پروفیسر محمد رفیق چودھری
یہ ایک مسلّمہ اَمر ہے کہ قرآن مجید کی ایک سے زیادہ قراء تیں ثابت ہیں۔ لیکن اہلِ قرآن کہلانے والے منکرین حدیث ان اختلافِ قراء ات کو نہیں مانتے۔ وہ کہتے ہیں کہ قرآن کی صرف ایک ہی قراء ت ہے اور یہ کہ خود نبیﷺنے قرآن کو کتابی صورت میں مرتب اور مدوّن کیا اور اس پر اعراب و نقطے لگوائے تھے جبکہ یہ بات خلاف ِ واقعہ ہے۔
جناب پرویز صاحب لکھتے ہیں:
’’ہم سمجھتے ہیں کہ اس کے بعد ’اختلاف قراء ت‘ کے فتنہ کے متعلق کچھ سمجھنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی‘‘(طلوع اسلام، ص۵۶، شمارہ جنوری ۱۹۸۲ء، لاہور)
وہ مزید لکھتے ہیں :
’’قرآن مجیدجس شکل میں ہمارے پاس موجود ہے اسے خود رسول اللہﷺنے اسی طرح مرتب اور مدوّن شکل میں اُمت کو دیا تھا۔‘‘(طلوع اسلام، ص۴۲، شمارہ جنوری۱۹۸۲ء، لاہور)
اسی طرح ایک اور منکرِ حدیث رحمت اللہ طارق صاحب نے لکھا ہے :
’’اختلاف قراء ت کا فتنہ ہی لے لیجئے جس کا مودودی صاحب جیسا شخص نہ صرف معترف اور معتقد ہے بلکہ سرگرم مبلغ اور پُرجوش ناشر ہے۔‘‘(اعجاز قرآن و اختلاف قراء ت، مرتبہ تمنا عمادی:۷۴۲)
طارق صاحب نے مزید لکھا ہے :
’’ لَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اﷲِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافًا کَثِیْرًا ‘‘ (النساء :۸۲)
’’یعنی قرآن اگر غیر اللہ کا کلام ہوتا تو اس میں بہت سا اختلاف پایا جاتا۔‘‘
ظاہر ہے کہ اس ’اختلاف‘ میں صرف مطالب و مفاہیم کااختلاف ہی نہیں بلکہ الفاظ و قراء ت کا اختلاف بھی شامل ہے۔ اس قرآنی دعویٰ کی روشنی میں تو صرف یہی کہا جاسکتا ہے کہ قرآن اگر مفہوم کے اختلاف و تضاد سے پاک ہے تو قراء توں کے اختلاف سے بھی پاک ہے ۔ اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے خود اس کتاب کی حفاطت کا اِعلان کیا ہے۔’’إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ ‘‘ (الحجر:۹)
’’اگر اس عظیم الشان دعویٰ کے باوجود بھی قرآن میں قراء توں کے اختلاف کو تسلیم کر لیا جاتا تو پھر آخر قرآن کی صداقت کا معیار کیا رہ جاتا ہے۔‘‘(اعجاز قرآن اور اختلاف قراء ت، مرتبہ تمنا عمادی:۷۳۷)
اس کے بعد طارق صاحب فرماتے ہیں :
’’اعراب کے معنی ہیں الفاظ پر زیر، زبر اور پیش لگانا۔ سلف صالحین کا تو یہ عقیدہ تھا اور ہر مسلمان کا یہی عقیدہ ہونا چاہیے کہ یہ بنیادی اور عظیم کام خود آنحضرتﷺسرانجام دے گئے تھے بلکہ آپﷺنے حکم دیا تھاکہ أعربو القرآن یعنی قرآن پر اعراب لگاؤ۔‘‘ (بحوالہ مشکوٰۃ:۲۱۶۵،اعجاز قرآن اور اختلاف قراء ت، مرتبہ تمنا عمادی: ۷۵۱)
ہم اَب منکرین حدیث کے ان دعاوی کا علمی جائزہ لیں گے۔ ان حضرات کے مذکورہ بالا دعاوی میں چند در چند بنیادی غلطیاں ہیں۔ انکی پہلی بنیادی غلطی یہ ہے کہ یہ مصحف کو قرآن سمجھتے ہیں جبکہ مصحف اور قرآن میں فرق ہے۔
قرآن وہ ہے جو اُمت کے حفاظ و قراء کے حافظے میں ہے اور اس کی تحریری شکل کو مصحف کہا جاتا ہے۔
