‘پوسٹ کولڈ وار ‘سیناریوسمجھنےکی ضرورت ہے[1]۔
ایک بوڑھی تہذیب جو اپنے آخری دموں پر ہے عالمی سطح پر ایک نوخیز تہذیبی واقعے ’’اسلام‘‘ سے شدید طور پر خائف ہے، جس کے شواہد شمار سے باہر ہیں۔ یہاں تک کہ سیموئیل ہنٹنگٹن Samuel Hintigtonایسے لوگ اس بات کو عالم اسلام پر مغرب کی ازسرنو چڑھائی کا ایک فکری اور وجدانی مقدمہ بناتے ہیں۔
وہ دیکھ رہے ہیں، کئی مغربی ممالک میں اسلام آج اُن کی ڈیموگرافی بدل رہا ہے۔ جگہ جگہ اسلامی سنٹر کھل رہے ہیں اور لوگ اِس دین میں داخل ہو رہے ہیں۔ مسلم ممالک میں پچھلے تین عشروں کے اندر ’’نماز‘‘ اور ’’حجاب‘‘ کا فنامنا مسلسل زور پکڑتا رہا ہے۔ ’اتاترک کا ترکی‘ تاریخ کے دھندلکوں میں گم ہوتا چلا گیا ہے اور اس کی جگہ ایک ایسا ترکی سامنے آنے لگا جو کسی کے وہم و گمان میں نہ تھا۔ مغربی تہذیب کے ہاتھوں ’خاندان‘ جس طرح ٹوٹ پھوٹ گیا ہے، اور چرچ اس محاذ پر جس طرح ناکام دیکھا گیا ہے، یہ جنگ اب صرف اسلام کے لڑنے کی رہ گئی ہے، یہ تاثر ایک بڑی خلقت کے ذہنوں میں مضبوط ہوا ہے۔ مادیت نے انسان کا دل جس طریقے سے ویران کر ڈالا ہے، اس کا مداوا اسلام کے پاس ڈھونڈا جانے لگا ہے۔ ایک ایسی روحانیت جو عقل کی کامل تسکین کرتی ہے۔ اور ایک ایسی عقل جو ہرگز روحانیت کے آڑے نہیں آتی بلکہ اس کی تکمیل اور افزائش کرتی ہے۔ چرچل اور چارلس تک اسلام کی اس مخفی صلاحیت کی داد دے چکے کہ یہاں عقل اور روح، دین اور دنیا ایک دوسرے کے سر آنے کی بجائے کس طرح ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔ گویا اسلام کے پاس آکر ’’انسان‘‘ مکمل ہو جاتا ہے۔ یا یہ کہ انسان ’’برآمد‘‘ ہو جاتا ہے۔ وہ انسان جو دوسری جگہوں پر بہت سارے خداؤں کے مابین کٹ پھٹ گیا تھا! اسلام ان کرچیوں کو جوڑ دیتا ہے! اسلام کی اِس فکری اور تہذیبی قوت نے صرف دورِ فتوحات ہی میں قلوب کو مفتوح اور عقول کو مسحور نہیں کیا، آج اِس دورِ مغلوبیت میں بھی ایک سطح پر اسلام اپنی اِس قوت کا مظاہرہ کر رہا ہے۔
البتہ انہیں بخوبی معلوم ہے، اسلام کی یہ تہذیبی قوت اس کے مظاہر میں نہیں بلکہ اسکے اندر متحرک ایک جان دار عقیدہ (ایمان بالغیب) میں ہے۔ اور وہ ایک ایسا واضح، ثابت، محکم عقیدہ ہے جسے قرآن ایسی حسیں زبان ملی ہوئی ہے۔ پھر یہ ایک کامل شریعت پر قائم ہے جو حیاتِ انسانی کی پیچیدہ سے پیچیدہ گرہیں بڑی قدرت اور کامیابی سے کھولتی ہے، اور اپنے بیان کےلیے نہایت معلوم و ثابت مراجع رکھتی ہے۔ نیز انہیں معلوم ہے، اسلام نفسِ انسانی کو ایک جامعیت دیتا ہے۔ جس کے بعد نفس انسانی ایسا خدا رخ ہوتا ہے کہ نہ ’انسان‘ کے نام پر انسان کی پیشوائی باقی رہے اور نہ ’خدا‘ اور ’مذہب‘ کے نام پر۔ یہاں سب کچھ خدا رُو ہو جاتا ہے اور غیراللہ سے انسان مکمل پھر جاتا ہے۔ زمین پر ’’خدا‘‘ کا ایسا تسلط جہاں واقعتاً انسان کی خدائی ختم ہو جائے، جہاں انسان خدا کو اپنا سب کچھ سونپ کر راحت اور سعادت کا ایک جل تھل آخرت سے پہلے اِسی دنیا میں پائے، نیز اپنے عقل و شعور، تسخیرِ کائنات کےلیے اپنی ایک ازلی تڑپ اور اپنے طبعی قِویٰ اور صلاحیتوں کےلیے ایک وسیع گنجائش پائے، اور اپنے یہ تمام شوق پورے کرتے ہوئے بھی درحقیقت ’’خدا کی عبادت‘‘ ہی کر رہا اور اُسی کے دیے ہوئے مقاصد زمین پر پورے کر رہا ہو… یہ ’’حنیفیتِ سمحۃ‘‘ جو دینِ محمدؐ کا سب سے بڑا خاصہ ہے، انبیاء کے دشمنوں کو سب سے زیادہ خوفزدہ کرتی ہے، جو انسان سے انسان کی عبادت کروانا چاہتے ہیں؛ کبھی کسی نام پر تو کبھی کسی نام پر۔
’’مسلمان‘‘ کو ایک تہذیبی واقعے کے طور پر جہان سے مٹا ڈالنے کےلیے آج وہ:
1. ’وار آف آئیڈیاز‘ ‘war of ideas’ لے آئے ہیں۔ جس کا صحیح نام war on ideas ہونا چاہئے۔ کیونکہ وہ سیدھا منہ پھاڑ کر اب یہ کہنے لگے ہیں کہ اُن افکار ہی کو اور ان کے حاملین کو مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کر دو جو لوگوں کو مغرب کے دیے ہوئے اُس فکری ڈسکورس کا باغی کرتے ہیں جو بڑی محنت کے بعد آج دنیا کی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں سکۂ رائج الوقت بنا دیا گیا ہے۔ اِس رائج الوقت فکری ڈسکورس کے خلاف ذہنوں کے اندر جو ایک علمی بغاوت ہو گی وہی امنِ عالم کےلیے صاف ایک خطرہ ہے! ایسا الگ فکری ڈسکورس رکھنے والے لوگ چاہے بندوقیں نہ بھی اٹھائے ہوئے ہوں، اور چاہے ایسے لوگ بندوقیں اٹھانے والے کچھ ناپختہ لوگوں کو خود اپنے اس فکر اور دعوت کے حق میں ہی نقصان دہ کہہ کہہ کیوں نہ تھک گئے ہوں، پھر بھی یہ گردن زدنی ہیں! رائج الوقت (مغربی) فکری ڈسکورس کے خلاف علمی بغاوت بجائے خود ایک جرم اور بدامنی کی ایک سرعام دعوت ہے! ایک دو سو سالہ عمل کے نتیجے میں دنیا اب ’حقیقتوں‘ کے تعین کے معاملہ میں جس ڈسکورس پر لے آئی گئی ہے اس سے ذہنوں کو ہٹانا آج بجائےخود ایک ’فساد‘ ہے جسے آہنی ہاتھ سے ختم کردینا چاہئے! وَقَالَ فِرْعَوْنُ ذَرُونِي أَقْتُلْ مُوسَى وَلْيَدْعُ رَبَّهُ إِنِّي أَخَافُ أَن يُبَدِّلَ دِينَكُمْ أَوْ أَن يُظْهِرَ فِي الْأَرْضِ الْفَسَادَ ۔(غافر: 26) ’’اور فرعون نے کہا: مجھے چھوڑ دو میں موسیٰ کو قتل کر دوں اور وہ اپنے رب کو پکارے۔ میں ڈرتا ہوں کہ وہ تمہارے دین کو بدل ڈالے گا یا یہ کہ زمین میں فساد پھیلائے گا‘‘۔
2. مسلم دنیا کے کالجوں یونیورسٹیوں میں الحاد (خدا، نبی، قرآن کا سیدھا سیدھا انکار) اور لادینیت کے غول چھوڑ دیے گئے ہیں۔ بےشمار خفیہ گروپ اس پر کام کر رہے ہیں اور اپنی سرگرمی کےلیے ایک مضبوط پشت پناہی رکھتے ہیں۔
3. مسلمانوں کے شہروں میں بدکاری اور کنڈوم کلچر کو عام کرنے کے غیرمعمولی انتظامات عمل میں لائے جا رہے ہیں۔ این جی اوز کی ایک فوج ظفر موج اندھے وسائل لے کر کچھ نہایت سائنٹیفک منصوبوں کے ساتھ یہاں کی پسماندگی اور معاشی بدحالی کا فائدہ اٹھانے کےلیےمیدان میں اتر آئی ہے۔ یہاں کے بااثر طبقے اکثر و بیشتر یا اُن کے کانے ہیں یا سرے سے اندھے۔
4. تعلیم کے شعبے میں پرائمری کی سطح تک ’اصلاحات‘ کا جو ایک بھاری بھرکم پروگرام رُو بہ عمل ہے اور جس میں بہت کچھ نہایت مفید بھی ہے، اس شہد میں لادینیت کا ایک نہایت زوداَثر زہر بھی گھول دیا گیا ہے۔ اس کے نتائج دیکھ کر آپ عنقریب سر پکڑ کر رہ جائیں گے۔ 5. مسلمانوں کے تمام مسلَّمات پر ’’تشکیک‘‘ کا حملہ کر دیا گیا ہے۔ ہمارے پڑھےلکھے طبقوں کی نظر میں ہماری ہر چیز ’نظرِ ثانی‘ کی ضرورتمند ٹھہرا دی گئی ہے۔ اسلام کی ایک ’تفسیرِ نو‘ کی ضرورت بجابجا منوائی جا رہی ہے۔ آپ خود جانتے ہیں مسلم معاشروں پر چھائی ہوئی جہالت، علم اور علماء کی کمی، مغربی ڈسکورس کے غلبے اور، اذہان کی غلامی اور ماتحتی کے اِس دور میں اسلام کی جو ایک ’تفسیرِ نو‘ ہو گی، اور پزیرائی پائے گی، وہ کیسی تباہ کن ہو گی۔
6. ناموسِ رسالت پر مسلم غیرت کا مذاق اڑانا ایک فیشن بنا دیا گیا ہے۔ اس سلسلہ میں نفوس کے اندر پیدا ہونے والی مزاحمت ذہنوں کے اندر کچلی جا رہی ہے۔
7. ادیان کے فرق کو ملیامیٹ کرایا جا رہا ہے۔ باطل ملتوں کے شرک کو بربادی کا موجب ٹھہرانا اور اس پر جہنم کی قرآنی وعیدیں منہ پر لانا تہذیب کے منافی ٹھہرا دیا گیا ہے اور کافر ملتوں سے قربت و ہم آہنگی اختیار کرنا ایک نہایت قابل تحسین ’تہذیبی رویہ‘۔ ’نماز روزہ‘ شاید ابھی کچھ دیر ہمارے پاس بچا رہے (ان لوگوں کےلیے جو بےحیائی کے اِس طوفان میں بھی نماز روزہ پر باقی رہنا چاہیں) البتہ ’’اسلام دنیا کا واحد سچا دین ہے اور اس کے ماسوا ہر دین باطل اور صاف جہنم کا موجب‘‘ یہ عقیدہ سمجھو مسلمان کے ہاتھ سے گیا کہ گیا(ألا ھل بلَّغتُ؟)۔ ’گلوبلائزیشن‘ کو پہلا کام ہی یہاں پر یہ کرنا ہے۔
8. اس سے پہلے صرف ’سیاست‘ کو ہی دین پسندوں کےلیے شجرِ ممنوعہ ٹھہرایا جاتا تھا۔ مگر اب نہیں۔ مسلمانوں کی ان جماعتوں کو آج ایک خطرہ اور خوف کی علامت بنایا جا رہا ہے جو ’سیاست‘ تک سے کوئی سروکار نہیں رکھتیں مانند تبلیغی جماعت اور الہدیٰ وغیرہ۔ ان جماعتوں کی کل محنت اور توجہ لوگوں کو گناہگاری کی زندگی سے نکال کر تقوی اور پاکیزگی کی زندگی پر لانا ہے۔ ان جماعتوں کو بھی بےرحمی کے ساتھ ہدف بنایا جاتا ہے تو اس کی ایک واضح دلالت ہے، جس سے صرفِ نظر کرنا درست نہیں: دراصل اُن کی ہمارے ساتھ جنگ اب ’سیاسی اسلام‘ سے بہت آگے گزر چکی ہے۔ اسلام کو فی الوقت وہ کسی ’سیاسی‘ نہیں بلکہ ایک ’’تہذیبی‘‘ چیلنج کے طور پر زیادہ دیکھ رہے ہیں۔ لہٰذا اسلام کی روحانیت اور پرامن دعوت بھی اب انہیں تکلیف دے رہی ہے۔
