لونڈیوں کی خریدوفروخت اور ستر متعلقہ امور

2

جنگی قیدیوں کو غلام بنا کر رکھ لینا پسے ہوئے (marginalized) طبقے کی معاشرتی شمولیت (social inclusion) کی ایک صورت بھی ہوتی ہے، یعنی بجائے انہیں قتل کرنے یا جیلوں میں ڈال دینے کے غلام بنا کر معاشرے کا ایک فرد بن کر جینے کا موقع دیا جائے۔ جدید معاشروں کے پالیسی میکرز کو یہ بہت بڑا مسئلہ درپیش ہوتا ہے کہ معاشرتی و معاشی عمل میں جو طبقات پیچھے رہ گئے ہیں ان کی معاشرتی شمولیت کس طرح ممکن بنائی جائے۔ جنگی قیدی بھی ایسا ہی ایک طبقہ ہوا کرتا ہے۔ صدر اول میں اسلام کو ایک قبائلی معاشرت سے واسطہ پڑا جہاں غلامی کا رواج پہلے سے موجود تھا۔ کسی بھی قبائلی نظم کی ایک خصوصیت اجتماعی طرز معاشرت ہوتی ہے جہاں اکیلے فرد کی زندگی کا تصور ممکن نہیں ہوتا (جدید مارکیٹ سوسائٹی، جہاں معاشرت کی بنیاد فرد ہے، میں آنکھ کھولنے والے افراد کے لئے اسے سمجھنا آسان نہیں)۔ پھر اگر یہ اکیلا فرد باہر کا ہونے کے ساتھ ساتھ دشمن کیمپ سے تعلق رکھنے والا ہو تو اس کی زندگی کا تو تصور ہی ممکن نہیں۔ اسلام نے جنگی قیدیوں کے حقوق میں ایسی ترمیمات کیں جن کے نتیجے میں ان کی معاشرتی شمولیت میں بدستور اضافہ ہوتا چلا گیا۔ اگر آج دنیا کے کسی خطے میں ایسے حالات موجود ہوں جہاں جنگی قیدیوں کو غلام بنانے کے سواء دیگر آپشن کم تر معقول ہوں تو ایسی صورت میں غلام بنالینا شرعا حرام نہ ہوگا، اگرچہ یہ بات یاد رہے کہ غلام بنانا شرع کا کوئی مطلوب ابدی حکم نہیں ہے کہ گویا اسے باعث ثواب سمجھ کر کرنا لازم ہو۔
پھر فقہ کی کتابوں میں درج بعض احکامات سے یہ نہ سمجھا جائے کہ اسلامی معاشرے گویا غلاموں سے لبا لب بھرے ہوا کرتے تھے۔ پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جس طرح بعض مسلمان شرع کے دیگر احکامات کی ادائیگی میں سخت سستی سے کام لیتے رہتے ہیں (مثلا بیویوں پر ظلم) غلاموں کے حقوق کی ادائیگی میں بھی اس قسم کی زیادتیوں کی نشاندہی کی جاسکتی ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ غلاموں اور باندیوں پر ظلم توڑنا گویا پورے معاشرے کا محبوب مشغلہ ہوا کرتا تھا۔

