کیا اسلام زرتشت/پارسیت/مجوسیت سے کاپی شدہ ہے؟

13510951_1781026878800603_3528276188592417815_n

گولڈ زیہر پہلا مستشرق تھا جس نے دعویٰ کیا کہ زرتشت مذہب اسلام پر اثر انداز ہوا۔(ایگناز گولڈ زیہر،  اسلام پسندی اور فارسی، تاریخ مذاہب، 1901، جلد 18، ص 1-29) اس کے کام کو  اس وقت بہت شہرت ملی جب اسکا انگلش میں ترجمہ کیا گیا، اسکی بنیاد پر بعد میں دوسرے مشتشرقین  ٹسڈل وغیرہ نے     پارسیت کے اسلام پر اثر ثابت کرنے کے لیے مزید تھیوریز  پیش کیں  ۔   اس سلسلے میں سب سے مشہور اعتراض  واقعہ معراج  پر ہے جس کا قرآن میں ذکر اور حدیث میں اس پر تفصیل موجود ہے ، یہ دعوی کیا گیا کہ یہ واقعہ اور اسکی تفصیلات پارسیوں کی کتاب اردہ ویراف سے چرائی گئی ہیں ۔ مستشرق ٹسڈل نے اپنی کتاب ‘قرآن کے اصلی ماخذ’ میں دعوی کیا کہ  یہ کتاب اردہ ویراف ہجرت سے چار سو سال پہلے لکھی گئی تھی ۔ ابن ورق اور سٹیون مسود  نے بھی یہی رائے قائم کی  لیکن ان میں سے کسی نے بھی اسکا ثبوت پیش نہیں کیا۔ ہم  ٹسڈل کے ان  مخلص پیروکاروں میں  عبداللہ  عبد الفہدی ، گیسلر اورعبدالصلیب کو بھی شامل کرسکتے ہیں۔ جدید ملحدین کو ہم  اس لیے اس میں شامل نہیں کرتے کہ   یہ کوئی علمی لوگ  نہیں بلکہ مخالفین اسلام کا اندھا مقلد  اورتھوک چاٹ طبقہ ہے جسکا  کام بس اسلام کی مخالفت کرنے والوں کی تحریروں کے ترجمے کرکے لوگوں کو گمراہ کرنا ہے۔

ان الزمات کا ماخذ پارسی کتاب اردہ وراف نمگ ہے ۔ اردہ وراف نمگ پارسی افسانوں کا مجموعہ ہے اور ان کہانیوں میں سے ایک کہانی جو کہ اردہ وراف نامی ایک آدمی کی ہے جوکہ کچھ یوں ہے:

“ایک زمانے میں جب سرزمینِ فارس میں دوسرے مذاھب کی موجودگی بہت سی پریشانیاں اور مشکلات پیدا کر رہی تھی، اردہ وراف کو اسکی پرہیزگاری کی وجہ سے اگلے جہان کا سفر کرنے کیلئے چُنا گیا تاکہ وہ زرتشت عقائد کی حقیقت کو ثابت کر سکے۔ اس نے ایک مهلوسہ اور شراب نوش کی جسکے بعد اسکی روح نے اگلے جہان کا سفر کیا جہاں “دن” نامی ایک حسین عورت اسکا استقبال کرتی ہے۔ چینوت پل سے گزرنے کے بعد سروش سے اسکا حساب ہوتا ہے۔ پھر اسکو وہ جگہیں دیکھائی جاتی ہیں جوکہ جنت سے باہر بنائی گئی ہیں ان لوگوں کیلئے جو زرتشت مذھب کے عقائد پر ایمان نہ لا سکے۔ جنت میں وراف کی ملاقات ”آہور مزدا“ سے ہوتی ہے جو اسکو وہ روحیں دکھاتا ہے جن پر رحمت کی گئی۔ بتایا جاتا ہے کہ ہر انسان اس زندگی کا جو اس نے زمین پر بطورِ زمیندار، جنگجو، چرواہا یا کسی بھی اور شعبہ سے منسلک ہو کر گزاری، کے برعکس ایک مثالی زندگی جی رہا ہے۔ پھر اسکے حکم سے اسکو جہنم کی سیر کروائی جاتی ہے جہاں اسکو جہنمی بدبخت روحوں کو تڑپتا دکھایا جاتا ہے۔ اپنا یہ سفر مکمل کرنے کے بعد وراف کو اہورا مزدا بتاتا ہے کہ زرتشت مذھب ہی زندگی گزارنے کا واحد مکمل اور سچا راستہ ہے کہ جسکے مطابق خوشی اور تنگی میں زندگی گزاری جائے۔“

اردہ وراف نمگ کب  لکھی گئی؟

ناقدینِ اسلام میں سے کسی نے بھی سورس  کی نیچر ،  تاریخ  کی تحقیق کرنا گوارہ نہیں بلکہ دونوں واقعات کی   ایک دو باتوں میں ظاہری مشابہت  دیکھ کے دعوی کردیا کہ اس کہانی کو مسلمانوں نے  چرایا  ”واقعہ المعراج“  کے نام سے پیش کیا ہے  ۔ انکے دعوی کی بنیاد  صرف یہی بات تھی کہ  ”اردہ وراف نمگ“’275 عیسوی‘ میں لکھی گئی ہے  اور پہلے کو بعد پر فوقیت  ہوتی ۔

