بات کی قبولیت کے فطری اصول:
حدیث قبول کیسے کی گئی؟
وہ کون سے اصول تھے جن پر حدیث قبول کی جاتی رہی؟
کیا جوکچھ کسی نے کہہ دیا بس لے لیا جاتا رہا یاروایت قبول کرنے کے لیے واقعی کچھ اصول کارفرمارہے؟
اور کہاں کہاں ان قواعد میں نرمی اختیار کرنے کی گنجائش رہی؟
اس نرمی کا تدارک پھرکس طرح قرائن سے کیا جاتا رہا؟
یہ وہ سوال ہے جنکا جواب ہم نے دینا ہے ، اس وقت ہمیں اس فن کی گہرائی میں اُترنا نہیں، صرف اس موضوع کا کچھ تعارف کراناہے، اس میں اس فن کا کچھ تاریخی تجزیہ بھی ہوجائے گا اور یہ بات کھل کر سامنے آئے گی کہ فنِ روایت Science of transmission وہ نیاباب علم ہے جس سے دنیا قبل ازاسلام ناآشنا تھی، فنِ تاریخ اور فنِ روایت کومسلمانوں نے جوتازگی اور پختگی بخشی، اس کی مثال اقوامِ عالم اور مللِ سابقہ میں کہیں نہ ملے گی، محدث نے حدیث کویونہی جمع نہیں کرلیا کہ جوکچھ کسی نے کہہ دیا اُنہوں نے سن لیا قبول کرلیا اور لکھ لیا، ان کے سامنے روایت قبول کرنے اور اسے آگے نقل کرنے کے کچھ قواعد تھے اور ان قواعد کے ساتھ روایات پر رداً یاقبولاً بحث ہوتی تھی، جتنا کوئی باب نکھرتا جاتا اس کے بارے میں پختگی اور وثوق بڑھتا جاتا اور سند کے مراتب بدلتے جاتے؛ یہاں تک کہ بعض روایات متواتر ہوجاتیں، قوت سند کے انہی مراتب سے احادیث کی مختلف قسمیں ہوتی گئیں اور اس دور میں جوکمزور روایتیں قبول کی گئیں وہ بدستور ان کمزوریوں کی حامل رہیں، انہی اسانید کے ساتھ پیش کیا جاتا رہا اور انہیں بالکل نظرانداز اس لیے نہ کیا گیا کہ ہوسکتا ہے کہ کوئی آنے والا محقق اس باب میں کوئی اور انکشاف کرے اور یہ روایت کسی دوسری روایت یاتعامل کی تائید بن جائے، ایک رائے یاچندآراء کے ساتھ علم کے کسی گوشے کوکلیۃ دفن کردینا قرین مصلحت نہ تھا۔
اسلام دینِ فطرت ہے اس کے اُصول فطرت کے پیمانوں میں ڈھلتے اور اُبھرتے ہیں، حدیث قبول کرنے میں بنیادی اصول تقریباً وہی ہیں، جوفطری تقاضوں کے مطابق کسی بات کوقبول کرنے یانہ کرنے کے ہوسکتے ہیں؛ لیکن ان کا تعین ہرشخص کی اپنی فطرت پر موقوف نہیں؛ اہلِ فن کے تجربات اور فیصلوں سے ہی ہوتا آیا ہے۔
بات کے لائق قبول ہونے کے عقلی تقاضے
کسی بات کے لائق قبول ہونے کے لیے بہت سی باتوں کوپیشِ نظر رکھا جاتا ہے لیکن ان سب وجوہ کا اجمال دوباتوں میں لپٹا ہوا ہے۔
اوّل یہ کہ بیان کرنے والے کی یادداشت اچھی ہو وہ قوی حفظ رکھتا ہو۔
دوم یہ کہ دیانت دار ہو، مخلصانہ سچائی پر رہتا ہو۔
یہ قوی حفظ Strong Memory اور مخلصانہ سچائی Sincere Righteousness ہی وہ بنیادی اُصول ہیں جن پر فن حدیث میں تعدیل کی چکی گھومتی ہے، آگے جوکچھ ہے وہ انہی اُصولوں کی تفصیل ہے، مثلاً یہ کہ
(۱)راوی کمزور نہ ہو۔ بات سننے کی، یادرکھنے کی، اور آگے نقل کرنے کی قوت موجود ہو، اتنا قوی نہ ہوگا توکمزور شمار ہوگا۔
(۲)جاناپہچانا اور معروف ہو، مجہول نہ ہو۔
(۳)اس کی روایت کا کہیں انکار نہ کیا گیا ہو منکر نہ ہو ۔ مطلب ایک شخص سے چار آدمی ایک بات سن کرگئے ان میں سے ایک اس بات کواسی طرح روایت کرتا ہے کہ باقی تین اس سے اتفاق نہیں کرتے تووہ شخص شاذ کا راوی یامنکرالروایۃ سمجھا جائے گا کہ اس کی روایت کا انکار ثابت ہوچکا۔
(۴)دیانت اور نیکی سے آراستہ ہو، جھوٹ بولنے والا نہ ہو۔
(۵)عام مجلسی نہ ہو،ہرکس وناکس سے بات کہنے والا نہ ہو، ایسا کرنے والا بسااوقات خود بھی اس زمرے میں آجاتا ہے، صحیح پختہ راوی وہ ہے جوانہی سے روایت کرے جوحفظ وضبط میں پختہ ہو اور امانت ودیانت کے اہل ہوں اور اُنہی کوروایت کرے جواس کی بات میں کمی بیشی کرنے والے نہ ہوں، علم ذمہ دارلوگوں کے سپرد کرے اور انہی میں رہے؛ وغیرذلک۔
بات کے لائق اعتماد ہونے کا قرآنی نظریہ
قرآن کریم میں براہِ راست تواس پر بحث نہیں ملتی کہ نقل وروایت کن اصولوں سے لائق اعتماد بنتی ہے؛ لیکن حضرت جبرئیل علیہ السلام نے اللہ رب العزت کی باتیں آگے حضورِاکرمﷺ تک نقل کیں، توقرآن کریم نے اس باب میں حضرت جبرئیل کی چندصفات کا خصوصی ذکر فرمایا، یہ صفات ایک راوی کی حیثیت سے ہمارے لیے رہنمائے اُصول ہیں۔”إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍo ذِي قُوَّةٍ عِنْدَ ذِي الْعَرْشِ مَكِينٍoمُطَاعٍ ثَمَّ أَمِينٍo وَمَاصَاحِبُكُمْ بِمَجْنُونٍo وَلَقَدْ رَآهُ بِالْأُفُقِ الْمُبِينِo”۔ (التکویر:۱۹۔۲۳)ترجمہ:بے شک یہ بات ہے ایک معزز بھیجے ہوئے کی (یعنی جبرئیل امین کی) جوقوت والا، عرش کے مالک کے پاس مجلس پانے والا ہے، سب کا مانا ہوا ہے اور پھروہاں اعتماد یافتہ ہے اور اس نے دیکھا ہے اسے (اس فرشتہ کو) آسمان کے کھلے کنارے کے پاس۔
