قرآنی آیات کی اپنے خودساختہ نظریات کی تائید کے لیے بنائی گئی کچھڑیاں :
پرویز صاحب چار مختلف سورتوں الفجر، التوبہ، الہمزہ اور محمد کی مختلف آیات کو جوڑ کر مال جمع کرنے کی مذمت پیش کرتے ہیں :
’’ہر شخص چاہتا تھا کہ جو کچھ اسے مردوں سے ہاتھ آئے سب کچھ سمیٹ کر رکھا جائے (۹۸۔۱۹) اور ادھر ادھر کا مال اکٹھا ہو کر اس کے گھر پہنچ جائے (۲۶۔۸۹) اور ادھر ادھر کا مال اکٹھا ہو کر اس کے گھر پہنچ جائے [۲۶۔۸۹] اس معاشرہ کا انجام اگر جہنم کی تباہیاں نہ ہو تا تو کیا ہوتا؟ یہ آگ کہیں باہر سے نہیں آئی۔ وہی دولت جو انھوں نے جمع کر رکھی تھی، بند رہنے سے اس قدر گرم ہوگئی ہے کہ اس سے ان کے جسموں کو داغا جا رہا ہے۔ [۹:۳۵] جو انھوں نے بڑے بڑے لمبے چوڑے سہاروں اور بھروسوں کے ستونوں میں بند کر رکھی تھی۔ اب وہی آگ ان کے دلوں پر چڑھ رہی ہے۔ [۱۰۴: ۶ تا ۹] قرآن کہتا ہے کہ یہ لوگ درحقیقت انسانیت کی سطح تک پہنچے ہی نہیں تھے۔ ان کی زندگی حیوانی سطح پر تھی جو کھاتے پیتے اور مر جاتے ہیں اور زندگی کا نتیجہ یہ جہنم ہے۔ [۴۷:۱۲] [ن۔ر، ص۹۹]
اس میں درج ذیل انکشافات فرمائے گئے:
۱۔ اگر کہیں دولت کو جمع کر کے رکھا جائے تو وہ دولت اس قدر گرم ہوجاتی ہے کہ اس سے جسموں کو داغا جاسکتا ہے۔
۲۔ اور اگر یہ دولت بڑے لمبے چوڑے سہاروں اور بھروسوں کے ستونوں میں رکھی جائے تو وہ آگ جو اس دولت میں پیدا ہوتی ہے اس سے جسم توخیر نہیں داغے جاتے البتہ وہ آگ دلوں پر چڑھنا شروع کر دیتی ہے۔
آج کل بھی بہت سے لوگ دولت گھروں میں بھی دفن کرتے ہیں اور بینکوں میں بھی رکھتے ہیں۔ لیکن کیا کبھی یہ جمع شدہ دولت گرم ہوتی ہے یا اس کی گرمی سے کوئی شخص داغا گیا ہے؟ یا یہ دولت کی آگ کسی کے دل پر چڑھا کرتی ہے؟ یہ ہے پرویز صاحب کے حیات بعد الممات میں جہنم کے عذاب سے انکار کا نمونہ۔ ایسے عذاب کو وہ اسی دنیا میں اور محض الفاظ کی بازی گری کے رنگ میں پیش فرما رہے ہیں۔
مقامِ آدمیت اور مقامِ انسانیت؟ پرویز
[۱] جن کی صرف دنیا خوشحال ہو یہ لوگ کافر ہیں، ان کی آخرت تاریک ہے۔ کیوں تاریک ہے؟ اس لیے کہ وہ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے۔ آپ کے خیال میں ایسے لوگ مقام آدمیت پر ہیں کیوں کہ آدم کو ملائکہ یعنی کائناتی قوتوں نے سجدہ کیا تھا لہذا صرف متمدن اقوام مغرب ہی مسجود ملائک اور مقام آدمیت پر فائز ہیں۔
[۲] جن کی دنیا بھی خوشحال ہو اور آخرت بھی تابناک، یہ مومنین ہیں۔ آخرت پر ایمان کے باوجود بھی اگر ان کی دنیا خوشحال نہ ہو تو یہ مومن نہیں ہوسکتے۔ یہ لوگ مقامِ انسانیت پر ہیں ۔
حالانکہ
