آج کی دنیا میں اسلامی حکومت کے خلاف یہ پروپیگینڈابھی بہت زور شور سے کیا جاتا ہے کہ اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کے حقوق محفوظ نہیں ہوں گے حالانکہ یہ پروپیگینڈا قطعی بے بنیاد ہے۔یہ درست ہے کہ اسلام اللہ تعالیٰ پر بلا شرکت غیرے ایمان لانے کی ایک عالمگیر دعوت ہے لیکن یہ دعوت اس بات کی ہے کہ لوگ اسلام کو دلائل کی روشنی میں بصیرت کے ساتھ قبول کریں ۔اس کام کے لئے زبردستی کی قرآن کریم نے واضح لفظوں میں ممانعت فرمائی ہے۔ارشاد ہے، ’’ دین میں کوئی زبردستی نہیں ہے،ہدایت گمراہی سے ممتاز ہو چکی ہے۔اب جو کوئی طاغوت کا انکار کرے او ر اللہ پر ایمان لائے اس نے مضبو ط کنڈا تھام لیا۔‘‘(سورت البقرہ آیت 256)
لہٰذا کوئی بھی غیر مسلموں کو اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کر سکتا ہے۔اور نہ اسلامی تاریخ میں کسی بھی اسلامی ریاست نے غیر مسلموں پر زبردستی کی ہے۔یہاں تک کہ ہماری تاریخ میں ایک مرتبہ ایسا بھی ہو کہ ایک حاکم نے کچھ لوگوں کودھمکیاں دے کر زبردستی مسلمان بنا لیا تھا۔اس وقت کے مفتی حضرات نے فتویٰ دیا کہ چونکہ ان پر زبردستی کی گئی ہے اس لئے انھیں اپنے پچھلے دین پر واپس جانے کا حق حاصل ہے۔اور قاضی کے سامنے زبردستی کا ثبوت پیش ہواتو قاضی نے فیصلہ دیا کہ انھیں اپنے سابق دین کی طرف واپس جانے اوراس پر عمل کرنے کا موقع دیا جائے۔چنانچہ ان میں سے اکثرلوگ اپنے دین کی طرف واپس چلے گئے۔ (البدایہ والنہایہ ، واقعات 680ھ، جلد 7، صفحہ 578)
چنانچہ جب غیر مسلم افراداسلامی حکومت سے عہد وفا باندھ کرریاست کے باشندے بن جائیں تو ان کی جان ،مال اور آبروکا تحفظ اسلامی حکومت کی ذمہ داری بن جاتی ہے۔اور ان کے شہری حقوق مسلمان باشندوں کے برابر ہو جاتے ہیں۔بلکہ اسلامی ریاست میں غیر مسلم اقلیتوں کے حقوق کی جتنی نگرانی کی گئی ہے،اس کی مثال کسی اور مذہب میں ملنا مشکل ہے۔اسلام کی اصطلاح میں اسلامی ریاست کے غیر مسلم کوُ معاہد‘یا’ ذمی‘ کہا جاتا ہے۔معاہدکے معنی ہیں،وہ جس سے کوئی معاہدہ ہواور غیر مسلم باشندے کومعاہد اس لئے کہتے ہیں کہ اس کے ساتھ یہ معاہدہ ہوتا ہے کہ وہ اسلامی ریاست میں مسلمان شہریوں کی طرح امن سے رہے گااور ذمی کا مطلب ہے،وہ جس کے جان ،مال اور آبرو کے تحفظ کی ذمہ داری لی گئی ہے۔اس سلسلہ میں حضورﷺسے مروی چند ارشادات یہ ہیں:
’’ یاد رکھو جس شخص نے کسی معاہد(غیر مسلم باشندے)پر کوئی ظلم کیایا اس کی بے عزتی کی یا اس کی طاقت سے زیادہ اس کو کسی بات کامکلف بنایاتو قیامت کے دن میں اس کے خلاف وکالت کروں گا۔‘‘[سن ابو داود، حدیث 3057]
’’ جو شخص کسی معاہدکو ناحق قتل کرے اللہ نے اس پر جنت حرام کر دی ہے۔‘‘ (ابوداؤد ، کتاب الجہاد، باب الوفا فی للمعاہد، حدیث 2760)
’’ جو شخص کسی معاہد کوقتل کرے،وہ جنت کی خوشبو بھی نہ سونگھے گا،جبکہ اس کی خوشبو چالیس سال کی مسافت سے بھی محسوس کی جاسکتی ہے۔‘‘(صحیح البخاری ، کتاب الجہاد، حدیث 3166)