ان منکرینِ حدیث کی دوسری بنیادی غلطی یہ ہے کہ یہ لوگ لکھے ہوئے قران یعنی مصحف کو اَصل قرار دیتے ہیں اور جو قران اُمت کے حفاظ و قراء کے سینوں میں ہے اُسے کوئی مقام اور حیثیت دینے کے لیے تیار نہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ قرآن اصل ہے اور مصحف ثانوی درجہ رکھتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ جب تک کسی مصحف کی تصدیق حفاظ و قراء کے ذریعے حاصل نہ ہو وہ معتبر ہی نہیں ہے۔ (بلکہ تصدیق کے بغیر کوئی تحریر بھی قابل قبول نہیں ہوتی) کیونکہ آج بھی دنیا میں لاکھوں کی تعداد میں شائع ہونے والے مصاحف کی تصحیح اور تصدیق کا کام حفاظ و قراء حضرات ہی کرتے ہیں ان کی تصدیق کے بغیر ہم کسی مصحف کو معتبر قرار نہیں دے سکتے۔
منکرین حدیث کی تیسری بنیادی غلطی یہ ہے کہ وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ تاج کمپنی وغیرہ کا شائع شدہ مصحف نقل ہے اُس مصحف کی جسے حضرت محمدﷺ نے مرتب اور مدوّن فرمایا تھا جو ایک جلد میں سورتوں کی ترتیب سے مسلسل لکھا ہوا تھا جس پر اعراب اور نقطے بھی لگے ہوئے تھے بلکہ رموز اَوقاف کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔ جبکہ حقیقت یہ نہیں ہے بلکہ وہ ہے جو اُمت مسلمہ کے عقیدے کے مطابق ہے کہ ایسا فی الواقع نہیں ہے نہ تو نبی ﷺنے ایک جلد کی کتابی صورت میں مصحف لکھوایا، نہ اس پر اعراب اور نقطے لگوائے اور نہ رموز اوقاف کا اہتمام کیا۔یہ سارا کام بعد میں صحابہ کرامتابعین اور تبع تابعین وغیرہم کے زمانے میں ہوا۔
لیکن جو لوگ صحیح اَحادیث کا کھلم کھلا اِنکار کرسکتے ہیں وہ تاریخ جمع و تدوین قران کو کیسے تسلیم کرسکتے ہیں؟
منکرین حدیث کو معلوم ہونا چاہئے کہ قرآن نے نبیﷺ پر اُس کی تلاوت اور تعلیم کی ذمہ داری ڈالی ہے اُسے لکھوانے کا پابند نہیں کیا۔
نبی اُمّیﷺ نے جیسے قرآن زبانی طور پراُترا ویسے ہی زبانی طور پر صحابہ کرام کو سنایا اور سکھایا تھا۔ یہی اصل قرآ ن ہے جو آج تک اہل ایمان کے سینوں میں محفوظ رہا ہے اور قیامت تک انشاء اللہ محفوط رہے گا۔’’ بَلْ ھُوَ ئَایٰتٌ بَیِّنٰتٌ فِیْ صُدُوْرِ الَّذِیْنَ أُوتُوْا الْعِلْمَ۱ ٭ ‘‘ (العنکبوت:۴۹)
’’بلکہ یہ قرآن ایسی واضح آیتوں کا مجموعہ ہے جو ان لوگوں کے سینوں میں ہے جن کو علم عطا ہوا ہے۔‘‘
ویسے احتیاط کے طور پر آپﷺنے مختلف چیزوں جیسے کاغذ، چمڑا وغیرہ پر منتشر صورت میں قرآن کو لکھوا بھی دیا تھا۔ کیا منکرین حدیث یہ بتا سکتے ہیں کہ قرآن میں کہاں یہ لکھا ہوا ہے کہ اس قرآن کو جمع کرنے اور اسے کتابی صورت میں مرتب اور مدوّن کرنے کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولﷺپر ڈالی تھی، جسے پورا کیا گیا تھا۔؟