اللہ تعالیٰ کافروں کو بھی انسان کہتا ہے۔ (۶۔۸۳)قرآن کی بے شمار آیات پرویز صاحب کے موقف کی بھرپور تردید کرتی ہیں، خصوصاً حضرت موسیٰؑ ، حضرت نوحؑ اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق آیات کا بغور مطالعہ کیا جائے تو اللہ تعالیٰ صاف لفظوں میں فرماتا ہے کہ آپ کے مخالفین کو دنیا سے جو کچھ دیا گیا ہے اس کی پروا نہ کریں بلکہ اگر تمام لوگوں کے کافر ہونے کا اندیشہ نہ ہوتا تو ہم کفار کے گھر اور چھتیں سونے کی بنا دیتے۔ [الزخرف۳۳] قرآن کی بے شمار آیات میں انبیاء کے مقابلے پر کفار کی دنیاوی شان و شوکت اور خوش حالی کا ذکر ہے اور انبیاء کو اس صورت حال پر تاسف سے رکنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ مثلاً الحجر آیت۸۸، طہٰ آیت ۱۳۱، القصص آیت ۵۸، الحجرات آیت ۳۷، ھود آیت ۱۲، الحج آیت ۱۵، یہ عجیب تصور ہے کہ کامیاب انسان وہ ہے جو دنیا میں لازماً خوش حال ہو، یہ خالص مغربی تصور ہے۔ جس کا تعلق فلاح [Progress] و ترقی [Development] کی مغربی گمراہیوں سے براہ راست تعلق ہے۔
[۳] جن کی دنیا بھی تاریک ہے اور آخرت بھی یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لانے کے بعد کافر ہوجاتے ہیں۔ یعنی جیسے آج مسلمانوں کی ’’مذہب پرست‘‘ قوم ہے۔ یہ لوگ مقامِ آدمیت سے بھی ادنیٰ سطح پر ہیں کیوں کہ کائناتی قوتیں ان کے آگے سجدہ ریز نہیں۔ [اسباب زوال امت، ۸۶]
جہنم کا وجود نہیں: قلبی کیفیت ہے
’’جہنم انسان کی قلبی کیفیت کا نام ہے، لیکن قرآنِ کریم کا انداز یہ ہے کہ وہ غیرمحسوس ، مجرد حقائق کو محسوس مثالوں سے سمجھاتا ہے۔‘‘ [جہانِ فردا: ص ۲۳۵]قرآن کا ارشاد ہے
’’مجرم لوگ قیامت کے دن اپنے رب کے دیدار سے روک دیئے جائیں گے اس کے بعد وہ جہنم میں داخل ہوں گے پھر ان سے کہا جائے گا کہ یہ وہی جہنم ہے جسے تم [دنیا میں] جھٹلایا کرتے تھے۔ [المصطفین۱۵۔۱۷] جہنم کی تاویل قرآن کریم کا انکار ہے۔
جنت بھی قلبی کیفیت ہے: وجود نہیں رکھتی
’’جہنم کی طرح اُخروی جنت بھی کسی مقام کا نام نہیں، کیفیت کا نام ہے۔ ‘‘ [جہانِ فردا: ص ۲۷۰]
قرآنِ کریم جنت کے متعلق ’’مقام‘‘ کا لفظ استعمال کرتا ہے۔قرآن صاف الفاظ میں بیان کرتا ہے:
اِنَّ المتَّقِینَ فِی مَقَامِِ اَمِینِ فِی جَنّاتِِ وَّ عُیُونِِ [ الدخان: ۵۱، ۵۲]
’’پر ہیز گار لوگ اَمن کے مقام جنت اور اس کے چشموں میں ہوں گے۔‘‘
مرنے کے بعد جنت نہیں: اصل جنت دنیا
’’جنت کی آسائشیں اور زیبائشیں وہاں کی فراوانیاں اور خوشحالیاں اس دنیا کی زندگی میں حاصل ہوجاتی ہیں، مرنے کے بعد کی جنت کے سلسلہ میں ان کا بیان تمثیلی ہے۔‘‘ [نظامِ ربوبیت: ص ۸۲]
قرآن کریم واضح الفاظ میں پرویز صاحب کے افکار کی تردید کرتا ہے:
اَعَدَّ اللّٰہ لَھم جَنّتٍ تَّجرِی مِن تحتِھا الانھارُ خالِدِینَ فیھَا ذالِک الفْوزُ الکَبِیر
