تحریر : ابوالحسن رازی
اسلام کا تدریجی و ارتقائی اسلوب ِتربیت اور حوروں کے فضائل کی غرض و غایت
معاشر ے میں ایسے افراد بھی ہوتے ہیں جو الہامی عقائد و نظریات سے شد و مد کے ساتھ اختلاف کرتے ہیں جس کی وجوہات میری ناقص رائے کے مطابق یہ ہو سکتی ہیں ۱) ان عقائد و نظریات سے کلی یا جزوی طور پر ناواقفیت۔ ۲) ان نظریات سے متضاد و متصادم نظریات سے گمراہ کن تاثر۔ ۳) تعصب و نفرت کی خلیج ۔سوشل میڈیا پر جن خیالات اور تبصروں کامیں نے مشاہدہ کیا وہ چند سوالات ہیں جو نا بالغ ذہن کی اختراع کے سوا کوئی حیثیت نہیں رکھتے جیسے:
- کیا اسلام میں حوروں کے فضائل اور ترغیب جنسی میلان کی ترغیب ہے؟
- کیا حوریں اس عبادت کا بدل ہیںجو دنیا میں کی جاتی ہے ؟
- کیا یہ عورت کو محض جنسی تسکین کا ذریعہ سمجھنا نہیں کہلاتا ؟
- مردوں کے لیے حوروں کی ترغیب و فضائل ہیں لیکن عورتوں کے لیے اس قسم کے فضائل وترغیب کیوں نہیں بیان کیے گیے ؟وغیرہ وغیرہ
یہ تمام اشکالات اسلام کے تربیتی اسلوب کو نہ سمجھ سکنے کی وجہ سے ہےں اور مؤخر الذکر تو محض بے حیائی کا عکاس اور اسلام کے تصور حیا کو یکسر نہ سمجھ سکنے کی وجہ سے ہے۔ درا صل ان سطور کو لکھنے کا محرک بھی اسلام کے بارے میں شکوک و شبہات اور شر انگیزی پھیلانے والے فتنہ پردازوں کی سوشل میڈیا پراس قسم کی سرگرمیاں ہی ہیں ۔
اس میں کچھ شک نہیں کہ عبادت کا مقصود ِاصلی محض اللہ ہی کی رضاہے لیکن خوب ذہن نشین کر لیا جائے کہ رسول عربی ﷺ نے نہ صرف جہنم سے ڈرایا ہے بلکہ جنت کی بشارتیں بھی سنائی ہیں ۔قرآن پاک میں اللہ نے جنت کی طرف بڑھنے کا حکم فرمایا اور اس کی نعمتوں کا جا بجا تذکرہ فرمایا جن میں پاکیزہ بیویوں کا تذکرہ ان کے اوصاف اور حسن و جمال کے ساتھ فرمایا ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ آخر اسلام میں حوروں کے فضائل و استحضار کی غر ض وغایت کیا ہے ؟اگر اس سوال کے تشفی بخش جواب سے یقینی آگاہی حاصل ہو جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ مذکورہ بالا اشکالات کی کوئی گنجائش باقی رہ جائے ۔اسلام میں قرن ِاول ہی سے افراد کی تربیت کا جو نظام وضع کیا گیا وہ آج کے ہر ہر فرد کے لیے بطریق ِ اولیٰ مؤثر ہے جس کا کوئی بھی متبادل نظام ِ تربیت قطعی طور پر ناکافی اور غیر مؤثر ہو گا۔اب اسلام کے نظام تزکیہ و تربیت کے اسلوب کو سمجھنا نہایت ضروری ہے۔اسلام کا تزکیہ و تربیت کا نظام تدریجی و ارتقائی ہے جو حکمت و بصیرت سے پُر ہے جس کے مدارج اور ارتقائی مراحل میں سے چند ایک کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں۔
