گذشتہ بحث (پرویزصاحب کی قرآنی فکر1،2) سے یہ واضح ہے کہ پرویز صاحب مختلف اوقات میں قرآن کی کتنی مختلف اور متضاد تعبیریں پیش کرتے رہے ۔ اس پر خود ‘مفکر ِقرآن’ کا یہ نادر شاہی مطالبہ بھی ملاحظہ فرمائیے کہ:
”جہاں تک عہد ِرسالت اور خلافت ِراشدہ کے دور کا تعلق ہے، ہمیں چاہئے تھا کہ اس تاریخ کو قرآ نِ مجید کی کسوٹی پر پرکھتے۔ جو واقعات اس کے مطابق ہوتے انہیں قبول کر لیتے، جو اس کے خلاف جاتے، انہیں وضعی قرار دے کر مسترد کردیتے۔ یہ اس لئے کہ (خود قرآن مجید کی شہادت کی رو سے) ان حضرت کی زندگی، قرآن کے قالب میں ڈھلی ہوئی تھی، اور وہی ان کی سیرت کی تاریخ کا معیار قرار پاسکتاتھا؛ لیکن ہم نے ایسا نہ کیا۔” (نومبر۸۰ئ: ص ۶۰)
اب غور فرمائیے کہ پرویز خود تو ساری عمر، قرآن کی متضاد تعبیریں پیش کرتے رہے ہیں۔ ان کی کس تعبیر کو حتمی معیار قرار دے کر احادیث اور تاریخ کی روایات کو پرکھا جائے؟
فرض کیجئے کہ آج انہوں نے ایک تعبیر پیش کی، ‘محققین’کا ایک بہت بڑا گروہ اس تعبیر کی اساس پر، روایات، احادیث و تاریخ کو کھنگالنے کا کام شروع کردیتا ہے، وہ ابھی اس ‘کارِخیر’ سے فارغ ہوا یا نہیں کہ ‘مفکر ِقرآن’ کی فضاء ِدماغی میں خیال کا نیا جھکڑ آیا، اور اس کے ساتھ ہی پہلی تعبیر بھی مرغِ بادنما کی طرح بدل گئی۔ اب اس دوسری تعبیر کے مطابق، روایات کی چھان بین کا سلسلہ از سر نو پھر آغاز پذیرہوا۔ ابھی یہ کام پایۂ تکمیل کو پہنچا کہ نہیں، مگر یہ خبر آگئی کہ ‘مفکر ِقرآن’کی دوسری تعبیر بھی ترمیم کا نشانہ بن گئی۔ اب تیسری تعبیر کے مطابق، پھر نئے سرے سے، جانچ پڑتال کا یہ سلسلہ شروع ہوگا اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک ‘مفکر قرآن’ کے صحرائِ دماغی میں خیالات کی آندھیاں چلتی رہیں گی۔
یہ ہے وہ مقامِ عالی مرتبت جو ‘مفکر ِقرآن’ صاحب نے اپنے لئے اختیار کر رکھا تھا، کہ تاریخ اور احادیث کی روایات، دست بستہ، ان کے حضور کھڑی رہیں او رپرویز صاحب ہر بدلتی تعبیر کے مطابق ان کی صحت اور عدمِ صحت کا فیصلہ فرماتے رہیں اور ان کی تعبیر کے تغیر پر لازم ہے کہ ہر چیز بدل جائے۔
تعبیراتِ قرآنیہ کے یہ تو وہ اختلافات ہیں، جو دوگروہوں کی طرف سے نہیں بلکہ اہل قرآن کے صرف ایک فرقہ کے قائد کی طرف سے وقتاً فوقتاً صادر ہوتے رہے ہیں۔ اور یہ بھی چند ایک بطورِ نمونہ مشتے از خروارے ہیں،۔
قرآن تو جبرئیل ؑ لایا، مگر اس کی اصل مراد و مقصود کو طے کرنے کا معاملہ چودہ سو سال لٹکا رہا ۔ پرویز صاحب آئے اور دیکھنے والوں نے دیکھاکہ قرآن بازیچہ اطفال بنا، زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن آئے، حرفِ شیریں کی تعبیر و تفسیر، پرویزی حیلوں کے ہتھّے چڑھ گئی۔پرویزی ہتھکنڈوں نے کتاب اللہ کو تضادات کاایسا پلندہ بنا دیا کہ ہر بہرے کو یہ سنائی دینے لگا اور ہر اندھے کویہ دکھائی دینے لگا۔
اور پھرجھوٹ بھی او رتحدی و تعلّی بھی !