وہ کریم ہیں جن کے لیے اعلیٰ نہایت متقی اور پاکباز ہونا لازم ہے، بڑی قوت والے ہیں، جس میں اشارہ ہے کہ حفظ وضبط اور بیان کی قوت بھی کامل ہے، اللہ کے ہاں اُن کا بڑا درجہ ہے، سب فرشتوں سے زیادہ بارگاہِ ربوبیت میں قرب اور رسائی حاصل ہے، آسمانوں کے فرشتے ان کی بات مانتے اور کا حکم تسلیم کرتے ہیں؛ کیونکہ ان کے امین اور معتبر ہونے میں کسی کوشک نہیں۔
یہ تورسول ملکی کا حال تھا، اب رسولِ بشری کا حل سن لیجئے، بعثت سے پہلے چالیس سال تک وہ تمہارے اور تم ان کے ساتھ رہے، اتنی طویل مدت تک تم نے اس کے تمام کھلے چھپے احوال کا تجزیہ کیا؛ کبھی ایک مرتبہ اس میں جھوٹ، فریب یادیوانہ پن کی بات نہ دیکھی ہمیشہ اس کے صدق وامانت اور عقل ودانائی کے معترف رہے، اب بلاوجہ اُسے جھوٹا یادیوانہ کیونکر کہہ سکتے ہو، کیا یہ وہی تمہارا رفیق نہیں ہے جس کی رتی رتی احوال کا تم پہلے سے تجربہ رکھتے ہو؟ اب اس کودیوانہ کہنا بجزدیوانگی کے کچھ نہیں، مشرقی کنارہ کے پاس آپ نے (جبرئیل کو)اس کی اصل صورت میں صاف صاف دیکھا، اس لیئے یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ شاید دیکھنے یاپہچاننے میں کچھ اشتباہ والتباس ہوگیا ہوگا، جب جھوٹ، دیوانگی تخیل وتوہم اور کہانت وغیرہ کے سب احتمالات مرفوع ہوئے توبجز صدق وحق کے اور کیا باقی رہا؛ پھراب اس روشن اور صاف راستہ کوچھوڑ کرکدھر بہکے جارہے ہو۔ (تفسیرعثمانی:۷۶۲)
قرآن کریم کی ان آیات میں نقل وروایت اور اس کے اعتماد وثقاہت کے جملہ اصول ملتے ہیں، قرآن کریم نے جس انداز میں انہیں بیان کیا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ سب اُصول فطرت ہیں جن سے کسی بات کی نقل وروایت میں اعتماد پیدا ہوتا ہے، بات کے لائق اعتماد ہونے کے تمام عقلی تقاضے ان قرآنی آیات میں لپٹے ہوئے ہیں؛ تاہم یہ صحیح ہے کہ اصولی درجے میں عدالت اور ضبط ہی وہ صفات ہیں جن کی تفصیلات آگے اُصول روایت بن کر پھیلیں اور مختلف پیرایوں میں راویوں اور ان کے باہمی تعلق سے آگے چلتی رہیں۔
بات کی قبولیت کا قرآنی معیار
قرآن کریم میں ہے: “يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَنْ تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَى مَافَعَلْتُمْ نَادِمِينَ”۔ (الحجرات:۶)ترجمہ:اے ایمان والو! اگرکوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبرلے کر آئے توتحقیق کرلیا کرو، ایسا نہ ہوکہ کسی قوم پر نادانی سے جاپڑا اور کل اپنے کیئے پر پچھتانے لگو۔
قرآن کریم کی اس آیت سے تین اہم باتیں معلوم ہوئیں:
(۱)ایک یہ کہ فاسق کی روایت از خود حجت نہیں۔
(۲)دوسرے یہ کہ فاسق کی روایت کلیۃً واجب الرد بھی نہیں؛ بلکہ مزید لائقِ تحقیق ہے۔
(۳)تیسرے یہ کہ خبرِواحد قابلِ قبول ہے؛ بشرطیکہ اسے نقل کرنے والا فاسق نہ ہو، یہ تب اگرمفہوم مخالف کا اعتبار کیا جائے؛ اگرخبرِواحد معتبر نہ ہوتی تووجہ تبین صرف فسق نہ ہوتا، راوی کا ایک ہونا بھی مزید تائید کا محتاج ہوتا۔
اس آیت کی رُو سے کسی خبر کے بارے میں دوباتیں موجب جرح ہیں: (۱)راوی کا فسق (۲)صورتِ واقعہ سے بے خبری، جہاں راوی کی دیانت اور اصل بات کی یاد (حفظ وثبت) قائم ہو وہاں خبر جرح سے محفوظ اور قابلِ قبول سمجھی جائے گی، محدثین کرام کے نزدیک روایت کی تحقیق اور پڑتال کے انداز بہت ہیں؛ لیکن ان سب کا اجمال یہ ہے کہ حدیث روایت کرنے والا راوی مخلصانہ دیانت Sincere righteousness اور اچھی یادداشت Strong Memory رکھتا ہو، جہاں حافظہ کمزور ہوگا یادداشت مشتبہ ہوگی، روایت کمزور پڑتی جائے گی۔
