علم حدیث پر منکرین حدیث نے یہ اعتراض بھی بڑی شدومد سے اٹھایا ہے کہ محدثین کے پاس اتنی تعداد میں احادیث کہاں سےآ گئیں؟انہوں نے اس ذخیرے میں سے نوے فیصد ریجیکٹ کردیں۔ اس طرح وہ نہایت مہیب اور مدہش اعدادو شمار پیش کر کے قارئین کرام کو یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ ان میں سے 95% موضوع اور جعلی احادیث تھیں۔ملاحظہ کیجیے :
“ضمناً یہ بھی دیکھیے کہ ان حضرات کو کس قدر احادیث ملیں اور ان میں سے انھوں نے کتنی احادیث کو منتخب کر کے اپنے مجموعہ میں داخل کیا۔
1.امام بخاری چھ لاکھ میں سے مکررات نکال کر صرف ۲۷۶۲ ۔
2.امام مسلم تین لاکھ میں سے صرف ۴۲۴۸ ۔
3.ابو داؤد پانچ لاکھ میں سے ۴۸۰۰۔
4.ابن ماجہ چار لاکھ سے صرف ۴۰۰۰۔
5.نسائی دو لاکھ میں سے صرف ۴۳۲۱
(مقام حدیث ، ص ۲۵)
امام بخاریؒ کے بارے میں طلوع اسلام کا مؤقف ہے: ’’انھوں نے شہر اور قریہ بہ قریہ پھر کر چھ لاکھ کے قریب احادیث جمع کیں ان میں سے انھوں نے اپنے معیار کے مطابق صرف ۷۲۰۰ احادیث کو صحیح پایا اور انھیں اپنی کتاب میں درج کرلیا باقی پانچ لاکھ ترانوے ہزار کو مسترد کر دیا‘‘۔ [مقام حدیث، ص۲۲]
اس استدلال سے وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ:
’’ذرا سوچیے کہ اگر امام بخاری پانچ لاکھ چورانوے ہزار احادیث کو یہ کہہ کر رد کر دیتے ہیں کہ وہ ان کی دانست میں رسولؐ اللہ کی نہیں ہوسکتیں اور اس سے وہ منکر حدیث نہیں قرار پاتے تو اگر آج کوئی شخص ایک حدیث کے متعلق کہتا ہے کہ اس کی بصیرت قرآن کی رو سے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نہیں ہوسکتی تو وہ کافر اور خارج از اسلام کس طرح قرار پا سکتا ہے؟ وہ درحقیقت ایک جامع حدیث کے شاہد یا راوی کی روایت کے صحیح ہونے سے انکار کرتا ہے۔ ارشاد نبوی سے انکار نہیں کرتا‘‘۔ [مقام حدیث، ص۵۶]
مغالطے کی حقیقت:
1.محدثین کی اصطلاح میں اگر ایک متن حدیث متعدد سندوں سے آیا ہے تو یہ متن اپنی ہر سند کے لحاظ سے ایک حدیث شمار ہوتا ہے۔ مثلاً رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بات فرمائی جو پانچ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہ نے سنی، ہر صحابی نے اپنے پانچ شاگردوں کو وہ بات سنائی اس طرح تابعین تک اسکی پچیس اسناد بن گئیں اب اگر تابعی راوی اپنے دس شاگردوں کو روایت بیان کرے تو اس طرح اس حدیث کی دو سو پچاس اسناد بن گئیں۔ اس طرح امام بخاری کے زمانہ تک پہنچتے پہنچتے احادیث کا یہ ذخیر ہ کئی لاکھ حدیثوں کی شکل اختیار کر گیا تھا۔ مثلاً مشہور حدیث «إنما الأعمال بالنيات» سات سو سندوں سے مروی ہے یعنی ایک حدیث کے سینکڑوں توابع و شواہد ہیں۔ فن حدیث میں یہ ایک حدیث نہیں بلکہ سات سو حدیثیں شمار ہوتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب امام بخاری کی ایک ہی حدیث کی سندیں سینکڑوں تک پہنچتی ہیں توباقی روایات کے توابع و شواہد کی تعداد کہاں تک پہنچے گی۔ اس کا اندازہ بآسانی کیا جاسکتا ہے۔ (تلقیح ابن جوزی، مقدمہ ابن صلاح، صفحہ ۱۱)
2۔ محدثین’حدیث’ کا وسیع مفہوم لیتے ہوئے اس کا اطلاق صحابہ اور تابعین کے آثار و اقوال پر بھی کردیتے ہیں۔ مطلب یہ ہوا کہ امام بخاری نے ایک لاکھ میں سے خالص مرفوع احادیث یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین اور اُسوہٴ حسنہ پر مشتمل روایات کوچھانٹ لیا۔ظاہر ہے کہ امام محترم کا یہ طرزِ عمل اُمت ِاسلامیہ پر ایک بہت بڑا احسان ہے نہ کہ حدیث کے بارے میں وسوسہ اندازی کا موجب۔
