اسلامی قانون یافقہ اسلامی قانون فطرت کے ان ازلی، ابدی اور انقلابی اصولوں کے مجموعہ کا نام ہے جس کے اندر سارے انسانوں کی حقیقی فلاح وکامیابی کا راز پوشیدہ ہے، جس کو خالقِ فطرت نے اہلِ فطرت کی دنیوی واخروی کامیابی، جسمانی وروحانی تربیت اورہرخیر کی طرف ان کی رہنمائی کے لیے نازل فرمایا، اسلامی قانون اپنے روزِاوّل سے ان خدائی احکامات پر مشتمل ہے جنھیں کسی کمی ونقص، بھول چوک اور ذرہ برابر کمی بیشی کا کوئی امکان نہیں ہے، زمانہ کے سب سے اعلیٰ وافضل ذہن ودماغ اس کی تنقیح وتحقیق میں مدتوں مصروف عمل رہے اور ہردوربشمول موجودہ دور کے انصاف پسند طبیعتوں کے مالک مسلم وغیرمسلم اہلِ علم ودانش نے تمام قوانین پر اس کی فضیلت وبرتری کے کھلے دل سے اقرار واعتراف کیا لیکن مغرب کی نشاۃِ ثانیہ کے بعد معاشرہ میں ایسے افراد جنم لینے لگے جنھوں نے فقہ اسلامی پر لغو وبے جااعتراضات کئے اور اس کو اپنی بے دلیل وبے سہارا تنقیدوں کا نشانہ بنایا، ان کی کاوشوں کا محور اور علمی کوششوں کا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کے اس عظیم الشان علمی، فقہی اور قانونی ذخیرہ کوبے سند وبے اعتبار اور موجودہ ترقی یافتہ زمانہ میں اسے ناقابلِ عمل قرار دے کر مسلمانوں کواس سے عملی زندگی میں دور کردیا جائے یاکم ازکم کتاب وسنت کے برخلاف چند علماءو فقہاء کی ذاتی رایوں کا مجموعہ قرار دیکر اُس پر سے مسلمانوں کے تیرہ سوسالہ اجتماعی اعتبار واعتماد کو ختم کردیا جائے۔معترضین نے فقہ اسلامی پر جتنے اعتراضات کئے ہیں وہ تمام ٹھوس علمی دلائل سے خالی اور واقعات کی غلط تصویر کشی سے لبریز ہیں، ان میں سے بعض اعتراضات کومختلف اسلوبوں اور پیرایوں میں اتنی کثرت سے دھرایا گیا کہ وہ حقیقت کا روپ اختیار کرنے لگے ، اس پروپیگنڈہ کے نتیجہ میں فقہ اسلامی پر کچھ شبہات ہونے لگے، ان میں سےبعض شبہات کا جائزہ سطورِ ذیل میں پیش کیا جارہا ہے:
٭اعتراض 1:فقہ اسلامی کے اندر موجودہ دور کی ضروریات اور نت نئے تقاضوں کو پورا کرنے کی صلاحیت نہیں ہے؛ نیزاس میں زمانے کے مسائل اور نئے حالات کا کوئی حل پیش نہیں کیا گیا ہے۔
لیکن اگرحقیقت پسندی کے ساتھ حالات کا بغور جائزہ لیا جائے اور موجودہ دور کے عالمی منظر نامہ کا ملکی پیمانہ پر جائزہ لیا جائے اورجن عرب ممالک میں کسی حد تک اسلامی حدود نافذ ہیں ان ممالک کے سال بھر کے اور مغربی ممالک کے روزانہ کے جرائم کے اعداد وشمار جمع کئے جائیں تویہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ اسلام نے اپنی ابتداء میں جس طرح ایک جاہل وغیر مہذب قوم کوتہذیب وتمدن کا امیرقافلہ بنایا اور نیم وحشی معاشرہ کوانسانیت کے لیے قابلِ فخراور مثالی سوسائٹی میں تبدیل کردیا تھا اسی طرح آج بھی فتنہ وفساد، قتل وغارت، بدامنی وبے اطمینانی کی آگ میں جل رہے انسانی کاروان کونجات دے سکتا ہے اور بھنور میں پھنسی ہوئی انسانیت کی کشتی کوپار لگاسکتا ہے. طالبان کی حالیہ حکومت سے کون ناواقف وبےخبر ہوگا، (گوکہ انہوں نے صرف چند شعبوں کے متعلق احکامات پر عمل درآمد کیا اور انکے انداز سے بھی اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن )اس حکومت کے زوال کے بعد اس ملک میں بدامنی ولاقانونیت کی جوکیفیت پیدا ہوئی وہ اس بات کی شہادت دے رہی ہیں کہ آج بھی اسلامی اصول وقوانین کے اندر وہی زندگی وتابندگی ہے جوروزِ اوّل سے اس کے اندر ودیعت کردی گئی تھی اور ایسا کیوں نہ ہو، جب کہ فقہ اسلامی پیدائش سے لیکر موت تک کی پوری زندگی پر محیط ایسی کامل واکمل اورجامع اسکیم ہے جوابنِ آدم کی زندگی کے ہرموڑ پرصحیح اور مکمل رہنمائی کرتی ہے، اجتماعی حیات ہویاانفرادی زندگی، مذہبی عبادات ہوں یادنیوی کاروبار، خاندانی حقوق ہوں یامعاشرتی ذمہ داریاں، معاشی معاملات ہوں یاملکی انتظامات، جنگ کا میدان ہویاقاضی کی عدالت، نکاح کی مجلس ہو یا میت کا گھر، خوشی کا موقع ہویاموت کا وقت، فتح نصیب ہویاشکست کا سامنا، امن کا زمانہ ہویافساد کے ایام، صلح کا پیغام ہویاحملہ کی دھمکی، دوست واحباب کے ساتھ نشست وبرخاست ہویاغیرقوموں کے ساتھ تعلقات، غرض ہرشعبۂ زندگی سے متعلق فقہ اسلامی کے اتنے ہمہ گیر جامع اور زرین احکامات ہیں کہ کسی زمانہ اور کسی ملک ومعاشرہ میں اور معاملاتِ زندگی کے کسی گوشہ میں بھی کسی مسلمان کو اپنی ذاتی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے اور حکومتوں کو اجتماعی تقاضوں کوپورا کرنے اور نئے حالات کا سامنا کرنے کے لیے شرعی حدود وقیود سے باہرجھانکنے کی بالکل ضرورت پیش نہیں آسکتی، فقہ اسلامی کی اس جامعیت وکاملیت کا اصل سرچشمہ شریعت کی وہ جوہری خصوصیات ہیں جواس کودوسرے قوانین موضوعہ سے ممتاز کرتی ہیں، جہاں تک موجودہ زمانے کے نئے مسائل کا تعلق ہے تویہ علماء کی ذمہ داری ہے کہ اس بحرذخار سے موتی اور ہیرے چن کرانسانوں کے سامنے پیش کریں؛ تاکہ وہ اس کی روشنی میں اپنی زندگی کاسفر طے کریں اور بحمدللہ وہ اس کام کوبحسن وخوبی انجام دے رہے ہیں اور رہتی دنیا تک وہ اپنی ذمہ داری نبھاتے رہیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے جس کا حل علماء نے پیش نہ کیا ہو۔
٭اعتراض 2: فقہ اسلامی چند علماء کی رایوں کا مجموعہ ہے، کتاب وسنت سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
ان حضرات کا یہ اعتراض درحقیقت فقہ کی حقیقت سے ناواقفیت پر مبنی ہے، الموسوعۃ الفقہیۃ میں فقہ کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے، تفصیلی دلائل سے عملی فروعی اور شرعی احکام کوجاننے کا نام فقہ ہے”۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ:۱/۲۲)