ہمارے منکرین حدیث کی گمراہی کا اصلی سبب یہ ہے کہ وہ مستشرقین (Orientalists) کی چند گمراہ کن کتابیں پڑھ کر اِسلام کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ غلطی در غلطی کا اِرتکاب کرتے ہیں۔ ان لوگوں کو یہ توفیق نہیں ہوتی کہ وہ قران مجید، صحیح احادیث، اِجماع اُمت اور مستند تاریخی مواد کو براہِ راست اُمت ِ مسلمہ کے معتمد علماء و فقہا کے ذریعے سمجھنے کی سعی کریں۔
بات یہ ہے کہ قرآن مجید کی مختلف قراء توں کو فتنہ قرار دینا منکرین حدیث کی مجبوری بھی ہے۔ اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ چونکہ مختلف قراء توں کا وجود اَحادیث اور اجماع اُمت سے ثابت ہوتا ہے اور ان لوگوں کو حدیث اور اجماع کے الفاظ ہی سے چڑ ہے۔
صورت واقعہ یہ ہے کہ نبیﷺاور صحابہ کرامکے زمانۂ مبارک میں عربی عبارت پر نقطے اور اعراب لگانے کا رواج بالکل نہ تھا۔ آج بھی عرب ممالک میں عربی کتب پر اعراب نہیں لگائے جاتے۔ مصاحف پر نقطے اور اعراب لگانے کا کام تو بہت بعد کے ادوار میں انجام پایا تھا۔
آج دنیا میں نبیﷺکا وہ نامۂ مبارک اَصلی حالت میں موجود ہے جو آپﷺنے شاہ مصر مقوقش کو لکھا تھا۔ جو مہر شدہ تھا۔ اس کی نقل اب سیرت کی کتابوں میں بھی دیکھی جاسکتی ہے اور اب انٹرنیٹ پر بھی دستیاب ہے۔ اس نامۂ مبارک کی عبارت پر بھی نہ تو اعراب لگے ہوئے ہیں اور نہ نقطے۔
اسی طرح آج اَمیر المؤمنین حضرت عثمان کے تیار کردہ کچھ مصاحف دنیا میں موجود ہیں اور اُن پر نہ نقطے ہیں اور نہ اعراب۔ اسی مصحف عثمانی کی ایک فوٹوکاپی مدینہ منورہ کی مسجد نبوی کے کتب خانے میں بھی موجود ہے جس کا راقم نے خود مشاہدہ کیا ہے اور اس میں اعراب اور نقطے موجود نہیں ہیں۔
ہمارا چیلنج ہے کہ منکرین حدیث نبیﷺ یا صحابہ کرام کے زمانے کا کوئی ایسا مصحف دکھا دیں جس پر اعراب اور نقطے موجود ہوں: ھَاتُوْا بُرْھَانَکُمْ إِِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ
رہی بات اختلاف قراء ت کی تو اس کے خلاف طارق صاحب نے جن دو دلیلوں کا سہارا لیا ہے وہ ہمارے نزدیک غلط ہیں۔
اُن کی پہلی دلیل یہ ہے کہ قرآن میں ہے:
’’ وَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِاﷲِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافًا کَثِیْرًا ‘‘ (النساء :۸۲)
’’اور اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے آیا ہوتا تو وہ اس کے اَندر بڑا اختلاف پاتے۔‘‘
تو اس کا یہ مطلب ہے کہ چونکہ قرآن ہر قسم کے اختلاف سے پاک ہے، لہٰذا وہ قراء ت کے اختلاف سے بھی پاک ہے۔ لیکن اُن کا یہ استدلال کسی طرح صحیح نہیں ہوسکتاکیونکہ مذکورہ آیت میں اختلاف کا لفظ ’تضاد ‘ (Contradiction) کے معنوں میں آیا ہے نہ کہ اختلاف (Variety) کے معنوں میں۔ اللہ تعالیٰ کے اِرشاد کا مطلب یہ ہے کہ قرآن مجیدکے مضامین اور اس کی تعلیمات میں باہمی کوئی تضاد نہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ ایک جگہ توحید کی تعلیم دے اور دوسرے مقام پر شرک کو جائز قرار دے یا کسی جگہ آخرت کا عقیدہ بیان کرے اور کہیں وہ اس عقیدے کی نفی کردے۔ اس کا کوئی مضمون اور اُس کی کوئی تعلیم تضاد سے آلودہ نہیں۔