لونڈی کی خرید و فروخت اور اس سے متعلقہ امور کا پہلو
تکریم انسانیت کے تصورات سماجی پہلووں کے تناظر میں مختلف ہوسکتے ہیں لہذا کسی ایک کی بنیاد پر تمام معاشروں کو جانچنا درست زاوریہ نگاہ نہیں. اس کے لئے موجود ورک ایتھکس (work ethics) کا مثلا ایک ایسے زرعی ورک ایتھکس سے موازنہ کیا جاسکتا ہے جہاں ایک کسان اپنی مرضی سے اپنے کھیت پر کام کرنے جاتا ہے اور کسی باس کے سامنے جوابدہ نہیں ھوتا۔ جدید کارخانوں کے ڈسپلن پر مبنی ورک ایتکھس (جو اب یونیورسٹیوں میں بھی لاگو ہے) میں کام کے 8 یا 10 گھنٹوں میں ورکر کو اپنی مرضی سے کوئی کام کرنے (گپ لگانے، ادھر ادھر گھومنے، آرام کر لینے وغیرہ) کی اجازت نہیں ہوتی، جو مالکان کہتے ہیں بس وہی کرنا ہوتا ہے، درمیان میں 20 منٹ کھانے کا بریک ہوگا اسی وقت میں کھانا کھانا ہے وغیرہ وغیرہ۔ چنانچہ ایک ایسا معاشرہ جہاں لوگ اپنی مرضی سے اپنے کھیت میں کام کرنے کی ایتکھس کو نارمل تصور کرتے ہونگے یقین مانئیے انہیں ہمارے اداروں کا ورک ایتھکس انسانیت کی تذلیل محسوس ہوگا۔ اور یہ کوئی فرضی بات نہیں، جو لوگ اپنا کاروبار کرتے ہیں وہ کسی کی نوکری کرنے کو بعینہہ اس لئے پسند نہیں کرتے کہ انکے نزدیک یہ کسی کی غلامی کرنے مترادف ہوتا ہے جس سے انکی عزت نفس مجروح ہوتی ہے۔ اگر پرانے دور کے اساتذہ ہماری یونیورسٹیوں کو دیکھ لیں تو ہمیں سخت برا بھلا کہیں کہ تم استاد کے پیشے کی تذلیل کروارہے ہو۔ یہی وجہ ہے کہ انڈسٹرئیلائزیشن کی ابتداء میں جب مل مالکان سروئیلئنس کی کوشش کرتے تھے تو مزدور اسے اپنی توھین سمجھ کر سخت خفا ہوتے جبکہ آج کل ہر مزدور (بشمول اساتذہ) بخوشی اپنی سالانہ اپریزل رپورٹ بخوشی بھر کے دیتے ہیں، وہ بھی اس امید پر کہ شاید دھرا انکریمنٹ مل جائے۔
چناچہ کہنے کا مقصد یہ کہ یہ سوال کہ “ایک لونڈی اس سب کے نتیجے میں کیسا محسوس کرتی ہوگی” اس کا جواب بیسویں اور اکیسویں صدی کی معاشرت کا باسی طے نہیں کرسکتا، اس کا جواب تو اس معاشرے کی لونڈی اور اس زمانے کے لوگ ہی بتا سکتے ہیں۔ مسئلہ تب پیدا ھوتا ہے جب اس سوال کا جواب “ھم اپنے اصولوں کے تحت” طے کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن ھمارے اس جواب کا یہ مطلب نہیں کہ فی الواقع لونڈی بھی ایسی ہی تذلیل محسوس کرتی ہو، جب تک کہ ابتدائی طور پر یہ فرض نہ کرلیا جائے کہ “ایسا ھونا ھے ھی تذلیل”۔ یہ مفروضہ ایسا ہی ہے جیسے ھماری حقوق نسواں کی تحریکات کی خواتین یہ کہتی ہیں کہ ہمارے معاشرے کی عام گھریلو خاتون کی زندگی پسماندہ اور پسی ہوئی ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے گھروں میں خواتین کی عظیم ترین اکثریت ایسا نہیں سوچتی۔

