صحاح ستہ اور اسکے مولفین
حدیث کی چھ کتابیں انتہائی معتمد سمجھی گئی ہیں، انہیں صحاحِ ستہ کہتے ہیں ان میں پہلی دوکتابیں توکل کی کل صحیحین ہیں اور دوسری چار کتابیں سنن کہلاتی ہیں، یہ سنن اربعہ بیشتر صحیح روایات پر مشتمل ہیں، فن حدیث میں یہ چھ کتابیں انتہائی لائقِ اعتماد سمجھی جاتی ہیں، مشہور مستشرق نکلسن انہیں اسلام کیCanonical Books لکھتا ہے، یہ کتابیں تدوین حدیث کے دوسرے دور سے تعلق رکھتی ہیں۔
حضرت امام بخاری (۲۵۶ھ) محمد بن اسماعیل بن ابراہیم بن مغیرہ
آپ رحمہ اللہ کا اصل نام محمد بن اسماعیل البخاری ہے۔ ۱۳/ یا ۱۶/ شوال ۱۹۴ھ کو بخارہ میں آپ کی ولادت ہوئی۔حضرت امام بخاری نے ایک ہزار سے زائد محدثین سے حدیث سنی اور نوے ہزار کے قریب تلامذہ نے آپ سے بالواسطہ صحیح بخاری سنی۔ آپ کے اساتذہ میں ابوبکر عبداللہ الحمیدی(۲۱۹ھ)،امام یحییٰ بن معین (۲۳۲ھ)،امام علی بن المدینی (۲۳۴)، قتیبہ بن سعید (۲۴۰ھ)، امام احمد بن حنبل، اسحق بن راہویہ (۲۳۸ھ)سرفہرست ہیں، ثقات تابعین سے روایت کرنے والوں میں سے آپ نے محمد عبداللہ انصاری ، ابو عاصم النبیل سے براہِ راست حدیث سنی، معاصرین میں سے آپ نے محمد بن یحییٰ الذہلی اورابو حاتم سے روایات لیں،امام مسلمؒ آپ کے جلیل القدر معاصر تھے؛ انہوں نے بھی آپ سے حدیث سنی، حضرت امام مسلم آپ کے بارے میں قسم کھا کر کہتے ہیں :”اشہد انہ لیس فی الدنیا مثلک”۔ترجمہ:آپ جیسا محدث روئے زمین پر نہیں ہے میں اس بات کی شہادت دیتا ہوں۔(مقدمہ فتح الباری:۱/۴۸۵)
امام ابو عیسیٰ الترمذی (۲۷۹ھ) اورامام ابو عبدالرحمن النسائی (۳۰۳ھ) حضرت امام بخاری کے تلامذہ میں سے تھے ابن خزیمہ کہتے ہیں آسمان کے نیچے کسی عالم کو امام بخاری سے بڑھ کر نہیں پایا (تہذیب الاسماء:۱/۷۰) اپنے حافظہ کے اعتبار سے آپ “آیۃ من ایات اللہ” خدا کی قدرت کا ایک نشان تھے۔ سمرقند کے ایک چھوٹے سے گاؤں ”خرتنک“ میں ۲۵۶ھ میں وفات ہوئی۔
آپ نے بہت سی کتابیں لکھیں، جن میں ذیل کی کتابیں آپ کے ”انمٹ نقوش“ ہیں مثلا کتاب الجامع الصحیح، کتاب الادب المفرد، کتاب التاریخ الکبیر، کتاب التاریخ الاوسط، کتاب التاریخ الصغیر، کتاب الجامع الکبیر، کتاب المسند الکبیر، کتاب التفسیر الکبیر، کتاب الفوائد وغیرہ ۔ ان کتابوں میں سب سے عظیم اور جلیل القدر تصنیف آپ کی ”جامع بخاری“ ہے، جس کو تمام دنیائے اسلام میں شہرت دوام حاصل ہے۔
صحیح بخاری:
امام محمدبن اسماعیلؒ بخاری (۲۵۶ھ) کی اس کتاب کا پورا نام “الجامع الصحیح المسند من حدیث رسول اللہ وسننہ وایامہ” ہے۔ اس نام میں مسند اپنے اصطلاحی معنوں میں نہیں، اسے الجامع الصحیح بھی کہتے ہیں؛ کیونکہ فن حدیث کے آٹھوں ابواب (کتاب) اس میں جمع ہیں، امام بخاریؒ نے صحتِ سند، فقہ حدیث اور تحریر تراجم میں حدیث کا وہ عدیم النظیر مجموعہ تیار کیا ہے کہ اسے بجاطور پر اسلام کا اعجاز سمجھنا چاہیے، اہلِ فن اسے اصح الکتاب بعد کتاب اللہ قرار دیتے ہیں۔