آیتِ مذکورہ بالا اگرچہ ایک خاص واقعہ سے متعلق ہے؛ لیکن اس کا حکم عام ہے اور حدیث قبول کرنے کے بارے میں محدثین نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ فاسق کی روایت قابلِ قبول نہیں؛ مزیدتحقیق سے اسے قبول کرلیا جائے تویہ امردیگر ہے، حضرت امام مسلمؒ اپنے مقدمہ میں لکھتے ہیں:ترجمہ: ہرایک کے ذمہ واجب ہے جوصحیح اور کمزور روایات میں فرق جان سکے کہ….. اور جوبات اہلِ تہمت اور معاند اہلِ بدعت سے مروی ہو اس سے بچے اور جس چیز کوہم نے اوروں کے موقف کے خلاف لازم ٹھہرایا ہے اس پر دلیل اللہ تبارک وتعالی کا یہ ارشاد ہے: اے ایمان والو! اگرتمہارے پاس کوئی فاسق ایک روایت لے کر آئے تواس کی تحقیق کرلیا کرو….. بے شک فاسق کی خبرازخود ساقط اور غیرمقبول ہے۔”۔ (مقدمہ صحیح مسلم:۱/۶)
امام بخاریؒ “باب ماجاء فی اجازۃ الخبرالواحد الصدوق” میں لکھتے ہیں:ترجمہ: اورقول خداوندی ہے؛ اگرتمہارے پاس کوئی فاسق ایک خبرلے کر آئے تواسے تحقیق کرلیا کرو اور حضورﷺ نے اپنے امیرکس طرح ایک کے بعد ایک بھیجے۔ (صحیح بخاری:۹/۱۰۷)
نوٹ:ایک شخص کی روایت اگرلائقِ قبول نہ ہوتی توحضورﷺ کبھی ایک ایک شخص کواپنے احکام دے کر کہیں نہ بھیجتے اور نہ ایک فاسق کی خبر پر مزید تحقیق کی ضرورت سمجھی جاتی، شیعہ محدثین نے بھی حدیث کے بارے میں اس آیت سے استدلال کیا ہے، ملاتقی مجلسی (۱۰۷۰ھ) “من لایحضرہ الفقیہہ” کی شرح”لوامع صاحبقرانی المسمّٰی بہ شرح الفقیہ” میں لکھتے ہیں:
“اس سے واضح ہے کہ شخص واحد کی خبراس کے فاسق ہونے کے باوجود بھی معتبر اور حجت ہونے کی شان رکھتی ہے؛ بشرطیکہ تحقیق میں آجائے اور حجت بھی ایسے اہم معاملات میں جن کے بگڑ جانے کی صورت میں ندامت اُٹھانی پڑے جوکسی اہم اور بڑے ہی معاملہ کی شان ہوتی ہے، حاصل یہ نکلا کہ شخص واحد کی خبر بھی قرآنی اُصول پر قابلِ رد یاغیر معتبر نہیں؛ بلکہ تبیین وتحقیق کے بعدمعتبر اور بڑے بڑے معاملات میں حجت ہوتی ہے، جس پر دیانتًا معاملہ کا فیصلہ ہوجاتا ہے، روکا اگرگیا ہے توقبل ازتحقیق اس پر عمل کرنے سے نہ کہ مطلقاً؛ ورنہ یوں کہا جاتاکہ فاسق اگرکوئی خبرلائے توہرگزاس کی بات کا اعتبار مت کرو؛ ورنہ یہ کہ تحقیق کے بعد اسے مان لو اور معتبر سمجھو؛ پس تحقیق کی شرط اس لیے لگائی کہ خبردہندہ اور روایت کنندہ کے فسق وفجور سے اس کی خبر میں جوبےاعتباری کی گنجائش پیدا ہوگئی تھی وہ ختم ہوجائے اور خبرقابلِ اعتبار ہو جائے؛ مگرخبربہرحال وہ ایک ہی کی رہے گی، اس لیے صاف ثابت ہوا کہ ایک کی روایت معتبر اور معاملات میں حجت ہے، اب اگر خبردینے والا فرد فاسق بھی نہ ہو؛ بلکہ غیرمجروح ہو جیسے رَجُل یَّسْعٰی کی خبر تووہ بلاتبیین بھی اس اُصول سے قابلِ قبول بن سکتی ہے اور اگرراوی غیرمجروح ہونے کے ساتھ عادل ومتقی متدین اور امین ہو، جیسے ملائکہ وانبیاء اور صلحاء تواس اُصول پر اس کی بلاواسطہ خبرکومعتبر ماننے کے لیے قطعا تبیین وتحقیق کی ضرورت نہیں رہنی چاہیے؛ لیکن اگروسائط کی وجہ سے اس پر بھی تحقیق وتبیین کرلی جائے توپھر تویہ خبربطریق اولیٰ واجب الاعتبار بن جائے گی؛ مگربہرصورت رہے گی خبر فرد ہی؛ اس لیے خبرفرد جسے خبرغریب بھی کہتے ہیں قرآن کی رو سے معتبر اور حجت ثابت ہوگئی؛ گواس کی حجیت درجۂ ظن ہی کی حد تک ہوکر ظنیات بھی شرعاً حجت اور معاملات میں قانوناً مؤثر ہوتے ہیں؛ کیونکہ ظنیات کے معنی وہمیات کے نہیں؛ بلکہ صرف اس کے ہیں کہ خبر پر وثوق واعتماد کے ساتھ جانب مخالف کا احتمال بھی باقی رہے نہ یہ کہ اصل خبر بے اعتبار اور قابلِ رد ہوجائے؛ البتہ اس کے ساتھ اس راوی واحد کی جوثقہ اور عادل ہے تحقیق بھی کرلی جاے، یعنی اس خبر کے متابعات، مؤیدات اور شواہد وقرائن بھی فراہم ہوجائیں توپھراس خبرفرد سے ظن اس حد تک بھی ہوسکتا ہے کہ وہ یقین کی سرحد سے جاملے اور ایسی خبراگرقطعیت کے ساتھ درجۂ یقین تک نہ پہنچے گی توشبۂ یقین تک ضرور پہنچ جائے گی، جس کا نام اصطلاح میں غلبۂ ظن ہے؛ سوایسی خبراصول وآئین کی رو سے نہ رد کی جاسکتی ہے نہ غیرمعتبر ٹھہرائی جاسکتی؛ بلکہ بعد تبیین اُسے معتبر قرار دیتا ہے توایک ثقہ اور عال کی خبر کواس قرآنی اصول کی روشنی میں کیسے ردکیا جاسکتا ہے؟ اس لیے خبر فرد اور اس کی حجیت کا ثبوت آیاتِ بالا سے بہت کافی وضاحت کے ساتھ ہوجاتا ہے”۔(مقدمہ فضل الباری:۱/۹۶)
خبرواحد کے لائق قبول ہونے میں قرآنی موقف:
