جب بھی حدیث کا دفاع کیا جائے تو منکرین حدیث عموما یہ سوال کرتے ہیں۔ تو پہلی بات یہ واضح رہے کہ صحیح بخاری کے دو گتوں کے مابین جو کچھ ہے، اس سب کو کوئی بھی منزل من اللہ نہیں کہتا۔ صحیح بخاری میں “منزل من اللہ” ہے نہ کہ کل صحیح بخاری “منزل من اللہ” ہے۔دوسری اور اہم تر بات یہ ہے کہ حدیث کو وحی کہا جاتا ہے نہ کہ صحیح بخاری کو۔ اور صحیح بخاری میں حدیث موجود ہے نہ کہ صحیح بخاری کی ہر بات حدیث ہے۔ حدیث سے مراد وہ روایت ہے کہ جس میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا قول، فعل اورتقریر موجود ہو اور صحیح بخاری میں صحابہ کے اقوال بھی ہیں اور تابعین کے بھی۔ سلف کے اقوال بھی ہیں اور ائمہ کے بھی۔
تیسری اور اہم تر بات یہ ہے کہ حدیث کو لفظی وحی کوئی بھی نہیں کہتا بلکہ حدیث معنوی وحی ہے۔ پس حدیث کا معنی “منزل من اللہ” ہے جبکہ حدیث کے الفاظ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہوتے ہیں اگر وہ قولی سنت ہو اور اگر فعلی یا تقریری سنت ہو تو حدیث کے الفاظ صحابی کے ہوتے ہیں۔ حدیث میں اگرچہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ کو محفوظ رکھنے کا اہتمام کیا گیا ہے اور بہت حد تک محفوظ بھی ہیں لیکن اصل بات یہی ہے کہ اس میں معنی محفوظ ہے۔
رہی بات صحیح بخاری پر نقد کی تو ائمہ فن نے اس کی روایات پر نقد کی اور ائمہ فن نے ہی اس نقد کا جواب بھی دے دیا ہے۔ اور اب اس نقد اور دفاع سے یہ متعین ہو گیا ہے کہ بخاری میں کلام کی گنجائش کہاں کہاں ہے اور اس کا جواب کیا کیا ہے؟
مثلا امام الدارقطنی رحمہ اللہ نے صحیح بخاری کی حدیث پر نقد کیا ان کی اس تنقید کی بنا پر حافظ ابن الصلاح ؒ نے فرمایا کہ صحیحین کی احادیث قطعاً صحیح ہیں سوائے چند حروف کے جن پر امام دار قطنی وغیرہ نے تنقید کی ہے اور وہ مقامات علم حدیث جاننے والوں کے نزدیک مشہور و معروف ہیں ۔ ( مقدمہ ابن الصلاح ص ۴۵)
حافظ ابن حجر ؒ نے ھدی الساری اور فتح الباری میں بھی امام دار قطنی ؒ وغیرہ کی تنقید کا جواب دیا اور امام نووی ؒ نے شرح مسلم میں بھی ان اعتراضات سے تعرض کیا ۔ حافظ ابن حجر ؒ نے ہدی الساری میں صحیح بخاری کے متکلم فیہ رجال کا بھی جواب دیا اور علامہ محمد اسماعیل ابن خلفون نے بھی ’’ رفع التماری فی من تکلم فیہ من رجال البخاری ‘‘ کے عنوان سے ایک مستقل رسالہ لکھا ۔
اسی موضوع پر علامہ ابو الولید باجی کی ’’ التعدیل والتجر یح لمن خرج عنہ البخاری فی الصحیح ‘‘ بھی معروف ہے ۔ حاجی خلیفہ زر کلی اور رضا کحالہ نے ذکر کیا ہے کہ علامہ احمد ؒ بن ابراہیم ابن السبط الحلی المتوفی ۸۸۴ھ نے ’’ التوضیح للاوھام الواقعۃ فی الصحیح ‘‘کے نام سے اور علامہ جلال ؒ الدین عبدالرحمن بن عمر البلقینی المتوفی ۸۲۴ھ نے ’’ الا فھام بما وقع فی البخاری من الا بھام ‘‘کے نام سے کتابیں لکھی ہیں۔
حافظ ابن حزم ؒ نے صحیح مسلم میں حضرت ابن عباس کی روایت پر شدید تنقید کی جس میں حضرت ابو سفیان ؓ کی آنحضرت ﷺ کو ام حبیبہ سے نکاح کی پیشکش کا ذکر کیا ۔ جس کے جواب میں حافظ ابن کثیر ؒ نے مستقل ایک رسالہ لکھا ۔ جس کا تذکرہ خود انہوں نے البدایہ ( جلد ۴‘ ص ۱۴۵) میں کیا ہے ۔ اسی طرح صحیحین میں حضرت انس ؓ کی حدیث معراج پر اعتراضات کے جواب میں حافظ ابو الفضل ابن طاہر ؒ نے ایک مستقل رسالہ لکھا ۔ حال ہی میں امام دار قطنی کی کتاب ’’ الاستد راک والتتسع ‘‘ زیور طبع سے آراستہ ہوئی تو اس کے حواشی میں شیخ ربیع بن ھادی حفظہ اللہ نے امام موضوف کے اعتراضات کا جائزہ پیش کیااور اس سلسلے کی بہت سی غلط فہمیوں کا ازالہ فرمایا ۔
یہ عمل علم کی دنیا میں ایک ہزار سال کے عرصے میں مکمل ہو چکا۔ اب آپ صحیح بخاری پر کوئی نیا علمی اعتراض پیدا نہیں کر سکتے اور جو پیدا ہوئے تھے، ان کا جواب موجود ہے۔اور اگر کوئی شخص صحیحین کی کسی ایسی روایت پر تنقید کرتا ہے کہ جس پر أئمہ سلف میں سے کسی نے بھی کلام نہ کیا ہو تو ایسا شخص اجماع محدثین کی مخالفت کر رہا ہے کیونکہ جن روایات پر محدثین نے نقد نہ کی تو اس سے یہ طے ہو گیا کہ تمام محدثین کے نزدیک یہ روایات صحیح ہیں لہذا ان روایات پر کلام کرنا جمیع محدثین کے دعوی صحت کو چیلنچ کرنا ہے اور ایسا دعوی ہی ناقابل التفات ہے چہ جائیکہ اس کی تحقیق کی جائے۔
کیاامام بخاریؒ معصوم تھے؟
منکرین حدیث یہ اعتراض کرتے ہیں کہ امام بخاریؒ معصوم نہیں تھے۔ لہٰذا ان سے خطا ممکن ہے!
