یہ بیانیہ بیانیہ کی تکرار کچھ زیادہ ہی ہوگئی ہے سو، سوچا کہ اس میں جو پاکستان کا اصل بیانیہ ہے اور جعلی طورپرجن نان ایشوز کو اس کے بیانئیے کے نتائج کے طور پر پیش کیا جارہا، اس سب کا ذکر بھی کردیا جائے۔
ہمارے مڈل کلاس کے زیادہ تردانشوروں کو تمام گفتگوکے بعد، بین السطور، کہنا وہی ہوتا ہے جوان نان ایشوز کری ایٹرز کا اصل مہا بیانیہ ہے کہ پاکستان کو اس طرح چلایا جائے جیسے این جی او لبرلز کہتے ہیں۔ یہاں مولویوں کی جہالت کو مسلسل ھدف پر رکھ کر عام مسلمانوں کومسلسل اس سوچ میں گلٹی کیا جائے کہ اس ملک میں سیاسی سٹیبلشمنٹ کی غلطیوں سے جو نقصانات ہوئے ہیں اس کے ذمے دار عوام ہیں۔ ملک میں اور بیرون ملک رائے عامہ کو مستقل یہ تاثر دیاجاتا رہے کہ اس ملک میں اقلیتوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں [ تاکہ کسی مناسب وقت پر یہاں اقلیتوں کوان خیالی مظالم سے بچانے کیلئیے کوئی ساوِتھ سوڈان یا ایسٹ ٹیمورکاٹ کے دیئے جانے کی گنجائش رکھی جاسکے]-
جو لوگ پاکستان کی ریاست کے مہابیانئیے کی ڈیکنسٹرکشن کے بہانے، اس ریاست ہی کی ڈیکنسٹرکشن کے درپے ہیں، وہ اس پر عمل کرنے کیلئیے، پاکستان کے مہابیانئیے میں جھوٹ پر مبنی اور من گھڑت ایلیمنٹس اور نان ایشوز شامل کررہے ہیں، مثلاً اقلیتوں پر مظالم، مولویت،اظہار خیال کی آذادی میں ریاست کا استبداد، فرقہ بندی، دہشت گردی، ملک کے دانشوروں میں علم کلام سے رغبت، جدید مغربی فکر سے عدم آگاہی اور تعلیم کی کمی، وغیرہ، وہ دراصل جانے اور انجانے میں اس ملک کی ممکنہ “ڈیکنسٹرکشن” میں آسانی پیدا کررہے ہیں۔ ان میں سے جوجان بوجھ کر ایسا کررہے ہیں وہ خواہ ستر پردوں میں بھی چھپے ہوئے ہوں، انہیں پہچاننا کچھ ایسا مشکل کام نہیں۔ ان کی سب سے بڑی پہچان ہی یہ ہے کہ باوجود ڈیکنسٹرکشن کے عملبردار ہونے اور تمام مہابیانیوں کو رد کرنے کا دعویٰ رکھنے کے، خود ان کا ایجنڈا ایک بہت بڑا “مہابیانیہ” بن کے نمودار ہوا ہے۔
ان کا مہابیانیہ صرف اتنا ہے؛ ان کا ایمان ہے کہ چونکہ ہر مہابیانئیے کو رد ہونا چاہئیے اور ریاست بھی ایک مہابیانیہ ہے اس لئیے ریاست پاکستان کو بھی اپنے آخری ڈیکنسٹرکشن میں تحلیل ہونا چاہئیے۔ اس مقصد کیلئیے یہ لوگ پاکستانی ریاست کے اصل مہباینانئیے کا ذکر بھی نہیں کرتے اور مندرجہ بالا نان-ایشوز کو اس کے اصل ایلیمنٹس قرار دے کر اس ملک کی حقیقت پر دھول اڑاتے رہتے ہیں۔
مغرب کے پوسٹ ماڈرنزم نے ہر مہابیانئیے کی ڈیکنسٹرکشن کو لازم قرار دیا ہے اور اس فکر کے نزدیک ریاست بھی ایک مہا بیانئیے کا انتہائی طاقتور اظہار ہے؛ لیکن اس کے باوجود، یہ فکر، فرانس برطانیہ جیسے طاقتور مغربی ممالک کی ریاستوں کی تحلیل نہیں کرسکی اور ان کے مہابیانئیے آج بھی اپنے پورے جاہ حشم کے ساتھ قائم ہیں۔