9. ’مدارس‘ کے خلاف ایک طریقے سے اعلانِ جنگ ہو چکا۔ ہمارے زیادہ لوگ اس مسئلہ کو محض ’دہشتگردی‘ کے سیاق میں دیکھ رہے ہیں۔ بےشک دہشتگردی کے کچھ واقعات میں مدارس میں پڑھنے یا پڑھانے والے بعض افراد ملوث ہوں گے۔ مگر ایسی کسی تشویش کا تعلق ہمارے سیکورٹی اداروں سے ہو گا۔ انکل سام اور اُس کے معتمد لبرلز کی پریشانی ’مدارس‘ کی بابت یہ نہیں ہے۔ ’مدارس‘ دراصل وہ ایک ایریا area ہے جہاں اِس اکیسویں صدی میں بھی انسانی عقل ’جدید‘ ڈسکورس سے ہٹ کر سوچتی ہے! اِس جزیرے کو لازماً اسی ’جدید‘ طوفان کے زیرآب آنا ہے؛ اور جلد از جلد آنا ہے۔ اصل بغاوت یہ ہے انکل سام اور اس کے مقامی معتمدین کے نزدیک۔ باوجود اس کے کہ ہمارے مدارس کی حالت آج بہت ہی پسماندہ اور دگرگوں ہے اور یہاں کسی جاندار فکر کی پرورش اور افزائش سرے سے نہیں ہو رہی، اس کے باوجود یہ (مدارس کی دنیا) جدید ڈسکورس کی بیعت شدہ بہرحال نہیں ہے۔ یہ بجائےخود کوئی چھوٹا جرم نہیں ہے۔ مدارس کو ’وجود‘ برقرار ہی رکھنا ہے تو اِسے ادارۂ استشراق کی بیعت کرنا ہو گی۔ اس ’بیعت‘ کےلیے ڈھیروں انتظامات عمل میں لائے جا رہے ہیں۔ خوف کی ایک بھیانک فضا بےوجہ قائم نہیں کرائی گئی۔ اور توقع کی جا رہی ہے کہ مدارس کی جانب سے جلد از جلد مغرب کے اس دین اکبری کےلیے ایک اظہارِ اطاعت سامنے آجائے۔ ’ہینڈزاَپ‘ ایک بار ہو جائے تو پھر دیکھیں گے مولوی کی ’جدید‘ تعلیم و تربیت کی کیا عملی صورتیں سامنے آتی ہیں۔
10. سب سے بڑا ہدف ہمارے اِس تہذیبی قتل کےلیے بڑھنے والی مہم کا: ہمارے وہ ادارے ہیں جو عالم اسلام میں ایک فکری خوداختیاری intellectual independence پیدا کرنے کا منبع ہیں۔ یہاں؛ خطرے کی سب سوئیاں سعودی جامعات کی طرف گھوم جاتی ہیں جہاں ’جدید‘ پڑھایا بھی خوب جاتا ہے مگر ’قدیم‘ کے تابع وماتحت رکھ کر۔ جہاں اللہ کا شکر ہے ’ریلٹوازم‘ relativism کے بخیے ادھیڑے جاتے ہیں اور ’’مطلق حق‘‘ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کو مانا اور منوایا جاتا ہے اور اس ’’مطلق حق‘‘ سے متصادم ہر نظریے کو اور ہر فلسفے کو کھلی ضلالت؛ وَکُلُّ ضَلالَۃٍ فِی النَّار۔ آدمی کو یقین نہیں آتا کہ دنیا میں کوئی ایسا علمی جزیرہ بھی ابھی باقی ہے جہاں مسائلِ سماج میں دینِ حق کی یوں تقریر ہوتی ہے۔ جہاں سوشل سائنسز میں پی ایچ ڈی کے تھیسس اُسی ٹھیٹ ڈسکورس پہ کھڑے ہو کر کیے جاتے ہیں جس میں مغرب کے دیے ہوئے جدید افکار تو رہے ایک طرف، تاریخ اسلامی کے جہمیہ اور خوارج اور روافض اور معتزلہ تک باقاعدہ ’ضلالت‘ کے زیرعنوان ذکر ہوتے ہیں۔ جہاں ’’ملتوں کا فرق‘‘ محمد بن عبد الوھاب کی کتب سے پڑھایا جاتا ہے اور انبیاء سے اعراض کرنے والے مذاہب اور فلسفوں کا محاکمہ ابن تیمیہ کے اصول سے۔ جدید ڈسکورس کی اتنی بڑی بغاوت دنیا میں کہیں نہ ہوگی جتنی سعودی جامعات کے اندر دن دیہاڑے ہو رہی ہے۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں سعودی عرب اپنا بہت کچھ دے کر اپنا کونسا اثاثہ ابھی تک بچاتا آیا ہے اور جس کی وجہ سے وہ اِس ’عالم نو‘ کےلیے کتنا بڑا خطرہ پالتا رہا ہے۔
جدت پسند انکارِ جہاد کی تحریک کا اصل چہرہ:
قادیانی اور جدت پسند ’انکارِ جہاد‘.. انیسویں صدی والے پنجرے کا ’شرعی‘ دروازہ
جیسا کہ ہم نے کہا، وہ ایک رخنہ جو یہاں کے شدت پسندوں نے پیدا کر کے دیا، یہاں بہت سے طبقوں کےلیے ’جاب امکانات‘job opportunities پیدا کر لایا۔ اسلام دشمنی کے بڑےبڑے پرانے پراجیکٹ ہرے ہو گئے۔
کسی فکر کے ’سامنے آنے‘ کی تاریخ ہی دیکھ لی جائے تو اس پر ’علمی‘ بحث کی ضرورت خاصی حد تک ختم ہو جاتی ہے۔ ’انکارِ جہاد‘ کا پہلا نعرہ ایک بڑی سطح پر امت کی تاریخ میں انیسویں صدی کے اندر لگا تھا، جب استعمار کو اس نعرے کی اشد ضرورت تھی۔ استعمار کی اِس ضرورت کو پورا کرنے کےلیے قادیانی نے دلائل کا صغریٰ و کبریٰ ملا کر یہ نکتہ پیش کیا کہ ’’جہاد‘‘ کے نام پر استعماری طاقتوں کے خلاف اٹھنا خلافِ شریعت ہے۔ قادیانی کی یہ دوکان کوئی دن اور چلتی، مگر اللہ نے استعمار کو یہاں سے چلتا کیا اور مسلم قوموں کو آزادیاں دلوا دیں کہ جاؤ اپنا ایک آزاد جہان پیدا کرو اور اُس غلامی کے اسباب دوبارہ پیدا کرنے سے احتراز کرو۔ یہاں؛ قادیانی ڈسکورس اپنی موت آپ مر گیا، بحثوں اور مناظروں کی ضرورت جاتی رہی۔ وہ مسلم سرفروش جو دورِ استعمار میں اِن سرزمینوں کی آزادی کےلیے جہاد کرتے رہے تھے، پسِ آزادی اِن مسلم قوموں کے ہیرو ٹھہرے۔ اُس دور کا ہر بطلِ حریت یہاں کے جیسےکیسے نصابوں میں آج سراہا اور ہیرو ہی مانا جاتا ہے، وللہ الحمد۔ تب سے انکارِ جہاد کی ’دلیلیں‘ بوسیدہ ہو رہی تھیں؛ اور امید تو یہ تھی کہ اب یہ کبھی واپس نہیں آئیں گی۔ جو بھی ان کا ذکر کرتا دورِ غلامی کی ایک یادگار کے طور پر کرتا۔ اور ہے بھی یہ دورِ غلامی کے ساتھ ہی مخصوص۔ ہمارے تاریخ نگار تک یہ لکھنے لگے تھے کہ دورِ استعمار ہم پر یہ نوبت لے آیا کہ مسلمانوں کے یہاں جہاد کا انکار ہونے لگا۔ روس کے خلاف جہاد کے سالوں میں بھی یہ ’دلیلیں‘ تھیلے سے باہر نہ آئیں؛ کیونکہ اُس وقت یہ مغربی بلاک کی ضرورت ہی نہ تھی۔ بلکہ تب مغربی بلاک کو الٹا جہاد کے حق میں فتوے درکار تھے۔ سو ’انکارِ جہاد‘ کا وہ قادیانی مقدمہ بوسیدہ پڑا رہا؛ کوئی اس کا خریدار نہ تھا۔ (اس کے ’خریدار‘ باہر سے ہی ہو سکتے ہیں؛ اور باہر والے اللہ کا شکر ہے جا چکے تھے)۔
تاآنکہ استعمار کو عالم اسلام میں پھر سے ایک مہم درپیش ہوئی، پورے سوا سو سال بعد۔ سن 2001ء۔ جہاد کو شریعت کے خلاف ثابت کرنے کی ایک بار پھر ’ضرورت‘۔ زمانہ اب وہ نہیں؛ ہماری آزادی کے ساتھ قادیانی بھی دائرۂ اسلام سے خارج قرار پا چکے (یہ الگ سے ایک ’دُکھتی رگ‘ ہے!)۔ اب عالم اسلام پر قابض قوتوں کے خلاف جاری مزاحمت کے خلاف بولے تو کون؟ یہاں؛ استعماری ضرورت کو پورا کرنے کےلیے ’جدت پسند‘ تحریک اٹھی۔ وہی پرانی شراب نئے جام میں: افغانستان، فلسطین، کشمیر وغیرہ میں مسلمانوں کاکافر حملہ آور کے خلاف ہتھیار اٹھانا خلافِ شریعت ہے! یعنی خدا کو ناراض کرنے کا سبب! دین اس کو فساد کہتا ہے! افغانی، فلسطینی، عراقی، کشمیری مجاہد نہیں درحقیقت فسادی ہیں! اب آپ خود اندازہ کر لیجئے، ایک مزاحمت جو اپنا تمام جذبہ ’’دین‘‘ اور ’’ایمان‘‘ سے لیتی اور غاصب کےلیے سوہانِ روح بنی ہوئی ہے، اسے کچلنے کےلیے ایسی ’شرعی دلیلوں‘ سے بڑھ کر اور اُسے کیا چاہئے؟ ’بندوق‘ تو پہلے ہی اُس کے پاس ہےجس سے وہ ہمارے نوجوان کی کھوپڑی چھلنی کر رہا ہے۔ ’دلیل‘ اب اس کو یہ جدت پسند عطا کر رہاہے؛ کیونکہ قادیانی اب دنیا میں نہیں رہا۔ یا یہ کہ دائرۂ اسلام میں نہیں رہا۔
غرض یہ فتاویٰ اپنی حقیقت میں ’انیسویں صدی‘ والے سیناریو کا حصہ ہیں۔ یہ ہمیشہ اس وقت زندہ ہوں گے جب استعمار ہم پر حملہ آور ہو گا۔ (قرآن پر ’گہرے غور و خوض‘ کے پیچھے بسااوقات کچھ نفسیاتی اور وجدانی عوامل بھی ہوتے ہیں!)
لیکن ان فتاویٰ کی دھڑادھڑ فروخت کا یہ موقع بنا کیسے؟ یہ ایک اہم سوال ہے اور اس پر ہمارے تحریکی حلقوں کو غور کرنا ہے۔ (پچھلے مبحث’’]پاکستان کے دینی حلقے اپنی تاریخ کے بدترین بحران میں[ سے اس کا تعلق جوڑتے ہوئے)۔ شدت پسند ڈسکورس کو اپنے آگے بڑھنے کےلیے یہاں جو کچھ زمین خالی ملی، اور جوکہ ماننا چاہئے ہماری اپنی کسی کوتاہی کا نتیجہ تھا، اور جسے میڈیا نے ’مذہبی‘ رنگ دے کر خوب خوب نشر کیا، وہاں سے ایک ’جوابی بیانیہ‘ counter narrative کےلیے زبردست ویکیوم vacume بنا۔ (مائک بدستور میڈیا کے پاس!)۔ جسے پُر کرنے کےلیے وہی انیسویں صدی کا قادیانی والا بیانیہ بلکہ جناب نادر عقیل انصاری]سابق مدیر اشراق، نائب مدیر سہ ماہی ’’جی‘‘ لاہور[ کے الفاظ میں ایکاستعماریہ ’دلائل‘ کی ایک اَپ ڈیٹ کے ساتھ لا حاضر کیا گیا۔ یعنی پہلے ایک ’مذہبی‘نیریٹو نشر کروایا گیا، جوکہ دینی حلقوں کی مین سٹریم کا نیریٹو ہرگز ہرگز نہیں تھا (ہماری اس مین سٹریم کو خدا جانے کیا سانپ سونگھ گیا جو کوئی مضبوط آوازیں ہی یہاں دستیابنہیں رہیں؛ تاریخ کے ایسے نازک ترین موڑ پر۔ یہ اس سارے بحران کا مرکزی ترین نقطہ ہے، بلکہ ہماری نظر میں یہ اس سارے بحران کی واحد وجہ)۔ ظاہر ہے یہ ایک بھیانک نیریٹو تھا جو نہ دلیلِ شرعی پر قائم اور نہ کسی عقلی تجزیے پر (اس کے بھیانک پن میں ’ایفیکٹس‘ effects ڈالنا تو میڈیا کا تخصص ٹھہرا)۔ اور پھر انیسویں صدی والے ’’استعماریہ‘‘ کو، یا اس سے بھی پیچھے جائیے تو ایک دینِ اکبری کو، ’جوابی بیانیہ‘ بنا کر ذہنوں میں پیوست کرایاجانے لگا۔ گویا پہلے ایک خوفناک شیر دکھایا گیا اور پھر جب پوری طرح دہل گئے تو ہمارے آگے ایک پنجرہ لا دھرا گیا جس میں جانا قبول کر کے آپ ’شیر‘ سے تو وقتی طور پر شاید ’محفوظ‘ ہو جائیں گے لیکن استعمار کے قیدی ہمیشہ ہمیشہ کےلیے بن جائیں گے، جوکہ اِس ’شیر‘ کے جانے کے ساتھ ہی پنجرے پر اپنا وہی انیسویں صدی والا پرانا بدبودار ’شٹر‘ ڈال دے گا اور تب اِس ’بھٹکے ہوئے آہو‘ کا حال پوچھے گا جو عالمی جنگوں اور سرد جنگ کی بھگدڑ کا فائدہ اٹھا کر اس پنجرے سے بھاگ نکلا تھا!
