اعتراض: “اگر وحی منزل من اللہ کی دو قسمیں تھیں۔ ایک وحیِ متلو یا وحیِ جلی اور دوسری وحیِ غیر متلو ، تو کیا یہ چیز رسول اللہ کے فریضۂ رسالت میں داخل نہ تھی کہ حضورؐ وحی کے اس دوسرے حصے کو بھی خود مرتب فرما کر محفوظ شکل میں امت کو دے کر جاتے جس طرح حضورؐ نے وحی کے پہلے حصے (قرآن) کو امت کو دیا تھا”۔
یہ اعتراض یوں بھی کیا جاتا ہے کہ
” اگر حدیث کا دین میں کوئی مقام ہوتا اور دینی معاملات میں اسے مستقل حجیت حاصل ہوتی تو پھر نبی اکرمﷺ اسی اہتمام کے ساتھ حدیث بھی لکھوا لیا کرتے جس اہتمام سے آپﷺ قرآن کی ہر آیت و سورہ لکھوا لیا کرتے تھے۔اب جس شئے کو قلم بند کر کے دوسروں تک پہنچانے کا باقاعدہ التزام نہیں کیا گیا اسے ہمیشہ کے لیے ایک واجب الاتباع قانون کا درجہ کیسے دیا جاسکتا ہے؟
تبصرہ :
منکرین حدیث یہ سوال عموماً بڑے زور و شور سے اٹھاتے ہیں اور اپنے خیال میں اسے بڑا لاجواب سمجھتے ہیں۔ ان کا تصور یہ ہے کہ قرآن چونکہ لکھوایا گیا تھا اس لیے وہ محفوظ ہے اور حدیث چونکہ حضورؐ نے خود لکھوا کر مرتب نہیں کی اس لیے وہ غیر محفوظ ہے۔
لطیفہ یہ ہے کہ تمام منکرین حدیث بار بار قرآن کے لکھے جانے اور حدیث کے نہ لکھے جانے پر اپنے دلائل کا دارومدار رکھتے ہیں، لیکن یہ بات کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم اپنے زمانہ میں کاتبان وحی سے ہر نازل شدہ وحی لکھوا لیتے تھے اور اس تحریر سے نقل کر کے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں قرآن کو ایک مصحف کی شکل میں لکھا گیا اور بعد میں اسی کی نقلیں حضرت عثمان نے شائع کیں۔ یہ سب کچھ محض حدیث کی روایات ہی سے دنیا کو معلوم ہوا ہے۔ قرآن میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے، نہ حدیث کی روایات کے سوا اس کی کوئی دوسرے شہادت دنیا میں کہیں موجود ہے۔ اب اگر حدیث کی روایات سرے سے قابل اعتماد ہی نہیں ہیں تو پھر کس دلیل سے آپ دنیا کو یہ یقین دلائیں گے کہ فی الواقع قرآن حضور صلی اللہ علیہ و سلم ہی کے زمانے میں لکھا گیا تھا؟
مزید یہی راوی جب یہ بیان کرتے ہیں کہ عہدِ صحابہ میں احادیث کی کتابت ہوتی تھی وہ آپ قبول نہیں کرتے ۔ کیا یہ منافقت بھی قرآن کے ساتھ محبت کی وجہ سے ہے؟
قرآن اور حدیث کے معاملے میں فرق:
اس سلسلے میں پہلی بات تو یہ سمجھ لینی چاہئے کہ قرآن کو جس وجہ سے لکھوایا گیا، وہ یہ تھی کہ اس کے الفاظ اور معنی دونوں من جانب اللہ تھے۔ اس کے الفاظ کی ترتیب ہی نہیں، اس کی آیتوں کی ترتیب اور سورتوں کی ترتیب بھی اللہ کی طرف سے تھی۔اس کے الفاظ کو دوسرے الفاظ سے بدلنا بھی جائز نہ تھا۔ اور وہ اس لئے نازل ہوا تھا کہ لوگ انہی الفاظ میں اسی ترتیب کے ساتھ اس کی تلاوت کریں۔ اس کے مقابل میں سنت کی نوعیت بالکل مختلف تھی ، وہ محض لفظی نہ تھی بلکہ عملی بھی تھی، اور جو لفظی تھی، اس کے الفاظ قرآن کے الفاظ کی طرح بذریعہ وحی نازل نہیں ہو ئے تھے بلکہ حضور نے اس کو اپنی زبان میں ادا کیا تھا۔ پھر اس کا ایک بڑا حصہ ایسا تھا جسے حضور کے ہمعصروں نے اپنے الفاظ میں بیان کیا تھا۔ مثلاً یہ کہ حضور کے اخلاق ایسے تھے، حضور کی زندگی ایسی تھی، اور فلاں موقع پر حضورؐ نے یوں عمل کیا۔
