حضرت عبداللہ بن عمر سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، “بخار دوزخ کی لپٹ (حرارت، تپش) میں سے ہے، اسے پانی سے ٹھنڈا کرو۔” (صحیح البخاری، 3024)
کچھ ملحدین و منکرین حدیث یہ اعتراض اٹھاتے ہیں کہ یہ حدیث عقل کے خلاف ہے ، بخار اور دوزخ کا آپس میں کیا تعلق ہو سکتا ہے؟
مذکورہ حدیث میں ان کے تعلق کی وضاحت نہیں کی گئی۔
حدیث کا عمومی معنی:
بعض محققین مثلاً حافظ ابن حجر العسقلانی اور المناوی فرماتے ہیں کہ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ بخار کی حرارت جہنم کی حرارت کی طرح ہے اور بخار کی یہ تپش انسان کو دوزخ کی آگ کے عذاب کا خوف دلاتی ہے۔ زین الدین محمد المناوی لکھتے ہیں:
“بخار کی حرارت دوزخ کی آگ کی حرارت کے مثل ہے جو انسان کے جسم کو عذاب اور تکلیف میں مبتلا کر دیتی ہے۔ بخار کی حرارت اور دوزخ کی حرارت کی تشبیہہ اور مثال کے ذریعے درحقیقت لوگوں کو خبردار کیا گیا ہے اور دوزخ کے عذاب کی شدت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے تا کہ لوگ متنبہ رہیں۔ جیسا کہ خوشی و مسرت کو جنت کی نعمتوں میں شمار کیا جاتا ہے اسی طرح بخار کی حرارت کو دوزخ کی حرارت کے عذاب کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔(فیض القدیر فی شرح جامع الصغیر، 409/3، حدیث 3838)
ایک اور حدیث مذکورہ بالا حدیث کے مفہوم کو مزید واضح کر دیتی ہے اورخاص طور پر اہل ایمان کے متعلق ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے، ” بخار جہنم کی پھونک میں سے ہےاور اس سے ایک صاحب ایمان جس تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے وہ دراصل دوزخ کی آگ میں اس کا حصہ ہے۔” (مسند احمد، حدیث 22328)
مندرجہ ذیل روایت کو اسکے ساتھ ملا کے پڑھنے سے اسکی اچھی سمجھ آسکتی ہے۔
امیہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے قرآن کی ان آیات کا مفہوم پوچھا، ” تم اپنے دل کی باتیں خواہ ظاہر کرو خواہ چھپاؤ، اللہ بہر حال ان کا حساب تم سے لے لے گا۔ (2: 284) اور “جو بھی بُرائی کرے گا اُس کا پھل پائے گا اور اللہ کے مقابلے میں اپنے لیے کوئی حامی و مددگار نہ پا سکے گا”۔ (4: 123)حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ جب سے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان آیات کے بارے میں پوچھا اس وقت سے آج تک مجھ سے کسی نے ان آیات کی وضاحت نہیں مانگی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان آیات کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ “اللہ اپنے بندوں کو تکالیف اور پریشانیوں میں مبتلا کر کے آزماتا ہے، مثال کے طور پر بخار یا کسی بھی طرح کی کوئی مصیبت، یہاں تک کہ کسی ایسی چیز کی گمشدگی کی پریشانی جو کہ اس کی قمیض کی جیب میں ہی موجود ہوتی ہے۔ اور ان کی وجہ سے انسان گناہوں سے اس طرح صاف ہوجاتا ہے جیسے سونا آگ میں کندن بن جاتا ہے۔” (جامع الترمذی، حدیث 2991)
پانی سے ٹھنڈا کرنا:بخار کی حرارت کو پانی سے ٹھنڈا کرنے کا مطلب دراصل بخار کے طبعی اثرات کو رفع کرنا ہے۔
نتیجہ بحث:
خلاصہ یہ کہ حدیث میں صرف بخار کے طبعی اثرات کو دوزخ کی آگ سے تشبیہ دی گئی ہے جس کا مقصد لوگوں کو خدا کی مقرر کردہ حدود سے تجاوز کرنے کے نتیجے سے خبردار کرنا ہے۔ اہل ایمان کیلئے اسکی اہمیت یہ ہے کہ یہ انکے گناہوں کی معافی کا ذریعہ ہے تا کہ روزمحشر وہ اپنے پروردگار کی بارگاہ میں گناہوں کی آلودگی سے پاک صاف ہو کر پیش ہو سکیں اور وہ دوزخ کے عذاب سے محفوظ رہ سکیں۔