آپ نے اپنی اس ”صحیح“ کا انتخاب چھ لاکھ احادیث سے فرمایاہے، اور اس کتاب میں صرف انہی حدیثوں کو جگہ دیتے ہیں جن کے رواة پر نقد و جرح اور عدل و ضبط کی حیثیت سے آپ کو شرح صدر اورکامل وثوق حاصل تھا۔ اس طرح یہ کتاب دنیائے اسلام میں اپنے نہج کی سب سے پہلی کتاب قرار پائی (الحطة)
امام بخاریؒ تقطیع حدیث (حدیث کو مختلف حصوں میں تقسیم کرکے اس کے اجزاء کو علیٰحدہ علیٰحدہ روایت کرنا) کے قائل تھے، وہ حدیث کے مختلف اجزاء کومختلف ابواب میں لاتے ہیں، امام صاحبؒ کا ترجمۃ الباب Chapter Heading امام صاحبؒ کا فقہی نظریہ ہوتا ہے، جوان کے خیال میں اس حدیث میں لپٹا ہوتا ہے، جملہ فقہ بخاری فی تراجمہ علمائے حدیث میں بہت معروف ہے، ان فقہی تراجم کے باعث امام صاحبؒ کوبعض روایات بار بار بھی روایت کرنی پڑی ہیں، صحیح بخاری کی کل مرویات ۷۲۷۵/ہیں، مکررات کو حذف کرکے چار ہزار کے قریب رہ جاتی ہیں؛ پھرساری روایات مرفوع (جوحضورﷺ تک پہنچتی ہوں) نہیں ہیں، موقوف روایات (صحابہؓ کی روایات) اور تابعین کبار کے بہت سے اقوال بھی اس میں ملتے ہیں۔
امام صاحب ؒ کی ثقاہت:
حضرت امام ثقہ ہیں اور حفظ وضبط اور دیانت وامانت کے کسی پہلو سے مجروح نہیں۔
روایاتِ صحیح البخاری:
صحیح بخاری میں ۷۳۹۷/کے قریب روایات مرفوعہ ہیں، بعض روایات بہ تکرار آئی ہیں، عدم تکرار سے مجموعی احادیث چار ہزار ہوں گی، صحابہ کی روایات اور اقوالِ تابعین کی تعداد ساڑھے تین سو کے قریب ہے، متابعات اور تعلیقات ساڑھے تیرہ سو کے قریب ہیں، بائیس روایات ثلاثیات ہیں، جن میں امام بخاریؒ صرف تین واسطوں سے حضورﷺ تک پہنچتے ہیں۔
(۲)امام مسلم بن حجاج ابوالحسین القشیری (۲۶۱ھ)
مسلم بن الحجاج القشیری النیشاپوری ہیں: آپ کی ولادت ”نیشاپور“ میں ۲۰۴ھ کو ہوئی۔ بغداد کے بعد نیشاپور سب سے بڑا مرکزِ علم سمجھا جاتا تھا، نیشاپور میں یحییٰ بن یحییٰ، امام اسحاق بن راہویہ اور امام ذہلی سے، عراق میں امام احمد بن حنبل اور عبداللہ بنمسلمۃ القعنبی سے، بغداد میں محمدبن مہران اور ابوغسان سے، حجاز میں سعید بن منصور اور ابومصعب سے اور مصر میں عمروبن سواد اور حرملہ بن یحییٰ سے اور دیگر کئی ائمہ فن سے حدیث سنی، قتیبہ بن سعید، احمد بن یونس یربوعی اور اسماعیل بن ابی عویس بھی آپ کے اساتذہ میں سے ہیں، حضرت امام بخاری سے بھی بہت استفادہ کیا، امام ابوعیسیٰ الترمذی، ابوبکر بن خزیمہ، ابوحاتم رازی اور ابوعوانہ آپ کے شاگردوں میں سے ہیں، آپ کے اُستاد اسحاق بن راہویہ آپ سے بہت متأثر تھے، فرمایا: “ای رجل یکون ھذا” معلوم نہیں یہ شخص کس مقام تک پہنچے گا۔
