متقدمین محدثین اور شیعہ :
تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ شروع میں تشیع محض ایک سیاسی رجحان تھا جو بنو امیہ کے مقابلے میں اہل بیت کے لیے مسلمانوں کے بعض گروہوں میں موجود تھا۔ اور اس رجحان نے بہت بعد میں غلو کی صورت میں رافضیت کی شکل اختیار کی ہے۔ شارح بخاری اور معروف محدث علامہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ فرماتے ہیں:
التشيع في عرف المتقدمين هو اعتقاد تفضيل علي على عثمان، وأن عليا كان مصيبا في حروبه، وأن مخالفه مخطئ، مع تقديم الشيخين وتفضيلهما، وربما اعتقد بعضهم أن عليا أفضل الخلق بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم، وإذا كان معتقد ذلك ورعا دينا صادقا مجتهدا فلا ترد روايته بهذا، لا سيما إن كان غير داعية. وأما التشيع في عرف المتأخرين فهو الرفض المحض ، فلا تقبل رواية الرافضي الغالي ولا كرامة انتهى. “تهذيب التهذيب” (1/81)
چنانچہ متقدمین کےنزدیک شیعہ اورروافض میں بہت فرق ہے ۔ ان کامعاملہ آج کل کےشیعہ حضرات کی طرح نہ تھاکہ ان کے روافض کے مابین کچھ فرق وامتیاز نہیں رہا ۔ متقدمین کےنزدیک شیعہ سےمرادوہ لوگ تھے جوصرف تفضیل کے قائل تھے یعنی علی رضی اللہ عنہ کوعثمان رضی اللہ عنہ سےافضل جانتےتھے،اگرچہ عثمان رضی اللہ عنہ کوبرحق امام اورصحابی سمجھتے تھے۔اس طرح کے کچھ لوگ اہل سنت میں بھی گذرے ہیں جو علی رضی اللہ عنہ کوعثمان رضی اللہ عنہ سےافضل قراردیتےتھےلہذایہ ایسی بات نہیں جوبہت بڑی قابل اعتراض ہو۔ہاں کچھ غالی شیعہ شیخین ابوبکروعمررضی اللہ عنہما سےعلی رضی اللہ عنہ کوافضل سمجھتےتھےاگرچہ وہ شیخین رضی اللہ عنہماکےمتعلق اس عقیدہ کے حامل بھی تھے کہ وہ برحق امام اورصحابی رضی اللہ عنہم تھےلیکن علی رضی اللہ عنہ کوافضل قراردیتے تھے اوران کی بات زیادہ سےزیادہ بدعت کےزمرہ میں آتی ہے ۔
حدیث اور بدعتی راوی:
کسی بھی راوی کے مقبول ہونے کے لیے دو بنیادی شرطیں ہیں :
١۔ اس کا حافظہ قابل اعتماد ہو
٢۔ صاحب عدالت ہو ۔
ہمارا زیر بحث مسئلہ دوسری شرط سے متعلق ہے ۔ کیونکہ عدالت کی شرط سے بدعتی روای خارج ہوجاتے ہیں ۔ اور تشیع یا رفض ایک بدعت ہے لہذا اصل یہ ہے کہ کسی بھی غالی شیعہ یا رافضی کی روایت کو قبول نہیں کیا جائے گا چاہے وہ حفظ و ضبط کا پہاڑ ہی کیوں نہ ہو ۔لیکن بات صرف یہیں پر ختم نہیں ہوتی کیونکہ مبتدعہ کی بہت ساری اقسام ہیں مختلف اصناف ہیں کچھ ایسے ہیں جن کی بدعت ان کی روایت پر اثر انداز نہیں ہوتی یا وہ کسی بدعت صغری میں مبتلا ہوتے ہیں اور ساتھ ساتھ وہ نیک صادق اللہجہ اور دین دار ہوتے ہیں جبکہ کچھ روای اس کے بر عکس ہوتے ہیں اور جھوٹ بولنا اور تقیہ کرنا ان کے نزدیک جزو ایمان ہے جیساکہ حافظ ذہبی نے لکھا ۔اس لیے محدثین نے اس سلسلے میں کچھ شروط ذکر کیں کہ کن کن بدعتیوں کی روایات کن کن حالات میں قبول ہوں گی (علوم الحدیث لابن الصلاح اور اس کے متعلقات میں تفصیل ملاحظہ کی جا سکتی ہے )اس سلسلے میں جو راحج مذہب اس کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ بدعتی کی روایت چند شرائط کے ساتھ مقبول ہے ۔
1. وہ صدوق ہومتہم بالکذب نہ ہو،عادل ہو۔
2. بدعت مکفرہ میں مبتلا نہ ہو ۔
3. بدعت کی طرف دعوت نہ دیتا ہو ۔
4. اس کی روایت میں کوئی ایسی چیز نہ ہو جس سے اس کے بدعتی مذہب کی تائید ہو رہی ہو ۔
یہ موٹی موٹی شرائط ہیں جن کی موجودگی میں کسی بدعتی کی روایت کو قبول کیا جائے گا ۔ لیکن ایک بات ذہن میں رکھیں چونکہ یہ دو جمع دو برابر چار حساب کے قواعد نہیں لہذا بعض جگہوں پر محدثین نے ان قواعد سے اختلاف بھی کیا ہے مطلب کئی جگہوں پر ان شرائط سے تساہل کیا ہے اور بعض مقامات پرتشدد بھی کیا ہے اور یہ سب کچھ دلائل و قرائن کے ساتھ تاکہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ یہ خواہشات نفس کی پیروی ہے ۔