مذکورہ عبارت میں تفصیلی دلائل سے مراد قرآن، حدیث، اجماع اور قیاس ہیں چنانچہ فقہ کا ایک حصہ وہ ہے جوکتاب وسنت پر مبنی ہے، ایک حصہ وہ ہے جواجماع سے مستنبط ہے اور ایک حصہ وہ ہے جوقیاس سے ماخوذ ہے، فقہ کا جوحصہ قیاس پر مبنی ہے، اس کے بارے میں بظاہر یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ علماء کی آراء کا مجموعہ ہے؛ لیکن یہ حقیقت ذہن نشین رہنی چاہیے کہ فقہ میں علماء وفقہاء کی وہی رائے قابلِ قبول ہے، جس کا دارومدار قرآن وحدیث کی کسی نص پر ہو، اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ ہرزمانہ میں فقہاء کرامؒ ایسے رایوں کو رد کردیتے ہیں جوشریعت کے مخالف ہوں، جب قیاس کی بنیاد بھی قرآن وحدیث ہی پر ہے توپھرفقہ کوخلافِ شریعت کس طرح قرار دیا جاسکتا ہے؟ نیزاہلِ اجتہاد کے قرآن وحدیث پر مبنی آراء وقیاسات قابلِ اعتماد اور حجت ہیں، اس دعویٰ کی بنیاد دراصل رسول اللہﷺ کی وہ نصیحت ہے جوآپﷺ نے حضرت معاذؓ کویمن روانہ کرتے وقت فرمائی تھی، اس وجہ سے اگر بالفرض فقہ کوعلماء کی آراء کامجموعہ مان بھی لیا جاے تب بھی وہ اس قابلِ نہیں کہ اُسے کتاب وسنت کا مخالف قرار دے کر اس کونذر آتش کردیا جائے۔
٭اعتراض3: ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ فقہ میں ایسے ناشائستہ مسائل پائے جاتے ہیں، جن کوایک شریف الطبع آدمی زبان پرلاتے ہوئے شرم محسوس کرتا ہے۔
یہ اعتراض بجائے خود قابل اعتراض ہے کیونکہ اسلام ایسی شرم کا قائل نہیں ہے جوشرعی احکام کے سیکھنے سکھانے میں حائل ہو، اسلام ایک جامع اور آخری دین ہے، اس میں پیدائش سے لیکر موت تک طہارت سے لیکر عبادات ومعاملات تک ہرقسم کے چھوٹے بڑے مسائل واحکام بالتفصیل بیان کیے گئے ہیں، خصوصاً پاکی وناپاکی (جس پر بہت سی اہم عبادات کی قبولیت وصحت کا دارومدار رہے) سے متعلق بہت سے چھوٹے بڑے امور خودپیکر شرم وحیا ءرسالت مآبﷺ نے اس اہتمام اور توجہ سے صحابہ کرامؓ کوسکھائے تھے کہ مشرکین کواعتراض وتمسخر کا ذریعہ ہاتھ آگیا اور بطورِ استہزاء انہوں نے حضرت سلمانؓ سے کہا تھا کہ تمہارے نبیﷺ تولوگوں کو بول وبرازسے فراغت اور صفائی تک کا طریقہ بھی سکھاتے ہیں؟۔
یعنی جس طرح آج کے معترضین حضرات فقہی کتابوں میں مذکور بعض مسائل کوخلافِ شرم وحیاء سمجھ کر فقہ پر اعتراض کررہے ہیں، کفار ومشرکین بھی پاکی واستنجا کے احکام کوبے حیائی خیال کرکے اسلام اور ذاتِ گرامی پر اعتراض کرتے تھے؛ لیکن جس طرح مشرکین کا اعتراض بالکل بے جا اور لایعنی تھا، اسی طرح ان معترضین کا اعتراض بھی بالکل لغو اور فضول ہے، جس طرح جسمانی امراض کے علاج کے سلسلہ میں مردوزن، شرم وحیا، ستروحجاب کا مکمل لحاظ نہیں رکھا جاتا ویسے ہی تحقیق مسائل میں بھی زائد شرم وحیا کی گنجائش نہیں ہے، قرآن وحدیث میں پاکی ناپاکی بول وبراز، حیض ونفاس، ازدواجی تعلقات وغیرہ کے بہت سے احکام بیان کیے گئے ہیں؛ اگرشرم وحیا کا لحاظ کرکے انہیں بیان نہ کیا جاتا توحضرات معترضین ان مسائل میں کس کے مطابق اور کس طرح عمل کرتے ؟ جب قرآن وحدیث میں اس طرح کے مسائل واحکام بیان کئے گئے ہیں توفقہ انہی دونوں کی شرح ہے، جس میں کتاب وسنت کے اصولوں سے بے شمار جزئیات کی تشریح اور احکام کی علتوں کے ذریعہ لاتعداد نظائر کی تخریج کرکے ان کے شرعی احکام بیان کئے گئے ہیں؛ لہٰذا فقہ پر اعتراض قرآن وحدیث پر اعتراض کرنے کے مترادف ہے۔