آپ کا سب سے اہم اور عظیم کارنامہ ”جامع صحیح مسلم“ ہے۔ جو حسن ترتیب، جودت نظم، اور دقائق اسناد میں بخاری سے بھی اونچی ہے۔ ایک مضمون کی جملہ روایتوں کو بجمیع طرقہا یکجا، نہایت سلیقہ، اور عمدگی کے ساتھ بیان کردیتے ہیں۔ تاہم صحت و قوت میں بخاری شریف سے نیچے ہے۔ آپ نے صحیح مسلم اس طریق سے ترتیب دی کہ محدثانہ نقطۂ نظر سے کوئی دوسری کتاب اس کی برابری نہیں کرسکی، پوری حدیث ایک جگہ مل جاتی ہے اور آپ اس کی جملہ اسانید عجیب حسنِ ادا سے ایک جگہ لے آتے ہیں، محدثِ مولانا بدرِعالم مدنی لکھتے ہیں:”یہ تصنیف (صحیح مسلم) فن حدیث کے بہت سے عجائبات پر مشتمل ہے، سرداسانید، متون کا حسن سیاق، تلخیص طرق اور ضبط انتشار میں صحیح بخاری پر بھی فائق ہے”۔ (ترجمان السنہ:۱/۲۵۹)
امام مسلم کی اہلِ شام سے روایت، امام بخاری کی اہلِ شام سے روایت پر فائق سمجھی جاتی ہے؛ کیونکہ حضرت امام بخاری ان سے اکثر بطریق مناولہ روایت کرتے ہیں، امام مسلم ان سے مشافہۃً روایت لیتے ہیں، امام مسلم اس میں وہی روایات لاتے ہیں جن پر اس وقت کے اکابرِ اہلِ علم اور شیوخِ حدیث متفق ہوں، آپ نے صحیح مسلم لکھ کر امام الجرح والتعدیل امام ابوزرعہ کے سامنے پیش کی، جن روایات پر انہوں نے کہیں بھی اُنگلی رکھی آپ نے انہیں ترک فرمادیا۔صحیح مسلم کی روایات حذف مکررات کے بعد چار ہزار کے قریب ہیں، آپ نے اس میں صرف مرفوع روایات نہیں لیں، صحابہ کے بہت سے آثار بھی ساتھ ساتھ روایت کیے ہیں۔
(۳)امام ابوداؤدؒ…. سلیمان بن اشعث سجستانی (۲۷۵ھ)
امام ابوداؤد برِصغیرہندوپاک کے مسلمانوں سے بہت قریب کی نسبت رکھتے ہیں، سیستان جوہرات اور سندھ کے مابین ایک قصبہ ہے وہاں کے رہنے والے تھے، عرب اسے سجستان پڑھتے ہیں اور اسی نسبت سے امام ابوداؤد کو سجستانی کہا جاتا ہے، ۲۰۲ھ میں آپ کی ولادت ہوئی، آپ تحصیل علم کے لیے بغداد تشریف لے گئے، زندگی کا بیشتر حصہ وہیں گزارا، وہیں سنن ابی داؤد تالیف کی؛ پھرآخر میں بصرہ چلے گئے اور وہیں وفات پائی۔ طلبِ حدیث میں شام، عراق، خراسان اور الجزائر وغیرہ کے متعدد سفر کیئے، سینکڑوں اساتذہ سے حدیث سنی، امام بخاری اور امام مسلم کے ساتھ بہت سے اساتذہ میں شریک ہیں، امام احمد بن حنبلؒ، امام یحییٰ بن معینؒ، ابوالولید الطیالسیؒ، عبداللہ بن مسلمۃ القعنبیؒ ان کے بھی اُستاد تھے اور امام ترمذیؒ اور امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ ان کے بھی شاگرد تھے، ایک حدیث امام احمد بن حنبلؒ نے ابوداؤدؒ سے بھی روایت کی ہے، اسے حدیث عتیرہ کہا جاتا ہے، امام ابوداؤد اس پر ناز کرتے تھے کہ ان کے استاد امام احمد نے ایک حدیث ان سے سنی ہے،
سنن ابی داؤد :
امام ابوداؤد کے دور میں چاروں اماموں کی فقہی کاوشیں، ان کے اصول فقہ، ان کے اجتہادی کارنامے اور ان کے ابواب فقہ لوگوں کے سامنے آچکے تھے، امام ابوداؤد نے چاہا کہ اب ایک ایسا حدیثی ذخیرہ مرتب ہونا چاہیے جس میں مختلف مجتہدین کے مستدلات ایک نظر میں سامنے آجائیں، ان کی کتاب سنن ابی داؤد کا موضوع ائمہ کے مستدلات ہیں اور ایک فقیہ کوان سے چارہ نہیں، امام ابوداؤد امام احمد کے شاگرد تھے اور ان سے متاثر بھی اور ان کی سنن میں جگہ جگہ حنبلی نقطہ نظر غالب نظر آتا ہے، صرف حنابلہ کے لیے ہی نہیں ان کی کتاب ائمہ اربعہ کے پیروؤں کے لیے ایک مجتہدانہ دستاویز کا درجہ رکھتی ہے اور علماء فقہ کے لیے یہ ایک بہت بڑا علمی ماخذ ہے۔