خود طارق صاحب کو بھی اختلاف کے ان معنی کا اِحساس تھا اس لیے انہوں نے اپنی عبارت میں ایک جگہ ’اختلاف و تضاد‘ کو مترادف بھی لکھ دیا ہے تاکہ لوگوں کو دھوکا اور فریب دیا جاسکے۔
عربی زبان کی طرح ہماری اُردو زبان میں اختلاف کا لفظ تنوع کے معنی میں بھی آتا ہے۔
ذوق کا مشہور شعر ہے:
گلہائے رنگ رنگ سے ہے زینت چمن
اے ذوق اس جہاں کو ہے زیب اختلاف سے
اس شعر میں اختلاف کا لفظ تنوع (Variety) کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔
قرآن میں اختلاف کا لفظ تنوع کے معنی میں سورۃ الروم آیت ۲۲ میں استعمال ہوا ہے :
’’ وَاخْتِلَافُ أَلْسِنَتِکُمْ وَأَلْوَانِکُمْ۱ ‘‘’’اور تمہاری بولیوں اور رنگوں کا اختلاف یعنی ایک دوسرے سے مختلف ہونا۔‘‘
قراء توں کا اختلاف بھی تنوع (Variety) کا اختلاف ہے اور یہ تضاد نہیں ہے۔
قرآن مجید سے متعلق بیسیوں اختلافات موجود ہیں مگر وہ سارے تنوعات (Varieties) کے اعتبار سے ہیں نہ کہ تضادات (Contradictions) کے لحاظ سے اور اس سے اُس کی صداقت اور عصمت پر کوئی حرف نہیں آتا۔
مثال کے طور پر قرآن مجید میں درج ذیل اختلافات پائے جاتے ہیں:
(١) مختصر اور طویل سورتوں کا اختلاف (کوئی سورت چھوٹی ہے اور کوئی بڑی)
(٢) چھوٹے بڑے رکوعات کا اختلاف (کوئی رکوع چھوٹا اور کوئی بڑا ہے)
(٣) سورتوں کی آیت کی تعداد میں اختلاف (کسی سورت میں چند اور کسی میں سینکڑوں آیتیں ہیں)
(٤) سورتوں کے ناموں کا اختلاف (ایک ہی سورت کے کئی دوسرے نام ہیں جیسے سورۃبنی اسرائیل کو سورۃ الاسراء بھی کہا جاتا ہے۔)
(٥) سورتوں کے آغاز میں بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ لکھنے اور نہ لکھنے کا اختلاف۔(ہر سورت کے شروع میں بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ لکھا گیا ہے مگر سورۃ توبہ اس سے خالی ہے)
(٦) سورتوں کے افتتاح کا اختلاف : (کوئی سورت حروف مقطعات سے شروع ہوتی ہے، کوئی حمد باری تعالیٰ سے کوئی کسی اور مضمون سے)
(٧) ایک ہی واقعے کو بیان کرنے میں اختلاف: (کبھی ایک ہی تاریخی واقعہ مختلف مقامات پر مختلف انداز میں بیان ہوا ہے جیسے ’قصۂ آدم و حواo‘ ہر جگہ مختلف انداز اور مضمون کی کمی بیشی کے ساتھ بیان ہوا ہے۔)
(٨) ایک ہی لفظ کو مختلف طریقوں سے لکھنے کا اختلاف: لفظ ’رحمت‘ کو بعض جگہ ’رحمۃ‘ (الانبیاء:۱۰۷) اور بعض جگہ ’رحمت‘ (الروم:۵۰) لکھا گیا ہے۔ اسی طرح لفظ لعنت کو کسی جگہ ’لعنۃ‘ (البقرہ:۱۶۱) اور کسی جگہ ’لعنت‘ (آل عمران:۶۱) لکھا ہوا ہے۔ لفظ الرسول کو کہیں ’الرسول‘ (البقرہ:۱۴۳) کو کہیں ’الرسولا‘ (الاحزاب:۶۶) لکھ دیا گیا ہے۔
(٩) حضرت محمدﷺکو خطاب کرنے میں اختلاف آپﷺ کو کسی جگہ ’یٰٓأَیھا الرسول‘ (اے رسولﷺ)، کہیں ’یٰٓأَیھا النبی‘ (اے نبیﷺ) اور کہیں ’یٰٓأَیھا المزمل‘ (اے چادر میں لپٹے ہوئے) کہہ کر خطاب کیا گیا ہے۔
(١٠) مصر کے جادوگروں کی بات کو بیان کرنے میں اختلاف :