باندیوں کے کچھ احکامات اور بے حیائی کے تصورات
یہ امر کچھ تفصیل طلب ہے، لہذا ذرا طوالت کے لئے معذرت۔ باندیوں سے متعلق سترکے بعض احکامات کو سمجھنے کے لئے اس پہلو کو مد نظر رکھنا چاہئے کہ “بے حیائی” اصلا ایک شرعی تصور ہے اگرچہ اسے پہچان سکنے کی بنیاد اللہ کی طرف سے انسان کی فطرت میں ودیت کردہ بھی ہے۔ بظاہر فی نفسہ ایک ہی فعل ایک شخص یا تناظر میں بے حیائی جبکہ دوسرے میں بے حیائی شمار نہیں ہوتا اوراس فرق کی اصل بنیاد “فعل کی نوعیت” میں تبدیلی نہیں بلکہ “حکم اللہ” اور اس حکم کو قبول کرنے کے نتیجے میں نفس کے اندر پیدا ہونے والی کیفیت کی تبدیلی ہوتی ہے۔
مثلا مجامعت کا عمل غیر محرم منکوحہ سے ہو تو شرع کی نظر میں اس میں کوئی بے حیائی نہیں، اسی بنا پر اہل ایمان اس عمل میں کوئی بے حیائی محسوس نہیں کرتے۔ لیکن اگر یہی عمل بغیر نکاح یا محرم کے ساتھ ہو تو قابل گرفت اور نفس پر شدید شنیع گزرتا ہے۔ اسی طرح ایک محرم خاتون گھر میں بسا اوقات بغیر دوپٹہ بھی ہمارے سامنے گھوم رہی ہوتی ہے، کام کاج کے دوران بعض اوقات اس کی کلائیاں بھی دکھائی دے رہی ہوتی ہیں لیکن ہم اسے بے حیائی نہیں سمجھتے، لیکن غیر محرم خواتین کے لئے ایسا عمل پسندیدہ نہیں سمجھا جاتا۔ تصورات کا یہ فرق بنیادی طور پر حکم اللہ اور اسے قبول کرکے استوار ہونے والی نفس کی کیفیات کی تبدیلی کی بنا پر ہے۔ پس معلوم ہوا کہ بے حیائی اصلا ایک شرعی تصور ہے، نفس میں موجود یہ صلاحیت کہ وہ کسی عمل کو بے حیائی سمجھ کر نفس کو اسے ترک کرنے کی ترغیب دے گی اس کا تعلق جہاں دیگر امور سے ہوسکتا ہے، حکم اللہ سے بھی ہے۔
اس تمہید کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ باندیوں سے متعلق بعض احکامات کو بے حیائی کے پیمانے پر جانچنے سے قبل یہ دیکھنا بھی لازم ہے کہ کیا شرع (نصوص) نے بھی انہیں اسی طرح بے حیائی قرار دیا ہے جیسا کہ عین اسی عمل کو آزاد غیر محرم خاتون کے لئے ناپسندیدہ کہا ہے؟ اگر شرع نے ایسا نہیں کیا تو سمجھ لینا چاہیے کہ نفس کی کیفیاتی تعمیر (جسے معیار بنا کر حکم کو جانچا جارہا ہے) میں حالات، معاشرت و اقدار کی تبدیلی کی وجہ سے شاید کچھ تنوع اور جھول واقع ہوگیا ہے۔ اس حوالے سے لازم نہیں کہ ہر معاشرت کا فرد اسے ایک ہی طرح دیکھتا رہا ہوگا۔ چنانچہ باندیوں کے حوالے سے بعض احکامات (مثلا یہ کہ ان کے ستر میں سر یا پنڈلیاں وغیرہ کیوں شامل نہیں) پر اس بنا پر اعتراض کرنا کہ “دیکھو جب ایک آزاد خاتون کے ستر میں یہ سب شامل ہے تو باندی کے کیوں نہیں؟” تو یہ سوال اپنی بنا میں کچھ ایسا ہی ہے کہ “دیکھو جب میری بہن یا ماں میرے سامنے بنا دوپٹہ گھوم سکتی ہے تو پڑوسی کی بہن یا ماں کیوں نہیں؟”
منطق کی زبان میں یوں کہا جائے گا کہ اس دلیل میں دراصل کیٹیگری مکس کرنے کی غلطی (category mixing mistake) کی جاتی ہے، یعنی اگر محرم آزاد سے غیر محرم آزاد اور غیر محرم آزاد سے باندی کی کیٹیگری بدلنے سے حکم اللہ بدلتا ہے تو لازم ہے کہ اس حکم اللہ کو قبول کرنے والے نفس کے تصورات کی کیٹیگری بھی بدلنی چاہئے۔ سب معاملات کو ایک ہی کیٹیگری میں رکھ کر احکامات کا حلیم پکالینا، یہ درست طریقہ تجزیہ نہیں۔
یہیں سے یہ بات بھی صاف ہوجانی چاہئے کہ چند لوگوں کے سامنے دو بول پڑھنے کے بعد بیوی کے ساتھ مجامعت کو بے حیائی کے دائرے سے نکال باہر کرنے والا عمل وہ دو بول نہیں بلکہ خدا کی عطا کردہ اجازت اور نفس کا اس پر راضی ہوجانا ہے۔ لہذا باندی کے ساتھ مجامعت کا حق ہونے میں حیرانی کی کوئی بات نہیں۔

لونڈیوں کے متعلق بعض تفصیلات کا پس منظر :