اول۔۔۔۔ فضائل و ترغیب اور استحضار ِ عمل(عمل پر اللہ کے وعدے کا یقین):کا مقصود افراد میں ابتداًاعمال سے موانست و مناسبت ،وابستگی و رغبت اور شوق پیدا کرنا ہے ۔مثلاًنماز ہی کو لے لیجیے اس سے وابستگی او ر رغبت پیدا کرنے اور اس کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے نہ صرف قراءت و قیام ،رکوع و سجود وغیرہ کے فضائل بیان کیے گئے بلکہ اذان کے فضائل بیان کیے گئے ،اذان کے سننے اور جواب دینے پر اجرو ثواب کی نوید سنائی گئی،مؤذن کے مناقب بیان کیے گئے ۔اُٹھان پیدا کرنے کا یہ سلسلہ یہیں پہ ختم نہ ہوا بلکہ نماز میں شغف بڑھانے کے لئے وضو کو حسن و نکھاربخشا ،اس پر سنتوں اور مستحبات کا تزین کیا گیا ،وضو میں کمال پیدا کرنے کے لیے مسواک کے فضائل اور اجرو ثواب کو بیان کیا گیا ،نماز کی عظمت پیدا کرنے کے لئے وضو کر کے گھر سے جانے والا ایسا بتلایا گیا گویا احرام باندھ کر حج کو جا رہا ہے پھر نماز کے انتظا ر میں بیٹھنے کی فضیلت بیان کی گئی کہ گویا نماز کا ثواب پاتا رہتا ہے ۔یوں صحابہ کی نماز میں بے مثل ومثال شغف و تعشق، خشوع و خضوع اور حد درجہ کمال پیدا کر دیا گیا کہ ان پر نماز کے اسرارورموز اپنی پوری حقیقت کے ساتھ کھل گئے ۔
دوم۔۔۔۔ آسان سے مشکل کی طرف :اس اصول کے تحت پہلے افراد کو ظاہری سانچے میں ڈھالا گیا ازاں بعد ترہیب و ترغیب اور اُٹھان کے ذریعے دلوں کی زمین کو خوب نرم کر کے اس قابل کیا جاتا رہا کہ اس میں ہر اگلی فصل کاشت کی جا سکے جو زیادہ محنت طلب اور قدرے مشکل بھی ہو ۔ عبادات و اخلاقیات کے مراحل سے ہوتے ہوئے افراد کو معاشرت ومعیشت اور معاملات و قضا کے دین کی تکمیل تک لے جایا گیا یوں ارتقائی و تدریجی مراحل کا یہ سلسلہ ایک حقیقی اسلامی فلاحی ریاست کے قیام پر منتج ہوا۔ مثلاًایک شخص آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ فلاں شخص رات کو نماز پڑھتا ہے اور صبح ہوتے ہی چوری کرتا ہے حضور ﷺ نے فرمایا کہ اس کی نماز اس کو عنقریب اس فعل سے روک دے گی۔تمام معاملات میں سدھار پیدا کرنا مشکل بھی ہے اور دیر طلب بھی لیکن نماز میں شغف اور خشوع و خضوع معاملات کی درستگی کی دلیل ہے۔عبادات کے دین میں استحکام کے بعدتربیت کے دائرہ کار کو اخلاقیات و معاشرت کی جانب بڑھایا تو ایسے معاشرے کی تکمیل ممکن ہوسکی جو اقوام ِعالم کے لئے نمونہ قرارپایا ۔