کس قدر جرأت اور دیدہ دلیری کے ساتھ یہ اعلان کیا جاتاہے کہ:
”میں نے جو کچھ ۱۹۳۸ء میں کہا تھا، ۱۹۸۰ء میں بھی وہی کچھ کہتا ہوں کیونکہ یہ قرآنی حقائق پر مبنی ہے اور قرآنی حقائق ابدی اور غیر متبدل ہیں… قرآن کو حجت اور سند ماننے والے کے لئے یہ ناممکن ہے کہ وہ آج کچھ کہہ دے اور کل کچھ اور ۔ قرآن کا متبع، نہ مداہنت کرسکتاہے، اور نہ کسی سے مفاہمت۔” (دسمبر۸۰ئ:ص ۶۰)
اور پھر بڑے فخر سے اشعارِ اقبال کا خود کو مصداق بناکر پیش کیا جاتا ہے : ؎
کہتا ہوں وہی بات، سمجھتا ہوں جسے حق
نہ ابلہ ٔ مسجد ہوں، نہ تہذیب کا فرزند
اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں، بیگانے بھی ناخوش
میں زہر ہلا ہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند
مشکل ہے کہ اک بندۂ حق بیں و حق اندیش
خاشاک کے تودے کو کہے کوہ دما دند
(ماہنامہ طلوعِ اسلام: دسمبر۸۰ء ص ۶۰)
پھر بات صرف اتنی ہی نہیں کہ ‘مفکر ِقرآن’ صاحب عمر بھر مختلف اور متضاد تعبیریں کرتے رہے۔ بلکہ اس سے بڑھ کر وہ یہ دعویٰ بھی کرتے رہے ہیں کہ ان کی جملہ کتب میں کوئی تضاد و تناقض پایا ہی نہیں جاتا، گویا جس طرح قرآن اختلاف سے بالاتر ہے، اس طرح پرویزی تعبیرات بھی تضاد سے مبرا ہیں، کس قدر تحدی، تعلّی اور پندارِ نفس سے یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ:
”طلوعِ اسلام ۱۹۳۸ء میں جاری ہوا، اور تقسیم ہند کے بعد ۱۹۴۸ء سے اب تک مسلسل اور متواتر پابندی ٔوقت کے ساتھ جاری رہا۔ قرآنی رہنمائی اور علم انسانی کی روشنی میں زمانے کے تقاضوں اور حالاتِ حاضرہ کاجائزہ لینا اس کا مشن ہے۔اس کی اشاعتوں کے انبار میں سے آپ کوئی سے دو پرچے اُٹھا لیجئے؛ جہاں تک قرآنی فکر کا تعلق ہے، آپ کو اس میں کوئی تضاد، کوئی تخالف نہیں ملے گا یہ اس لئے کہ قرآنِ کریم کی رو سے اس کے من جانب اللہ ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اس میں کوئی تضاد نہیں، کوئی اختلاف نہیں۔ اس لئے جو کچھ قرآنی رہنمائی میں کہا جائے گا، اس میں بھی کوئی تضاد و تخالف نہ ہوگا۔” (جولائی۸۴ئ: ص ۳۳)