’’یعنی ان [کامیاب ہونے والوں] کے لیے جنت کے مقامات اللہ تعالیٰ نے خود تیار کیے ہیں، جن میں نہریں بہتی ہیں، وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے یہ ان کی بڑی کامیابی ہوگی‘‘۔ [التوبہ: ۸۹]
’’ان مہاجرین و انصار سے اللہ تعالیٰ راضی ہوگیا، اور وہ اس پر راضی ہوئے اور اس [اللہ] نے ان کے لیے جنت کے مقامات تیار کیے ہیں جن میں نہریں بہتی ہیں، اور وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے‘‘۔ [التوبہ: ۱۰۰]
یوم القیامہ آخرت نہیں انقلاب کا زمانہ ہے:
یوم القیامۃ سے مراد ہوگا وہ انقلابی دور جو قرآن کی رو سے سامنے آیا تھا‘‘۔
[جہانِ فردا: ص ۱۳۳]
الساعۃ قیامت نہیں: حق و باطل کی جنگ ہے:
’’الساعۃ‘‘ سے مراد حق و باطل کی وہ آخری جنگ ہوتی ہے جس میں باطل کی قوتیں شکست کھا کر برباد ہوجاتی ہیں‘‘۔ [لغات القرآن ، ج ۲ ، ص ۹۱۸]
آخرت سے مراد مادی فائدہ مادی دنیا میں:
’’جو فائدہ پوری نوعِ انسانی کے اندر گردش کرتا ہوا افراد تک پہنچتا ہے، اسے مآلِ کار، آخر الامریا مستقبل کا فائدہ کہا گیا ہے جس کے لیے قرآن میں آخرت [مستقبل] کی اصطلاح آئی ہے۔‘‘ [سلیم کے نام: ج ۱ ؍ ص ۲۱۳]
آخرت، یوم القیامہ، الساعۃ کی قرآنی اصطلاحات کے پرویزی تراجم محض لفظوں کی بازی گری ہیں۔ قرآن، سنت اور اجماع اس موقف کو تسلیم نہیں کرتے۔
سامان آخرت: مستقبل کے لیے مادی وسائل
’’سامانِ آخرت سے مقصود ہے وہ متاع جسے [انسان ] آنے والی نسلوں کے لیے جمع کرتا ہے‘‘۔[اسبابِ زوال امت: ص ۲۶]
مرنے والے: قبروں میں نہیں روکے جاتے:
یہ تصور صحیح نہیں کہ جتنے لوگ مرتے ہیں وہ مرنے کے بعد قبروں میں روک لیے جاتے ہیں اور پھر ان سب کو ایک دن اکٹھا اٹھایا جائے گا اسے حشر یا قیامت کا دن کہا جاتا ہے۔ [جہان فردا: ص۱۸]
قیامت میں: خدا سے ملاقات ممکن نہیں:
وہ [خدا] ہماری رگ جان سے بھی زیادہ قریب ہے اس لیے اس سے جدا ہو کر دنیا میں آنے اور مرنے کے بعد اس سے پھر جا کر ملنے کا تصور قرآنی نہیں۔ [جہاں فردا، ص۳۴]
پرویز صاحب کا مندرجہ بالا موقف البقرہ ۴۶، الجاثیہ ۲۶، الکہف ۴۷، ۴۹ کی آیات سے صریحاً انکار پر مبنی ہے۔ یہ آیات قیامت کے روز اللہ سے ملاقات، میدان حشر میں مجتمع ہونے اور اللہ کے حضور پیشی اور اللہ سے ملاقات کے تصورات کو واضح طور پر بیان کرتی ہیں۔
ملائکہ وجود نہیں رکھتے: اعمال کے اثرات ہیں
’’ملائکہ ہماری اپنی داخلی قوتیں ہیں یعنی ہمارے اعمال کے وہ اثرات جو ہماری ذات پر مرتب ہوتے رہتے ہیں۔‘‘ [ابلیس و آدم از پرویز: ص ۱۶۲]یہ موقف سورہ الاخراب کی آیت ۵۶ کا انکار ہے۔
تم ہی بتاو اور کافری کیا ہے ؟!
جب رسولؐ و اصحاب رسولؐ کے فہم کو بیچ میں سے نکال دیا جائے تو ایک گمراہ عقل الہامی کتابوں کے ساتھ یونہی کھیلتی اور انہیں بازیچہ اطفال بنا دیتی ہے۔