یہ ادبی تحاریک کے پروردہ اذھان، اس بات کو سمجھنے سے ہی قاصر ہیں کہ جو رشتہ یہ “مصنف اور قاری” کے درمیان قائم کرتے ہیں وہ رشتہ ریاست اور عوام کے درمیان قائم نہیں ہوسکتا [اور پھر ریاست بھی پاکستان جیسی ہوکہ جو ابھی ماڈرنزم ہی کی گرد کو نہیں پہنچی، پوسٹ ماڈرنزم تو دور کی بات ہے]۔ مصنف کے بالباطن معانی کا التوا تو ہوسکتا ہے لیکن ریاست پرجو فرائض عوام کی فلاح کے ہیں ان کا التوا ہو ہی نہیں سکتا کیوں کہ عوام کیلئیے بھی ان کے حقوق کے وہی معانی ہیں جو آئین میں ریاست کے فرائض کے طور پر درج ہیں۔ یعنی مصنف کی موت کی طرح ریاست کی موت واقع نہیں ہوسکتی اور ریاست اور عوام دونوں کا، حقوق و فرائض میں التوا کئیے بغیر، بیک وقت زندہ رہنا ناگزیر ہے۔
وہ مہا بیانیہ جس کا رد تشکیل ہونا چاہئیے وہ پاکستان کے قیام کا بیانیہ نہیں ہے بلکہ اس سماجی نظام کا تشکیل دیا ہوا مہا بیانیہ ہے، جس نے پاکستان کی ریاست اور عوام دونوں کو ہائی جیک کیا ہوا ہے۔ پوسٹ ماڈرنسٹ مفکرین جو بھی نان ایشوز، پاکستان کے ریاستی بیانئیے کے طور پر اچھالتے ہیں اس سے دراصل اس ملک کو ہائی جیک کرنے والے سماجی نظام کے بیانئیے کو تقویت ملتی ہے۔
پاکستان کا اصل بیانیہ ایسا اسلام ہے جو برھمنزم اور انسانوں کی طبقاتی تقسیم پر مبنی اس غیر انسانی نظام کی نفی کرتا ہے جو تقسیم سے پہلے ھندوستان میں رائج تھا۔ اور اسی بنا پریہ ملک سب شہریوں کو شرف انسانی کے اعلیٰ مقام پر زندگی گذارنے کے مواقع مہیا کرنے کیلئِے قائم کیا گیا تھا۔
لیکن یہ ملک قیام کےکچھ عرصے بعد ہی ان ہی روایتی طاقتوں نے ہائی جیک کرلیا جن کی پور پور کی تشکیل تاریخی طور پر برھمنیت کے تحت ہوئی تھی۔ پاکستان کا سماجی، سیاسی نظام آج بھی انتہائی گھٹیا برھمن اور طبقاتی معاشرے کی تصویر ہے۔
پاکستان کا اصل مہا بیانیہ، اس کے آئین کی پہلی چالیس شقوں میں درج ہے۔ ان چالیس شقوں کے علاوہ اس ملک کا باقی آئین، حکمران طبقے کیلئیے اس ملک کو اس طبقے کے اپنے مفاد میں کیسے چلانا ہے، محض ان ھدایات کا پیکیج فراہم کرتا ہے۔ پاکستان کا حکمران طبقہ، اسی برھمنیت پسند سماجی گروہ سے تعلق رکھتا ہے جس نے اس ملک کا سماجی و سیاسی نظام ہائی جیک کیا ہوا ہے۔
اس ملک کے آئین کی عوامی فلاح کی وہ شقیں جن میں اس ملک کے قیام کی اصل وجوہ، یعنی انسانی شرف کی بحالی، پوشیدہ ہیں، ان کو، اس ملک کے حکمران طبقے نے عملاً معطل کیا ہوا ہے۔ یعنی پاکستان کی ریاست کے قیام کے اصل “معانی کا التوا” عوام نے نہیں، اس پر قابض ایک دوسرے، برھمنیت پسند مہا بیانئیے کے پروردہ، سماجی طبقے نے کیا ہوا ہے۔ اور اس طبقے کے اس ریاست اور عوام دشمن عمل کو، مڈل کلاس کے، نان-ایشو کری ایٹردانشوروں کا گروہ مسلسل تقویت دے رہا ہے۔
جو لوگ پاکستان کے اصل مہابیانئیے کی ڈی کنسٹرکشن کو نامنظور کرتے ہیں اور اس ملک کے عوام کے حقوق اور ریاست کی بقا میں دلچسپی رکھتے ہیں، انہیں چاہئیے کہ ہر فورم، ہر پلیٹ فارم پر، ان نان ایشو کری ایٹرز کو ریجکٹ کریں، ان سے مطالبہ کریں کہ جو ہمارے حقیقی ایشوز ہیں صرف ان پر بات کی جائے اور اس ملک کی مڈل کلاس اور اس ملک کے ریاستی ستونوں سے آئین کی غیر اعلانیہ طور پرمعطل رکھی جانے والی عوامی فلاح کی شقوں پر عملدر آمد کا مطالبہ جاری رکھیں۔ تاوقتیکہ آئین کے نگہبان، سپریم کورٹ کے کانوں میں سماعت کی قوت پیدا ہوجائے۔
تحریر نعمان علی خان ، بشکریہ دانش ڈاٹ پی کے