سبحان اللہ! کیا کہنے، ‘مفکر قرآن’کی تعبیرات کے! کس قدر، ان کی شان بلند ہے کہ قرآن ہی کی طرح، اختلاف سے بالاتر ہیں۔ احادیث ِرسول میں اختلافات ہیں مگر تعبیراتِ پرویز، مبرا از اختلافات ہیں۔ نبی ؐ تو اپنی تیئس(۲۳) سالہ پیغمبرانہ زندگی میں (معاذ اللہ) قرآن کی تشریح و تبیین کرتے ہوئے اختلافات سے محفوظ نہ رہ سکا۔ مگر پرویز صاحب نے عمر بھر جو قرآنی تعبیرات پیش کی ہیں، ان میں نہ تضاد ہے نہ تخالف۔ رسولِ خداﷺ معصوم ہو کر بھی (معاذ اللہ) تبیین قرآن میں تضادات سے نہ بچ سکے مگر پرویز صاحب غیر معصوم ہو کر قرآنی تشریحات میں تضاد سے محفوظ رہے: ﴿يـٰلَيتَنى مِتُّ قَبلَ هـٰذا وَكُنتُ نَسيًا مَنسِيًّا ٢٣ ﴾… سورة مريم
دھڑکنا بند کر اے دل، نظر کے نور گم ہو جا
وہ بے غیرت ہے جو اس دور کے شام و سحر دیکھے !
پھر ہمارے ‘مفکر ِقرآن’ پندار نفس، غرور، علم اور عزت الاثم کی بلندیوں پر پرواز کرتے ہوئے ، بتکرار یہ اعلان کیا کرتے تھے کہ
”ملا کے پاس نہ علم ہوتا ہے، نہ بصیرت؛ نہ دلائل ہوتے ہیں نہ براہین” (۵ فروری ۱۹۵۵ء ص۴)
”ان کے پاس طلوعِ اسلام کے دلائل کا کوئی جواب نہ تھا، ا س لئے انہوں نے اس سلسلہ میں وہی ٹیکنیک اختیار کی جو ہامانیت کا بنیادی خاصہ ہے یعنی انہوں نے پراپیگنڈہ شروع کردیا، کہ طلوعِ اسلام منکر ِسنت ہے، منکر ِشانِ رسالت ہے۔” (مئی ۷۲ئ: ص ۲۸)
مطلب جھوٹے کو جھوٹا، خائن کو خائن، منافق کو منافق اور ‘منکر حدیث’ کو ‘منکر حدیث’ نہ کہا جائے کہ یہ ‘اخلاقاً’ بری بات ہے اور ‘خلافِ تہذیب’ ہے۔ کیا خوب کہا تھا اکبر الٰہ آبادی نے کسی ایسے ہی موقع پر ؎
مغوی کو برا مت کہو ترغیب ہے یہ
میں کس سے کہوں نفس کی تخریب ہے یہ
شیطان کو رحیم کہہ دیا تھا اِک دن!
اک شور اٹھا خلافِ تہذیب ہے یہ
بہرحال یہ تو جملہ معترضہ ہے، تعلیاتِ پرویز کا سلسلہ جاری ہے، وہ لکھتے ہیں:
”مولوی صاحبان کے پاس ا س کا کوئی جواب نہیں تھا، انہوں نے اسی میں عافیت سمجھی تو ‘طلوعِ اسلام’ کو ‘ منکر ِسنت’ قرار دے دیا جائے اور پرویز صاحب کے خلاف کفر کے فتوے لگا دیے۔” (جون۷۳ئ: ص ۱۲)
پرویز نے اپنے خلاف علماء کے اس جائز فتوے کو تو خوب اُچھالا ہے کہ انہوں نے اسے منکر ِسنت قرار دیا تھا۔ لیکن خود انہوں نے علماء کے خلاف… بلکہ اپنے گروہ کے سوا، باقی سب کے خلاف… منکر ِقرآن ہونے کا جو فتویٰ دیا تھا، اس کی کبھی ایسی تشہیر نہیں کی۔ چنانچہ کارل مارکس کی ‘اشتراکیت’ پر جب قرآن کا ٹھپہ لگا کر ‘نظامِ ربوبیت’ کے نام سے پیش کیا تو اس وقت فرمایا :
”لیکن اس آواز کی مخالفت، تمام منکرین قرآن کی طرف سے ہوگی۔” (نومبر۵۲ئ: ص ۸)