3۔امام بخاری کا طریقہ یہ تھا کہ جتنی سندوں سے کوئی واقعہ انہیں پہنچا تھا انہیں وہ اپنی شرائطِ صحت (یعنی سند کی صحت نہ کہ اصل واقعہ کی صحت) کے مطابق جانچتے تھے اور ان میں سے جس سند یا جن سندوں کو وہ سب سے زیادہ معتبر سمجھتے تھے ان کا انتخاب کر لیتے تھے مگر انہوں نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ جو حدیثیں انہوں نے منتخب کی ہیں بس وہی صحیح ہیں اور باقی تمام روایات غیر صحیح ہیں ۔ ان کا اپنا قول یہ ہے کہ “میں نے اپنی کتاب میں کوئی ایسی حدیث داخل نہیں کی ہے جو صحیح نہ ہو، مگر بہت سی صحیح حدیثیں چھوڑ دی ہیں تا کہ کتاب طویل نہ ہو جائے۔ (تاریخ بغداد، ج 2 ص 8 – 9، تہذیب النووی ج 1، ص 74، طبقات السبکی ج 2 ص 7) بلکہ ایک اور موقع پر وہ اس کی تصریح بھی کرتے ہیں کہ “میں نے جو صحیح حدیثیں چھوڑ دی ہیں وہ میری منتخب کردہ حدیثوں سے زیادہ ہیں۔” اور یہ کہ “مجھے ایک لاکھ صحیح حدیثیں یاد ہیں۔” (شروط الائمۃ الخمسہ، ص 49 ) قریب قریب یہی بات امام مسلم نے بھی کہی ہے۔ ان کا قول ہے “میں نے اپنی کتاب میں جو روایتیں جمع کی ہیں ان کو میں صحاح کہتا ہوں مگر یہ میں نے کبھی نہیں کہا کہ جو روایت میں نے لی ہے وہ ضعیف ہے۔” (توجیہ النظر، ص 91 )
اس ساری تفصیل سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ ایک لاکھ کے عدد کو ہوا بنا کرپیش کرنا کس قدر مغالطہ انگیز ہے۔
احادیث کی عددی کثرت کے اسباب:
سنن اور احادیث میں جو فرق ہے وہ ہم پہلے واضح کرچکے ہیں۔ سنن کا تعلق صرف رسول اللہﷺ کی ایک ذات سے ہے۔ جب کہ احادیث کا تعلق بیشمار صحابہ اور تابعین کے اقوال وافعال سے بھی ہے۔ لہٰذا احادیث کی تعداد سنن رسول ﷺ سے کئی گناہ زیادہ ہونا لازمی امر ہے۔جس کی مثال ہم پہلے پیش کر چکے ہیں کہ:”انَّمَا الاَ عمَالُ بالنَّیَّات”ایک سنت قولی ہے۔ جب کہ احادیث کے لحاظ سے اس کا شمار سات سو (700) ہے۔ اس لحاظ سے بھی احادیث کی تعداد سنن سے بیسیوں گنا بڑھ جاتی ہے۔صحابہ آپ کو جیسے نماز پڑھتے دیکھتے ویسے ہی پڑھ لیتے۔یاجووفودباہر سے مدینہ آتے۔ آپ انھیں چند دن اپنے پاس ٹھہرا کر، جاتے وقت یہ وصیت کرتے کہ”صَلُّوا کَمَا رَأَیُتُمُونِی أُّصَلَّی [ترجمہ:” نماز ایسے پڑھو جیسے مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔ صحیح البخاری: کتاب الاذان: باب الاذان للمسافرین اذا کانوا جماعۃ[ یا آپ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا خُذُوا عَنِّی مَنَاسِکَکُم۔[ ترجمہ:” مجھ سے حج کے ارکان کی ادائیگی کے طریقے سیکھ لو۔سنن الکبریٰ للبیھقی۔ کتاب الحج: باب الایضاع فی وادی محسر (5:125) ، الحدیث]
پھر جب صحابہؓ نے نماز،حج،روزہ،زکوٰۃ اور دوسرے احکام کے کوائف و تفصیلات کو روایت و کتابت کرنا شروع کیا تو انھیں چھوٹے چھوٹے ارشادات سے دفتر کے دفتر تیار ہوگئے۔
احادیث کی اصل تعداد:
جسے عرف عام میں حدیث کہا جاتا ہے ان کی مجموعی تعداد ۲۰ ہزار سے متجاوز نہیں, پھر بے شمار ایسی حادیث ہیں جو مختلف مجموعوں میں مشترکہ طور پر پائی جاتی ہیں۔ اس طرح ان کی اصل تعدادنصف سے بھی کم رہ جاتی ہے۔ چنانچہ حاکم کی تحقیق کے مطابق صحاح ستہ کے علاوہ مسند احمد بن حنبل سمیت صحیح احادیث کی تعداد دس ہزار سے زیادہ نہیں۔ ان کے اپنے الفاظ یہ ہیں: ’’اعلیٰ درجہ کی حدیثوں کی تعداد دس ہزار تک نہیں پہنچ پاتی‘‘۔ [توجیہہ النظر بحوالہ تدوین]