قرآن کریم کی یہ آیت کہ فاسق کی روایت بغیر مزید تحقیق کے قابلِ قبول نہیں، بتلاتی ہے کہ اگروہ راوی فاسق نہ ہوتا تواس کی روایت لائق قبول تھی، اسلام میں اگرخبرواحد کا اعتبار نہ ہوتا توقرآن کریم فاسق کی روایت کوصرف فسق کی بناء پررد نہ کرتا، خبرواحد کی بناء پر بھی رد کرتا، خبرواحد کے لائق قبول ہونے پر امام بخاریؒ (۲۵۶ھ) نے قرآنی آیات سے استدلال کرتے ہوئے اس آیت کوبھی پیش کیا ہے، آپ لکھتے ہیں:ترجمہ: ایک سچے راوی کی خبراذان، نماز، روزہ اور فرائض واحکام کے بارے میں جائز ہونے کے باب میں جوکچھ آیا ہے اللہ تعالی کا فرمان کہ ہرفرقہ سے کیوں نہ ایک طائفہ نکلا کہ وہ دین میں تفقہ حاصل کرتے اور واپس لوٹ کر اپنی قوم کوڈراتے؛ تاکہ وہ بچ جاتے، ایک آدمی کوبھی طائفہ کہہ دیتے ہیں خدا تعالیٰ کا فرمانا ہے اگرمؤمنوں کے دوطائفے آپس میں لڑیں تواگر دوشخص بھی آپس میں لڑیں گے تووہ اس آیت کے تحت آئیں گے اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے؛ اگرتمہارے پاس کوئی فاسق کوئی خبرلے کر آئے تواس کی تحقیق کرلیا کرو اور حضورﷺ نے کیسے اپنے امراء ایک ایک کرکے بھیجے، ان میں سے اگر کوئی بھول جائے توبات سنت کی طرف لوٹائی جائے گی۔ (صحیح بخاری،كِتَاب أَخْبَارِالْآحَادِ،بَاب مَاجَاءَ فِي إِجَازَةِ خَبَرِ الْوَاحِدِ:صفحہ نمبر:۲۲/۲۰۶، شاملہ، موقع الإسلام)
خبرِواحد کے لائق قبول ہونے پر نبوی موقف
آنحضرتﷺ نے جواسلامی معاشرہ ترتیب دیا اس میں خبرواحد کی بناء پر بہت احکام چلتے تھے، دینی اطلاعات میں فرائض تک کا اعلان خبرِواحد سے کافی سمجھاجاتا اور اس پر اس پہلو سے کہیں نکیر نہ سنی گئی:
(۱)ترجمہ:عبداللہ بن دینار سے روایت ہے کہ لوگ صبح کی نماز کے لیے مسجد قباء میں تھے کہ اُن کےپاس ایک آنے والا آیااس نے کہا کہ آج رات حضورؐ پرحکم قرآنی اُترا ہے کہ آپ نماز میں کعبہ کی طرف رُخ کیا کریں؛ سوتم کعبہ کوہی قبلہ بناؤ ان لوگوں کے رُخ شام کی طرف تھے؛ سوسب کعبہ کی طرف گھوم گئے۔ (بخاری،كِتَاب أَخْبَارِالْآحَادِ،بَاب مَاجَاءَ فِي إِجَازَةِ خَبَرِالْوَاحِدِ،حدیث نمبر:۶۷۱۰، شاملہ، موقع الإسلام)
نماز دین کا ستون ہے، صحابہ کرام اگر اس میں ایک خبرلانے والے پر اعتماد کرکے اپنا قبلہ بدل سکتے ہیں توظاہر ہے کہ اس معاشرہ میں خبرِواحد بشرطیکہ خبرلانے والا ثقہ عادل اور قابلِ اعتماد ہوتو کتنا قانونی اور اخلاقی وزن ہوگا، اس پر آپ خود ہی غور فرمالیں۔
(۲) حضرت حذیفہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے اہلِ نجران کوفرمایا میں تمہاری طرف ایک پورے امین شخص کوبھیجوں گا، سب صحابہ سراُٹھاکر دیکھنے لگے (کہ آپ کس کو بھیجتے ہیں اور کون ایسا امین ہے جوحق امانت کا پورا حامل ہو) سوآپ نے حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کو بھیجا۔(بخاری،كِتَاب أَخْبَارِالْآحَادِ،بَاب مَاجَاءَ فِي إِجَازَةِ خَبَرِالْوَاحِدِ،حدیث نمبر:۶۷۱۳، شاملہ، موقع الإسلام)
اہلِ نجران کے سامنے اگرایک شخص اسلام کی آواز لگاسکتا تھا اور وہ ساری قوم اس کی مکلف ہوسکتی ہے کہ اس ایک کی بتائی ہوئی دینی رہنمائی کواسلام اور حضورﷺ کی تعلیم سمجھے توخبرواحد کے لائق قبول ہونے میں کسی کوکیا شک ہوسکتا ہے، حضورﷺ نے اہلِ نجران کواس راوی کی صفات بیان کرتے ہوئے جوان کے ہاں دین کوروایت کرے گا، خبردی کہ وہ راوی امین ہوگا، اس سے پتہ چلتا ہےکہ امین راوی کی بنیادی صفت ہے، حافظے کے پہلو سے بھی وہ امین ہو، اس سے کوئی بات رہ نہ جائے اور دیانت کے پہلو سے بھی وہ امین ہوکوئی غلط بات نہ کہہ سکے۔
(۳)ترجمہ:حضرت عمرؓ سے روایت ہے کہ ایک انصاری جب کبھی حضورﷺ کی خدمت میں حاضر نہ ہوسکتے توانہیں حضورﷺ کی باتیں میں بتادیا کرتا تھا اور جب کبھی میں حضورﷺ سے غائب ہوتا اور وہ انصاری حاضر ہوتے تووہ مجھے حضورﷺ کی باتیں بتادیا کرتے تھے۔ (بخاری،كِتَاب أَخْبَارِالْآحَادِ،بَاب مَاجَاءَ فِي إِجَازَةِ خَبَرِالْوَاحِدِ،حدیث نمبر:۶۷۱۵، شاملہ، موقع الإسلام)
یہ آنحضرتﷺ کے دوصحابی جب ایک دوسرے کے سامنے حضورﷺ کی وہ تعلیمات نقل کرتے جواُس ایک نے حضورﷺ سے سنی ہوتیں تواسے سن کر اسے پوری طرح قبول کرلیتے، کیا یہ اس اَمر کی کھلی شہادت نہیں کہ حضورﷺ نے جواسلامی معاشرہ قائم کیا تھا اس میں خبرِواحد بلاتردد لائقِ قبول سمجھی جاتی تھی، صرف یہی دیکھا جاتا تھا کہ خبرِواحد لانے والا وہ شخص کس درجہ کا ثقہ اور امین ہے۔