ائمہ اربعہ میں سے دوامام ابوحنیفہؒ اور امام احمد بن حنبلؒ عراق سے تعلق رکھتے تھے اور دوحجاز سے، امام مالکؒ اور امام شافعیؒ، مسلمانوں میں الحاد اور اعتزال اور رفض وخارجیت کے سب فتنے عراق سے ہی اُٹھے تھے، جبروقدر کی بحثیں پہلے وہیں چلیں، فتنہ خلقِ قرآن نے وہیں سے سراُٹھایا اور کوفہ وبصرہ ہی ان اختلافات کی پہلی آماجگاہ بنے، ان اختلافات میں امام ابوحنیفہؒ اور امام احمدؒ دونوں کا موقف یہ رہا کہ ان اختلافات میں صحابہؓ کومعیار بنائیں اور جس طریق پر وہ رہے اسی راہ کوصواب جانیں، ارشادِ نبوت “مَاأَنَاعَلَیْہِ وَأَصْحَابِیْ” کا تقاضا بھی یہی تھااور اسی میں انتشار والحاد سے بچنے کی راہ تھی، حنفیہ اور حنابلہ کے ہاں قولِ صحابی حجت ہے اور دونوں نے صحابہ کرامؓ کوہراختلاف کا فیصل سمجھا ہے، شوافع اورمالکیہ کے ہاں ایسا نہیں، شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ حنفی اور حافظ ابنِ تیمیہ حنبلی کس طرح ہراختلاف میں وکیلِ صحابہ بنے نظر آتے ہیں یہ اہلِ علم سے مخفی نہیں، امام ابوداؤد کا نقطۂ نظر بھی سنن میں یہی ہے۔
پانچ لاکھ حدیثوں میں سے چارہزار آٹھ سو حدیثوں کاانتخاب کرکے اپنی سنن میں ذکر کیا۔ سنن ابی داؤد کی منجملہ دیگر خصوصیات کے سب سے اہم خصوصیت ”قال ابوداؤد“ ہے۔ اس لفظ سے امام ممدوح کاجو اختلاف رواة، یا اختلاف رواة فی الالفاظ کی طرف باریک ترین اشارہ ہوتا ہے اس کا سمجھنا ایک انتہائی اہم کام ہوتا ہے۔فقہی اعتبار سے بہت بلندپایہ کتاب ہے، ایک مجتہد تہذیب شریعت اور تدوین فقہ میں جن احادیث کا محتاج ہوسکتا ہے وہ سب اس سنن میں موجود ہیں اسے ادق الکتب بعد کتاب اللہ کہا جاتا ہے، صحیح بخاری اصح ہونے میں اس سے اوّل ہے؛ مگرادق ہونے میں اس کا نام آگے ہے، حافظ منذریؒ نے اس کی بھی تلخیص کی ہے، کتب حدیث میں یہ سب سے پہلی کتاب ہے جس کی شرح سب سے پہلے لکھی گئی، حافظ احمد بن محمدامام ابوسلیمان الخطابی (۳۸۸ھ) نے معالم السنن کے نام سے اس کی شرح لکھی جوبارہا چھپ چکی ہے۔
ابوداؤد ؒ کی روایات کا درجہ
جس حدیث کوامام ابوداؤد روایت کریں اور اس پر کوئی جرح نہ کریں تووہ حدیث صالح للاستدلال شمار ہوگی، محدثین کے ہاں ابوداؤد کاسکوت بڑا وزن رکھتا ہے “مَالَمْ یُذْکَرُ فِیْہِ شَیْءً فَھُوَ صَالِحٌ” (تدریب الراوی:۵۵)صحت کے اعتبار سے پھر اس کے کئی درجے ہوسکتے ہیں، اس میں صحیح اور حسن (نیل الاوطار:۱/۱۵) دونوں کا احتمال ہے، آپ نے فرمایا میں نے اس کتاب میں کوئی ایسی حدیث نہیں لی جس کے ترک پر سب کا اتفاق ہو (مرقات:۱/۲۲) ابنِ جوزیؒ نے سنن ابی داؤد کی نواحادیث کوموضوع کہا ہے، علامہ سیوطیؒ نے ان میں سے چار کا جواب القول الحسن فی الذب عن السنن میں