صحیح بخاری اور شیعہ راوی:
یہ درست ہے کہ صحیح بخاری میں شیعہ و دیگر بدعتیوں کی روایات موجود ہیں بلکہ بعض ایسے بدعتی بھی ہیں جو مذکورہ تمام شرائط پر پورے نہیں اترتے لیکن پھر بھی ان کی روایات کو نقل کیا گیا ہے ۔ اس کی مکمل تحقیق کی گئی ، محدثین نے امام بخاری کی صحیح کا تتبع کر کے بدعتی کے بارے میں ان کا موقف سمجھنے کی کوشش کی اور امام بخاری کے اس سلسلے میں معیار کا کھوج لگایا جو کہ درج ذیل نقاط میں بیان کیا جا سکتا ہے :
١۔ صحیح بخاری میں بدعت مکفرہ والا راوی کوئی نہیں ہے ۔
٢۔ اکثر ان میں سے غیر داعی ہیں کچھ ایسے ہیں جو داعی تھے لیکن پھر توبہ کر چکے تھے ۔
٣۔ اکثر روایات متابعات و شواہد میں ہیں ۔
٤۔ بعض ایسے ہیں جن کا بدعتی ہونا ہی ثابت نہیں ۔
تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں باحث أبو بکر الکافی کا رسالہ منہج الإمام البخاری فی تصحیح الأحادیث و تعلیلہا ص ١٠٥ خاصۃ )
بخاری کے چند مشہور رافضی راوی اور انکی حقیقت:
ایک فیس بکی مفکر جناب قاری ڈار صاحب نے بخاری کے رافضی راوی کے نام سے ایک تحریر لکھی اس میں بخاری کے کچھ شیعہ راویوں کے نام گنوائے اور انہیں انتہائی مبالغہ آرائی سے امام بخاری کا استاد بھی قرار دیا۔ حالانکہ ان میں سے کوئی بھی امام بخاری کا استاد نہیں ہے۔
ابن جریج ابوخالد المکی بخاری شریف کا راوی ہے امام ذھبی میزان میں لکھتے ھیں کہ یہ متعہ کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتا تھا اور( اس کی کوالیفیکشن یہ تھی ) کہ اس نے ستر عورتوں سے متعہ کیا تھا [ میزان الاعتدال الذھبی الجزء ثالث
علامہ ابن حجر نے اپنی کتاب “فتح الباری شرح صحیح البخاری” میں امام بخاری کے استاد و راوی، عباد بن یعقوبؒ کے متعلق لکھا ہے کہ امام ابن حبان فرماتے ہیں: كان رافضيا داعية “کہ یہ نہ صرف خود رافضی تھا بلکہ رافضیت کی تبلیغ کرنے والے تھا ۔
شیعی حدیث کی کتب اربعہ میں “زُرارۃ بن اعین” کی کثرت سے روایات موجود ہیں، اِن کے بھائی “عبد الملک بن اعین بخاری کے راوی ہیں۔چنانچہ امام ذہبی “میزان الاعتدال” میں لکھتے ہیں: 5190 – عبد الملك بن أعين .قال ابن عيينة: حدثنا عبد الملك: وكان رافضيا. کہ ابن عیینہ کہتے ہیں کہ یہ رافضی تھے۔
تبصرہ:
حقیقت یہ ہے کہ ابوخالد مکی کے بارے میں متعہ سے رجوع ثابت ہے ۔عباد بن یعقوب جسے قاری صاحب نے محض عوام دھوکہ دینے کے لیے بخاری کا استاد لکھا ہے ‘ سے صرف ایک حدیث بخاری میں لی گئی ہے اور وہ بھی مقرون ہے یعنی کسی اور سند سے بھی موجود ہے ۔۔۔ اسی طرح عبدالمالک بن اعین سے بھی صرف ایک حدیث مروی ہے اور وہ بھی عباد بن یعقوب کی طرح مقرون ہے ۔ اللہ ان منافقوں و کذابوں کے شر سے بچائے۔
خلاصہ یہ کہ بخاری ومسلم میں کسی ایسے شیعہ راوی کی روایت نہیں ہے کہ جو رافضی ہو یا شیخین اور ازواج مطہرات پر لعن طعن کرتا ہو وغیرہ۔ اگر کسی کو شیعہ راوی سے محدثین کے روایت کرنے کے اصولوں کے بارے جاننے کا اشتیاق ہو تو اس موضوع پر محمد خلیفہ الشرع کی کتاب “منهج الإمامين البخاري ومسلم في الرواية عن رجال الشيعة في صحيحيهما” اور کریمہ سودانی کی کتاب “منهج الإمام البخاري في الرواية عن المبتدعة من خلال الجامع الصحيح : الشيعة أنموذجا” کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔
استفادہ تحریر :بخاری میں شیعہ راویوں سے روایات از حافظ زبیر