قواعدِ حدیث کے اصولِ اعتماد جس طرح قرآنی آیات میں دلالت اور اشارت سے لپٹے ہوئے ملے تھے، انہیں ہم نے نبوی موقف میں بھی نہایت واضح طور پر موجود پایا، خبر دینے والا ثقہ اور امین ہوتوخبر واحد بلاتردد قبول کی جائے گی، اب صرف ایک بات لائقِ غور رہ جاتی ہے کہ نقل روایت میں الفاظ کی پابندی ضروری ہے یاروایت بالمعنی بھی کفایت کرسکتی ہے۔
بعض لوگ حدیث کو اخبار احاد کہہ کر حقیر قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں ۔ محض اخبار احاد کہہ دینے سے بات پوری نہیں ہوجاتی، اخبار احاد کی ایک بہت بڑی تعداد ایسی ہے جسے “تمام” فقہی مکاتب فکر نے “ہر دور میں” لائق حجت سمجھ کر ان سے احکامات اخذ کئے؛ “محدثین کی جماعتوں” نے چھان پڑت کرنے کے بعد “ہر دور میں” انکی ثقاہت کا اعلان کیا؛ ان اخبار سے اخذ شدہ مسائل کے ساتھ “امت” نے “تواتر کے ساتھ نسل در نسل” عملی رابطہ قائم رکھا؛ مسلمان سلطنتوں میں عدالتوں کے قضاء ان کے تحت فیصلے دیتے رہے۔ الغرض اخبار احاد کے اندر موجود اس بڑے ذخیرے میں محض “اپنی ابتداء میں احاد” ہونے کے علاوہ “آج” ایسی کوئی کسر نہیں رہ گئی جس کی بنا پر انہیں امت کے عملی یا قولی تواتر سے باآسانی محروم کردیا جائے۔ یہ اخبار احاد گویا امت میں روایت و درایت کی “مجموعی دانش و گواہی” کا ٹیسٹ پاس کرچکیں؛ اب ان کے ثبوت پر سوال اٹھانا یا انہیں “بس خبر واحد ہے” کہہ کر اڑانے کی کوشش کرنا محض بے معنی نکتہ شناسی ہے؛ الا یہ کہ کوئی “بہت ہی ذہین محقق” ان میں ایسا کوئی “بہت بڑا گمراہی کا گڑھا” نہ دکھا دے جسے بھرنا ہی ناممکن ہو۔ اخبار احاد کی ثقاہت کا یہ پہلو ملحوظ رکھنا چاہئے۔
روایت بالمعنی کے لائق قبول ہونے میں قرآنی موقف
تاریخِ مذاہب کا مشہور واقعہ ہے کہ جب حضرت آدم وحوا علیہما السلام نے شجرِممنوعہ کا پھل چکھا تواللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا تھا کہ دونوں نیچے اُترجاؤ، یہ واقعہ قرآنِ کریم میں کئی طرح سے منقول ہے:
(۱)”قَالَ اهْبِطَا مِنْهَا جَمِيعًا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ مِنِّي هُدًى فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَايَضِلُّ وَلَايَشْقَى”۔ (طٰہٰ:۱۲۳)
ترجمہ: خدا نے کہا تم دونوں اکٹھے اس سے نیچے اترو کہ ایک کا دشمن ایک ہوگا؛ پھراگرتمہارے پاس میری طرف سے کوئی ہدایت پہنچے توجواس کا اتباع کرے گا تووہ نہ دنیا میں گمراہ ہوگا اور نہ آخرت میں شقی ہوگا۔
(۲)”قَالَ اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَى حِينٍ”۔(الاعراف:۲۴)
ترجمہ:خدا نے کہا تم سب نیچے اُترو ایک دوسرے کے تم دشمن ہوگئے اور تمہارے لیئے زمین میں ٹھکانہ اور رہنا ہے ایک وقت تک۔
(۳)”قُلْنَا اهْبِطُوا مِنْهَا جَمِيعًا فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ مِنِّي هُدًى فَمَنْ تَبِعَ هُدَايَ فَلَاخَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَاهُمْ يَحْزَنُونَ”۔ (البقرۃ:۳۸)
ترجمہ: ہم نے کہا اُترجاؤ جنت سے سب کے سب سوپھراگرآئے تمہارے پاس میری طرف سے پیغام ہدایت توجس نے میری پیروی کی اُن پر کوئی خوف نہ ہوگا نہ وہغمگین ہوں گے۔
یہ ایک ہی واقعہ کی تین مختلف تعبیریں ہیں، رب العزت نے جب یہ بات کہی ہوگی توظاہر ہے کہ ایک بات کہی ہوگی اور باقی تعبیرات اس بات کی روایت بالمعنی ہوں گی، روایت بالمعنی اگر جائز نہ ہوتی توقرآن کریم ایک بات کومختلف تعبیرات میں پیش نہ کرتا، رب العزت نے جب فرشتوں کو حکم دیا تھا کہ آدم کوسجدہ کروتویاتو کہا ہوگا”اسْجُدُوالِآدَمَ”(البقرۃ:۳۴)یاکہا ہوگا”فَقَعُوالَهُ سَاجِدِينَ” (الحجر:۲۹)ظاہر ہے کہ ان دومیں ایک تعبیر ضرور روایت بالمعنی بنے گی، علامہ محمود آلوسیؒ نے بھی ان آیات سے روایت بالمعنی کا اشارہ کیا ہے۔
(دیکھئے، رُوحُ المعانی:۱/۲۳۶۔ رُوحُ المعانی:۸/۸۹)
قبولیتِ روایت میں اصل الاُصول اعتماد ہے