دیا ہے، باقی پانچ کے جواب میں یہ کہنا کافی ہے کہ ابنِ جوزیؒ نقد روایات میں بہت متشدد ہیں؛ سوان کی جرح حجت نہیں، صحیح یہ ہے کہ سنن ابی داؤد موضوع احادیث سے بالکل پاک ہے (الحطہ:۱۱۶) ہاں امام احمد قیاس پر ضعیف حدیث کوبھی ترجیح دیتے ہیں؛ جیسا کہ امام ابوحنیفہ کا مذہب ہے؛ سواس میں اگرضعیف روایات بھی ہیں توا سپر تعجب نہ ہونا چاہیے، مجتہد کوکبھی ان کی ضرورت بھی پڑجاتی ہے؛ تاہم یہ ہے کہ آپ نے کوئی حدیث متروک الحدیث راوی سے نہیں لی۔
اس سنن کے علاوہ آپ کی اور بھی دوسری تصانیف ہیں، مثلا (۱) مراسیل ابی داؤد، یہ مختصر سا رسالہ ہے۔ جس میں آ پ مرسل روایات ذکر کرتے ہیں۔ یہ کتاب سنن ابی داؤد کے بعض نسخوں کے ساتھ بھی ملحق ہے۔ (۲) الردّ علی القدریہ، (۳) الناسخ والمنسوخ، (۴) ماتفرد بہ اہل الامصار، (۵) فضائل الانصار، (۶) مسند مالک بن انس، (۷) المسائل، (دیکھئے تہذیب) لیکن آپ کی جملہ تصانیف میں ”سنن ابی داؤد“ سب سے اعلیٰ و افضل ہے۔ ۲۷۵ھ میں بمقام بصرہ آپ کی وفات ہوئی۔
(۴)امام ترمذی ؒ (۲۷۹ھ)
امام محمدبن عیسیٰ بن سورہ ترمذی کی کنیت ابوعیسیٰ ہے، ۲۰۹ھ میں بمقام ”ترمذ“ آپ کی ولادت ہوئی، ترمذ دریائے جیحوں ساحل پر واقع ہے۔امام ترمذی کوحضرت امام بخاریؒ، امام مسلمؒ اور امام ابوداؤدؒ سے شرفِ تلمذ ہے، جامع ترمذی میں آپ نے امام مسلمؒ سے صرف ایک روایت لی ہے (احصواہلال شعبان لرمضان، جامع ترمذی:۱/۸۷۱) امام بخاریؒ نے آپ سے آپ کے استاد ہونے کے باوجود دوروایتیں لی ہیں، امام ترمذی نے باب مناقب علی اور کتاب التفسیر (سورۂ حشر) میں ان دونوں روایتوں کی نشاندہی بایں الفاظ کی ہے “سَمِعَ مِنِّي مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ” (ترمذی، حدیث نمبر:۳۲۲۵، شاملہ،موقع الإسلام) (یہ حدیث امام بخاریؒ نے مجھ سے لی ہے) وکیع کہتے ہیں انسان کا علم کامل نہیں ہوتا؛ اگروہ اپنے سے کم مرتبہ اور اپنے ہم مرتبہ علماء حدیث سے روایت لینے میں عار محسوس کرے (نقل بالمعنی) آپ نے طلب علم میں چند اساتذہ پر اکتفاء نہیں کی، طلبِ حدیث میں حجاز، مصر، شام، کوفہ، بصرہ، بغداد اور خراسان کے متعدد سفر کیئے، حافظ ابنِ حجررحمہ اللہ لکھتے ہیں:ترجمہ: آپ نے دنیابھر کا چکر لگایا، خراسانی علماء، عراقی علماء اور حجازی علماء سے آپ نے حدیث سنی۔ (تہذیب التہذیب:۹/۳۸۸)
علماء لکھتے ہیں امام بخاریؒ نے اپنے شاگردوں میں علم وحفظ اور ورع وزہد میں امام ترمذی کی مثل کوئی نائب نہیں چھوڑا، آپ نے سب سے زیادہ فیض امام بخاریؒ سے پایا ہے؛ لیکن آپ امام بخاریؒ کے محض پیرونہ تھے، اختلاف کے موقع پر آپ اپنی بات پوری قوتِ دلیل سے کہتے ہیں۔
جامع ترمذی :