غرض معاملے کی ترتیب یوں رہی:
1. دینی طبقوں کی مین سٹریم کا اس سارے معاملے میں نہ ہونے کے برابر کوئی کردار ہونا۔ (نہ تو اس ’پوسٹ-کولڈ- وار‘ post-cold-war صورتحال کو بھانپ کر قوم کو بروقت راہنمائی دے پانا۔ اور نہ یہاں کے عمل پسند نوجوانوں میں کوئی ایسی فکری قلعہ بندی کررکھنا کہ یہاں کچھ چھوٹےموٹے فکری جھٹکے آئیں تو سہے جا سکیں۔ یہاں تک کہ اس موقع پر کوئی اچھی ترجمانی spokesmanship تک نہ رکھنا۔ یوں متعدد پہلوؤں سے یہاں ایک خلا چھوڑنا)۔
2. استعمار کا سرد جنگ کے خاتمہ کے تاریخی موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے (اپنے صیہونی وبھارتی حلیف کو باقاعدہ ساتھ on board رکھتے ہوئے) ہماری سرزمینوں پر ایک نئی لشکر کَشی کرنا، اور عالم اسلام کو ’انیسویں صدی‘ والے پوائنٹ پر (جزوی طور پر) واپس پہنچانے کےلیے کچھ فوری تو کچھ دُوررَس منصوبے لانچ کرنا۔ علاوہ ازیں، ضیاءالحق دَور کے جلاوطن یا یہیں پر دبک کر بیٹھے ہوئے قادیانی نیز ’سرخا‘ عناصر کےلیے ایک نئی نوکری تخلیق کرتے ہوئے یہاں پر ایک ’لبرل سویرے‘ کا ڈول ڈالنا جسے اس بار ’میڈیا ریوولیوشن‘ کی رَو پر سوار ہو کر آنا تھا اور پھر رفتہ رفتہ یہاں کی مادرہائے علمی پر بھی چھا جانا تھا (دونوں یو-ایس-ایڈ اور اسی جیسے ’پاکستان کی ترقی کےلیے بےچین‘ مالیاتی پروگراموں کے سپانسرڈ اور فنڈڈsponsored and funded )۔ ایک لحاظ سے ہمارے بیرونی محاذ پر مغرب کے ادارہ استعمار Colonialist کی پیش قدمی تو ہمارے اندرونی محاذ پر ادارہ استشراق Orientalist کی پیش قدمی۔ دونوں نپی تلی well-studied ، ہم آہنگaligned ، منسَّق coordinated اور دقیق sycronized ۔ جسے یہاں کے سب فکری، سیاسی اور سماجی عوامل کے ساتھ پوری ذہانت کے ساتھ کھیلنا تھا۔ (ادھر ہمارے دینداروں کے پاس مل کر بھی منصوبہ بندی کا کوئی ایک ادارہ نہیں، شاید اس کی ضرورت بھی محسوس نہ کی گئی ہو!)
3. عالم اسلام میں استعمار کے اودھم مچانے اور یہاں کی سرزمینوں پر قبضے جماتے چلے جانے کےلیے ’دہشتگردی‘ ایک بہت اچھی اوٹ تھی۔ اس کا نام لے کر جو مرضی کرتے چلے جاؤ! کچھ دیر تک یہ اصطلاح ہمارے اُس جائز جہادی عمل کےلیے مستعمل رہی جو مسلم سرزمینوں پر بیرونی جارحیت کے خلاف انجام پا رہا تھا مثلاً امریکی قبضہ کاروں کے خلاف ہمارے افغان بھائیوں کی جدوجہد، یا صیہونی غاصبوں کے خلاف ہماری فلسطینی بھائیوں یا بھارتی قبضہ کاروں کے خلاف ہماری کشمیری بھائیوں کی جدوجہد، وغیرہ۔ طبعی بات تھی کہ اسے ’دہشتگردی‘ کہنے کے خلاف ہماری قوم کا ایک طبقہ مزاحم ہوتا: بھئی یہ تو ہماری وہ جنگ آزادی ہے جو مسلم سرزمینوں پر چڑھ آنے والے کافروں کے خلاف ہم ہمیشہ لڑتے آئے ہیں۔ اپنی زمینوں کے دفاع کا حق ہمیں انسانی اصولوں نے بھی دیا ہے۔ اور اس سے پہلے ہمارے دین نے بھی ہم پر یہ فرض کر رکھا ہے۔ لہٰذا یہ تو ہماری قوم کے ہیرو ہوئے جو ہم سب کی جانب سے فرضِ کفایہ ادا کر رہے ہیں۔
یہاں تک؛ ایک جنگ پوری طرح ہمارے لڑنے کی تھی۔ ہمارا دین تو ہماری پشت پر تھا ہی۔ ہم اگر منہ میں زبان رکھتے تو انسانی اصول بھی ہمارے مؤید تھے۔ اس سے ہم نہ صرف اپنی قوم پر بلکہ باہر کے انصاف پسند طبقوں پر بھی اپنے دشمن کو ایک برہنہ غاصب جارح قبضہ کار ثابت کر سکتے تھے۔ یوں اپنے دشمن کے پاس ہمارے اور پوری انسانیت کے ’نجات دہندہ‘ کے روپ میں آنے کا موقع ہی ہم نہ چھوڑتے اور وہ ایک صریح ’غاصب‘ کے طور پر ہی دنیا کے اندر دیکھا جاتا۔ مغرب کے بہت سے انصاف پسند اپنی حکومتوں پر تنقید کےلیے اس بنیاد کو اختیار کرتے بھی رہے ہیں تاوقتیکہ ’اسلام‘ اور ’جہاد‘ کے نام پر ماردھاڑ کا ایک خوفناک ناقابل توجیہ فنامنا ہر کسی کو خاموش کرانے لگا۔ پس اس جنگ کا اسی نقشے پر رہنا ہمارے حق میں بہت سے پوائنٹ لا رہا تھا۔ اس سے ہم کئی محاذوں پر جیت پانے والے تھے۔ کاش معاملہ اسی محور پر رکھا جاتا۔ اس پالیسی پر رہتے ہوئے: ہمارے نوجوان کا جذبۂ شہادت تو سب کا سب دین سے ہی پھوٹتا اور اپنے نوجوان کےلیے حوالہ ہمارا وہ خالص اسلامی پیراڈائم ہی ہوتا۔ البتہ عالمی سطح پر ہم دنیا کے مانے ہوئے اصولوں کی بنیاد پر بھی اپنا کیس ثابت کر رہے ہوتے، کیونکہ یہ دنیا فی الحال ہمارا ’اسلامی‘ حوالہ نہیں مانتی۔ غرض یہاں تک معاملہ ہمارا ہی طرفدار تھا، کچھ کمی تھی تو ترجمانی spokesmanship کی۔ باقی عملی جنگ تو لڑنے سے لڑی جانی تھی، اور یہ ایک گوریلا وارفیئر تھا جو ہمیشہ وقت مانگتا ہے۔
4. تاآنکہ کچھ دینی طبقوں نے ایک ہیجان خیز صورتحال میں جذباتیت کی راہ چلتے ہوئے اِنہی مسلم سرزمینوں کے اندر محاذ کھول ڈالے۔ ادارہ استشراق orientalist بڑی دیر سے یہاں کے فکری رجحانات کا مطالعہ کر رہا تھا۔ وہ ایسا کوئی موقع ہاتھ سے کیونکر جانے دیتا۔ یہاں سے؛ مسلم سرزمینوں کو نہ صرف غیرمستحکم کردینے بلکہ آگ اور خون میں نہلا دینے کی ایک صورت اُس کے ہاتھ لگی۔ کیا ’بلیک واٹر‘، کیا ’را‘، کیا ’خاد‘ اور نجانے کون کون سے سیکریٹ گروپ یہاں ’جہاد‘ کے پردے میں یوں سرگرم ہوئے کہ الامان والحفیظ۔ ہماری اِن قوموں کو جہاد سے ’توبہ‘ کروا دینے کی یہ صورت سب سے سوا تھی۔ مسلمانوں پر ایسا الٹا پڑنے والا ’جہاد‘ تو ان کی پوری تاریخ میں کبھی نہ ہوا ہو گا! اوپر سے لبرلز کے کورَس! کوڑوں والی فلموں ایسے چیختے دھاڑتے ’چشم کشا حقائق‘! چنانچہ ایک شدت پسند ڈسکورس سے سامنے آنے والی عسکریت پسندی جس کا میدان پاکستان اور سعودی عرب وغیرہ ایسی مسلم سرزمینیں تھی، یہاں ایک ایسی غیرمعمولی دریافت ثابت ہوئی کہ اس کے پردے میں آگے بڑھتے ہوئے معاملے کا سارا نقشہ بدل ڈالا گیا۔
5. ’دہشتگردی‘ کو جب یہ سب معانی پہنا لیے گئے اور پوری قوم اس سے نجات پانے کےلیے بلبلا اٹھی تو… یہاں سابقہ قادیانی اور حالیہ جدت پسند ڈسکورس میدان میں آیا: انکارِ جہاد، جس کو سمجھنے میں فقہاء مسلسل ’غلطی‘ کھاتے رہے تھے! ’دہشتگردی‘ سے اسلام کا چہرہ صاف کرنے کےلیے یہاں کچھ جدت پسند مفسرین آگے بڑھے جو اِس ’حقیقت‘ سے پردہ اٹھائیں کہ اصل فساد کی جڑ اِس دور میں ’’جہاد‘‘ کا نام لینا ہے۔ بھائی ’’جہاد‘‘وغیرہ ایسے سب احکام تو اُسی دور کے ساتھ مخصوص ہیں جب قرآن مجید نازل ہوا؛ بعد کے ادوار کےلیے تو جہاد وغیرہ کی یہ آیات ہیں ہی نہیں۔ یہ ظلم اور فساد تو پونے چودہ سو سال سے امت کی تاریخ میں ہوتا آ رہا ہے؛ لہٰذا یہ صفائی تو بڑی پیچھے سے ہونی چاہئے! یہ سب مدرسے اور ان کے اندر پڑھانے والے دماغ چونکہ اسلام کے اُسی تاریخی ڈسکورس کو لے کر چلتے ہیں لہٰذا ’دہشتگردی‘ ان کی گھٹی میں بیٹھی ہوئی ہے۔ ’دہشتگردی‘ سے نمٹنا ہے تو پہلے اس روایتی علمیت classical discourse سے چھٹکارا حاصل کرو جو یہاں کے علماء اور اساتذہ کے دماغوں میں بیٹھی ہے! آپ اسے ’حسنِ اتفاق‘ co-incidence کہئے یا ’توارُد‘ یا کچھ اور، ادارہ استشراق کا سب سے بڑا پراجیکٹ عالم اسلام کےلیے یہی تو ہے جو یہاں کی ’تحقیق پسند‘ زبانوں پر آپ سے آپ جاری ہے!… لہٰذا ایسے تفسیری ’انکشافات‘ اگر مسلمانوں پر آج ہو جائیں تو سونے پر سہاگہ! ایسا بروقت کام! دوبارہ کب موقع ہے! وہ جہاد جس نے بارہ صدیوں تک کافر کی ناک میں دم کیے رکھا اور ’دورِ نزولِ قرآن‘ کے صدیوں بعد بھی اللہ کے فضل سے براعظموں کے براعظم اسلام کے زیرنگیں لے آتا رہا (جن میں آپ کا یہ ہند بھی شامل ہے: ہند کے بتکدے میں مسجدوں اور اذانوں کی یہ دل آویز گونج میسر آئی تو ہمارے اسی جہاد کے دم سے جو ’دورِ نزولِ قرآن‘ کے صدیوں بعد ہوا) اس تاریخی ’’جہاد‘‘ سے کوئی ’نظمِ قرآن‘ کے نام پر اب ہمیشہ کےلیے آپ کی جان چھڑوا دے، اس سے بڑی کیا نعمت ہو سکتی ہے! آپ جانتے ہیں اس ایک مقصد کےلیے ہی تو یہاں مرزا قادیانی کو ہائر hire کیا گیا تھا جو ایک جعلی نبوت کی جھک مار بیٹھا! مسلمانوں کی لغت سے ’’جہاد‘‘ کو خارج کروا دینے کا مطلب مسلمانوں کی زندگی سے استعماری لشکروں کے خلاف مزاحمت ختم کروا دینا ہی تو ہے؛ جس میں نجانے ابھی کیسےکیسے موڑ آنے ہیں! لہٰذا مسلمانوں کو اِس طرف سے بھی مارو اور اُس طرف سے بھی۔ پہلے ’’جہاد‘‘ کے نام پر اِنہیں ایک مار مارو اور پھر ’’انکارِ جہاد‘‘ کی راہ سے اُس سے بھی بری ایک مار!