حضورؐ کے اقوال و تقریریں نقل کرنے کے بارے میں بھی یہ پابندی نہ تھی کہ سننے والے انہیں لفظ بلفظ نقل کریں۔ بلکہ اہل زبان سامعین کے لئے یہ جائز تھا اور وہ اس پرقادر بھی تھے کہ آپ سے ایک بات سن کر معنی و مفہوم بدلے بغیر اسے اپنے الفاظ میں بیان کردیں۔ حضورؐ کے الفاظ کی تلاوت مقصود نہ تھی بلکہ اس تعلیم کی پیروی مقصود تھی جو آپ نے دی ہو۔ احادیث میں قرآن کی آیتوں اور سورتوں کی طرح یہ ترتیب محفوظ کرنا بھی ضروری نہ تھا کہ فلاں حدیث پہلے ہو اور فلاں اس کے بعد۔ اس بنا پراحادیث کے معاملے میں یہ بالکل کافی تھا کہ لوگ اسے یاد رکھیں اور دیانت کے ساتھ انہیں لوگوں تک پہنچائیں۔ ان کے معاملے میں کتابت کی وہ اہمیت نہ تھی جو قرآن کے معاملے میں تھی۔
دوسری بات جسے خوب سمجھ لینا چاہئے، یہ ہے کہ کسی چیز کے سند اور حجت ہونے کے لئے اس کا لکھا ہوا ہونا قطعاً ضروری نہیں ہے۔ اعتماد کی اصل بنیاد اس شخص یا ان اشخاص کا بھروسے کے قابل ہونا ہے جس کے یا جن کے ذریعہ سے کوئی بات دوسرے تک پہنچے، خواہ وہ مکتوب ہو یا غیر مکتوب۔ خود قرآن کو اللہ تعالیٰ نے آسمان سے لکھوا کر نہیں بھیجا بلکہ نبی کی زبان سے اس کو بندوں تک پہنچایا۔ اللہ نے پورا انحصار اس بات پر کیا کہ جو لوگ نبی کو سچا مانیں گے، وہ نبی کے اعتماد پر قرآن کو ہمار ا کلام مان لیں گے۔ نبی ﷺ نے بھی قرآن کی جتنی تبلیغ و اشاعت کی، زبانی ہی کی۔ آپ کے جو صحابہ مختلف علاقوں میں جاکر تبلیغ کرتے تھے، وہ قرآن کی سورتیں لکھی ہوئی نہ لے جاتے تھے۔ لکھی ہوئی آیات اور سورتیں تو اس تھیلے میںپڑی رہتی تھیں جس کے اندر آپ ﷺ انہیں کاتبانِ وحی سے لکھوا کر ڈال دیا کرتے تھے۔ باقی ساری تبلیغ و اشاعت زبان سے ہوتی تھی اور ایمان لانے والے اس ایک صحابی کے اعتماد پریہ بات تسلیم کرتے تھے کہ جو کچھ وہ سنا رہا ہے، وہ اللہ کا کلام ہے یارسول اللہ ﷺ کا جو حکم وہ پہنچا رہا ہے، وہ حضور ہی کا حکم ہے۔
تیسرا اہم نکتہ اس سلسلے میں یہ ہے کہ لکھی ہوئی چیز بجائے خود کبھی قابل اعتماد نہیں ہوتی، جب تک کہ زندہ اور قابل اعتماد انسانوں کی شہادت اس کی توثیق نہ کرے۔ محض لکھی ہوئی کوئی چیز اگرہمیں ملے اور ہم اصل لکھنے والے کا خط نہ پہچانتے ہوں، یا لکھنے والا خود نہ بتائے کہ یہ اسی کی تحریر ہے ، یا ایسے شواہد موجود نہ ہوں جو اس امر کی تصدیق کردیں کہ یہ تحریر اسی کی ہے جس کی طرف منسوب کی گئی ہے تو ہمارے لئے محض وہ تحریر یقینی کیا معنی، ظنی حجت بھی نہیں ہوسکتی… یہ ایک اصولی حقیقت ہے جسے موجودہ زمانے کا قانونِ شہادت بھی تسلیم کرتاہے اور فاضل جج خود اپنی عدالت میں اس پر عمل فرماتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ قرآنِ مجید کے محفوظ ہونے پر ہم جو یقین رکھتے ہیں، کیا اس کی بنیاد یہی ہے کہ وہ لکھاگیاتھا؟ کاتبین ِوحی کے ہاتھ کے لکھے ہوئے صحیفے جو حضورؐ نے املا کرائے تھے، آج دنیا میں کہیں موجود نہیں۔ اگر موجود ہوتے تو بھی آج کون یہ تصدیق کرتا کہ یہ وہی صحیفے ہیںجو حضورؐ نے لکھوائے تھے۔ خود یہ بات بھی کہ حضور ؐاس قرآن کونزولِ وحی کے ساتھ ہی لکھوالیاکرتے تھے، زبانی روایات ہی سے معلوم ہوئی ہے، ورنہ اس کے جاننے کا کوئی دوسرا ذریعہ نہ تھا۔ پس قرآن کے محفوظ ہونے پر ہمارے یقین کی اصل وجہ اس کا لکھا ہوا ہونا نہیں ہے، بلکہ یہ ہے کہ زندہ انسان زندہ انسانوں سے مسلسل اس کو سنتے اور آگے زندہ انسانوں تک اسے پہنچاتے چلے آرہے ہیں۔ لہٰذا یہ خیال ذہن سے نکال دینا چاہئے کہ کسی چیز کے محفوظ ہونے کی واحد سبیل اس کا لکھا ہوا ہونا ہے۔
کسی کا یہ کہنا کہ عہد ِنبوی کے رواجات، روایات، نظائر، فیصلوں، احکام اور ہدایات کا پورا ریکارڈ ہم کو ‘ایک کتاب’کی شکل میں مرتب شدہ ملنا چاہئے تھا، درحقیقت ایک خالص غیر عملی طرزِ فکر ہے اور وہی شخص یہ بات کہہ سکتا ہے جو خیالی دنیا میں رہتا ہو۔ آپ قدیم زمانے کے عرب کی حالت چھوڑ کر تھوڑی دیر کے لئے آج اس زمانے کی حالت کو لے لیجئے جب کہ احوال و وقائع کو ریکارڈ کرنے کے لئے ذرائع بے حد ترقی کرچکے ہیں۔ فرض کرلیجئے کہ اس زمانے میں کوئی لیڈر ایسا موجود ہے جو ۲۳ سال تک شب و روز کی مصروف زندگی میں ایک عظیم الشان تحریک برپا کرتا ہے۔ ہزاروں افراد کو اپنی تعلیم و تربیت سے تیار کرتا ہے۔ ان سے کام لے کر ایک پورے ملک کی فطری، اخلاقی، تمدنی اور معاشی زندگی میں انقلاب پیدا کرتا ہے۔ اپنی قیادت و رہنمائی میں ایک نیا معاشرہ اور ایک نئی ریاست وجود میں لاتا ہے۔ اس معاشرے میں اس کی ذات ہروقت ایک مستقل نمونہ ہدایت بنی رہتی ہے۔ ہر حالت میں لوگ اس کو دیکھ دیکھ کر یہ سبق لیتے ہیں کہ کیا کرنا چاہئے اور کیا نہیں کرنا چاہئے۔ ہر طرح کے لوگ شب و روز اُس سے ملتے رہتے ہیں اور وہ ان کو عقائد و افکار، سیرت و اخلاق، عبادات و معاملات، غرض ہر شعبۂ زندگی کے متعلق اُصولی ہدایات بھی دیتا ہے اور جزئی اَحکام بھی۔ پھر اپنی قائم کردہ ریاست کا فرمانروا، قاضی، شارع، مدبر اور سپہ سالار بھی تنہا وہی ہے۔ اور دس سال تک اس مملکت کے تمام شعبوں کو وہ خود اپنے اُصولوں پرقائم کرتا اور اپنی رہنمائی میں چلاتا ہے۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ آج اس زمانے میں یہ سارا کام کسی ایک ملک میں ہو تو اس کا ریکارڈ ‘ایک کتاب’کی شکل میں مرتب ہوسکتا ہے؟