آپ نے حدیث پاک کی مستند و معتبر ترین کتاب ”جامع ترمذی“ لکھی۔ اس کتاب کے تین نام ہیں: (۱) جامع ترمذی:- جامع اس لئے کہتے ہیں کہ اس میں حدیث کے آٹھوں ابواب ﴿سیرت نبوی، آدابِ اسلامی، تفسیر، عقائد، احادیث فتن، علامات قیامت، احکام اور مناقب﴾ کی روایتیں موجود ہے۔ (۲) سنن ترمذی: سنن اس لئے کہتے ہیں کہ اس میں احکام شرعیہ سے تعلق رکھنے والی حدیثیں یعنی مستدلاتِ فقہاء بیان کئے گئے ہیں۔ (۳) الجامع المعلّل: معلّل اس لئے کہتے ہیں کہ اس میں ایسی احادیث کی اسناد پر بحث کی گئی ہے جن میں کوئی خرابی پائی جاتی ہے۔ اصل نام جامع ترمذی ہی ہے۔لیکن سنن ترمذی سے مشہور ہے۔
اِس کتاب کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ امام ترمذی ہرحدیث کے آخر میں اس کی سند کے بارے میں صحیح، حسن یاضعیف ہونے کا حکم لگاتے ہیں اور طلبہ حدیث کومدارجِ حدیث معلوم کرنے میں اس سے بہت مدد ملتی ہے؛ پھرآپ آخرابواب میں مذاہب فقہاء بھی بیان کرتے ہیں، اس سے پتہ چلتا ہے کہ ان دنوں فہم حدیث میں مذاہب فقہاء کوکس درجہ اہمیت حاصل تھی اور محدثین بیان حدیث میں فقہاء کی آراء بیان کرنے میں کوئی عار نہ سمجھتے تھے۔
حدیث کی ثلاثی تقسیم (صحیح، حسن اور ضعیف) گواپنی جگہ پہلے سے موجود تھی؛ مگرمتنِ حدیث کے ساتھ اس کی نشاندہی حدیث کی کسی اور کتاب میں اس طرح نہیں ملتی، جس طرح ہم اسے جامع ترمذی میں دیکھتے ہیں، امام ترمذی علم وفن کوموتیوں کی طرح پروتے چلے جاتے ہیں، امام ترمذیؒ کے ہاں ضعیف احادیث بھی بہت ملتی ہیں، اس سے پتہ چلتا ہے کہ ضعیف حدیثیں محدثین کے ہاں کلیۃً متروک یامردود نہ سمجھی جاتی تھیں؛ نہ انہیں موضوع قرار دیا جاتا تھا؛ بلکہ ان کا بھی ایک علمی وزن ہوتا ہے جسے مجتہدین اور ماہرینِ فن ہی جانتے تھے، امام ترمذیؒ ائمہ وامصار کے مذاہب پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں اور مختلف ابواب میں ان مذاہب کا بھی تذکرہ کرتے جاتے ہیں۔
جامع ترمذی حدیث کے آٹھوں قسم کے مضامین پر مشتمل ہے (۱)سیر (۲)آداب (۳)تفسیر (۴)عقائد (۵)احکام (۶)اشراط الساعۃ (۷)مناقب (۸)فتن، ترتیب فقہی سے آپ پہلے کتاب الطہارۃ لائے ہیں، اس لیے اسے سنن ترمذی بھی کہہ دیتے ہیں؛ مگرمضامین کی جامعیت کے لحاظ سے جامع بخاری کے بعد یہ کتاب ہے، جسے بجاطور پر جامع ترمذی کہا جاسکتا ہے، ابواسماعیل اصبہانی کہتے ہیں: “کتاب ابی عیسیٰ افید من کتاب البخاری ومسلم” حدیث کے مجموعی فوائد اور موضوع پر سیرحاصل نظرکے پہلو سے جامع ترمذی حدیث کی سب سے اعلیٰ کتاب ہے، عراقیوں اور حجازیوں کے اختلافات میں ہرپہلو پرعلیحدہ باب باندھتے ہیں، سنن کے ابواب میں ایک حدیث لاتے ہیں اور پھراس باب میں جتنے صحابہ کی مرویات ان کی نظر میں ہوتی ہیں “وفی الباب عن فلان عن فلان” کہہ کر ان کے نام گنواتے چلے جاتے ہیں، اب یہ بات دوسروں کے ذمہ ہے کہ ان روایات کی تلاش کریں کہ کس کس سند سے انہیں کس کس کتاب میں روایت کیا گیا ہے، اِس پہلو سے امام ترمذیؒ قاری کتاب کے ہاتھ میں ایک ایسی کنجی دے دیتے ہیں جس سے وہ علم کے خزانہ پر ہمیشہ دستک دیتا رہے، یہ انوکھا اور اچھوتا انداز ائمہ صحاح میں سے اور کسی کے ہاں نہیں ملتا، اس پہلو سے جامع ترمذی حدیث کی مفید ترین کتاب ہے۔