یہ ہے نتیجہ؛ جب ’’جہاد‘‘ کا مفہوم اور عمل اپنے محل پر نہ رہے۔ تب یہاں دو ہی ڈسکورس سنے جائیں گے: ایک شِدَّت پسند اور ایک جِدَّت پسند۔ جبکہ سنت کے حقیقی ترجمان غائب؛ میڈیا ان کی بھلا کیوں سنائے گا جو اِس پورے منصوبے میں کہیں فٹ ہی نہیں بیٹھتے!
پوسٹ کولڈ وار سیناریو اور ہمارے جیدعلماء و مشائخ کی فراست:
’’سرد جنگ‘‘ کے خاتمہ کے ساتھ ہی عالم اسلام پر مغرب کی فوج کَشی کی جو ایک لہر آئی، جس کے ساتھ عالم اسلام کو یکلخت ایک نئی صورتحال کا سامنا تھا، اور اسی لحاظ سے یہاں پر اسلامی تحریکوں کو بھی اپنے خطاب میں کچھ نئی جہتیں لانا تھیں… ہمارا دیکھنا ہے، ہمارے مشائخ نے اس کا ادراک بہت جلد کر لیا تھا۔بلادِعرب میں شیخ سفر الحوالی اور کچھ دیگر تحریکی علماء نے نوّے کی دہائی کے آغاز میں امریکی افواج کے جزیرۂ عرب لنگرانداز ہونے کی بڑی کھل کر مخالفت کی تھی اور اس پر جیل کی ہوا بھی کھائی تو اس کا سیاق دراصل یہی تھا کہ صلیبی بوٹوں کا جزیرۂ عرب پر آ لگنا ان مشائخ کے ہاں ایک نئے آشوب ناک دور کا آغاز دیکھا جا رہا تھا اور اس کی سنگینی واضح کرنا ان کے نزدیک ضروری۔ لیکن جلد ہی ان مشائخ نے نوجوانوں میں شدت پسندی کے ممکنہ رجحانات کو بھی بھانپ لیا جس سے یہ معاملہ بےطرح الجھ سکتا تھا؛ اور اسی کے مطابق مشائخ نے اپنی حد تک ایک لائحۂ عمل بھی اختیار کیا۔ نوّے کی دہائی کے تقریباً وسط سے شیخ سفر الحوالی کا ایک جملہ داعیوں کی زبان پر سنا جانے لگا تھا: إننا بين يدي مواقف تحتاج الأمة فيها إلى التورية ضمن السياسة الشرعية ’’اس وقت ہمیں کچھ ایسے مواقف کا سامنا ہے، جہاں امت کو سیاسۃ شرعیہ کے اندر توریہ کا ایک اسلوب اختیار کرنا ہو گا‘‘۔ (توریہ: یعنی ایک ذومعنی اسلوب)۔ نوّے کی دہائی کے وسط تک سعودی عرب کے اندر شدت پسندی (بم دھماکے اور مسلح کارروائیوں) کا فنامنا خاصا توانا ہو چکا تھا۔ (اُس دور کے ایک اہم واقعہ ’’خُبر دھماکہ‘‘ کے متعلق اب جا کر بات کھلی ہے کہ اس کے پیچھے فارسی عنصر کام کر رہا تھا اور وہ خوامخواہ ’’سُنی انتہاپسندی‘‘ کے کھاتے میں ڈالا جاتا رہا تھا)۔ یعنی دو تین طرف سے مسلمانوں کو ایک مار دینے کی صورت بن رہی تھی۔
یہاں ان مشائخ نے شدت پسندی کی جانب مائل نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کو داخلی جنگ کی راہ سے واپس لانے میں ایک سرگرم کردار ادا کیا۔ یہاں تک کہ شدت پسندی کو چھوڑنے پر آمادہ نوجوانوں کےلیے سعودی حکومت سے عام معافی کا اعلان کروانے کی بھی کوششیں کیں، تاکہ اس موقع پر ایک قومی اتفاق رائے سامنے لایا جا سکے اور داخلی استحکام کو بروقت مضبوط کر لیا جائے۔معاملہ جزیرۂ عرب کے ان مشائخ تک نہ رہا، گو پہل اِنہی کی ہے۔ دیگر عرب ممالک کے مشائخ بھی اس موقع پر آگے بڑھے اور مصر کی الجماعۃ الاسلامیۃ (جس کے امیر اس سے پہلے شیخ عمر عبدالرحمن رہے ہیں، اور جوکہ نوے کی دہائی کے آخر تک مصر میں مسلح کارروائیوں میں سرگرم تھی) کو بھی ایک فکری و منہجی مراجعہ (نظرثانی) پر آمادہ کیا۔ یہاں تک کہ اس مصری جماعت نے نوّے کی دہائی کے آخری سالوں میں اس ’مسلح عمل‘ کے منہج سے باقاعدہ رجوع کرتے ہوئے مصر میں جاری مسلح کارروائیوں کو موقوف کیا اور مشائخ کی علمی راہنمائی قبول کرنے پر آمادگی ظاہر کی۔ فی الفور، اس سے فلسطینی جہاد نے ایک نئی کروٹ لی؛ اور سن ننانوے میں بیت المقدس کے اطراف و اکناف ’’انتفاضہ ثانیہ‘‘ کا ظہور ہوا۔ علاوہ ازیں، شاید آنے والے سالوں (عراق پر امریکی حملہ کے بعد بننے والی صورتحال) کو بھانپتے ہوئے کچھ داخلی صف بندی کی صورت بھی ممکن ہوئی۔
تب سے؛ ہمارے یہ مشائخ سعودیہ ودیگر مسلم ممالک کے اندر ’’داخلی استحکام‘‘ کو اسلامی تحریکوں کی بڑی ترجیحات میں رکھتے ہیں۔ کیونکہ صلیبی کی عالم اسلام میں ایک نئی مہم کو ناکام کروانے کی ایک یہی ایک صورت ہے۔ بہت سے جذباتی لوگوں کو اُس وقت وہ باتیں سمجھ نہیں آ رہی تھیں اور بعض تو ہمارے ان مشائخ کی بابت طرح طرح کی قیاس آرائیاں بھی کررہے تھے کہ نوّے کی دہائی کے وسط تک جیلوں میں رہنے والے یہ مشائخ کیوں یکدم ’بدل‘ سے گئے اور حکومتوں پر تنقید کے معاملے میں ویسے ’شدید‘ نہیں رہے۔(یہی باتیں پاکستان کے علماء کے متعلق بھی سننے کو ملیں) لیکن موجودہ حالات کے تناظر میں، خصوصاً روم و فارس گٹھ جوڑ کی حقیقت طشت از بام ہو جانے کے بعد، اور خطے کی نئی ’انجینئرنگ‘ کی سازشیں کھل کر سامنے آجانے کے بعد، تقریباً ہر کسی کو داخلی استحکام کی یہ اہمیت اب سمجھ آرہی ہے۔ یہاں تک کہ بظاہر بڑے بڑے دوراندیش جو اُس وقت ایران کی ’امریکہ مخالف‘ بڑھکوں کی داد دے رہے تھے آج ’ایران امریکہ گٹھ جوڑ‘ کے مقابلے پر انہی عرب ملکوں کے داخلی استحکام کےلیے دست بہ دعاء ہیں!
٭کوئی وجہ ہے کہ ہمارے مشائخ ’’جہاد‘‘ کو مسلم مقبوضہ سرزمینوں کے ساتھ مخصوص کرتے ہیں
یہ وجہ ہے کہ ہم اپنی تحریروں میں بار بار اس پر زور دیتے آئے ہیں کہ وہ چیز جسے آپ ’’جہاد‘‘ کہتے ہیں اس کا دائرہ متعین کر رکھنا اندریں حالات بے حد ضروری ہے:’’جہاد‘‘ کا دائرہ فی زمانہ امت کی وہ سرزمینیں ہیں:
1. جہاں پر صلیبی یا صیہونی یا بھارتی وغیرہ افواج قابض ہیں۔ مانند فلسطین، افغانستان، عراق، کشمیر وغیرہ مقبوضہ مسلم خطے۔ تاکہ
أ. ہمارے قومی جذبے اور ہماری مِلّی مزاحمت کی چوٹ براہِ راست استعماری دشمن پر پڑے؛ جو اِن مقبوضہ خطوں میں بیٹھ کر بقیہ عالم اسلام کو سبوتاژ کرنے اور مسلم دنیا میں اپنے کچھ لمبے چوڑے منصوبے پایۂ تکمیل کو پہنچانے میں مصروف ہے۔
ب. اور تاکہ ہماری قربانیاں مسلسل اس جہت میں بڑھیں کہ عالمِ اسلام میں اودھم مچاتے یہ بڑےبڑے ہاتھی اور ان کی معیشتیں جن پر انہیں بڑا مان ہے، ذرا خوب نُچڑ لیں (بلِیڈ bleed کر لیں)۔ اور اِسی دوران مسلم طاقتیں کچھ مزید قوت، تجربہ اور اعتماد پید کر لیں۔
ج. نیز ایک ایسی غیرمبہم مزاحمت کے نتیجے میں امت اپنے دشمن کو بھی خوب پہچان لے۔
د. نیز اپنے دشمن سے برسرپیکار، اور اپنی زمینوں اور اپنی عزتوں کے رکھوالےمجاہدین کو بھی امت خوب پہچان لے، بلکہ حسبِ استطاعت انہیں اون own کرے۔ یوں کسی لمبی چوڑی الجھن کے بغیر، عملاً، یہ دو ملتوں کی جنگ بنے۔
ه. نیز اِس مرحلہ میں مقبوضہ مسلم خطوں کا یہ واضح، سادہ اور آسان کیس دنیا میں انسانی بنیادوں پر منوانے کےلیے، ایک مؤثر ابلاغی حکمتِ عملی کے ذریعہ سے، غیرمسلم دنیا کے غیرجانبدار ذہنوں تک کو اپنی تائید پر ابھارا جائے۔ یوں فلسطین و کشمیر وغیرہ ایسے خطوں میں برسرپیکار مجاہدین کی تنہائی کو ممکنہ حد تک کم کیا جائے۔
(یورپ اور امریکہ کا وہ طبقہ جو اپنی حکومتوں کی ظالمانہ پالیسیوں کی ہاں میں ہاں نہیں ملاتا اور کچھ منصفانہ ایشوز کے حق میں کھل کر بولتا ہے بشرطیکہ اس تک رابطے کے کچھ کامیاب پل تعمیر کیے جائیں… مسلم خطوں کے ایشو کو اٹھانے کےلیے اس فیکٹر کو ہرگز معمولی نہ جاننا چاہئے۔ ان آخری سالوں میں حماس کی جانب سے معاملے کی اس جہت پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ جس کے نتیجے میں فرانس اور برطانیہ کی حقوقِ انسانی کےلیے کام کرنے والی بےشمار تنظیمیں اور شخصیات اسرائیلی مظالم کے خلاف آواز اٹھانے لگی ہیں۔ یہاں تک کہ غزہ کا حصار توڑنے کےلیے چلنے والے فلوٹیلا میں آزاد مغربی شخصیات اور تنظیمات بھاری تعداد میں شریک ہو کر پوری دنیا کو حیران کر گئیں۔ جس کے بعد یورپی رائے عامہ میں اسرائیل مخالف ہوائیں چلنے لگیں۔ اس کے نتیجے میں برطانوی اور امریکی ’جمہوریت‘ کی دورُخی تک آزاد ذرائع کا موضوعبننے لگی۔ حقیقت یہ ہے کہ مقبوضہ خطوں میں برسرپیکار مجاہدین نے اِس جہت پر یا تو سوچا نہیں یاابھی تک اِس جہت پر زیادہ سرگرم نہیں ہو پائے۔ ورنہ دشمن کی مشکل اِس ترکیب سے دوچند کی جا سکتی ہے)۔
