر گواہ ہے: [(مفہوم)کفر کرنےوالےاپنامال اس مقصد سے خرچ کررہےہیں کہ لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکیں۔پس وہ اسے خرچ توکرلیں گے،پھریہ ان کےلئےسرمایہء حسرت بنے گا،پھروہ مغلوب ہوجائیں گے۔](سورہ انفال،آیت36) اس سے بھی آگے مشرکین کی عورتیں اپنے مردوں کا حوصلہ بڑھانے کےلئےمیدانِ جنگ میں بھی آئیں اور شعر اور نغمات گاگا کر مردوں کے جذبات کوبرانگیختہ کرتی رہیں۔اسکے باوجود بھی رسول اللہ ﷺ نے عورتوں پر حملہ کرنے سے منع فرمایا۔ یہ بات اپنی جگہ صحیح ہےکہ صرف ہتھیاروں سے نہیں لڑی جاتی بلکہ اس کےلئے مادی وسائل کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کےلئے باقاعدہ منصوبی بندی کرنی پڑتی ہےلیکن سوال یہ ہےکہ شریعت نے مباشر اورمتسبب میں فرق کیاہےیا نہیں؟پھر دوسراسوال یہ ہےکہ اگرایک سبب کے وجود آنےکےبعد نتیجہ نمودار ہونے سے پہلے درمیان میں ایک اور سبب طاری ہوجائے تو فعل کی نسبت کس کی طرف کی جائےگی؟اگرایک سبب کا کوئی نتیجہ برآمدہو اور وہ نتیجہ ایک اورفعل کاسبب بنے تو یہ آخری فعل سببِ اول کی طرف منسوب ہوگا یا سببِ ثانی کی طرف؟کیا نتیجہ اور سبب کے درمیان رابطہء سببیہ(Casual Link)ثابت کرنا ضروری ہے یا نہیں؟اسباب کایہ سلسلہ کہاں روکاجائےگا؟کیا شہد کی مکھی کے باغ میں داخل ہونےکو پروانے کے خونِ ناحق کا اس بنا پرسبب قرار دیاجاسکتاہےکہ نہ وہ باغ میں داخل ہوتی،نہ رس چوستی،نہ اس سے موم بنتا،نہ موم بتی وجود میں آتی،نہ موم بتی جلائی جاتی،نہ ہی پروانے اس پر نثار ہوتے؟ پس جن لوگوں کا جنگ کی تیاری میں براہِ راست حصہ ہو،جنہیں جگی کا”متسبب”قراردیاجاسکے،جن کے فعل اور جنگ کےدرمیان رابطہء سببیہ ثابت کیاجاسکے،جن کے فعل اور جنگ کےدرمیان کوئی اور قوی سبب طاری نہ ہوا ہو،ان کویقیناََ جنگ کےلئے ذمہ دار ٹھہرایاجاسکتاہے خواہ انہوں نے باقاعدہ ہتھیار نہ اٹھائے ہوں۔کعب بن الاشرف کو مقاتل قراردیاگیا تو محض اس وجہ سے نہیں کہ اس نے غزوہءبدر میں قریش کے مقتولین کےلئے مرثیہ کہاتھا، بلکہ دراصل اس نے اپنی اس شاعری اور خطابت کے زورپر مشرکینِ مکہ کو رسول اللہ ﷺ پر حملہ کرنے کےلئےابھاراتھااوراس کےلئےباقاعدہ مہم چلائی تھی اور منصوبہ بندی میں حصہ لیا۔(صحیح مسلم،کتاب الجہاد والسیر،باب قتل کعب بن الاءشرف طاغوت الیھود۔سنن ابی داؤد، کتاب الخراج والامارۃ والفیء،باب کیف کان اخراج الیھود من المدینۃ،حدیث رقم2606)۔ نیز اس نے رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخیاں بھی کی تھیں جو نصِ قرآنی کے بموجب”طعن فی الدین”ہونے کے سبب سے قتال کی علت میں شامل ہے۔ (سورۃالنساء کی آیت46 کے بموجب رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی”طعن فی الدین”ہے اورسورۃ التوبۃ کی آیت13کے بموجب قتال کاایک سبب طعن فی الدین ہے) اسی سبب سے ابوعزہ شاعر کوسزائےموت سنائی گئی کہ وہ قریہ قریہ جاکراپنے اشعار کےذریعےلوگوں کوجنگ کےلئےاکھٹا کرتا رہا اورساتھ ہی وہ رسول اللہ ﷺ کے ہجو میں شعر کہتا۔