امام ترمذیؒ (۲۷۹ھ) ثقہ ہیں اور ان کی ثقاہت مجمع علیہ ہے، علامہ ابن حزم (۴۵۷ھ) نے انہیں مجہول لکھا ہے، یہ صحیح نہیں، اصل بات یہ ہے کہ ابن حزم کی جامع ترمذی اور ان کی کسی کتاب تک رسائی ہی نہ ہوئی تھی اور وہ انہیں جان نہ پائےتھے، اِسی طرح ملا علی قاری سے بھی ایک تسامح ہوا ہے، انہوں نے امام ترمذیؒ کی ایک روایت کو ثنائی (جودو واسطوں سے حضورﷺ تک پہنچے) تسلیم کیا ہے (دیکھئے: مرقات شرح مشکوٰۃ:۱/۲۱) حالانکہ ان کے شیوخ امام بخاریؒ، امام مسلمؒ اور امام ابوداؤدؒ کے ہاں جوسب سے بڑی عالی سند ہے، وہ ثلاثیات کی ہے۔
، امام نجم الدین سلیمان بن عبدالقوی الطوفی (۷۱۰ھ) نے مختصر جامع ترمذی کے نام سے اس کا ایک اختصار کیا ہے، جامع ترمذی کی کئی شروح لکھی گئی ہیں، جوعلماء میں متداول ہیں۔ ترمذی کے نام سے ایک اور محدث بھی مشہور ہیں، نوادرالاصول ان کی کتاب ہے، انہیں عام طور پر حکیم ترمذیؒ کہا جاتا ہے، ایک ترمذی کبیر کے نام سے بھی معروف ہیں، یہ ابوالحسن احمد بن حسن ہیں، امام احمد کے شاگرد اور امام ترمذیؒ (۲۷۹ھ) کے استاد ہیں، امام ترمذیؒ کی تصانیف میں کتاب العلل اور کتاب الشمائل کی بھی بہت شہرت ہے، شمائل ترمذی دورۂ حدیث میں بھی پڑھائی جاتی ہے۔
(۵)امام نسائی ؒ (۳۰۳ھ)
احمد بن علی ابوعبدالرحمن النسائی خراسان میں مرو کے قریب نَسَاء ایک قصبہ ہے وہاں کے رہنے والے تھے، نَسَاء نون کے زبر سے ہے، کچھ لوگ امام ابوعبدالرحمن نَسائی کو نِسائی پڑھتے ہیں یہ غلط ہے، نَسائی ہمزہ کے مد اور قصر دونوں طرح سے پڑھا گیا ہے۔
امام نسائی ۲۱۵ھ میں پیدا ہوئے، خراسان ان دنوں علم وفن کا مرکز تھا، امام نسائی تحصیلِ علم میں خراسان سے فارغ ہوئے توپھردوسرے مرکزِ علمی کی طرف رُخ کیا، محدثین نے طلبِ حدیث میں بڑے بڑے سفر کیئے ہیں، امام نسائی نے طلبِ حدیث میں حجاز، عراق، مصر، شام اور جزیرہ کے سفر کئے، پندرہ سال کی عمر میں وقت کے جلیل القدر محدث قتیبہ بن سعید (۲۴۰ھ) کے پاس پہنچے اور ایک سال سے کچھ زیادہ وہاں قیام پذیر رہے، جن اساتذہ کی روایتیں آپ خراسان میں بالواسطہ سن چکے تھے ایسے بہت سے بزرگوں سے بالمشافہ بھی حدیث سنی، حافظ ابنِ کثیر لکھتے ہیں:ترجمہ:دنیا کے کناروں تک سفر کیے، حدیث سننے اور ماہرینِ فن سے مجلسیں کرنے میں (عمربھر) مصروف رہے، اتنے بزرگوں سے حدیث سنی کہ اُن کا شمار نہیں کیا جاسکتا۔(تہذیب التہذیب:۱/۳۷)مصر کواپنا مرکز بنایا (اشعۃ اللمعات:۱/۱۷) اور وفات سے تقریباً ایک سال پہلے شام (دمشق) چلے آئے(تہذیب التہذیب:۱/۱۲۳) وفات سے چند دن پہلے آپ مکہ مکرمہ چلے گئے۔
امام اسحاق بن راہویہ، محمد بن بشار، قتیبہ بن سعید، امام ابوداؤد، ابوحاتم رازی، امام ابوزرعہ اور حضرت امام بخاری آپ کے اساتذہ میں سے ہیں، امام ابوبکر بن احمد بن السنی (۳۶۳ھ)، محمدبن قاسم الاندلسی (۳۲۸ھ)، حافظ ابوبشر الدولابی (۳۱۰ھ) اور حافظ ابوجعفر الطحاوی (۳۲۱ھ) اور علی بن جعفر الطحاوی (۳۵۱ھ) آپ کے تلامذہ میں سے ہیں، آپ سے سنن نسائی امام طحاویؒ کے بیٹے علی بن جعفر طحاویؒ نے روایت کی ہے۔