جس دور میں غلاموں کا ستر سمیت کوئی حق ہوتا ہی نہیں تھا ایسے دور میں اسلام نے غلاموں کے ذاتی اور معاشرتی حقوق متعین کئے۔ ماضی کی دیگر اقوام (بشمول ہیومن رائٹس کی چمپین اقوام) نے غلاموں کے ساتھ جو سلوک کیا وہ سب پر واضح ہے۔ البتہ یہ سب الگ بحثیں ہیں جو فی الوقت گفتگو کا اصل تناظر نہیں۔
شرع میں آزاد لوگوں کے مقابلے میں غلاموں سے متعلق بہت سے احکامات میں جس بنا پر فرق روا رکھا گیا ہے ان میں سے اہم تر “تخفیف” اور “مجبور طبقے کی رعایت” کا اصول ہے۔ انسانی نفسیات سے واقف حضرات یہ جانتے ہیں کہ دشمن کے جو لوگ جنگ میں قیدی بن کے آتے ہیں انکا معاشرتی مقام کبھی دوسرے لوگوں کے مساوی نہیں ہوا کرتا۔ لونڈیاں ان معاشروں میں جس قسم کی عمومی سروسز مہیا کرنے پر مامور ہوا کرتی تھیں اس کے پیش نظر ہی قرآن نے زنا کے معاملے میں ان کی سزا میں تخفیف کی ہے، کیونکہ معاشرتی طور پر زیادہ ایکسپوزڈ اور مجبور ہونے کی وجہ سے وہ زیادہ vulnerable تھیں لہذا ان سے ایسا گناہ ہونے کا خدشہ زیادہ تھا۔
اسی اصول کے پیش نظر شرع نے لونڈی کے ستر میں بھی تخفیف سے کام لیا ہے۔ ستر میں اس تخفیف کو سمجھنے کے لئے یہ ذھن نشیں رہے کہ لونڈیاں بالعموم ادنی درجے کی خواتین سمجھی جاتی تھیں جن کی طرف لوگوں کی ایسی توجہ نہیں ہوتی تھی (مثلا سمجھنے کے لئے یوں کہ جیسے گھروں میں کام کرنے والی عام سی خدو خال والی خواتین)۔ یہی وجہ ہے کہ ایسا شخص جس نے کسی آزاد خاتون سے نکاح کیا ہو فقہاء اسے لونڈی کے ساتھ نکاح کرنے کی اجازت نہیں دیتے کیونکہ یہ اس آزاد خاتون کے لئے باعث عار تھا۔
تصور کیجئے کہ دیار غیر میں بھٹے پر کام کرنے والی کسی مجبور خاتون کو ستر و پردے کے ان احکامات کا پابند بنانے کی کوشش کتنی ممکن ہوسکتی ہے جو مؤمن آزاد خواتین کے لئے مشروع کئے گئے ہیں۔ پس لونڈیوں سے متعلق ان احکامات کو بیان کرنے کا مقصد اگر تو غامدی صاحب کے مؤقف کو قابل غور بتانا ہے ۔۔۔۔۔ جو شاید نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔ تو پھر بھٹے پر کام کرنے والی مجبور و مقہور خواتین کے احکامات میں تخفیف کی بات شاید قابل غور ہو نہ کہ کالج و یونیورسٹیوں میں پڑھنے والی آزاد بچیوں کی۔
بعض اقوال سے لوگوں نے تصور قائم کرلیا ہے گویا لونڈیاں بس ناف سے گھٹنے تک ملبوس بازار میں سر عام گھوما پھرا کرتی ہونگی۔ فقہ میں مرد کا ستر ناف سے گھٹنے تک بیان کیا جاتا ہے مگر کیا ہمارے ارد گرد ہر طرف بشمول مساجد سب مرد اتنے ہی لباس میں گھومتے دکھائی دیتے ہیں؟ انسانی معاشرے بالعموم قانونی زبان میں بیان کردہ “کم از کم ایسا مطلوب جس کے بعد جرم و گناہ کی حد شروع ہوجاتی ہے” کے ارد گرد تشکیل نہیں پاتے۔ سرکاری قانون کہتا ہے کہ 33 فیصد نمبر لینے والا کامیاب ہوگا۔ فرض کریں مستقبل یا کسی دوسرے معاشرے کے نظام تعلیم میں کامیابی کا معیار یا طریقہ کچھ مختلف ہو اور اس کا باسی کہنے لگے “دیکھو یہ سب کے سب 33 نمبر لیا کرتے تھے”۔ جس طرح اس کا یہ تصور غلط ہے اسی طرح باندیوں سے متعلق کچھ احکامات سے قائم کیا جانے والا تصور بھی غلط ہے۔
ایک ایسا معاشرہ جہاں غلام اور لونڈی کے معاشرتی کردار و حیثیت ہم میں سے کسی نے دیکھی ہی نہیں اور جس کا تصور کرنا بھی شاید ہمارے لئے بہت مشکل ہے، ایسے ماحول میں برادر عمار خان نے لونڈیوں سے متعلق بعض فقہی اقوال کو جس طرح بیان کیا ہے اس کے بعد آج کا جدید طبقہ آنکھیں بند کرکے یہ تصور باندھے بیٹھا ہے گویا “فنکاروں کے ایوارڈ” نامی کسی پروگرام یا “ماڈلنگ کے کسی شو” میں بالی وڈ کی حسین و جمیل ھیروئنز جیسی لونڈیاں فقہاء کے بیان کردہ ان قانونی احکامات کے مطابق کیٹ واک کرتی جیو ٹی وی پر نشر کی جارہی ہیں اور لوگ گھر بیٹھے اس سے محظوظ ہورہے ہیں۔

 لونڈیوں کے متعلق متنازعہ تاریخی روایات کا تحقیقی جائزہ اس تحریر سے ملاحظہ کیجیے

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password