[ابوعزہ عمرو بن عبداللہ الجمحی نامی اس شاعر کو غزوہءبدر میں گرفتاری کے بعدرسول اللہ ﷺ نے احساناََ رہاکیا اوراس سے وعدہ لیا کہ وہ آئندہ ایسی حرکتیں نہیں کریگا۔تاہم وہ رہائی کےبعد مزید زوروشور سےآپﷺکے خلاف اشعارکہتارہا اور مشرکین کو آپﷺ کے خلاف ابھارتا رہا۔غزوہءاحد میں دوبارہ گرفتار ہوا تواسے قتل کردیاگیا(نصب الراءیۃ لاحادیث الھدایۃ،ج3 ص409)،یہ بھی واضح ہےکہ وہ دونوں مرتبہ جنگ میں پکڑاگیا، جسکا مطلب یہ ہےکہ اس کی شاعری سے قطع نظر کیا جائے تب بھی وہ مقاتل تھا۔] اسی طرح عمررسیدہ درید ابنالصمۃ کومقاتل شمار کیاہے کیونکہ اس نے جنگ کی منصوبی بندی میں حصہ لیا تھا اور جنگ کی ابتداء میں مسلمانوں کوجوسخت جانی نقصان ہوا اس میں درید کے مشوروں نے اہم کرداراداکیاتھا۔ [درید ابن الصمۃ ایک نہایت عمررسیدہ(بعض روایات کے مطابق غزوہء حنین کے موقع پرایک سو ساٹھ سال کی عمر کا) تھا۔اس نے غزوہء حنین کی منصوبہ بندی میں اہم کردار اداکیاتھا۔یہ قبیلئہ جشم کا سردارتھا اوراسکی شاعری کےعلاوہ بہادری کے قصےبھی ضرب المثل کی حیثیت رکھتے تھے۔مزید برآں،وہ ہزاروں کی جمعیت لیکر جنگ میں شرکت کےلئے اوطاس آیاتھا۔(مزید تفصیلات کےلئےدیکھئے:علامہ شبلیؒ؛سیرت النبیﷺ،ج1 ص 305۔311)] پس مقاتلین میں کچھ تو وہ لوگ شامل ہیں جنھیں “مباشر”کی حیثیت حاصل ہے،یعنی جنگجویافوجی،اور کچھ تو وہ لوگ ہوتے ہیں جنھیں “متسبب”کی حیثیت حاصل ہے۔اس ثانی الذکر گروہ میں صرف انہیں کوشامل کیاجاسکتاہے جن پرجنگ کی براہِ راست ذمہ داری ڈالی جاسکے۔یہی اصول بین الاقوامی قانون کا بھی ہے۔مثال کے طور پر ریاست کاسربراہ جنگ میں فوجی کےطور پر حصہ نہیں لیتالیکن اسکے باوجود جنگ کے شروع کرنے اور جنگ کےدوران میں کئےجانےوالے بعض کاموں کےلئےاس کو ذمہ دار ٹھہرایاجاتاہےاور بعض کےلئے ذمہ داری اس پر نہیں ڈالی جاتی۔ یہ بھی حقیقت ہےکہ حکومت کوجو ٹیکس اداکیاجاتاہے وہ خالصتاََ جنگ کےلئےنہیں ہوتا بلکہ اس پر حکومت اورریاست کا پورا نظام چلایاجاتاہےاوراس کا کچھ ہی حصہ جنگ کے مصارف پر خرچ کیاجاتاہے۔جولوگ ٹیکس دیتےہیں وہ لازماََ اس نیت سے نہیں دیتے کہ اس کو جنگ ہرخرچ کیاجائے۔بلکہ ان میں سے کئی لوگ جنگ کے مخالف بھی ہوتےہیں۔عراق میں حملے کے خلاف جتنے بڑے مظاہرےخود امریکہ میں ہوئے اس کے عشرعشیر کے برابر بھی پاکستان سمیت کسی مسلمان ملک میں نہیں ہوئے۔کیا ان جنگ کے مخالفین کو بھی “مقاتلین”میں شمارکیاجائےگاکیونکہ یہ جب ٹیلی فون کا بل اداکرتےہیں تواس ضمن میں حکومت کوٹیکس بھی اداکرتےہیں؟پس عام شہریوں کو محض اس بنا پر مقاتلین میں شمارکرنا کہ وہ حکومت کوٹیکس اداکرتےہیں بدیہی طور پر غلط ہے۔ مزید: جنگ میں براہ راست اور بالواسطہ حصہ لینےوالےکاقتل […]
مسلم ممالک میں جہاد کے نام پر تخریب کاری کرنیوالوں کےموقف کاعلمی جائزہ | الحاد جدید کا علمی محاکمہ
March 31, 2018 at 10:23 am[…] 3. جنگ میں براہ راست اور بالواسطہ حصہ لینےوالےکاقتل […]