”ظاہر ہے کہ اس جواب کے بعد نہ قرآن ہی قابل یقین رہتا ہے نہ احادیث اور یہی منکرین قرآن کا مقصود تھا۔” (نومبر۵۲ئ: ص ۶۶)
پرویز صاحب قرآنی الفاظ و آیات میں اپنے طبع زاد مفاہیم و تصورات داخل کرتے پھر ان خود ساختہ قرآنی تعبیرات کو ردّ و قبول کا معیار قرار دے دیتے ۔ دوسری طرف دعوی یہ بھی رہا :
”دین میں حجت، قرآنِ کریم کا متن ہے، نہ کہ کسی انسان کی تشریح، تفسیر یا تعبیر۔” (طلوع اسلام اگست۶۸ئ:ص ۳۰)
اب ظاہر ہے کہ علما اگر پرویز صاحب کی انکی متضادات اور خودساختہ تعبیر کا انکار کرتے ہیں تو وہ ایک انسان کی تعبیر قرآن کا انکار کرتے ہیں نہ کہ نفس قرآن کا۔ لیکن ‘مفکر ِقرآن’ اپنے آپ کو ایسے بلند مقام پر فائز سمجھتے تھے کہ اگر کوئی ان کی تعبیر کا انکار کرتا تو وہ اسے قرآن کا منکر اور مخالف قرار دیا کرتے تھے۔
”میں بلاتشبیہ اور بلا تمثیل عرض کرنے کی جرات کروں گا کہ یہ لوگ میری مخالفت نہیں کرتے، کتاب اللہ کی مخالفت کرتے ہیں۔” (دسمبر۷۸ئ: ص ۵۲)
وہ اپنے جی سے مفہوم گھڑ کر منسوب الی القرآن کیا کرتے تھے اور پھر اسے ‘قرآنی معیار’ قرار دے کر یہ کہا کرتے تھے کہ
”ہمارا مقصد صرف قرآنی حقائق بیان کرنا ہے، ا س سے اگر کسی مروّجہ عقیدے یا کسی کے دعوے پرزَد پڑتی ہے تو اس کی ذمہ داری ہم پر عائد نہیں ہوتی۔ کیونکہ اس باب میں مدعی قرآن ہے، ہمارا فریضہ قرآن کے دعاوی کو پیش کرنا ہے اور بس…” (جنوری۸۵ئ: ص ۲۱)
خلاصۂ بحث
ہماری یہ بحث اس امر کو واضح کر دیتی ہے کہ اگرچہ الفاظِ قرآن متفق علیہ ہیں مگر ان کی تعبیرات میں اختلاف ایک فطری امر ہے۔ احادیث کے اختلاف کی آڑ میں، ان سے جان چھڑا کر جو لوگ تنہا قرآن کا نعرہ لگا رہے ہیں، وہ خود بھی قرآن کی کسی ایک تعبیر پر متفق نہیں ہیں۔ حتیٰ کہ خود ‘مفکر ِقرآن’ بھی مختلف اوقات میں متضاد تعبیریں پیش کرتے رہے ہیں۔ اب اگر قرآن تعبیراتی اختلاف کے باوجود سند و حجت بن سکتا ہے تو سنت ِنبویہ کیوں نہیں بن سکتی؟ منکرین ِحدیث، قرآن کے متن اور الفاظ کے متفق علیہ ہونے پر جو زور دیتے ہیں، تو یہ محض پانی میں مدھانی چلانے کے مترادف ہے۔ اس لئے کہ عملی زندگی میں جو چیز مطلوب ہے وہ متن ِقرآن یالفاظِ قرآن نہیں، بلکہ وہ مفہوم ہے جو متن یاالفاظ سے حاصل کیا جاتا ہے، اگر اس مفہوم میں ا ختلاف ہو تو خود سوچئے کہ الفاظِ قرآن کا متفق علیہ اور سند و حجت ہونا یا نہ ہونا ایک برابر ہے۔ لہٰذا منکرین ِسنت کا یہ موقف ہی غلط ہے کہ ”دستورِ حیات، صرف وہی چیز ہوسکتی ہے جو اختلاف سے بالاتر ہو۔” مولانا مودودیؒ نے طلوع اسلام کے ڈاکٹر عبدالودود سے قلمی مناظرہ کے دوران اسی بات کو بایں الفاظ بیان کیا تھا اور ڈاکٹر عبدالودود صاحب اس کا کوئی جواب نہ دے پائے تھے :
” ڈاکٹر صاحب خود فرما رہے ہیں کہ ”تعبیر ایک انسانی فعل ہے جو کسی دوسرے کے لئے حجت اور سند نہیں ہوسکتا۔” …اس صورت میں تو لامحالہ الفاظ ہی حجت اور سند رہ جاتے ہیں اور معنی میں اختلاف ہوجانے کے بعد ، ان کا حجت و سند ہونا لاحاصل ہوجاتا ہے۔کیونکہ عملاً جو چیز نافذ ہوتی ہے، وہ کتاب کے الفاظ نہیں بلکہ اس کے وہ معنی ہوتے ہیں جنہیں کسی شخص نے الفاظ سے سمجھا ہو۔ اس لئے میں نے دوسرے خط میں ان سے عرض کیا تھا کہ پہلے آپ اپنے اس نقطہ نظر کو بدلیں کہ ”آئین کی بنیاد صرف وہی چیز بن سکتی ہے جس میں اختلاف نہ ہوسکے۔” اس کے بعد جس طرح یہ بات طے ہوسکتی ہے کہ قرآنِ مجید بجائے خود اساسِ آئین ہو، اور اس کی مختلف تعبیرات میں سے، وہ تعبیر نافذ ہو جو کسی بااختیار ادارے کے نزدیک اَقرب الی الصواب قرار پائے۔ اسی طرح یہ بات بھی طے ہوسکتی ہے کہ سنت کو بجائے خود اساسِ آئین مانا جائے اورمعاملات میں عملاً وہ سنت نافذ ہو جو کسی بااختیارادارے کی تحقیق میں سنت ِثابتہ قرار پائے۔
جس طرح قرآن کے الفاظ کو اساسِ آئین ماننے کا فائدہ یہ ہوگا کہ تعبیر کے اختلافات کا سارا چکر صرف الفاظِ قرآن ہی کے حدود میں گھوم سکے گا، ان کے دائرے سے باہر نہ جاسکے گا۔ اسی طرح سنت کو اساسِ آئین ماننے کا فائدہ یہ ہوگا کہ ہمیں اپنے عمل کے لئے، انہی ہدایات و تعلیمات کی طرف رجوع کرنا پڑے گا جو رسول اللہﷺسے ماثور ہیں او رہم کوئی آزادانہ قانون سازی، اس وقت تک نہ کرسکیں گے جب تک تحقیق سے ہمیں یہ معلوم نہ ہوجائے کہ فلاں مسئلے میں کوئی سنت ثابت نہیں ہے۔ یہ سیدھی سی بات ماننے میں آخر کیادِقت ہے؟” (ترجمان القرآن، ستمبر ۱۹۶۱ء ‘منصب ِرسالت نمبر’ ص ۱۵۷،ـ۱۵۸)
استفادہ تحریر : اختلافِ تعبیر قرآن اور منکرین ِحدیث از محمد دین قاسمی ، ماہنامہ محدث و ماہنامہ ساحل کراچی
پرویزصاحب کی قرآنی فکر1/2 | الحاد جدید کا علمی محاکمہ
April 24, 2017 at 11:11 am[…] پرویز صاحب کی قرآنی فکر – خلاصہ […]