2. ایسے مقبوضہ خطوں کے حوالے سے وہاں کے مقامی نیز عالمی اسلامی تحریکی طبقوں کی رائے عامہ تدبیری طور پر بھی وہاں پر جہاد کے حق میں ہو۔ کیونکہ کسی محاذ کو کھولنے یا نہ کھولنے کے معاملہ میں امت کی عقول کی جانب رجوع لازم ہے؛ اگرچہ شرعاً ایسے کسی مقبوضہ خطے میں قتال کی گنجائش ہو بھی۔ امت کے بڑے دماغ اور سیانی تجربہ کار عقول کی جانب ان معاملات کو تدبیری طور پر لوٹانا اشد ضروری ہے۔ وَإِذَا جَاءَهُمْ أَمْرٌ مِّنَ الْأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُوا بِهِ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَى أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنبِطُونَهُ مِنْهُمْ۔](النساء: 83) جب اِنہیں امن یا خوف ایسا کوئی معاملہ پیش آیا، تو یہ لگے اسکو ہر طرف پھیلانے۔ حالانکہاگر یہ اسے رسول اور اپنے ذمہ دار لوگوں کی طرف لوٹا دیتے تو معاملے کی تہہ تک پہنچنے والے اس پا لیتے۔[ استنباط (معاملے کی گہرائی میں جانے) کی صلاحیت نہ رکھنے والے لوگ ایسے سنگین اور دُوررَس تاثیر رکھنے والے معاملات میں امت کے مرجع نہیں ہونے چاہئیں۔
خلاصہ یہ کہ: بوجوہ یہ ضروری تھا، اور ہے، کہ قتال (جنگ) کا معاملہ __ اِس پورے سیناریو میں __ اُن مسلم مقبوضہ خطوں کو آزاد کرانے تک ہی محدود رہے جو آج کسی صلیبی یا صیہونی یا بھارتی وغیرہ فوج کے بوٹوں تلے پامال ہو رہا ہے۔
پاکستان کے دینی حلقے.. اپنی تاریخ کے بدترین بحران میں
حق یہ ہے کہ ہمارے دینی تحریکی حلقوں کی مین سٹریم main-stream دورِحاضر میں قتال کو مسلم مقبوضہ خطوں (مانند فلسطین، کشمیر، عراق، افغانستان وغیرہ) تک ہی محدود رکھنے کی قائل ہے۔ اس معاملہ میں قطعاً دو رائے نہیں۔ (چند شاذ طبقوں کا معاملہ اور ہے، ہم یہاں دینی تحریکی حلقوں کی مین سٹریم کی بات کر رہے ہیں)۔ دوبارہ عرضکردیں: ہمارے دینی تحریکی حلقوں کی مین سٹریم __ نظریاتی سطح پر بھی اور عملی سطح پر بھی __ “قتال” ایسی سرگرمی کو مسلم مقبوضہ خطوں تک ہی محدود رکھنے کی قائل ہے۔ اور یہ حقیقت ہمارے ان تحریکی حلقوں کی بابت ہر شک و شبہ سے بالاتر ہے۔
البتہ ہمارے دینی طبقوں سے کسی درجے میں جو ایک کوتاہی ہوئی وہ یہ کہ: قتال کے عملکو مسلم مقبوضہ خطوں کی بجائے عام مسلم سرزمینوں (مانند سعودیہ، پاکستان، ترکی وغیرہ)میں گھسیٹ لانے کے آگے جس درجہ کا فکری وسماجی بند باندھنے کی ضرورت تھی وہ شاید ہم سے نہیں باندھ پایا گیا۔ (ایسا کوئی فکری بند باندھنے کی استعداد بھی الاماشاءاللہ یہاں کم دیکھی گئی، جس پر ہم آگے چل کر کچھ بات کریں گے)۔ اس کا یہ نتیجہ ہوا کہ مسلم ممالک میں قتال و خونریزی کو ’اسلام‘ کے ساتھ جوڑنے کا عمل تقویت پانے لگا۔ درست ہے کہ مسلم ملکوں میں قتال اور خونریزی کو اسلام سے جوڑنا دینداروں کے ایک انتہاپسند طبقے میں پایا گیا ہے، (اور اس کا خمیازہ جہاں پوری قوم نے بھگتا وہاں دینداروں نے اور دینداروں کے اسلامی کاز Islamic cause نے کہیں زیادہ بھگتا)۔ تاہم اس چیز کو ابلاغی سطح پر پھیلانے اور ہوا دینے پر زیادہ محنت یہاں کے لبرل بلاک کی ہو رہی تھی۔ یہاں تک کہ اس کےلیے بڑی بڑی ذہین چالیں چلی گئیں۔ دوبارہ واضح کر دیں: مسلم سرزمینوں میں عسکریت کو ’اسلام‘ کے ساتھ جوڑنے کے جو رجحانات یہاں پیدا ہو رہے تھے، دینداروں کو وہ رخنہ بڑی ابتداء میں ہی بند کرتے نظر آنا چاہئے تھا۔ کیونکہ اس کا نقصان مسلم سرزمینوں کے داخلی استحکام کو تو ہوتا ہی ہوتا (اور یہ بھی دراصل دینداروں ہی کا نقصان تھا؛ اِن کی قربانیاں اِن مسلم سرزمینوں کےلیے آزادی سے پہلے بھی رہی ہیں اور بعد میں بھی، اور یہ بات ہر شک و شبہہ سے بالاتر ہے) البتہ دینی کاز cause کو اِن ممالک میں اس سے جو نقصان ہونے والا تھا وہ اس سے بھی بڑھ کر ہے۔ ہاں اِس چیز کو بروقت بھانپنے میں __ یا یوں کہیے کہ پوری طرح بھانپنے اور اس کے سنگین مضمرات کا پیشگی، دُوررَس اندازہ کرنے میں __ ہمارے دینی سیکٹر سے ضرور کچھ کوتاہی یا تاخیر ہوئی ہے۔
یہاں سے ہمیں دہری مار ملی:
1. مسلم ملکوں کو غیرمستحکم کرنے کے مواقع پیدا ہوئے۔ اس معاملے کی سنگینی اِس پوری فصل میں مختلف جہتوں سے ہم بیان کر آئے۔
2. چونکہ اسلام کو بھی اس چیز کے ساتھ جوڑا گیا، لہٰذا چشمِ تاریخ پہلی بار آج دیکھ رہی ہے کہ:
i. یہاں کے لبرل بکاؤ مال کو ’ملک کے ہمدرد و خیرخواہ‘ کے روپ میں آنا ملا۔
ii. جبکہ دینداروں کی ملک اور قوم سے وفاداری پر انگلی اٹھائی جانے لگی۔
دونوں چیزیں اِس ملک کی تاریخ میں پہلی بار!!!
اس سے زیادہ غیرحقیقی تصویر اِس ملک کے بدخواہ لبرلز کی کبھی دیکھی گئی تھی اور نہ ملک کےلیے قربانیوں کی پوری ایک تاریخ رکھنے والے اور اب بھیملک کی سالمیت کےلیے بےچین رہنے والے دینداروں کی۔
غرض… باہر کے صلیبیوں اور اندر کے لبرلوں کی چاندی ہی چاندی:
1. مسلمانوں کی بڑی آبادیوں، وسیع رقبوں، طاقتور فوجوں اور مضبوط عسکریصلاحیت کی مالک اکائیوں کو (کہ جو یہاں انیسویں صدی والے سیناریو کی بحالیمیں اس وقت ایک بڑی رکاوٹ ہیں) ایک گہری دُوررَس چوٹ بھی لگاؤ ۔ جس سے ’انیسویں صدی سیناریو کی جانب جزوی واپسی‘ یہاں ممکن بنائی جا سکے۔ آج نہیں تو کل، کل نہیں تو پرسوں، اِس کی کوئی صورت بنے۔
3. اور مسلمانوں کو اتنی گہری دُوررَس چوٹ لگانے کے باوجود مسلمانوں کے خیرخواہ اور مددگار بھی نظر آؤ؛ ]جو (بیچارے!) ’دہشتگردی‘ کے خلاف مسلمانوں کی مدد کو آئے ہوئے، اور ’مسلمانوں کے غم میں‘ قربانیاں دیتے، پہاڑوں کی خاک چھانتے (عالم اسلام کے کئی خطوں پر براہ راست قبضے کرتے اور باقیوں کو غیرمستحکم کرتے) پھر رہے ہیں![۔
4. اور پھر یہ سارا ملبہ ’اسلام‘ پر بھی ڈال دو۔ کہ جس کے قرآن میں ’’جہاد‘‘ پر ایسی آیتیں ہوں اس کو پڑھانے والے مدارس سے ’دہشتگرد‘ ہی تو نکلیں گے۔ یہاں سے ’دہشتگردی‘ کے خلاف اِس جنگ کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ ’قرآن پڑھنے پڑھانے والوں‘ کی طرف پھیر دو۔ ’مسجدوں اور داڑھیوں‘ کے پیچھے لگا دو۔ یوں عالم اسلام میں اپنے بہت سے رُکے ہوئے کام خاص اِسی موقع پر کروا لو: ایک پابندِ اسلام مسلمان ہونا یہاں باقاعدہ خطرے کی علامت ٹھہرا دو۔ یہاں تک کہ اسلامی شعائر کی پابندی کرتے ہوئے، کہیں یورپ میں نہیں، خود مسلم ملکوں میں لوگ اپنے آپ کو غیرمحفوظ، جبکہ بےدین مظاہر اختیار کرتے ہوئے خود کو محفوظ و مامون جاننے لگیں۔ غرض میڈیا کے اس عفریت سے کام لے کر اس جنگ کو باقاعدہ نفسیاتی حربوں میں ڈھال دو۔
دوبڑے چیلنج:
آپ نے دیکھا، ہم نے ’’نفاذِ شریعت‘‘ کا ذکر فی الحال یہاں نہیں کیا۔ معاذ اللہ، اس لیے نہیں کہ ’’نفاذِ شریعت‘‘ کوئی کم اہم مسئلہ ہے۔ بلکہ اس لیے کہ معاملہ اس سے بہت آگے جا چکا۔ ایک معرکے کا نقشہ اگر آپ پر واضح نہیں تو اس کو لڑنا بھی آپ کے بس میں نہ ہو گا۔
• جہاں تک ’’گرانے‘‘ کا تعلق ہے تو مغرب ہمارے یہاں ’’شریعت کی حکمرانی‘‘ کو بہت دیر پہلے گرا چکا۔ لہٰذا ’’گرانے‘‘ کے حوالے سے ہم جس چیز کا باربار یہاں ذکر کر رہے ہیں اور قوم کو دشمن کے حملوں اور چالوں سے باربار خبردار کر رہے ہیں وہ کوئی اور چیز ہے۔ اور وہ ہے ہمارے اِن معاشروں کا دینِ اسلام پر یقین۔ شریعت کو اپنی زندگی کا دستور ماننے کا عقیدہ۔ انبیاء سے متصادم ادیان اور فلسفوں کو باطل اور جہنم کا سامان جاننے کا اعتقاد۔ وہ ’’شریعت‘‘ کو اِس وقت اقتدار کے ایوانوں سے نہیں نکال رہے؛ کیونکہ یہ کام وہ بہت پہلے کر چکے۔ وہ تو اب ’’شریعت‘‘ کو ذہنوں سے کھرچ رہے ہیں۔ دماغوں سے نکال رہے ہیں۔ شریعت کے رہے سہے اثرات اب وہ معاشروں سے ہٹا رہے ہیں۔ شریعت کو اب وہ ہمارے سماجی نقوش ہی سے محو کر رہے ہیں۔ اِس وقت تو ان کا صاف صاف ہدف ہمارے یہ عقائد ہیں۔ ہمارے تہذیبی خدوخال ہیں جن میں ہم ابھی تک کچھ نہ کچھ مسلمان تھے۔ سارا زور اب ’’مسلمان‘‘ کو اِس مقام پر مار دینے پر ہے۔ یہاں اگر انہوں نے خدانخواستہ ’’مسلمان‘‘ کو مار دیا تو باقی خطرات ان کی راہ سے خودبخود زائل ہو جاتے ہیں۔ اور یہاں اگر ہم ’’مسلمان‘‘ کو بچانے میں کسی طرح کامیاب ہو گئے تو باقی میدان جیتنے کی بھی کسی نہ کسی دن کوئی آس ہو سکتی ہے۔ البتہ اصل توجہ اس مقام پر ہونی چاہئے جہاں وہ ہمیں ’’مارنے‘‘ کےلیے اپنا پورا زور لگا چکے اور جہاں ہمیں ’’بچنے‘‘ کےلیے اپنا پورا زور صرف کر دینا ہے۔ ’’یہاں‘‘ سے توجہ ہٹا کر کسی اور طرف لے جانا، خواہ کسی اور سیاق میں وہ بات کتنی ہی اہم اور بابرکت ہو، اِس معرکہ میں دشمن کا وار ہم پر چل جانے کا ہی موجب ہو سکتی ہے۔
• اور جہاں تک شریعت کو ’’نافذ کرنے‘‘ کا تعلق ہے تو اس پوزیشن سے ابھی ہم بہت پیچھے ہیں۔ بلکہ اور بھی پیچھے دھکیلے جا رہے ہیں۔ اور دھکیل دیےجائیں گے اگر ہم اپنی پوزیشن کا صحیح تعین کرتے ہوئے، اورصورتحال کی پیچیدگیوں کا درست اندازہ کرتے ہوئے، کوئی درست حکمت عملی اختیار نہیں کرتے۔