غیر مسلموں کے حقوق کے بارے میں بہترین دستاویز وہ ہے جوحضرت فاروق اعظمؓ نے بیت المقدس کے عیسائیوں کو لکھ کر دی تھی۔اس میں کہا گیا تھا،
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔یہ وہ امان نامہ ہے جو اللہ کے بندے عمرؓ امیر المومنین نے ایلیاء کے باشندوں کو دیا ہے۔انہیں ان کی جانوں،ان کے مال،ان کے کلیساوٗں،ان کی صلیبوں کو تحفظ دیا ہے،چاہے وہ بری حالت میں ہو،یا اچھی حالت میں،اور ان کے تمام اہل مذہب کوبھی یہی تحفظ دیا ہے کہ ان کے کلیساوٗں میں کوئی نہیں رہے گا،نہ ان کو گرایا جائے گا،نہ ان میں کوئی کمی کی جائے گی اور نہ ان کی صلیبوں یا ان کے مال میں کوئی کمی کی جائے گی اور نہ ان کے دین میں ان پر کوئی زبردستی ہو گی اور نہ ان میں سے کسی کو کوئی تکلیف پہنچائی جائے گی۔(تاریخ طبری ، واقعات سن 15ھ، جلد 3 صفحہ 609)
حضرت فاروق اعظمؓ بہ نفس نفیس غیر مسلموں کے حالات کی نگرانی رکھتے تھے۔چنانچہ ایک مرتبہ بصرہ سے ایک وفد آیا تو ان سے پوچھا کہ وہاں مسلمان غیر مسلم شہریوں کو کوئی تکلیف تو نہیں دیتے؟وفد کے لوگوں نے کہا کہ نہیں،جہاں تک ہمیں معلوم ہے،وہ غیر مسلموں کو ان کے حقوق دیتے ہیں۔(تاریخ طبری جلد 4 218)
ایک مرتبہ حضرت عمرؓ کا گذر ایک بوڑھے یہودی کے پاس سے ہوا جو بھیک مانگ رہا تھا۔آپ اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے گھر لے گئے اور اسے اپنے گھر سے کچھ دیا،پھر بیت المال کے نگران سے کہاکہ دیکھواس شخص جیسے لوگوں کو دیکھو۔اللہ کی قسم اگر ہم اس کی جوانی کو کھا جائیں اور بڑھاپے میں اسے بے یارو مدد گار چھوڑ دیں تو یہ ہمارا انصاف نہیں ہے۔چنانچہ آپ نے اس جیسے بوڑھوں سے جزیہ لینا بند کر دیا اور بیت المال سے ان کا وظیفہ دینے کا حکم دیا۔(کتاب الخراج لابی یوسف، صفحہ 259، 260)
شہادت سے کچھ پہلے حضرت فاروق اعظمؓ نے اپنے بعد آنے والے خلیفہ کو جو وصیتیں فرمائیں ،ان میں یہ وصیت بھی شامل تھی کہ:
’’ اور میں اپنے بعد آنے والے کو ان (غیر مسلموں)کے بارے میں وصیت کرتا ہوں جن کی ذمہ داری اللہ نے اور اللہ کے رسولؐنے لی ہے کہ ان سے جو عہدکیا گیا ہے،اسے پورا کیا جائے، اور ان کی حفاظت کیلئے (اگر جنگ کرنی پڑے تو)جنگ کی جائے،اور ان کو کسی ایسی بات کا مکلف نہ کیا جائے جو ان کی طاقت سے زیادہ ہو۔‘‘ (صحیح البخاری ، کتاب المناقب، حدیث 3700)
قرآن و سنت کے ارشادات اور خلفائے راشدین کے طرز عمل کی روشنی میں فقہا ء کرام نے غیر مسلم اقلیتوں کے حقوق پر مفصل بحثیں کی ہیں اور مسلمانوں کے ذمےّ ضروری قرار دیا ہے کہ ان کے حقوق کی مکمل حفاظت کریں ۔امام محمد بن حسن شیبانی فرماتے ہیں ، ’’کیونکہ جب مسلمانوں نے ان کی ذمہ داری لے لی تو اپنے اوپر اس بات کو لازم کر لیا کہ ان سے ظلم دور کیا جائے گا اور وہ دارالسلام کے باشندے بن گئے ۔‘‘(شرح السیر الکبیر سرخسی، جلد صفحہ 140)