قرآن کریم کی رُو سے فاسق کی خبر بھی مطلقاً رد نہیں؛ بلکہ اس کی مزید تحقیق کی جائے گی، دوسرے ذرائع اور قرائن سے اس کی تحقیق ہوجائے تواسے بھی قبول کیا جاے گا، بات کے لائقِ اعتماد ہونے میں نبوی موقف بھی آپ کے سامنے آچکا؛ اس تفصیل سے پتہ چلتا ہے کہ قبولیتِ روایت میں اصل الاصول اعتماد اور وثوق ہے، جب یہ حاصل ہوجاے تویہی مدارِ عمل ہے، نہ خبر کا ایک راوی سے ہونا اس میں رُکاوٹ بن سکتا ہے نہ روایت کا بالمعنی مروی ہونا اس میں سبب قدح ہوسکتا ہے؛ یہاں تک کہ بعض صورتوں میں سند کا متصل ہونا بھی ضروری نہیں، نچلاراوی اگرکوئی مسلّم علمی شخصیت ہو اور روایت استدلال میں پیش کی جارہی ہوتو یہ مرسل روایت Interrupted report بھی اعتماد وثوق پر قبول کی جاسکتی ہے۔
عمل راوی کے اختلاف سے اعتماد روایت میں کمی
قبولیت روایت میں اعتماد کواتنی اُصولی حیثیت حاصل رہی ہے کہ اگرکوئی حدیث ثقہ راویوں سے بھی منقول ہوتمام راویوں میں اتصال بھی پایا جاتا ہو، صیغہ تحدیث بھی ہرجگہ موجود ہو عن کا مظنہ کہیں نہ ہو، روایت اصولی طور پر بالکل صحیح ہومگر اس صحابی کا اپنا عمل اس روایت کے خلاف ہوتوفوراً شبہ اُٹھے گا کہ شاید یہ حدیث منسوخ العمل ہو یااس زمانے سے تعلق رکھتی ہو، جب شریعت تکمیل کے تدریجی مراحل طے کررہی تھی بعض احکام منسوخ ہوجاتے تھے اور اُن کی جگہ نئے آجاتے تھے۔
پہلے دور کی کوئی بات ثقہ راویوں سے منقول ہو وہ صحیح توہوگی؛ لیکن بعد کے احکام کی روشنی میں حجت اور لائقِ عمل نہ سمجھی جائے گی؛ اسی طرح اگر کسی صحابی کا اپنا عمل اس کی اپنی روایت کے خلاف ہوتوظاہر ہے کہ صحت اسناد کے باوجود اعتماد روایت میں کچھ کمی ضرور آئے گی اس وقت اس اصول پر بحث کرنا مقصود نہیں، یہاں بتلانا صرف یہ ہے کہ قبولیت روایت میں اصل الاصول ہمیشہ اعتماد رہا ہے اور اسے کسی قیمت پر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، حافظ ابنِ حجرعسقلانیؒ ایک جگہ لکھتے ہیں:
ترجمہ: حدیث کا راوی اس کی مراد کو دوسروں سے بہتر جانتا ہے، خصوصاً جب کہ وہ صحابی مجتہد ہو۔ (فتح الباری جلد:۱/۴۴۵)
کوئی بات نقل میں رہ جائے توموجبِ قدح نہیں
صحابہ کرامؓ حضورﷺ سے جب کوئی حدیث نقل کرتے توبعض اوقات یوں بھی ہوتا کہ بعض مضامین حدیث روایت کردیتے اور کچھ باتیں رہ بھی جاتیں جودوسرے صحابہؓ کے ہاں یاانہی صحابہ کی کے کسی دوسری روایت میں مل جاتیں، یہ بعض مضامین کا رہ جانا اس پہلو سے کبھی نہ ہوا تھا کہ وہ بعض اجزاء باقی حدیث کے معنی پر اثرانداز ہوں؛ بلکہ ہرحصہ مضمون اپنی جگہ مستقل حیثیت سے روایت ہوتا تھا؛ سوائمہ حدیث اس پر متفق رہے ہیں کہ روایت حدیث میں کسی بات کا نقل سے رہ جانا باقی روایت میں موجب قدح نہیں ہے، امام زہریؒ (۱۲۴ھ) حدیث افک کے واحد راوی ہیں، جومختلف تابعین کرامؒ سے حضرت عائشہ صدیقہؓ کی حدیث نقل کرتے ہیں اور فرماتے ہیں:کہ ان راویوں نے حدیث افک کے کسی حصہ کومیرے سامنے بیان کیا ہے۔ (صحیح مسلم:۲/۳۶۴)
امام زہری تصریح نہیں کرتے کہ کون ساحصہ کن راویوں نے بیان کیا ہے لیکن یہ راوی چونکہ سب کے سب ثقہ ہیں، اس لیے یہ جانے بغیر کہ کس کس راوی نے کیا کیا کہا ہے، پوری حدیث بالاتفاق قبول کرلی گئی ہے اور ساری حدیث صحیح تسلیم کرلی گئی ہے، امام نوویؒ (۶۷۶ھ) اس کی شرح میں لکھتے ہیں:
یہ طریقہ جوزہری نے جمع حدیث میں اختیار کیا ہے جائز ہے ممنوع نہیں اور اس میں کوئی ناپسندیدگی نہیں یہ بیان ہوچکا ہے کہ حدیث کا کچھ حصہ ان میں سے کسی سے ہے اور کچھ حصہ دوسروں سے ہے اور یہ چاروں تابعین حفاظ حدیث اور اپنے فن کے امام ہیں؛ اگراس میں کچھ تردد رہا ہے کہ یہ لفظ اس راوی کی روایت سے ہے یااس راوی کی روایت سے، تواس میں کوئی حرج نہیں اس سے احتجاج جائز ہے؛ کیونکہ وہ دونوں ثقہ ہیں اور علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ اگرایک شخص کہے مجھے یہ حدیث زید نے بتائی یاعمرو نے اور وہ دونوں ثقہ ہیں، مخاطب کے ہاں معروف ہیں تواس سے حجت پکڑنا اور احتجاج کرنا جائز ہے۔ (شرح مسلم للنووی:۲/۳۶۴)
فقہ راویوں کی روایت کوترجیح