یعنی شریعت کی حکمرانی ہم سے لے بہت پہلے گئی ہے۔ جبکہ اس کے ہمارے ہاتھ آنے کی کوئی فوری صورت بہرحال نہیں پائی جا رہی۔ البتہ جو چیز ابھی ہمارے ہاتھ میں ہے اُس پر اگر بھرپور توجہ نہ دی تو وہ ضرور ہمارے ہاتھ سے جا سکتی ہے، لا قَدَّر اللہ۔ اپنے ہاتھ کی چیز بچانا اس وقت کہیں ضروری ہے۔ اور وہ، جیسا کہ ہم نے کہا، ہمارا عقیدہ (رسول اللہﷺ کے دین سے متصادم ہر فلسفہ اور ہر تصورِ حیات کو صریح باطل وموجبِ جہنم جاننے، اور صرف ایک شرعِ محمدﷺ کو حق اور واجبِ اتباع ماننے کا ہمارا وہ ٹھیٹ پیراڈائم) ہے جسے ذہنوں سے کھرچ دینے کے منصوبے اِس وقت زوروشور کے ساتھ رُو بہ عمل ہیں۔
پس وقت ہے یہاں دینِ مغرب کے خلاف ایک نظریاتی جنگ لڑنے کا۔ ایک تہذیبی معرکے میں جا اترنے کا۔ مسجدوں، منبروں اور محرابوں کو ’’مسلَّمات‘‘ کی ایک لڑائی میں سرخرو کروانے کا۔
یہاں اگر ہم اللہ کی توفیق سے کامیاب ہو جاتے ہیں… اور حالیہ سیناریو میں ان دو محاذوں پر دشمن کو پسپا کر لیتے ہیں:
1. صلیبی و بھارتی لشکروں کو عالم اسلام کو غیرمستحکم کر دینے کے مشن میں ناکام کرکے،[1] بےنیل و مرام یہاں سے واپس بھیجنا، جوکہ کوئی چھوٹا ہدف نہیں ہے، اور اس پر ابھی وہ بےپناہ زور لگانے اور نئے سے نئے پتے پھینکنے والا ہے۔]حالیہ سیناریو میں مسلمانوں کی بڑی جغرافیائی اکائیوں (مسلمانوں کے وسیع رقبوں اور بڑی آبادیوں پر قائم یونٹ)، طاقتور اور اعلیٰ عسکری صلاحیت کی مالک فوجوں اور مضبوط معیشتوں کو بچا لیا جانا (خواہ مسلمانوں کی یہ اکائیاں فی الوقت کیسے ہی ’غیراسلامی نظام‘ پر کیوں نہ کھڑی ہوں (اس نقطہ کی وضاحت ہم پہلے کرچکے) ملتِ صلیب کے ساتھ ہماری جنگ کے آئندہ مراحل میں نہایت اہم ہے۔ ’’قوموں‘‘ کے اِس ٹکراؤ میں چھوٹی (اور عملاً ’مزارع‘) اکائیوں کے ساتھ پایا جانا فی الوقت موت ہے[۔
2. ملتِ صلیب کے فکری ہراول (ہمارے یہاں کے لبرلز) کو اپنے معاشرتی محاذ سےبےنیل و مرام لوٹانا اور اپنی مادرہائے علمی میں شکست دینا۔ یہ بھی کوئی چھوٹا ہدف نہیں ہے اور اس کےلیے ہمیں یہاں کے تعلیمی اداروں میں ایک بالکل نئی تیاری اور حکمتِ عملی کے ساتھ اترنا ہو گا۔ نیز مدارس، مساجد اور منبر و محراب کو ایک نئے لہجے کے ساتھ میدان میں آنا ہو گا۔
]یہ ایک سماجی سطح کی نظریاتی جنگ ہے جو آپ کو آج ہی لڑنی ہے۔ اور اس کےلیے ’اقتدار‘ اور ’انقلاب‘ کی شرط لگانا، کہ وہ ہو تو یہاں پر ایک سماجی و تہذیبی کشمکش کھڑی کی جائے، دراصل ایک ’یوٹوپیا‘ میں رہنا ہے۔ میں کہتا ہوں، اگر آپ کسی ’مکی مرحلے‘ کے پابند بھی ہیں، تو ایک ’’عقائدی و تہذیبی کشمکش ‘‘ فی الحال اپنے اِس ’مکی مرحلے‘ کا ہی ایک حصہ سمجھ لیجئے (جو مکہ میں کسی ’اقتدار‘ کے بغیر ہی لڑی گئی تھی) اور جو یہاں پر حملہ آور اُن عقائد (لبرلزم وغیرہ) کے ساتھ آج آپ کو لڑنا ہے جو آپ کے “أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدًا رسول الله” پر براہِ راست حملہ آور ہیں۔ باطل کے نظریاتی و تہذیبی حملہ کے خلاف ایک نظریاتی و سماجی مزاحمت آپ کو آج ہی لے کر آنی ہے۔ ورنہ آپ کا ’انقلاب‘ یا ’’نفاذِ شریعت‘‘ تو رہی ایک طرف، یہاں خدانخواستہ خدانخواستہ ’’ارتداد‘‘ ہی کے سرعام مظاہر ہونے لگیں گے۔ پھر جس دن مسلم پبلک ہی اللہ و رسولؐ پر ایمان رکھنے والی اور اللہ و رسولؐ سے متصادم ادیان و افکار کو اپنے ایمان کےلیے خطرہ جاننے والی نہ رہے گی تو ’اسلامی حکومت‘ کا خواب آپ کس پر پورا کریں گے!؟
صاف سی بات ہے، جس طرح آپ نے بیرونی محاذ پر ’سوویت یونین‘ سے لڑنے کے ساتھ ساتھ اپنے اندرونی محاذ پر (ایک نظریاتی و سماجی سطح پر) ’سرخوں‘ کو شکست دی تھی اور مادرہائے علمی اور ثقافتی مراکز کے اندر ’’اسلام کی حقانیت‘‘ کا معرکہ جیت کر دکھایا تھا ویسے ہی آج آپ کو… جس طرح بیرونی محاذ پر صلیب اور بھارت کی جارحیت کے ساتھ دو دو ہاتھ کرنے ہیں، اور اللہ کا شکر ہے آپ کر رہے ہیں، اُسی طرح اپنے اندرونی محاذ پر یہاں آپ کو مغرب اور بھارت کی بولی بولنے والے (لبرل) عنصر کو نہ صرف پہچاننا ہے بلکہ یہاں کی مادرہائے علمی اور ثقافتی مراکز کے اندر اس کے نظریاتی ڈسکورس کو ایک شکستِ فاش دینی ہے۔ اور اس کے مقابلے پر ’’اسلام کے واحد حق ہونے‘‘ اور ’’اسلام سے متصادم ہر دین، ہر فلسفے، ہر نظریے، ہر نظام اور ہر تصورِ حیات کے باطل اور موجبِ جہنم ہونے‘‘ کو منوانے اور اس کی دھاک بٹھانے پر پورا زور صرف کر دینا ہے۔ مسجدوں اور محرابوں کو اِس نظریاتی و سماجی مزاحمت کا بیس کیمپ بنانا ہو گا[۔ “اسلام کا عملی قیام” البتہ اس سے بھی زیادہ اعلیٰ صلاحیتوں کا متقاضی ہو گا؛ اور زیادہ امکان یہ ہے کہ یہ کام آپ اِن دو محاذوں کو سرے لگانے کے بعد ہی کسی اعلیٰ قومی سطح پر کر سکیں گے (اس پر کچھ گفتگو آگے آ رہی ہے)۔ فی الحال ان دو گھس آئے دشمنوں سے نمٹنا (ہر دو سے الگ الگ میدان میں، اور الگ الگ طریقے سے) آپ کی فوری ترجیح ٹھہرتا ہے۔ البتہ اگر آپ اِن دو محاذوں پر خدانخواستہ آج ہارتے ہیں تو پھر یہ پوری بساط ہی آپ پر الٹ جاتی ہے۔
ان دو محاذوں پر اگر ہم اللہ کی توفیق سے دشمن کو پسپا کر لیتے ہیں… تو ان شاء اللہ یہ عالم اسلام ہمارا ہے۔ یہ ملک ہمارے ہیں اور ہم اِن کے۔ عنقریب نہ یہاں صلیبی لشکر نظر آئیں گے اور نہ لبرلز کے یہ غول۔ دونوں ’سوویت یونین‘ اور اس کے پروردہ ’سرخوں‘ کی طرح ہمارے اِس جہان سے روپوش ہو جائیں گے۔
ہاں عالمِ اسلام کی ساخت اور تشکیلِ نو ہمارے علماء اور مفکرین اور داعیوں کا ایک امتحان پھر بھی ہو گا۔ یہ قرض یوں بیٹھے ادا نہ ہو گا۔ معاشرے میں اسلام کی واپسی کسی ’آرڈینینس‘ سے یا کسی ’دستوری ترمیم‘ سے یا کسی ’نوٹیفیکیشن‘ سے ہو جانے والی ہے جبکہ آپ کی اپنی مصروفیاتِ روز و شب اور آپ کے اپنے موضوعات وترجیحات عین وہی رہیں جو آپ کے مدارس اور مساجد میں فی الوقت جاری و ساری ہیں، اس واہمے کو تو جس قدر جلد ذہن سے نکال سکیں براہِ کرم نکال دیں۔’’نفاذِشریعت‘‘ ایسے بےشمار پراجیکٹ تب بھی (یعنی مسلم سرزمینوں سے بھارتی و صلیبی وصیہونی لشکروں کے یہاں سے ناکام اور ان کے پروردہ لبرل غولوں کے یہاں سے پسپا ہو جانے کے بعد بھی)… ’’نفاذِ شریعت‘‘ ایسے پراجیکٹ اسی بات پر انحصار کریں گے کہ آپ کے علماء اور مفکرین اور داعی معاشرے کے فکری وتہذیبی رجحانات پر چھانے کی صلاحیت کس درجے کی رکھتے ہیں اور ’الیکشن لڑنے‘ سے بڑھ کر ’’سیاسی عمل پر اثرانداز ہونے‘‘ کی وہ سائنس جو ائمۂ سلف کے ہاں پائی گئی تھی اس کا احیاء یہ یہاں پر کس درجہ میں کر سکتے ہیں۔ معاشرے میں شریعت کی حکمرانی کا عود کر آنا کوئی مفت میں ملنے والی چیز بہرحال نہیں ہے۔ ایک مختلف طرز کا مولوی (دینی رہنمائی دینے والا فِگرfigure ) جب تک آپ معاشرے کو نہیں دیں گے، شریعت کی حکمرانی آپ کو یہاں نہیں ملنے والی۔ تقریروں اور وعظوں اور جلسوں اور نعروں سے اگر شریعت آ جایا کرتی تو اب تک شریعت کا دور دورہ ہو چکا ہونا چاہئے تھا! کچھ کمی تو نہیں رکھی ہم نے یہ ’ضرورت‘ پوری کرنے میں! یا اپنے اِس مولوی میں کوئی تبدیلی برپا کر دیجئے تاکہ معاشرے میں کوئی حقیقی تبدیلی برپا ہو (معاشرہ تو بےچارہ آپ کا منتظر ہی ہے، آپ ہی زحمت فرمانے کےلیے تیار نہیں)[2]۔ یا اگر اِس مولوی میں تبدیلی برپا نہیں کر سکتے تو کچھ وقت لگا کر آپ ایک مختلف طرز کا مولوی یہاں پیدا کر دیجئے۔ کچھ بڑے مشائخ کو مل کر ایسا ایک ’پلانٹ‘ بہرحال لگانا ہو گا۔ لیکن ایسی کسی بنیادی تبدیلی کے بغیر ہی معاشرہ اسلام کا گہوارہ بن چکا ہو اور ہر طرف دینِ حق کا دور دورہ ہو، جبکہ آپ کے مشغلے وہی ہوں جو اِس وقت ہیں، نیز معاشرے پر اثرانداز ہونے اور یہاں پر جاری عوامل کے اندر ایک ذہین تصرف intelligent maneuvering کرنےکی صلاحیت آپ کے اندر یوں ہی مفقود ہو، خدارا اِس تصور سے باہر آ جائیے۔
محض ہمارے جلسے جلوس اور تقریریں کرنے اور سرکار کے ایک ’آرڈی نینس‘ اور ’نوٹی فیکیشن‘ کے ذریعے یہاں شریعت آ جائے گی، یہ تصور ناقابلِ یقین حد تک عجیب ہے۔ اس سے زیادہ عجیب تصور صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ گولی اور بم سے ہی یہاں شریعت لے آئی جائے گی!