کیا ہر وقت اس لیڈر کے ساتھ ٹیپ ریکارڈ لگا رہ سکتا ہے؟ کیا ہر آن فلم کی مشین اس کی شبانہ روز نقل و حرکت ثبت کرنے میں لگی رہ سکتی ہے؟ اور اگر یہ نہ ہوسکے تو کیا آپ کہیں گے کہ وہ ٹھپا جو اس لیڈر نے ہزاروں لاکھوں افراد کی زندگی پر، پورے معاشرے کی ہیئت اور پوری ریاست کے نظام پر چھوڑا ہے، سرے سے کوئی شہادت ہی نہیں ہے جس کا اعتبار کیا جاسکے؟ کیا آپ یہ دعویٰ کریں گے کہ اس لیڈر کی تقریر سننے والے، اس کی زندگی دیکھنے والے، اس سے ربط و تعلق رکھنے والے بے شمار افراد کی رپورٹیں سب کی سب ناقابل اعتماد ہیں، کیونکہ خود اس لیڈر کے سامنے وہ ‘ایک کتاب’ کی شکل میں مرتب نہیں کی گئیں اور لیڈر نے ان پر اپنے ہاتھ سے مہر تصدیق ثبت نہیں کی؟ کیا آپ فرمائیں گے کہ اس کے عدالتی فیصلے اور اس کے انتظامی احکام، اس کے قانونی فرامین، اس کے صلح و جنگ کے معاملات کے متعلق جتنا مواد بھی بہت سی مختلف صورتوں میں موجود ہے، اس کی کوئی قدروقیمت نہیں ہے۔ کیونکہ وہ ایک ‘جامع و مانع کتاب’کی شکل میں تو ہے ہی نہیں؟ ”(ترجمان القرآن: منصب ِرسالت نمبر ، ص۳۳، ۳۴،۱۶۳،۳۳۶ تا ۳۳۸)
لہٰذا تحریر پر جتنا زور یہ حضرات دیتے ہیں وہ بالکل غلط ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی سنتوں پر قائم کیا ہوا ایک پورا معاشرہ چھوڑا تھا جس کی زندگی کے ہر پہلو پر آپؐ کی تعلیم و ہدایات کا ٹھپہ لگا ہوا تھا۔ اس معاشرے میں آپؐ کی باتیں سنے ہوئے، آپؐ کے کام دیکھے ہوئے اور آپؐ کے زیر ہدایت تربیت پائے ہوئے ہزاروں لوگ موجود تھے۔ اس معاشرے نے بعد کی نسلوں تک وہ سارے نقوش منتقل کیے اور ان سے وہ نسلاً بعد نسل ہم کو پہنچے۔ دنیا کے کسی مسلَّم اصول شہادت کی رو سے بھی یہ شہادت رد نہیں کی جا سکتی۔ پھر یہ کہنا بھی صحیح نہیں ہے کہ یہ نقوش کاغذ پر ثبت نہیں کیے گئے۔ انہیں ثبت کرنے کا سلسلہ حضورؐ کے زمانے میں شروع ہو چکا تھا۔ پہلی صدی ہجری میں اس کا خاص اہتمام کیا گیا اور دوسری صدی ہجری کے محدثین زندہ شہادتوں اور تحریری شہادتوں، دونوں کی مدد سے اس پورے نقشے کو ضبط تحریر میں لے آئے۔ہم پہلے اس پر ایک تبصرہ پیش کرچکے ہیں مزید تفصیل آگے ایک تحریر میں پیش کی جائے گی ۔
اس وضاحت کے بعد یہ بھی عرض ہے کہ آپ ذخیرئہ حدیث کو فن تاریخ کے معیار پر پورا اُترتا ہوا تسلیم نہیں کرتے، اس لئے آپ کو چیلنج ہے کہ آپ دنیا کے کسی اعلیٰ سے اعلیٰ معیارِ تاریخ کو معیارِ حدیث کے ہم پلہ ہی ثابت کردیجئے۔ صرف بڑا بول بول دینا کوئی کمال نہیں ہوتا!!
خیرخواہی کےنام پر حدیث کا انکار | الحاد جدید کا علمی محاکمہ
May 16, 2017 at 3:37 am[…] احادیث ہم کو قابل اعتماد ذرائع سے نہیں پہنچی، اس لیے ہم انہیں ماننے کے مکلف نہیں، کبھی روایات واحادیث کے بارے میں حضرت عمر فاروق ؓ اور […]