محدثین میں اس پر بھی کلام رہا ہے کہ روایت کی ترجیح راویوں کی قوتِ حفظ پر ہونی چاہئے یااس میں اِن کی فقاہت بھی ترجیح ہوسکتی ہے، ایک شخص حفظ ویادداشت میں زیادہ معروف ہے اور دوسرا علم ودانش میں گہرائی رکھتا ہے توکس کی روایت اُن میں سے زیادہ لائقِ ترجیح ہوگی؟ محدثین میں روایت بالمعنی کا رواج نہ ہوتا توظاہر ہے کہ ترجیح قوتِ حفظ کی بناء پر ہوتی؛ لیکن روایت بالمعنی کا شیوع اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ راوی جتنا گہرا عالم اور فقیہہ ہوگا اتنا ہی بات کے مغز کوزیادہ پائے گا اور یہ نہ ہوگا کہ وہ روایت بالمعنی کی صورت میں بات اور کچھ کہہ جائے۔ جتنا راوی فقیہہ ہوگا اتنا ہی وہ اس مضمون کوزیادہ سنبھالنے والا ہوگا ۔ امام احمد بن حنبلؒ (۲۴۱ھ) اور امام ابو حنیفہؒ حدیث کی فقہ کواس کے حفظ سے زیادہ اہم سمجھتے تھے، امام علی بن المدینیؒ (۲۴۳ھ) بھی فقہ حدیث کوہی سب سے اشرف علم شمار کرتے تھے، حافظ ابنِ تیمیہؒ لکھتے ہیں:ترجمہ: امام احمد بن حنبلؒ کہتے ہیں حدیث اور فقہ کی معرفت مجھے اس کے حفظ سے بھی زیادہ عزیز ہے، امام علی بن المدینی کہتے ہیں سب سے اشرف علم متون حدیث اور احوال رواۃ کی معرفت میں فقہ کوکارفرماکرنا ہے۔ (منہاج السنۃ:۴/۱۱۵)
تصحیح روایت میں محدثین پر اعتماد
محدثین میں حدیث کی تصحیح کے دونوں طریقے رائج رہے ہیں:
(۱)راویوں کی ثقاہت ان کے باہمی اتصال اور شذوذونکارت سے سلامتی معلوم کرکے بھی کسی حدیث کوصحیح کہہ سکتے ہیں۔
(۲)کبھی ان تفصیلات میں جائے بغیر اکابر علمائے فن کی تصحیح پر اعتماد کرکے بھی کسی حدیث کوصحیح کہا جاسکتا ہے۔
لیکن قبولیت روایت میں اصل الاصول اعتماد ٹھہرا توجس طرح سے بھی یہ اعتماد حاصل ہوسکے روایت قابلِ قبول ہوجاتی ہے۔
ہرفن میں اکابرِ فن کی تقلید کی جاتی ہے، اس سے انسان اسی وقت نکلتا ہے جب خود براہِ راست راویوں کی جانچ پڑتال کرسکے اور اس کی جملہ طرق پر نظر ہوسکے، اس کے بغیراعتماد سے چارہ نہیں، اس اعتماد کوبھی علم کی ہی ایک شان سمجھنا چاہیے، جس بات میں خود مضبوط علم حاصل نہ ہو تقلید سے چارہ نہیں، ہاں جب کسی بات کی براہِ راست تحقیق ہوجائے اور اس میں کوئی شک اور دغدغہ نہ رہے توپھرتقلید درست نہیں؛ لیکن جب تک راویوں کا پورا علم خود حاصل نہ ہو محدثین کرام جوائمہ فن ہیں ان کی تصحیح اور ان کی تضعیف سے بھی علماءِ حدیث کسی روایت کوصحیح یاضعیف کہہ سکتے ہیں۔
جب تک راویانِ حدیث اپنی سند سے حدیثیں روایت کرتے رہےتحقیق حدیث کا طریق راویوں کی جانچ پڑتال ہی رہا؛ لیکن جب سندوالی کتابیں مدون ہوچکیں اور اس جمع شدہ ذخیرے سے ہی حدیث آگے چلی تواس دور میں علیحدہ علیحدہ راویوں کی جانچ پڑتال کے ساتھ حاذق محدثین کی تحقیق اور اکابراساتذہ فن کا ذوق بھی ساتھ Instinct چلنے لگے تواب راویوں کی بجائے اساتذہ فن کے فیصلوں پراعتماد کے بغیر آگے نہیں چل سکتے؛ یہاں اہلِ فن کی تقلید سے چارہ نہیں، ہرشخص کا ذوق اس درجے میں پختہ نہیں ہوتا کہ محض راویوں کے حالات جان کرپوری سندع اور پوری حدیث پر وہ کوئی حکم لگاسکے، حضرت عبدالرحمن بن مہدیؒ (۱۹۸ھ) جرح وتعدیل کے جلیل القدر امام ہیں، آپ اس اعتماد کے یہاں تک قائل تھے کہ اسے الہام کا درجہ دیتے تھے، جس طرح الہام کی خارج میں کوئی دلیل نہیں ہوتی، ایک وجدان ہے جواندر ہی اندر بولتا رہتا ہے؛ اسی طرح محدثین کرام کوفن کے کمال سے جوذوق ووجدان ملتا ہے اس پر وہ بعض حدیثوں کوراویوں کی ثقاہت اور سند کے اتصال کے باوجود قبول نہیں کرتے، حضرت عبدالرحمن بن مہدیؒ (۱۹۸ھ) کہتے ہیں:ترجمہ: حدیث کی معرفت ایک الہامی چیز ہے جودل میں اُترتی ہے؛ اگرمیں علل حدیث کے کسی عالم سے کہوں کہ تم یہ بات کہاں سے کہہ رہے ہوتواس کے پاس اس کا جواب نہ ہوگا۔ (معرفۃ علوم الحدیث للحاکم:۱۱۳)
امام احمد بن حنبلؒ (۲۴۱ھ) کی کتاب “کتاب العلل” ومعرفۃ الحدیث، امام ترمذیؒ (۲۷۹ھ) کی “کتاب العلل” اور ابن ابی حاتم کی “کتاب الجرح والتعدیل” اس سلسلہ کی بہت مفید کتابیں ہیں اور امام احمدؒ کی یہ کتاب انقرہ سے اور ابن ابی حاتم کی یہ کتاب حیدرآباد دکن سے شائع ہوئی ہے، ایک موضوع پر دوحدیثیں مروی ہوں راوی ہردوکے ثقہ ہوں اور اتصالِ رواۃ بھی اپنی جگہ قائم ہواور سند صحیح ہے توایسے موقعوں پر محدثین علل روایت میں چلے جاتے ہیں، علت کا پالینا ایک بڑی علمی مرتبہ ہے، عبدالرحمن بن مہدی اس کوالہامِ الہٰی سے تعبیر کرتے تھے؛ پھربھی کوئی حل نہ ملے توترجیح وتطبیق کی راہ لینے سے چارہ نہیں۔
ترجیح وتطبیق میں ائمہ کے مختلف اسلوب