ذرا سوچیے ایسا کیوں نہ ہوا کہ تمام احکام شرعیہ بیک وقت نازل ہو جاتے ؟دیکھیے شراب کی حرمت اور پردے کی فرضیت کا عمر رضی اللہ عنہ کی فکر پر نازل ہونا تو ایک تکوینی امر تھا لیکن اعلان نبوت کے طویل عرصہ بعد ان احکامت کے نزول میں درحقیقت اسلام کا یہی تدریجی و ارتقائی اسلوب تربیت ہی حائل تھا گویا ان احکامات کا نزول ایک مناسب وقت کی تلاش میں تھا جیسے کسان بنجر اور سخت زمین میں بیج ہر گز نہیں ڈالتا بلکہ اس کو اس قابل بنا تا ہے کہ اس میں مطلوبہ فصل کاشت کی جا سکے بعینہ زیر تربیت عملہ کے مناسبِ احوال شرعیت مطہرہ کے احکامات متوجہ ہوتے رہے ۔انسانی تربیت کے اس نظام نے عبادات ،اخلاقیات و معاشرت اور معاملات کے دین سے ہوتے ہوئےقضا کے دین کو اپنی وسعتوں میں سمو لیا کہ ایک یہودی اور جلیل القدر صحابی حضرت علی رضی اللہ عنہ کا مقدمہ جب عدالت کے روبرو ہو تا ہے تو قاضی کا منصفانہ و عادلانہ فیصلہ یہودی کے ضمیر کو جھنجوڑکے رکھ دیتا ہے اور اسے قبول اسلام پر مجبور کر دیتا ہے ۔ پھر مصلح عظیم ﷺنے ایک فلاحی ریاست کی بنیاد رکھی اور تیس سال کی محنت شاقہ کے بعد اس دنیا سے اس حال میں پردہ فرمایا کہ ایک حقیقی اسلامی فلاحی ریاست قائم ہو چکی تھی گویا تکمیل دین کا عمل اپنی انتہا کو پہنچ چکا تھا ۔ اورآیت مبارکہ۔۔۔۔(ترجمہ:آج میں نے تمھارے لیے تمھار ادین مکمل کردیا ،تم پر اپنی نعمت پوری کر دی ،اور تمھارے لئے اسلام کو دین کے طور پر (ہمیشہ کے لئے ) پسند کر لیا ) ۔۔نازل ہوئی ۔
یاد رہے اس تمام تر تربیتی پروگرام میں محنت ِ دعوت کارفرما رہی اور آج بھی ختم نبوت کے طفیل یہی کار نبوت خیر امت کا منصب و اولین فریضہ ہے جس کی انفع صورت محض نہج نبوت پر تربیت کا یہی ارتقائی و تدریجی اسلوب ہے۔تاریخ شاہد ہے کہ جب تک امت مسلمہ اس فرضِ منصبی کو اجتماعی طور پر نبھاتی رہی تو مذکورہ بالا تما م امور میں دین کی بہاریں دکھائی دیتی رہیں جیسے ہی اجتماعی طور پر اس فریضے سے غفلت برتی گئی تو تربیت کا مذکورہ نظا م ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو تا چلا گیا اور نتیجتاًسب سے پہلے ریاستی نظا م میں بگاڑ آیا پھر قضا اور امور انتظام (Administration) کا دین جاتا رہا اور پھر معاشرت و معاملات کا وہ حال ہوا کہ آج ہم نہ صرف اپنی پہچان کھو بیٹھے ہیں بلکہ اغیار کی مشابہت کو قابل فخر سمجھتے ہیں اورآج امت کی حالت اس قدر پتلی ہو چکی ہے کہ محض عبادات کا دین کسی قدر نظر آتا ہے ۔
سوم ۔۔۔۔ قلبی کیفیت اور ظاہری نوعیت و مراتب کا لحاظ : اسلام قلبی کیفیت اور ظاہری نوعیت و مراتب کے اعتبار سے ہر سطح کے افراد کی تربیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک منظم اسلوب اختیار کرتا ہے ۔ امام غزالی ؒ فرماتے ہیں کہ عام لوگوں کی توبہ ظاہری گناہوں سے ہوتی ہے اور صالحین کی توبہ باطنی گناہوں اور مذموم اخلاق سے ہوتی ہے اور متقین کی توبہ شکوک و شبہات سے ہوتی ہے اور محبین کی توبہ ا ن اوامر سے ہوتی جو ان کویاد الٰہی سے غافل کر دیں اور عارفین کی توبہ اس مقام سے ہوتی جس پر وہ پہنچ چکے ہوں مگر اس سے مافوق دوسرا مرتبہ ہو جس پر ان کو پہنچنا چاہیے اور چوں کہ معرفت کے مراتب و منازل لا متناہی ہیں اس لیے عارفین کی توبہ کا منتہیٰ نہیں۔(تبلیغ دین)دوسرا یہ کہ آپﷺابوبکر ؓ کا سارا مال قبول فرما لیتے ہیں اور ایک دوسرے شخص سے اس لئے انکار فر ما یتے ہیں کہ ازاں بعد جز اع فزاع کے فتنے میں پڑ جائے گا ۔یہ تو محض نمونے کے طور پر عرض کیے ہیں لیکن حضور نبی کریم ﷺ کی سیرت مبارکہ میں اس قسم کے واقعات کی کمی نہیں جن میں آپ ﷺ نے افراد کے ایمان ،تقویٰ،توکل اور ظاہری نوعیت و مراتب کو مد نظر نہ رکھا ہو ۔
انسان طبعاً جنس ِ مخالف کی طرف میلان و رجحان اور حب مال و جاہ کا شکار رہتاہے ۔یہی دو چیزیں انسان کی تمام تر محنت اور کاوشوں کا مرکز و محور رہی ہیں۔مصلح کبھی بھی اپنے زیر تربیت عملہ کی طبیعت و مزاج ، میلان و رجحان کو نظر انداز نہیں کرتا ۔ یاد رہے جنس ِ مخالف کی طرف میلان و رجحان اور حب مال و جاہ انسان کی روز اول ہی سے کمزوری رہی ہیں لہٰذا ہر دو جانب سے رخ کو ہٹانے کے لئے ابتداً جنت کی حوروں ، نعمتوں کو بیان کیا جاتا ہے(یعنی فضائل و ترغیب اور استحضار عمل کے ضمن میں ) اور دنیا سے بے رغبتی پیدا کرنے کے لئے دنیا کی مذمت کی جاتی ہے اور مغیبات کے تذکرے کیے جاتے ہیں(یعنی احوال ِآخرت : برزخ ،جنت اور جہنم کو بیان کی جاتا ہے ) تاکہ محنت کا رخ پھر جائے مبادا دنیا کی عارضی شہوتوں ،لذتوں اور آرائش و زیبائش میں الجھ کر اپنے مقصد ِاصلی سے ہٹ جائے اور اپنے خالق حقیقی کو ناراض کر کے اپنی آخرت برباد کر لے ۔لیکن اصلاح ِ احوال ، تزکیہ نفس اور منازل ِسلوک طے کر لینے کے بعد اسی انسان میں نہ حوروں کی تمنا باقی رہتی ہے نہ جنت کی خواہش وہ محض اللہ ذوالجلال کی رضا کا متلاشی بن جاتا ہے ۔چوں کہ معاشرہ خاص و عام لوگوں کا مجموعہ ہوا کرتا ہے اور ایسا ممکن بھی نہیں کہ تمام تر افراد ایک ہی قلبی کیفیت ،نوعیت کے حامل ہوں لہٰذا اگر کوئی شخص کسی وجہ سے تربیت کے تمام ادوار سے نہ گذر سکے یا کسی وجہ سے اس کو تربیت کے مواقع میسر نہ آسکیں توترغیب و ترہیب سے کم از کم وہ فضائل (جنت کی حوروں اور دیگر نعمتوں) اور وعیدوں (جہنم کے عذاب) کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنی عقلی بساط اور کیفیت قلبی کی بنیاد پر کسی نہ کسی درجے میں دین سے وابستہ رہتا ہے اور خالق حقیقی کی بندگی بجا لاتا رہتا ہے۔