یہاں  سوال یہ ہے کہ کیا  واقعی اردہ وراف نمگ واقعی ’275 عیسوی‘ میں ہی لکھی گئی؟

  اردہ ویراف کی تاریخ :

اردہ وراف نمگ میں تاریخ کے دو نامور ناموں کا ذکر کیا گیا ہے؛

1-  عبدربادی مرسپانداں : شاپور دوئم (309-379 عیسوی ۔ساسانی سلطنت کا دسواں بادشاہ) کا مشہور دستور اور وزیر

2-  ویه ساپور: خسرو اول (531- 579عیسوی)کے وقت کا ایک مشہور موباد (پارسی پادری)۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اردا ویراف  کہتی ہے کہ ویراف کو ‘ویہ شاپور’ بھی کہا جاتا تھا۔

سوالات:

  1. 1. اگر اردا ویراف 275 عیسوی میں لکھی گئی ہے تو اس میں اس کے دو سو سال اور تین سو سال بعد کے لوگوں  کا ذکر کیسے آگیا ؟
  2. 2. اگر ویہ ساپور ہی ویراف ہے تو اردا ویراف 275 عیسوی میں کیسے لکھی گئی جبکہ یہ 579 عیسوی کا آدمی ہے؟

اس کا واضح  مطلب ہے کہ یہ   579 عیسوی کے بعد کسی ٹائم لکھی گئی ، فریدون وھمن (Fereydun Vahman) اردہ وراف نمگ کے (انگریزی) مترجم اردہ وراف نمگ (انگریزی ترجمہ) کے مقدمہ میں لکھتے ہیں کہ؛

”جس پیرا میں ان بزرگان کا ذکر ملتا ہے، اسکو کتاب کی صداقت بڑھانے کیلئے تبدیل کیا گیا ہے ۔ یا شائد یہ شخصیات اس وقت میں جب اس کتاب (اردہ وراف نمگ) میں ترمیم کی گئی، عزت اور احترام سے یاد کئے جاتے تھے، لیکن مصنف کو تاریخ کے اس دور کا قطعاً کوئی علم نہ تھا جس میں یہ شخصیات گزریں۔“

( اردہ وراف نمگ (انگریزی ترجمہ)، مترجم فریدون وھمن [صفحہ ١١]

ڈاکٹر والٹر بلاردی  پہلے آدمی تھے جنہوں نے اس کتاب کے متعلق یہ بات کی تھی کہ تیسری صدی  میں لکھی گئی  ہے’ وہ بھی  لکھتے ہیں کہ اسکا  مکمل باب اول(1-20) بعد کی پیداوار ہے۔

(ڈاکٹر ڈبلیو۔ بلاردی، اردا ویراف نامہ The Pehlavi Book of Righteous Viraz  ، 1979،  Biblioteca di ricerche linguistiche e filologiche ، جامع ادارہ برائے لسانیات: روم، ص 32-33، 43، 121-122)

ڈیوڈد فلیٹری اور مارٹین شیورٹز گوکہ کتاب کی  ابتداء کے متعلق ڈاکٹر والٹر بلادری سے متفق ہیں لیکن موجودہ کتاب  کے  متعلق وہ بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں  کہ یہ نویں صدی  میں لکھی گئی ۔

(D. S. Flattery and M. Schwartz, Haoma And Harmaline: The Botanical Identity Of The Indo-Iranian Sacred Hallucinogen “Soma” And Its Legacy In Religion, Language, And Middle Eastern Folklore, 1989 [Near Eastern Studies 21], University of California Press: Berkeley and Los Angles, p. 16)

تبدیلی کا عمل :

ایک مستشرق  P. Gignoux (پی۔گنکس) ، لکھتا ہے :

“یہ بات سب کو معلوم ہے کہ پہلوی ادب بڑی  سست روی سے پروان چڑھا، ایک اندازے کے مطابق مسلمانوں کی فتح کے بعد۔ بحرحال   اس نے بہت پرانی ، ساسانیوں اور اس سے پہلی کی بھی، روایات ہم تک منتقل کی ہیں۔۔ یہ بھی غور طلب بات ہے کہ  ایران میں  تحریری روایات کبھی   غیر مبدل ،  اور آخری   نہیں سمجھی گئی تھی اور نہ ہی جس سے تحریر  مسلسل تبدیلی اور تحریف کا شکار رہی  ۔ جس کی وجہ سے ادبی تنقیدی مسائل نے جنم لیا، جن کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔ ان مسائل میں سے سب سے غور طلب مختلف  مسودات کی تواریخ کا تعین ہے۔  پہلوی ادب کے  لیے متن  کی  ترسیل کی ایک واضح مثال  ‘اردا ویراف ‘  نامی کتا ب ہے  ۔۔