شریعت تدریجا تکمیل کوپہنچی ہے؛ کئی امور جوپہلے جائز یاناجائز تھے بعد میں ناجائز اور جائز قرار پائے سواگر کسی موضوع پر متضاد روایات ملیں توپہلے جوبات ذہن میں آتی ہےیہ ہے کہ دونوں میں سے ایک حکم پہلے دَور کا ہوگا جواب منسوخ ہوچکا، یہ اس صورت میں ہے کہ دونوں کی تاریخ معلوم ہوسکے اور اگر عقلاً دونوں میں سے کسی کوآگے پیچھے کیا جائے تویہ نسخ اجتہادی ترجیح کے بعد لائقِ غور ہوگا۔نسخ کی بات نہ کھلے توپھر راجح کو دیکھا جائے وجوہ ترجیح سامنے آنے سے ایک بات خود بخود کمزور دکھائی دینے لگے گی ترجیح نہ دے سکیں تونسخ اجتہادی سے کام لیں اس کے بعد تطبیق کی راہ ہے کہ ہرایک کوجدامحمل پر محمول کیا جائے پھربھی بات نہ بنے تودونوں کو رہنے دیا جائے اور تساقط پر فیصلہ کرلیا جائے حنفیہ کے ہاں پہلے نسخ پھر ترجیح پھرتطبیق اور پھر تساقط کی ترتیب ہے، شافعیہ کے ہاں پہلے تطبیق پھرترجیح پھرنسخ اور پھرتساقط کا عمل ہوگا:”واذاتعارض الحدیثان ففی کتب الشافعیہ یعمل بالتطبیق ثم بالترجیح ثم بالنسخ ثم بالتساقط وفی کتبنا یوخذا ولابالنسخ ثم بالترجیح ثم بالتطبیق ثم بالتساقط”۔
(العرف الشذی:۴۳، وکذا فی مقدمۃ فیض الباری)
بہرِحال وہ قواعد جن پر حدیث قبول کی گئی ہے کچھ یونہی مرتب نہیں ہوگئے؛ بلکہ ان میں قرآن کریم اور اُصولِ فطرت پوری ثقاہت سے کار فرما رہے ہیں، یہی قواعد محدثین کی اساس تھے اور انہیں پرعلم حدیث کا ذخیرہ ترتیب پاتا رہا اور اہلِ فن میں قبول بھی ہوتا گیا۔
قواعدِ حدیث کی مستند کتابیں
ان دنوں اس موضوع پر زیادہ متداول کتابیں “مقدمہ ابن صلاح” اور “شرح نخبۃ الفکر” سمجھی جاتی ہیں، اصولِ حدیث کے یہ وہ متون ہیں جن پر آئندہ شرحیں لکھی گئیں، ابن صلاح نے سنہ ۶۴۳ھ میں وفات پائی، مؤخرالذکر کتاب نخبۃ الفکر اور اس کی شرح حافظ ابن حجر عسقلانی سنہ ۸۵۲ھ کی تالیف ہیں، شرح نخبۃ الفکر کی ملاعلی قاریؒ (۱۰۱۴ھ) نے بھی شرح لکھی ہے، جوشرح الشرح کے نام سے معروف ومشہور ہے۔
قدماء میں علی بن المدینیؒ (۲۳۴ھ)، امام احمد بن حنبلؒ (۲۴۱ھ) اور امام مسلمؒ (۲۶۳ھ) نے اس طرف توجہ فرمائی، امام احمدؒ نے اس پر کتاب العلل ومعرفۃ الحدیث تالیف فرمائی، امام مسلمؒ نے صحیح مسلم میں فن حدیث پر ایک عظیم مقدمہ تحریر فرمایا؛ پھرامام ترمذیؒ (۲۷۹ھ) نے کتاب العلل لکھ کر اس موضوع میں گرانقدر اضافہ کیا، حافظ ابن رجب حنبلیؒ (۷۹۵ھ) نے کتاب العلل کی عظیم شرح تحریر کی، ابومحمدعبدالرحمن بن ابی حاتم الرازیؒ (۳۲۷ھ) نے کتاب الجرح والتعدیل لکھی جوحیدرآبادسے نوجلدوں میں شائع ہوئی ہے، دارِقطنیؒ (۳۸۵ھ) نے بھی کتاب العلل لکھی، آپ خود اسے مکمل نہ کرسکے، آپ کے شاگرد ابوبکر البرقانی نے اُسے پایۂ تکمیل تک پہنچایا، حافظ شمس الدین سخاویؒ (۹۰۲ھ) نے اس کی ایک تلخیص لکھی جس کا نام”بلوغ الامل بتلخیص کتاب الدارِقطنی فی العلل” پھر خطابیؒ (۳۸۸ھ)، ابن حزم (۴۵۷ھ)، خطیب بغدادیؒ (۴۱۳ھ)، حافظ ابن عبدالبرؒ (۴۶۳ھ) اور امام بغویؒ (۵۱۶ھ)، عبدالرحمن بن الجوزیؒ (۵۹۷ھ) نے اپنی تصنیفات میں اصولِ حدیث پرگرانقدر تنقیحات کیں؛ یہاں تک کہ چھٹی صدی ہجری میں یہ فن ایک جامع شکل میں مرتب ہوگیا اور حافظ ابنِ صلاح (۶۴۳ھ) نے اس فن میں مقدمہ ابنِ صلاح لکھ کر اہلِ علم سے اپنا لوہا منوایا، اس کتاب کی مرکزی حیثیت آج تک مسلم چلی آرہی ہے۔
پھرآٹھویں صدی ہجری میں حافظ ابن تیمیہؒ (۷۲۸ھ)، ابن قیم جوزیؒ (۷۵۱ھ)، خطیب تبریزی صاحب مشکوٰۃ (۷۴۳ھ)، حافظ جمال الدین زیلعیؒ (۷۶۲ھ) اور حافظ ابن کثیرؒ (۷۷۴ھ) نے اس موضوع پر بیش بہا کام کیا، علامہ جرجانی رحمۃ اللہ علیہ (۸۱۶ھ) نے مختصراً البحرجانی لکھ کر اس باب میں حجت پوری کردی؛ پھرحافظ ذہبیؒ (۸۴۸ھ)، حافظ ابن حجر عسقلانیؒ (۸۵۲ھ)، حافظ بدرالدین عینیؒ (۸۵۵ھ)، حافظ ابنِ ہمام اسکندریؒ (۸۶۱ھ) اپنے دور میں اس فن کے امام تھے؛ لیکن جومقبولیت اور شہرت حافظ ابن حجرعسقلانی رحمۃ اللہ علیہ کی شرح نخبۃ الفکر کو ہوئی وہ ایک الہٰی مقبولیت کا نشان ہے، دنیا کے تمام مدارسِ حدیث میں یہ کتاب داخلِ نصاب ہے اور متعدد علمائے کرام نے اس کی شروح لکھی ہیں، برصغیر ہندوپاک میں بھی اس موضوع پرشیخ عبدالحق محدث دہلویؒ (۱۰۵۲ھ) کا رسالہ جولمعات التنقیح کے شروع میں ہے مولانا عبدالحیی لکھنویؒ (۱۳۰۴ھ) کی کتاب الجرح والتکمیل اور مولانا ظفر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ کی قواعد علم الحدیث اس فن کی مستقل کتابیں ہیں۔