اس کا جواب یہ ہے کہ امکان خطا اور وقوع خطا میں بڑا فرق ہے۔ امکان اور چیز ہے اور وقوع اور چیز۔جیسے کوئی کہے کہ ممکن ہے آپ چور ہوں۔ مگر بغیر ثبوتِ شرعی ایسا کہنا غلط ہے۔ امام بخاریؒ نے خطا کہاں کی ہے اسے ثابت کیجیے۔منکرین حدیث کا یہ بہت ہی سطحی اعتراض ہے کہ بخاری ومسلم انسانوں نے مرتب کی ہیں تو قرآن مجید کس نے مرتب کیا ہے؟ کیا جو قرآن مجید ہمارے پاس اس وقت موجود ہے، وہ ہمیں براہ راست حضرت جبرئیل علیہ السلام سے موصول ہوا ہے؟ کیا اس قرآن مجید کو فرشتوں نے لکھ کر ایک کتاب کی صورت دی ہے؟ کیا اس قرآن مجید کو آسمانوں سے ایسے ہی نازل کیا گیا تھا کہ جس صورت میں اب یہ ہمارے پاس ہے؟
بلاشبہ انسانوں نے ہی اس قرآن مجید کو یاد کیا، انسانوں نے ہی اس قرآن مجید کو نقل کیا، انسانوں نے ہی اس کو لکھا ہے، انسانوں نے اس کے حرکات اور اعراب لگائے، انسانوں نے اس کے نقطے، رموز اور اوقاف ایجاد کیے، انسانوں نے اس کو رکوعوں اور پاروں میں تقسیم کیا، انسانوں نے ہی اس کو کتابی صورت دی، تو کیا انسانی کام میں غلطی نہیں ہو سکتی؟ اگر محض اعتراض وارد کر دینے سے اگر کوئی کلام مشکوک ٹھہرتا تو سب سے پہلے اللہ کی کتاب مشکوک قرار پاتی کہ خود قرآن پر بھی سینکڑں اعتراضات اٹھائے گئے ہیں۔منکرین حدیث میں سے کتنے ہیں کہ جنہوں نے قرآن مجید کا دفاع کیا ہو؟ امر واقعہ یہ ہے کہ ملحدین اور مستشرقین نے قرآن مجید پر جو کیچڑ اچھالا ہے، اس کا بھی علمی وتحقیقی جواب سینکڑوں کتب ومقالات کی صورت میں اگر کسی نے دیا ہے تو یہ وہی لوگ ہیں جو حدیثوں پر ایمان رکھنے والے ہیں۔منکرین حدیث کو حدیث اور محدثین پر اعتراضات سے ہی آج تک فرصت نہیں ملی ۔
استفادہ تحریرحافظ زبیر
کیااحادیث الحاد کےپھیلنےکاذریعہ ہیں؟ | الحاد جدید کا علمی محاکمہ
May 16, 2017 at 4:04 am[…] حدیث کے ذخیرے کو ساقط الاعتبار ثابت کرنے کی سکیمیں، یہ رجالِ حدیث کی ثقاہت پر اعتراضات اور یہ عقلی حیثیت سے احادیث پر شکوک وشبہات کا اظہار، یہ […]
jamil tariq
June 25, 2020 at 3:34 pmمذکورہ تحریر میں کہا گیا ہے کہ اگر لوگوں کے اعتراضات سے کلام پر قدغن لگ سکتی تو ایسے تو قرآن کریم پر بھی اعتراضات کئے گئے، نیز جن انسانوں نے احادیث مرتب کی ہیں انہیں نے قرآن کریم بھی یک جا کیا اعراب لگائے اور آگے پہنچایا…. لیکن دیکھا جائے تو احادیث اور قرآن کریم دونوں محفوظ ہونے کے اعتبار سے بھی مختلف ہیں. قرآن کریم کی حفاظت کا اللہ تعالیٰ نے صاف اعلان کیا ہے اس لئے اس پہلو کو ذرا اور تفصیل سے اجاگر کردیا جائے… دونوں کے فرق کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے دونوں کی حفاظت کے طریقے کار پر واضح کرکے روشنی ڈال دی تو بہت بہتر ہوگا. جزاک اللہ خیرا..
باقی اس تحریر نے بہت سے نام نہاد اشکالات کے الحمدللہ پرخچے اڑادئے ہیں اور بہت ہی مفید ثابت ہوئی ہے اللہ تعالیٰ محرر کو اچھا صلہ عطافرما ئے.