بھائی ’’شریعت‘‘ آنا یہاں داعیوں کے ایک اعلیٰ سماجی صلاحیت سامنے لانے پر منحصر ہو گا، آج بھی، کل بھی اور پرسوں بھی۔ اس کےلیے ’شارٹ کٹ‘ لگانا اپنے مسائل میں اضافہ کرنا ہو گا۔
میری ان گزارشات کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ایک معاشرتی محاذ پر جُتے اور یہاں ایک کامیاب پیش قدمی کیے بغیر فی الحال آپ شریعت کا مطالبہ تک نہ کریں۔ میرا مطلب صرف ان چیلنجوں کو واضح کرنا ہے جو اِس وقت آپ کو عملاً درپیش ہیں اور جن پر آپ کو فوری اور بھرپور توجہ دینا ہے۔ میرا موضوع یہاں ان اہداف اور ترجیحات کا تعین ہے جن پر ’’نفاذِ شریعت‘‘ سمیت آپ کی اور بہت سی نیک مرادوں کے بر آنے کا انحصار ہے۔
البتہ اس مسئلہ میں ایک پیچیدگی کی نشان دہی ضروری ہے: متعدد عوامل، نیز کچھ خرانٹ دماغوں کی تدبیر، کہ پچھلے کچھ عرصے میں ’’شریعت‘‘ کو ’’ملیٹنسی‘‘ militancy کے ساتھ ایک غیرمعمولی حد تک جوڑ دیا گیا ہے۔ ’’شریعت‘‘ کے کیس کو دراصل یہ ایک غیرمعمولی ضرب لگائی گئی ہے، کسی جانب سے دانستہ اور کسی جانب سے نادانستہ۔ قصہ کوتاہ میڈیا کے بَل پر اذہان میں ان دو لفظوں کو کچھ لازم و ملزوم سا کر دیا گیا ہے: ’’شریعت‘‘ اور ’’ملیٹنسی‘‘۔ یہاں سے؛ مسئلہ کی حساسیت کچھ اور بڑھ جاتی ہے۔ نفاذِشریعت کےلیے آواز بلند کرنے والے روایتی طبقے اس معاملے کو توجہ نہ دینے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ ’ملیٹنسی‘ سے الگ اپنا ایک تعارف کروانا ان کےلیے کوئی آسان کام نہ ہو گا۔ خدانخواستہ، زیادہ امکان یہ ہے کہ یہ بولیں گے ’’شریعت‘‘ اُدھر ذہین میڈیا کو باربار سنے گا ’’عسکریت‘‘! اس اندیشہ سے صرفِ نظر ممکن نہیں کہمطالبۂ شریعت کے حوالے سے یہاں کے روایتی امن پسند طبقوں کی محنت عسکریت پسند طبقوں کے کھاتے میں جا پڑتی رہے۔ معاملہ واقعتاً اسی قدر پیچیدہ کر دیا گیا ہے۔
اور صرف ایک ’’شریعت‘‘ نہیں اسلام کی بہت سی باتیں اور اصطلاحیں اس وقت عسکریت کے ساتھ جوڑ کر ’خطرے‘ کا نشان بنا دی گئی ہیں۔ اس لحاظ سے؛ ان اشیاء کا وہ سیاق ہی بدل ڈالا گیا ہے جو یہاں اسلام کے کسی داعی کا مقصود ہو سکتا ہے۔ یوں سب سے بڑا نقصان اس وقت یہاں دعوت کا ہوا ہے۔ داعیوں کو دعوت کا صرف ایک مضمون ہی لوگوں کے سپردِ سماعت نہیں کرنا ہوتا؛ بلکہ ماتقدّم pre-emptive ہو کر انہیں یہ بھی دیکھنا ہوتا ہے کہ ماحول کے اندر ان کی ایک بات کس سیاق و سباق کے اندر سمجھی جانے والی ہے۔ ’کمیونی کیشن‘ کا یہ ایک لازمی و بنیادی حصہ ہے ؛ اور ’’دعوت‘‘ کامیاب کمیونی کیشن کے بغیر کچھ نہیں۔ لہٰذا توحید کے کئی ایک مضامین کو اُن کا صحیح سیاق دینا بھی اِس وقت حد سے مشکل کر دیا گیا ہے۔ دعوت کے مضامین کو اُن کا صحیح سیاق دیے بغیر؛ دعوت کے مقاصد سے برعکس نتائج سامنے آنے کا بھی کافی سے زیادہ امکان ہوتا ہے۔ جبکہ ’دعوت‘ ظاہر ہے کوئی سر سے اتارنے کی چیز نہیں بلکہ ماحول میں ایک صالح تبدیلی برپا کرنے کا نام ہے۔ یہ نہیں تو اسے ’’دعوت‘‘ نہیں محض ایک کارگزاری کہیے۔ پیچیدگیاں بڑھانا ’’دعوت‘‘ میں نہیں آئے گا۔
تحریر حامد کمال الدین، سہ ماہی ایقاظ
‘پوسٹ کولڈ وار ‘سیناریوسمجھنےکی ضرورت ہے | الحاد جدید کا علمی محاکمہ
March 30, 2018 at 4:03 am[…] پیچھے ہم بات کر آئے، سرد جنگ کے سرے لگنے کے بعد استعمار کو خواہش ہوئی ہے کہ عالم اسلام میں انیسویں صدی والا سیناریو پورا نہ سہی، ایک حد تک بحال کیا جائے۔ یعنی مسلم دنیا اپنے وسائل اور باشندوں سمیت پھر سے گورے کے قدموں میں ڈھیر ایک خام مال ہو۔ یہاں کوئی مقامی قوت ایسی مضبوط اور شہ زور نہ پائی جائے کہ یہاں کے باشندے اپنے وسائل اور اپنے مفادات کے معاملے میں آپ اپنی قسمت کے مالک ہوں اور وسائل کے معاملے میں گورا یہاں سے بےدخل و بےاختیار کر دیا جائے۔ ایک اور چیز البتہ گورے کو اس سے بھی بڑھ کر پریشان کرتی ہے… آج نہ سہی کل، کل نہ سہی پرسوں، کسی اندرونی اصلاح کے نتیجے میں اسلامی قیادتوں کے زیراثر افراد کا اقتدار میں آنا یہاں خارج از امکان بہرحال نہیں ہے۔ (ترکی میں اسلامیہوائیں چل پڑنا آخر کس کے گمان میں تھا؛ جہاں اقتدار کی سطح پر بھی معاملہ اب ’باعثِ تشویش‘ ہی ہے۔ مصر کی صورتحال ’باعثِ تشویش‘ ہوتی ہوتی رہ گئی۔ اور کئی مثالیں آگے پیچھے اسی قبیل کی ’باعثِ تشویش‘ آسکتی تھیں اگر عرب بہار لہو رنگ نہ کر دی جاتی۔ عالمِ عرب کو تو اِسی خطرے کے پیش نظر ’جمہوریت بی‘ کی جھلک نصیب نہیں جب تک کہ کوئی لمبی چوڑی انجینئرنگ یہاں کی نہ کر دی جائے!) مقصد یہ کہ ایک بنا بنایا مضبوط ملک اپنے وسائل اور اپنے فیصلوں پر مکمل کنٹرول رکھنے والا اور کسی دوسرے کو پاس نہ پھٹکنے دینے والا، ایسے کسی خطرے کےلیے چھوڑیں ہی کیوں جہاں کسی احمد سرہندی کے گہرے و دُوررَس عمل کے نتیجے میں اسی اکبر کی مسند پر دنیا ایک روز کسی عالمگیر کو جلوہ افروز دیکھے! نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔ مسلمانوں کی کوئی ایسی مضبوط خودمختار (اپنے فیصلوں کی آپ مالک) اِکائی آخر ہو ہی کیوں؟ لہٰذا ایک غیراسلامی نظام کے ساتھ بھی کوئی مضبوط مسلم اکائی چھوڑنا دُوررَس طور پر خطرے کا سودا ہے! آج جب یہ مسلم ممالک بحرانوں میں گھِرے ہیں، ’فیصل‘ اور ’ضیاءالحق‘ ایسے ناگہانی خطرات تو پھر بھی یہاں سر اٹھا لیتے ہیں! (جنہیں ’راہ سے ہٹانا‘ بالآخر مجبوری ہو جاتی ہے)! بھلا کوئی ایسا دور جب ان ملکوں کے ہاں دُور دُور تک کوئی بحران بھی نہ ہو اور یہ اپنے فیصلے آپ کرنے کی پوزیشن میں بھی ہوں (بیرونی مداخلت والی اِس پوری صورتحال سے باہر ہوں؛ اور آپ اپنی کر کے کھا رہے ہوں) تو تب اگر یہاں کوئی فیصل یا کوئی ضیاءالحق اٹھ کھڑا ہوا تو کیسا کیسا ڈراؤنا سیناریو نہیں ہو سکتا! یہاں تو کچھ پکےپکے انتظامات کر کے جانا ہو گا اس بار! بیڑہ غرق ہو دو عالمی جنگوں اور ان کے بعد چلنے والی ایک طویل سرد جنگ کا جو ’انیسویں صدی‘ ہاتھ سے نکل گئی۔ اب یہ جو ایک موقع ہاتھ آیا ہے (سرد جنگ سے فراغت)، اس کو بھی ضائع کردیں تو گورے کو عقلمند کون کہے! پکے انتظامات بھائی صاحب! یہاں کوئی مسلم اکائی، خواہ فی الحال وہ کیسے ہی غیراسلامی نظام پر کیوں نہ کھڑی ہو، اور خواہ وہ اپنے نظام یا تہذیب کے معاملہ میں سن 92ء کے بوسنیا اور کوسووا کا نقشہ کیوں نہ پیش کر رہی ہو، ایک مضبوط مستحکم حالت میں چھوڑو ہی مت۔ یہ نہیں تو اِن کی نسلوں میں اس لاالٰہ الا اللہ کو سوچ سمجھ کر پڑھنے والے ضرور پیدا ہوں گے۔ حالیہ صلیبی مہم: مسلم اکائیوں کا چُورا کرنا استعماری قوتوں کا مقصود دو پوائنٹوں میں آ جاتا ہے: 1. مسلم دنیا کے اندر جو بڑی بڑی اور مضبوط اکائیاں ہیں وہ کسی طرح ہلکی پھلکی کر دی جائیں تاکہ بیرون سے ان کی ’سرپرستی‘ مستقل بنیادوں پر جاری رہنا ممکن ہو۔ 2. یہاں کے نہ صرف نظاموں کو بلکہ معاشروں ہی کو ارتداد کی راہ پر ڈال دیا جائے۔ (دوسری چیز ہماری آئندہ فصل میں ذکر ہو گی۔ یہاں پہلی کا کچھ بیان ہے) انسانی وقائع اس پر شاہد ہیں، کوئی اکائی ایک بار توڑ دی جائے تو اس کی بحالی پھر جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتی ہے۔ بنگلہ دیش کے ساتھ آپ اکٹھے تھے سو تھے۔ لیکن اب اگر دونوں طرف بڑی ہی مخلص قیادتیں آ جائیں (فی الحال ایک مفروضہ) تو وہ بھی ان دو ’ٹکڑوں‘ کو ایک کر کے شاید ہی کبھی دکھا سکیں۔ یعنی ٹوٹ گیا سو ٹوٹ گیا۔ پورا ’مشرقِ وسطیٰ‘ چند عشرے پہلے (عثمانی دور میں) ایک ملک تھا۔ جی ہاں پورا ’مشرقِ وسطیٰ‘ ایک ملک، جس پر ابھی چند عشرے ہی گزرے ہیں۔ لیکن اب یہ ایک درجن سے زائد ملک ہیں اور یوں گویا ہمیشہ سے الگ الگ ملک! ان میں سے ہر کوئی ’الگ تھلگ قوم‘ جو دنیا جہان کی قوموں سے جوتے کھا سکتی ہے مگر اپنی ’الگ تھلگ‘ حیثیت پر آنچ آنے نہیں دینے والی! یعنی گورے نے (اپنے دورِ اول میں) یہاں قبضہ کرنے اور یہاں کی قوموں کو غلام بنانے پر اکتفاء نہیں کیا۔ بلکہ وہ ایک ایسا دُوررَس کام بھی ’’مشرقِ وسطیٰ‘‘ میں عین اُسی ہلے کے اندر کر گیا ہےکہ کبھی یہ آزاد بھی ہو لیں تو آپس کی یہ دراڑیں ختم نہ کر سکیں۔ بلکہ اِن دراڑوں کو اپنا وجود اور اپنی زندگی جان کر ان کےلیے لڑیں۔ غرض ایک اکائی جب ایک بار ٹوٹی تو پھر مشکل سے جڑنے کا نام لیتی ہے۔ آپ دیکھ لیں گے کبھی ان ملکوں میں شریعت کی حکمرانی واپس آئی تو بھی ان فاصلوں کو ختم کرانا آسان کام نہ ہوگا۔ (جن لوگوں کا خیال ہے ادھر ’خلافت‘ کا بٹن دبایا جائے گا ادھر عالم اسلام کے سب ٹکڑے برق کی تیزی کے ساتھ آن جمع ہوں گے، وہ کسی خوش فہموں کی جنت میں رہتے ہیں، ہمارے نوجوانوں کو لازماً ایسی خیالاتی دنیا سے نکلنا ہو گا)۔ آپ کو یاد ہے بنو عباس اور بنو امیہ کے مابین اندلس کا بقیہ عالم اسلام سے کٹنا ہمارے اسلامی دور میں ہی ہوا تھا، جسے پہلی پوزیشن پر واپس لانا پھر مسلسل دوبھر رہا۔ اس کے علاوہ بھی الگ الگ امارتوں کی جہاں کوئی صورت بنی انہیں پہلے والی پوزیشن پر واپس لانا کبھی آسان نہیں رہا، باوجود اس کے کہ اُس دور میں انکل سام عالم اسلام میں دندناتے بھی کہیں نہیں پھر رہے تھے۔ پھر جبکہ یہ الگ الگ امارتیں محض کچھ انتظامی اکائیاں تھیں نہ کہ دورِ حاضر کی طرح باقاعدہ ’قومیتیں‘۔ پھر بھی ایک بار ٹوٹ چکی چیز کو جوڑنا اس قدر مشکل تھا۔ جوڑنے کے کچھ واقعات ہماری تاریخ میں ہوئے ضرور؛ مگر تلوار کے اچھےخاصے استعمال کے بعد۔ یعنی ایک ایسا مشکل آپشن کہ مسلمانوں کو ایک ممکنہ بڑی وحدت میں نہ لے کر آئیں تو مار کھائیں اور اگر وحدت میں لے کر آئیں تو مسلمانوں کے مابین خونریزی کے ایک ناگوارترین عمل اور عصبیتوں کے ایک دریا سے گزر کر؛ اور کسی کسی وقت تو معاملہ اسی خونریزی اور باہمی دشمنی میں دب کر رہ جائے۔ یہ وجہ ہے کہ مسلمانوں کا ٹکڑے ہونا سب سے بڑی نحوست جانا گیا ہے، کیونکہ یہ اپنے اندر صدیوں کے مضمرات رکھتا ہے؛ اس (شیرازہ بکھرنے) سے بچنے کےلیے بڑی سے بڑی قیمت دینا وارے کا جانا گیا ہے۔ یہاں چیزیں ٹوٹ آسانی سے جاتی ہیں، لیکن جڑنے کا نام پھر نہیں لیتیں خواہ کیسے ہی سورما اس کےلیے زور لگا لیں، الا ما شاء اللہ۔ یہ ایک جانی مانی حقیقت ہے کہ مسلمانوں کی کوئی جغرافیائی اکائی چاہے ایک غیرشرعی نظام کے تحت بھی ہو، آج اگر لخت لخت کرائی جاتی ہے تو اس میں مسلمانوں کا ڈھیروں نقصان ہے۔ لہٰذا ایک غیرشرعی نظام ہے تو بھی ہم یہ قبول نہیں کر سکتے کہ وہ جیسے چاہیں ہمارے ٹکڑے کر جائیں کہ کیا فرق پڑتا ہے ایک غیرشرعی نظام ہی تو ہے! (وہی سوچ جس کا ہم نے اپنے اِس مضمون کے گزشتہ حصے میں جائزہ لیا ہے)۔ بھائی آپ کا جو حصہ ایک بار ریزہ ریزہ ہو گیا، وہاں کبھی دیندار لوگ اقتدار میں آجائیں تو بھی ان کےلیے اس چُورے کو واپس وحدت میں لانا کوئی آسان کام نہ ہو گا۔ مع کچھ دیگر مفاسد۔ یہ شیرازہ جتنا منتشر ہو گا اتنا آپ کےلیے مسئلہ ہو گا۔ اور دشمن کا کام آپ کے خلاف اُس وقت بھی آسان کیے رکھے گا (اور اب تو رکھے گاہی؛ بلکہ وہاں پہنچنے ہی آپ کو کیوں دے گا)۔ لہٰذا اپنے وجود پر دشمن کا اِس قسم کا کوئی وار ہم تو (اپنا بس چلنے کی حد تک) آج بھی نہیں ہونے دیں گے۔ ہمارا دشمن اس حقیقت کو خوب جانتا ہے اور عالم اسلام کی ایک نئی انجینئرنگ کرنے کے مشن پر کسی قدر کامیابی سے گامزن ہے: • عراق جو مشرقِ وسطیٰ کی سب سے بڑی فوجی قوت تھا، نیز عرب وحدت کا روحِ رواں ہونے کے باعث کسی وقت ایک مجوزہ ’عرب یونین‘ کا جرمنی کہلاتا تھا، بڑی ہی کامیابی کے ساتھ تین ٹکڑے کیا جا چکا، جو چار تک پہنچ سکتے ہیں۔ نیز وہ عراق اب نرا تین یا چار ٹکڑے نہیں۔ بلکہ ایسا ’تین چار ٹکڑے‘ ہے جو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں اور ہزار سال تک آپس میں لڑ سکتے ہیں، سوائے یہ کہ ان میں صلح صفائی رکھنے والا کوئی ’عالمی‘ سیانا امنِ عالم کا ٹھیکیدار ان ’کھلنڈروں‘ کے سر پر دستِ شفقت رکھنے کو موجود اور ان پر مسلسل مہربان رہنے کو تیار ہو! • لیبیا عملاً کئی ٹکڑے ہو چکا؛ جوکہ متحارب بھی ہیں۔ • سوڈان اس سے پہلے دولخت کیا جا چکا، اور مزید تقسیم کےلیے تیزی کے ساتھ مہرے ہلائے جا رہے ہیں۔ • یمن کے ٹکڑے تقریباً ہو چکے، آگے ابھی کچھ معلوم نہیں کیا بنتا ہے، اور معاملات کا سلجھنا کچھ ایسا آسان نہیں ہے۔ خصوصاً جبکہ سعودیہ کا اپنا ہاتھ چکی میں آ چکا ہوا ہے۔ • خود سعودیہ کےلیے ایک بڑا ’سرجری پلان‘ زیرعمل ہے، جس پر سعودیہ کی پریشانی اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ سعودیہ اس وقت عملاً کئی جہت سے حالتِ جنگ میں ہے۔ ایک مضبوط ترکی اور ایک مضبوط پاکستان حالیہ سیناریو میں نہ ہوتے(نیز شاہ سلمان کا تُرک-سعودی تعلقات کے بگاڑ کو دنوں کے اندر کامیابی کے ساتھ دور کر لینا، بلکہ داخلی و خارجی سطح پر تعلقات و معاملات کو چشم زدن میں ایک نئی ترتیب دے لینا) تو دیکھتے امریکہ اس بار کہاں تک کام آتا ہے۔ سعودیہ کا دھڑن تختہ خدانخواستہ اب تک ہوا ہوتا۔ خطرہ اب بھی گیا کہیں نہیں ہے، اور اللہ سے اچھی ہی امید رکھنی چاہئے۔ • مصر کو عدم استحکام میں جھونکنے کے زوردار عوامل اندرونی و بیرونی سطح پر اس کے چاروں طرف منڈلا رہے ہیں، لیکن وہاں پر داخلی جنگجوئی militancy کے جن تجربات سے (اَسّی اور نوّے کی دہائی میں) وہاں کے دینی حلقوں کو خوب کان ہو چکے، اغلباً وہی اس میں مانع ہے کہ ایسی کوئی مہم جوئی وہاں ازسرنو شروع ہو اور پھر ایک غیراختتام پزیر خانہ جنگی کی ابتداء بن جائے، گو ’کوششیں‘ اس کےلیے ہر طرف سے جاری ہیں! • شام ایک خون آشام صورتحال میں سرتا سر گرفتار ہے، جس سے نکلنے کی کوئی صورت سامنے نہیں آ رہی، بلکہ اور سے اور الجھتی جا رہی ہے۔ (کچھ تسلی شام کے حوالے سے ابھی ہے تو وہ اردگان ایسی قیادت کا پڑوس میں موجود ہونا ہے، جو شروع سے وہاں کے مظلوم اور بےبس عوام نیز ان کی مددگار مقامی قوتوں کے ساتھ تعاون کی کچھ مناسب صورتیں رکھتی ہے۔ بلکہ اردگان ایسی قیادت کے خطہ میں موجود ہونے کے باعث یہ تک امکان ہماری نظر میں موجود ہے (نیز دعاء ہے) کہ شام کا معاملہ اسلام کے حق میں بٹھانے کی کوئی ویسی یا اُس سے بھی بہتر صورت اللہ کی توفیق سے سامنے آ جائےجیسی افغانستان کا مسئلہ پاکستان کے تعاون سے اسلام کے حق میں بٹھانے کے اندر کامیابی پائی گئی تھی)۔ • مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان سے ’رہائی‘ تو بڑی دیر پہلے دلوائی جاچکی،جس کےلیے ’بنگلہ دیش‘ آج تک کسی کا زیرِبار ہے! انڈونیشیا سے ایسٹ تیمور کو ’آزادی‘ بھی اِس ’نائن الیون‘ والے ہلے سے پہلے ہی دلائی جا چکی۔ مگر اب تو عالم اسلام کا ہر بڑا رقبہ یا زیادہ آبادی یا مضبوط فوج رکھنے والا ملک سیدھاسیدھا نشانے پر ہے۔ اس کے ایک ایک رخنے پر اہلِ کفر کی نظر ہے۔ یہاں ’علیحدگی‘ کی نوبت لے آ سکنے والے کمزور سے کمزور عوامل اُن سے غیرمعمولی توجہ پاتے ہیں۔ مذہبی یا سیاسی یا لسانی تفرقہ پیدا کرانے والے سب عناصر کو اُن کی پوری آشیرباد ملتی ہے۔ قومی یکجہتی کو ختم کرنے اور اجتماعی عزائم کو شل کرنے والی سب بغض کی ماری زبانیں اور اقلام اُن کے ’پےرول‘ پر رہتے ہیں۔ اور یہ سب باتیں اب کوئی راز نہیں۔ غرض ایسے کسی بھی مسلم ملک کو توڑنے کی امکانی صلاحیت رکھنے والے عوامل خاصی مکاری اور حیلہ جوئی کے ساتھ پیدا کرائے جارہے ہیں۔ اور حسب ضرورت دھونس سے بھی کام لیا جاتا ہے۔ • پاکستان اُن کا ایک بڑا ہدف ہے، جیسا کہ پیچھے گزر چکا۔ ہمارے حلقوں میں بیٹھنے والے اصحاب جانتے ہیں، ہم اپنی نجی مجالس میں بارہا کہہ چکے، عراق ایسی مضبوط فوجی طاقت کا چند سالوں میں جو حشر کر دیا گیا، عالمی قوتوں کے تیور پاکستان کا اس سے برا حشر کرنے کے تھے؛ پاکستان بلاشبہ عراق سے زیادہ اُن کی نظر میں کھٹکتا رہا ہے۔ امکانی طور پر potentially ہمارے اِس ملک میں جو جو متحارب عناصر ہو سکتے تھے انسب کو بھڑوانے، اور یہاں آگ بھڑکانے والے جو جو عوامل ہو سکتے تھے ان سب کو ہوا دینے کی پوری کوشش کر لی گئی۔ ہمارے پڑوس کی کچھ کینہ پرور انٹیلی جنسیں، نیز کچھ عالمی جاسوسی ادارے اور ان کی بغل بچہ تخریب کار تنظیمیں (مانند بلیک واٹر وغیرہ) پاکستان کو داخلی طور پر عدم استحکام کا شکار کرنے اور یہاں کے لوگوں سے ایک دوسرے کا گلا کٹوانے کے بےشمار جتن کر چکیں۔ بہت بہت ہوم ورک کیا گیا۔ لیکن ایک تو اللہ کی حفاظت۔ دوسرا یہاں پر ایک نہایت چوکس اور پیش بند پیشہ ورانہ دفاعی بندوبست کا موجود ہونا۔ کہ نہ صرف داخلی طور پر دشمن کا کہیں ہاتھ نہیں پڑنے دیا گیا۔ بلکہ افغانستان میں دشمن منہ کی کھا رہا ہے۔ بلکہ کشمیر میں مسلمان عنقریب ایک نئے سرے سے سر اٹھانے والا ہے۔ یہاں تک کہ ہندوستان کا مسلمان ایک نئی جرأت کے ساتھ کھڑا ہونے کے امکانات لا چکا ہے، بعد اس کے کہ اِس پورے خطے میں مسلم امیدوں پر تقریباً پانی پھرتا دکھائی دے رہا تھا۔ بلکہ بعید نہیں بھارت کا سکھ ایک بار پھر اپنے حق کےلیے اٹھ کھڑا ہو۔ البتہ خطرہ ظاہر ہے ابھی پاکستان سے ٹلا نہیں اور کچھ نہیں کہا جا سکتا، دشمن ابھی کیا کیا حربے آزمانے والا ہے۔ ‘پوسٹ کولڈ وار ‘سیناریوسمجھنےکی ضرورت ہے[2]۔ […]