فقہا کرام نے یہاں تک فرمایا ہے کہ اگر ان کو کافر کہہ کر مخاطب کرنے سے ان کی دل شکنی ہوتی ہو تو انھیں کا فر کہہ کر خطاب کرنا بھی گناہ ہے ۔فتاویٰ عالمگیر میں یہ ہے ، ’’اگر کسی یہودی یا مجوسی کو’’ یا کافر‘‘ کہا تو اگر اس پر یہ بات شاق گذرے تو گناہ ہو گا۔‘‘ (فتاوی عالمگیری، جلد 5، کتاب الحظر والاباحۃ، باب 4 ، صفحہ 348)
بلکہ فقہا کرام نے فرمایا ہے کہ غیر مسلم شہریوں پر ظلم کرنا مسلمانوں پر ظلم کرنے سے زیادہ سنگین ہے ،کیونکہ اس کے مرنے کے بعد اس سے معافی حاصل کرنے کی کوئی امید نہیں ہوتی ہے ۔ (النوازل للفقیہ ابی للیث، صفحہ 207)
جہاں تک غیر مسلموں کیساتھ دوستی کا سوال ہے تو تعلق/دوستی کے تین درجات ہیں:
– معاشرتی تعلقات (محلے داری) میں ان سے ہمدردی و خیال رکھنا (اس کے بیان کے لئے ایک جامع لفظ آتا ہے جو ابھی ذہن میں نہیں)
– معاملات: لین دین
– موالات: سیاسی طور پر ان سے اس طرح کی ساز باز جسے قرآن میں بطانۃ کہا گیا (بطانۃ قمیض کے نیچے پہنے جانے والی بنیان کو کہتے ہیں جو جسم کے بالکل ساتھ لگی ہوتی ہے۔ مراد راز دان ہے)
کفار کے ساتھ دوستی میں یہ تیسری بات منع ہے، اول الذکر دونوں جائز ہیں
مسلمانوں کو شدت و انتہاء پسندی کا طعنہ دیا جاتا ہے ، مسئلہ یہ نہیں ہے کہ مسلمانوں کے پاس کثرتیت (pluralism) اور کثیر الثقافتی (multicultural) سوسائٹی میں دوسرے مذاہب کے لوگوں کے ساتھ برداشت اور حسن سلوک کے ساتھ زندگی گزارنے کے حوالے سے اسلامی اصول وضوابط یا تعلیمات نہیں ہیں بلکہ مسئلہ کچھ اور ہے۔مسئلہ مذہبی نہیں ہے بلکہ معاشرتی اور نفسیاتی ہے۔ مغرب مسلمانوں کو برداشت (tolerance) سکھانا چاہتا ہے کہ مسلمان دوسرے مذاہب کے لوگوں کے بارے میں برداشت پیدا کریں لیکن خود مغرب کا رویہ مسلمانوں کے بارے عدم برداشت کا ہے۔ اسلام دوسرے مذاہب کو برداشت تو کجا، ان سے حسن سلوک کا داعی ہے لیکن اس عالمی سیناریو میں کہ جس میں پوری مسلم دنیا جنگ کی آگ میں جھونک دی گئی ہو، اور اس میں مغرب کا کردار بھی واضح ہو، مسلمانوں سے یہ اپیل کرنا کہ وہ برداشت کا رویہ پیدا کریں، انہیں غیر معقول معلوم ہوتا ہے۔
لیکن میں پھر بھی اپنی قوم کے لوگوں سے یہی کہتا ہوں کہ مغرب میں اسلاموفوبیا یعنی اسلام کا بلاوجہ کا خوف اور اسلام سے نفرت بھی ہے لیکن مغرب سارا برا نہیں ہے، ہمیں اس دنیا میں دوسرے مذاہب کے ساتھ مل کر گزارا کرنا ہے۔ ہمیں دنیا کے سامنے اپنا امیج خود ڈویلپ کرنا ہے۔ اگرچہ دنیا یہی سمجھتی ہے کہ مسلمان صرف نفرت کرنا جانتے ہیں۔لیکن ہمیں بحثیت قوم یہ میسج دوسرے مذاہب کے پیروکاروں تک پہنچانا ہو گا کہ اگر مسلمانوں سے ایک دفعہ محبت کا اظہار کرو گے تو یہ تمہیں دو مرتبہ پیار دیں گے جیسا کہ ہم نے یہ میسج بہت اچھی طرح پہنچا دیا ہے کہ اگر ہم سے نفرت کرو گے تو ہم تم سے دو مرتبہ نفرت کا اظہار کریں گے۔ یہ مسیج مغرب میں اسلام کے بارے اس فوبیے کو کم کرنے میں بہت مدد دے گا کہ جس کا یہ نتیجہ ہے کہ ان شاء اللہ کہنے پر ایک مسلمان نوجوان جہاز سے اتار دیا جاتا ہے
استفادہ تحریر مفتی تقی عثمانی، حافظ زبیر، زاہد مغل