اس ضمن میں سیکولر لوگ بڑے طمطراق سے یہ بھی کہتے ہیں کہ سیکولر ریاست مذہبی اختلافات (مثلاً شیعہ،سنی،دیوبندی،بریلوی) کو ختم کرکے انکے پرامن بقائے باہمی کوممکن بناتی ہے، اور ہمارے چند دینی لوگ بھی اس جھانسے کاشکار ہوکر اسے سیکولر ریاست کی کوئی ‘خوبی’ اور اہل مذہب پر اس کا کوئی’احسان’ تصور کرنے لگتےہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا سیکولر ریاست مذہبی نزاعات کا یہ حل مذہب کی اجتماعی و ذاتی اقداری حیثیت کو’قائم ودائم’ رکھتے ہوئے’اس کے اندر’ ہی طے کردیتی ہے یا مذہب کو’لایعنی ومہمل’ بناکرحل کرتی ہے؟ اگر یہ حل وہ مذہب کی اقداری حیثیت کو لایعنی،غیرضروری ومہمل بناکرکرتی ہے جیسا کہ امر واقعہ ہے تو اس میں اہل مذہب کیلئے خوش کن بات کیا ہے؟ ظاہر ہے اس دنیا میں کوئی بھی انسان بے کار و لایعنی شے کیلئے نہیں لڑتا، چنانچہ سیکولر ریاست کے قیام وبقا کے نتیجے میں مذہبی ترجیحات کی اقداری حیثیت چائے و کافی کی ترجیح سے زیادہ کچھ نہیں رہتی۔ کیا اسلام کو ‘دین’ سمجھنے والوں کے لیے یہ قابل قدر بات ہے یا تشویش کا مقام؟ دوسرے لفظوں میں سیکولر ریاست کا جو فعل و خصوصیات اہل مذہب کے لیے انتہائی قابلِ مذمت ہونا چاہئے،چند سادہ لوح لوگ اسے اس کی خوبی فرض کرلیتےہیں۔
اسی طرح جب یہ کہاجاتاہے کہ ‘سیکولر ریاست حصول مذہب کے معاملے میں کسی پر جبر نہیں کرتی’تو فی الحقیقت اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ مذہب اِس نظم میں مہمل ولایعنی قرار دیاگیا ہے کیونکہ نظام اس ہی شے کے حصول ک لیے جبر کرتاہے جسے وہ قابلِ قدر سمجھتااور بناناچاہتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیکولر ریاست فرد پر سائنسی(بشمول فزیکل وسوشل سائنسی)علوم کے حصول کیلئے بھرپور جبر کرتاہے کہ اسکے بغیر وہ اس نظام میں کامیاب نہیں ہوسکتا جبکہ مذہب اسکے نزدیک محض کھیل تماشا ہوتاہے۔ مگر ہمارے سادہ لوح مذہبی لوگ سیکولر نظام کی فراہم کردہ چند غیر متعلقہ مذہبی آزادیوں سے یہ دھوکہ کھا جاتے ہیں گویا یہ نظام مذہب کو بہت اہمیت دیتاہے۔ چنانچہ اچھی طرح سمجھ لیناچاہیے کہ سیکولر ریاست ہر مذہب کے چند انفرادی شعائر کی ادائیگی کا حق اس لیے نہیں دیتی کہ یہ انہیں ‘قابل قدر یااہم ، سمجھتی ہے بلکہ اس لیے دیتی ہے کہ یہ انہیں’ مہمل،لایعنی،اور غیرمتعلقہ’سمجھتی ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہےکہ ہمارے یہاں چند ایسے مفکرین (مثلاً وحید الدین خان صاحب) بھی پیدا ہوگئے ہیں جن کے خیال میں اسلام پھیلتا ہی سیکولر نظام میں ہے، گویا زہر ہی ان کے نزدیک تریاق ہے۔ ایسے لوگ یا تو مذہب کو محض چند رسوم عبادت تک محدود سمجھتے ہیں اور یا پھر یہ سیکولر لوگوں کے دعوائے غیرجانبداریت سے انتہائی حد تک متاثر ہیں اور اسی وجہ سے اپنے تیئں یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ چونکہ اسلام حق ہے لہٰذا جونہی اسے یہ ‘نیوٹرل’ موقع ہاتھ آئے گا یہ اپنا لوہا منوالے گا۔ لیکن اس قسم کے استدلال کو ان حضرات کی سادہ لوحی پر تو محمول کیاجاسکتاہے مگر علمی دنیا میں اس کی کوئی قدروقیمت نہیں۔
یہ کتنی عجیب بات ہے کہ سیکولرریاست کے غیرجانبداریت کے اس جھوٹے دعوے سے متاثر ہوکر تمام مذہبی گروہ اور طبقے اس کے ہاتھوں خوشی خوشی اپنی جڑیں کٹوا لینے پر تیار ہوجاتے ہیں۔ یعنی بریلوی،دیوبندی،سلفی،شیعہ سب ایک ایسی انفرادیت(ہیومن) اور اجتماعیت (سول سوسائٹی) کےغلبے کو قبول کرلینے پر آمادہ ہوجاتے ہیں جو ان سب کی نفی اور بیخ کنی کردیتی ہے مگر یہ سادہ لوح لوگ اسے اپنے ساتھ ‘برابری،مساوات،عدل وانصاف’ کامعاملہ اور ‘اپنی بقا کاغماز’ سمجھتے رہتے ہیں،فیالعجب۔ اس مقام پر سیکولر لوگ تو کجا خود مذہبی لوگ ہی یہ استدلال پیش کرنے لگتے ہیں کہ کیونکہ یہ تمام مذہبی گروہ آپسی نزاعی کیفیت کا شکار ہیں اور ان کا باہمی رویہ ٹھیک نہیں لہٰذا خود ان گروہوں کے حق میں یہ بہتر ہے کہ اقتدار کی کنجیاں ان کے پاس رہنے کے بجائے کسی غیر جانبدار قوت کے پاس رہیں۔ سوچئے کس قدر عجیب ہے یہ استدلال ،کیا آپسی ناگواریوں کو بنیاد بناکر کسی ایسے تیسرے فریق کو گھر کا مالک بن بیٹھنے کی اجازت دی جاسکتی ہے جو ہم سب کا استحقاق ملکیت غصب کرکے گھر پر ایسا قانون مسلط کردے جو ہم سب ہی کے خلاف ہو اور ہم سب کی بیخ کنی کردے؟ مستحکم سیکولر ریاستی نظام میں تو مسلم،عیسائی ، ہندو ہونا ہی لایعنی،مہمل اور غیرمتعلقہ شے بن جاتی ہے چہ جائیکہ ان ذیلی شناختوں کی بقا کا تصور کیا جاسکے۔