قرآن کے حوالے سے سائنس کی بات پر طنز بھی اسی طرح کا فیشن بن گیا ہے ،جیسا سائنس کی ہر بات کو قرآن سے نکالنے کا فیشن ۔ کسی سائنسی دریافت کا کوئی تعلق قرآن سے بنا کر کوئی بے چارہ بات کر بیٹھے تویار لوگ طعنہ ہی بنا لیتے ہیں .کسی چیز کا قرآن میں موجود ہونا جس پر بعد کا سائنسی علم دلیل بنے کوئی اچنبھے کی بات نہیں ، جسے خواہ مخواہ اچنبھا سمجھ لیا گیا ہے۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ پھر کیوں مسلمانوں کو پہلے پتہ نہ چلا؟؟اگر اس دریافت کا ذکر قرآن میں تھا تو مسلمانون نے پہلے کیوں نا دریافت کرلی ؟
یہ اتنا ہی سطحی سوال ہے جتنا زبردستی قرآن سے سائنس نکالنا، کسی سائنسی چیز کے قرآن کے ضمنی بیان سے موافق ہونے کی بات کا اس سے کیا تعلق کہ فلاں سائنسی نظریہ قرآن میں تھا تو پہلے مسلمانوں نے کیوں نہ معلوم کر لیا؟ جو بات واضح الفاظ کے قرینے سے معلوم ہو اور وہ بعد کے دور میں کسی مخصوص علم میں مہارت کے بعد دریافت ہو تو ایسی بات کو عجائب قرآن ماننے میں کیا حرج ہے۔؟
قرآن کے عجائب سے متعلق کوئی تصدیق کسی غیر مسلم سے بھی ہو سکتی ہے، یہ ایک ضمنی بات ہوتی ہے، اس پر پریشانی کی کوئی ضرورت نہیں، مثلاً قرآن بہ طور کلام الہی جب مظاہر کائنات کی بات کرے گا تو لازماً ان غلط تصورات کو اپنے بیان میں شامل نہیں کرے گا ، جو اس کے زمانۂ نزول میں رائج تھے، اس سے واضح ہے کہ یونیورس سے متعلق اس کا بیان سائنسی دلچسپی کی چیز ہو سکتا ہے، اس طرح کہ آخر کیوں قرآن نے اپنے زمانہ نزول کے تصور سے مختلف انداز سے ایک چیز کو بیان کیا! اس سے اس کے ڈیوائن کیریکٹر کا ثبوت فراہم ہوتا ہے ، جو اعجاز کا ایک بدیہی پہلو ہے۔
باقی رہا ہر ہرسائنسی بات کو قرآن سے جوڑنا تو اس رویے کے فضول ہونے میں بھی کوئی کلام نہیں۔ اس عمل کو ایک جنون اور مقصد بنا لینے کے ہم بھی مخالف ہیں کہ جو نئی سائنسی بات آئے اسے قرآن کے الفاظ کو توڑ مروڑ کر ثابت کردیا جائے۔ قرآن حقیقت کو بیان کرتا ہے، بسا اوقات سائنسدان جس متعلقہ حقیقت کو بیان کرتا ہے وہ قرآن کے محاورے کے مطابق ہوتی ہے اور بعض اوقات نہیں بھی۔ پھر سائنس بجائے خود ایک ظنی علم ہے، اس کے نظریات و مفروضات حتمی نہیں ہوتے بلکہ علم کی ترقی کے ساتھ ان میں ترمیم و اضافہ یاان کے بالکل بدل جانے کا امکان موجود رہتا ہے۔ سائنس کے سامنے جب کسی مسئلے پر کافی مواد جمع ہو جاتا ہے اور کسی حقیقت کی جھلک محسوس ہونے لگتی ہے تو قیاس یا مفروضہ (Hypothesis) نمودار ہوتا ہے، پھر جب بہت سے سائنس دان اس کو تسلیم کر لیتے ہیں اور اس کے مزید ثبوت مل جاتے ہیں تو اس کو نظریہ (Theory) کا مقام دے دیا جاتا ہے۔ پھر جب ایک لمبے عرصے تک اس نظریے کے ثبوت دنیا میں پہنچتے رہتے ہیں اور اکثر و بیشتر سائنس دان اس سے متفق ہو جاتے ہیں تو اس نظریے کو قانون (Law) کا رتبہ دے دیا جاتا ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ اس کے بعد اس میں کسی قسم کی تبدیلی کاامکان باقی نہیں رہا، بہت سی مثالیں ایسی ہیں کہ کسی قانون کو بعد کی تھیوری نے بدل ڈالا۔ لہٰذا ایک مسلمان کے شایان نہیں کہ وہ قرآن کے یقینی نصوص کو انسان کے غیر یقینی نظریات پر محمول کرے۔
یہ بات البتہ ذہن میں رہنا چاہیے کہ سائنسی نظریات کی نوعیت ثابت شدہ اور مشاہدہ میں آئے ہوئے سائنٹفک حقائق سے مختلف ہے۔ قرآن کا کوئی بیان اگر ان حقائق سے تعرض کرتا ہے تو قرآنی حوالے سے نہ صرف یہ کہ ان کی تائید کی جاسکتی ہے بلکہ کی جانی چاہیے، کیونکہ ثابت شدہ اور مشاہدہ میں آئے ہوئے سائنٹفک حقائق اور قرآنی بیانات کے درمیان ٹکراؤ ناممکن ہے۔ اسی حقیقت کے پیش نظر اہلِ علم تفسیرِ قرآن اور سائنس کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے عام سائنسی نظریات اور حقائق میں فرق ملحوظ رکھنے کو خصوصی اہمیت دیتے ہیں۔