اسی بات کی نشاندہی   (Ms. Boyce) نے بھی اپنی کتاب کی ہے کہ  اس  کتاب کو کئی دفعہ از سرنو ترتیب دیا گیا ہے اور اس کے آخری مسودے کا تعارفی باب عربوں کی فتح کے بعد لکھا گیا تھا’۔ لیکن مذہبی   پروپیگنڈا کرنے کیلئے اس وقت جو  مواد ڈالا گیا  تھا، جب پارسیت  کو اسلام کے حملوں کے خلاف اپنا دفاع کرنا تھا ‘وہ پرانا نہیں لگتا۔فارسی کے لسانی حقائق سے یہ پتا چلتاہے کہ یہ متن 9ویں -10ویں صدی عیسوی میں  از سرنو مرتب  کیا گیا  اور اس کے بعد ہم تک یہ تحریر ی مسودہ پہنچا۔

(پی۔گنکس، کتاب اردا ویراف کے ایڈیٹر کے نام خطوط، میگزین جرمن اووینٹل سوسائٹی 1965، سپلیمنٹ 1، حصہ 3، ص 998-999)

ایرانی آزاد دائرہ المعارف (انسائیکلو پیڈیا) کے مطابق:

زرتشت مذہب کی دوسری کتابوں کی طرح ،’اردا ویراف نمگ’ بھی مسلسل تبدیلی کے عمل سے گزری۔یہ  گمان کیا جاتا ہے کہ اسکی حتمی شکل  کا ظہور  9ویں اور 10ویں صدی عیسوی میں ہوا “۔

(اردا وراف نامہ، ایران آزاد دائرہ المعارف، 1987، جلد2، رولٹیج اور کیگن پال، لندن-نیو یارک، ص 357)

ایم۔ بوئس (M.Boyce) لکھتی  ہیں:

“اپنی موجودہ محفوظ شکل میں  یہ نثر ہے جو سادہ اور  براہ راست  انداز میں لکھی گئی ہے۔ اور اسکا تعارفی باب عربوں کی فتح کے بعد کی تاریخ کا تعین کرتا ہے۔  یہ  بعد کی تبدیلی  فارس میں ہوئی تھی، اور غالباً یہ صوبے کے 9ویں -10ویں صدی کی ادبی مصنوعات میں سے  ہے ۔

(ایم –بوئس، مشرقی فارسی ادب،  کتابچہ برائے مطالعہ المستشرقین، 1968،  جلد 8 ]ایران حصہ دوم[ ، ای-جے-برِل، لیڈین، ص 48)

یہی بات اردا وراف نامہ  کے  مشہور مترجم وہمن   نے بھی لکھی ہے   اور اسکے بعد لکھتے ہیں کہ  لسانی تجزیہ نظریہ کی حمایت کرتا ہے ۔

(ایف-وہمن، اردا وراف نمگ، دی ایرانین  ڈیوائن کومینڈیا، ص 11)

پی-گنکس نے اس کتاب کا مطالعہ کیا  وہ بھی  اس نتیجہ پر پہنچا کہ یہ 9ویں- 10 ویں صدی میں لکھی گئی ۔

(بوئس، مشرقی فارسی ادب، 1968، ]ایران حصہ دوم[ ص48)

خلاصہ :

مستشرق گولڈ زیہر سے سراغ پکڑ کے بعد کے متعصب مصنفین ٹسڈل، ابن ورق، سٹیون مسود نے یہ دعوی کیا کہ  حضور صلی کے واقعہ معراج کی تفصیل   پارسی کتاب اردہ ویراف سے لی گئی ہے اسکے ساتھ  ان لوگوں نے یہ مفروضہ بھی گھڑا  کہ  یہ ساری تفصیل ہجرت کے چار سو سال  یا مسلمانوں کے دور سے کئی سو سال پہلے  لکھی گئی  تھی ۔ ان باتوں کے انکی طرف سے کوئی ثبوت نہیں دیا گیا تھا۔ انکے دعوں کے برعکس فارسی علوم کے علماء  نے اس کتاب اسکے حوالوں اور اسکی زبان پر مکمل تحقیق کے بعد  یہ ثابت کیا کہ  اردا ویراف نمگ کی موجود ہ کاپی اسلام کے آنے کے سو سال بعد    نویں –دسویں صدی عیسویں میں لکھی گئی ہے،  یہ دور پارس پر مسلمانوں کے حملے کا دور تھا اور  اسکا کہانی کا  مقصد جیسا کہ Gignoux نے لکھا اسلام کے خلاف پراپیگنڈہ کرنا اور پارسی مذہب کو اسلام سے برتر ثابت کرنے کی کوشش کرنا تھا۔ اس موضوع پر ایک تفصیلی تحقیق  ملاحظہ کیجیے۔پارسی علوم و فنون اور اسلام- ایک تحقیقی جائزہ

Leave Your Comment

Your email address will not be published.*

Forgot Password