امام نسائی حدیث میں ثقہ ثبت اور حافظ تھے، فنِ روایت، جرح رواۃ اور معرفتِ عللِ حدیث میں اپنے اقران میں ممتاز تھے اور علمِ حدیث میں اپنے وقت کے امام تھے “کَانَ إِمَام عصرہ فِی الْحَدِیْثِ<“۔ (وفیات الاعیان:۱/۸۱)
حافظ ذہبیؒ (۸۴۸ھ) سیراعلام النبلاء میں لکھتے ہیں کہ آپ عللِ حدیث اور رجالِ حدیث کی معرفت میں امام مسلمؒ، امام ترمذیؒ اور امام ابوداؤدؒ سے بھی آگے نکلے ہوئے تھے اور ان باتوں میں امام ابوزرعہ اور امام بخاریؒ کی صف کے آدمی تھے، یہ بات صرف شخصیات کے بارے میں ہے، جہاں تک ان کی تالیفات کا تعلق ہے صحیح مسلم اور ابوداؤد فنی اعتبار سے سنن نسائی پر فائق ہیں۔۳۱۳ھ میں آ پ وفات پائے۔
سنن نسائی :
سنن نسائی جومدارس میں پڑھائی جاتی ہے اس کا اصل نام “المجتبیٰ من سنن النسائی”ہے، امام نسائی نے سنن نسائی کا یہ خوداختصار کیا ہے، امام نسائی کی سنن کبریٰ مخطوطات کی شکل میں کئی کتب خانوں میں موجود ہے، امام نسائی نے المجتبیٰ میں احادیث کی تبویب امام بخاریؒ کی طرز پر کی ہے اور کوشش کی ہے کہ تراجم ابواب میں مضمونِ حدیث کی طرف پورا اشارہ ہوجائے۔سنن نسائی پر بھی شروح وحواشی کا بہت کام ہوا ہے اور متونِ حدیث میں اسے بڑی اہمیت حاصل رہی ہے۔
(۶)امام ابن ماجہ قزوینی ؒ (۲۷۳ھ)
ابوعبداللہ محمدبن یزید بن ماجہ ایران کے شہرقزوین میں سنہ۲۰۹ھ میں پیدا ہوئے، طلبِ حدیث میں بصرہ، کوفہ اور بغداد، مکہ ومدینہ اور شام کے سفر کیئے، خراسان بھی گئے اور وہاں کے علماء سے حدیث سنی، امام مالکؒ اور امام لیث مصریؒ کے تلامذہ سے استفادہ کیا (مرقات:۱/۲۳) ۲۷/رمضان ۳۷۳ھ بروز دوشنبہ آپ کی وفات ہوئی۔
آپ نے جو سنن لکھی ہے اس میں بہت سی نادر اور غریب حدیثیں موجود ہیں۔ اس میں بعض روایتیں ضعیف بھی ہیں۔ اسلئے متقدمین نے اس کو ”صحاح ستہ“ میں شامل نہیں کیا ہے۔ ابنِ ماجہ نے سنن میں کوشش کی ہے کہ زیادہ تروہ حدیثیں لائیں جوپہلی پانچ مشہور کتابوں میں نہیں ملتیں، وہ ضعاف بھی ہوں تودوسری صحیح اور حسن احادیث کوسمجھنے میں ان سے بہت مدد ملتی ہے، آپ کہیں کہیں علاقوں کی نسبت سے بھی سند کی نشاندہی کرتے ہیں ۔
سنن ابنِ ماجہ میں پانچ ثلاثی احادیث ہیں، جوعالی سند کے اعتبار سے اس کتاب کا ایک بڑا اعزاز ہیں، یہ پانچوں روایات ایک ہی سند سے مروی ہیں، سنن ابی داؤدؒاور سنن ترمذیؒ میں صرف ایک ایک روایت ثلاثی ہے اور علیحدہ علیحدہ سند سے ہے، صحیح مسلم اور سنن نسائی میں ایک بھی ثلاثی حدیث نہیں؛ البتہ صحیح بخاری میں بائیس ثلاثی روایات موجود ہیں، سنن ابن ماجہ میں ثلاثیات کی جوسند ہے اس میں کثیر بن سلیم راوی پر محدثین نے جرح کی ہے، امام دارمی (۲۵۵ھ) کی مسند میں ثلاثیات دیگر سب کتابوں سے زیادہ ہیں۔