ایک مقام پر ہے کہ انہوں نے یوں کہا تھا: ’’ رَبِّ مُوْسٰی وَ ھٰرُوْنَ ‘‘ (الشعراء:۴۸)
دوسری جگہ پر ہے کہ یوں کہا گیا تھا: ’’ رَبِّ ھٰرُوْنَ وَ مُوْسٰی ‘‘ (طہٰ:۷۰)
(١١) بعض ’افعال‘ کو بیان کرنے میں اختلاف:
ایک مقام پر ہے کہ قوم فرعون بنی اسرائیل کے بچوں کو قتل کرتے تھے: ’’ یُقَتِّلُوْنَ ‘‘ (الاعراف:۱۴۱)
انہی کے بارے میں دوسری جگہ ہے کہ وہ ذبح کرتے تھے: ’’ یُذَبِّحُوْنَ ‘‘ (البقرہ:۴۹)
(١٢) ایک ہی واقعے میں صیغوں اور ضمیروں کے استعمال میں اختلاف:
ایک مقام پر جمع کا صیغہ ہے: ’’ إِنَّا مَعَکُمْ مُّسْتَمِعُوْنَ ‘‘ (الشعراء:۱۵)
’’بے شک ہم تمہارے ساتھ سننے والے ہیں۔‘‘
’’ إِنَّنِیْ مَعَکُمَآ أَسْمَعُ وَ أَرٰی ‘‘ (طہٰ:۴۶) ’’بے شک میں سنتا اور دیکھتا ہوں‘‘
(١٣) حضرت موسیٰ کے عصا کا سانپ یا اَژدھا بننے کا اختلاف؛
وہ اَژدھا تھا۔ ’’ ثُعْبَانٌ ‘‘ ’’اژدھا‘‘ (الاعراف:۱۰۷)
وہ سانپ تھا ۔ ’’ حَــیَّــــــۃٌ ‘‘ ’’سانپ‘‘ (طہٰ :۲۰)
(١٤) ایک ہی ’شخص‘ کو دو الگ الگ نام دینے کا اختلاف:
پہلے اُسے ’’إِبْلِیْسَ ‘‘ (طہٰ:۱۱۶) کہا گیا، پھر اُسی کو ’’ الشَّیْطٰنُ ‘‘ (طہٰ:۱۲۰) کہہ دیا۔
اسی طرح حضرت الیاس کو ایک جگہ ’’ إِلْیَاسَ ‘‘ (الصافات:۱۲۳) کہا گیا، پھر دوسری جگہ اُنہی کو ’’إِلْیَاسِیْنَ‘‘ (الصافات:۱۳۰)کہا گیا ہے۔
(١٥) سجدۂ تلاوت کے مقامات میں اختلاف :
کیا سورۃ الحج میں دو سجدے ہیں یا ایک ہی سجدۂ تلاوت ہے۔
(١٦) اسماء حسنیٰ میں اختلاف:
الأَوَّلُ … (الحدید:۳)۔۔۔الأٰخِرُ …(الحدید:۳)۔۔۔الظّٰھِرُ … (الحدید:۳)۔۔۔الْبَاطِنُ … (الحدید:۳)
(١٧) قرآن کے صفاتی ناموں میں اختلاف:
الْفُرْقَان … (الفرقان:۱)۔۔۔الذِّکْر … (الحجر:۹)
(١٨) قیامت کے ناموں میں اختلاف:
الْوَاقِعَۃُ … (الواقعہ:۱)۔۔۔الْقَارِعَۃُ … (القارعہ :۱)
(١٩) رموز اَوقاف کا اختلاف:
کہیں گول تا ’ ۃ ‘ ہے، کہیں وقف لازم ’م‘ ہے کہیں و قف جائز ’ج‘ اور کہیں وقف مطلق ’ط‘ ہے۔
مگر ایسے تمام اختلافات جو کہ حقیقت میں تنوعات (Varieties) ہیں، کے باوجود قرآن مجید کی حقانیت، صحت اور عصمت پر کوئی حرف نہیں آتا وہ ہر لحاظ سے برحق، صحیح اور محفوظ ہے۔
پھر جب مذکورہ ’اختلافات‘ کے ہوتے ہوئے قرآن کی صداقت متاثر نہیں ہوتی تو کیا ایک قراء توں کے اختلاف سے اُس کی صداقت متاثر ہوجائے گی اور وہ مشکوک ٹھہرے گا؟ حالانکہ قراء توں کا اختلاف بھی تنوع ہے نہ کہ تضاد۔
اوپر طارق صاحب نے اختلاف قراء ت کے خلاف جو یہ حدیث پیش کی ہے کہ نبیﷺنے یہ حکم دیا تھا :
’’ أَعْرِبُوا الْقُرْآنَ‘‘۔ (شعب الإیمان للبیہقي: ۳/۵۴۸)
تو اَوّل تو یہ حدیث ضعیف ہے کیونکہ اس میں ایک راوی عبداللہ بن مقبری ہے جو کہ ضعیف راوی ہے جیسا کہ مرعات شرح مشکوٰۃ جلد ۴ کے ص۳۵۲ پر تصریح کی گئی ہے۔ دوسرے لفظ ’أعربوا‘ کا ترجمہ ’اعراب لگاؤ‘ بالکل غلط اور عربیت کے خلاف ہے۔
اہل علم جانتے ہیں کہ صرف و نحو کی اصطلاحات عہد نبویﷺمیں ہرگز موجود نہ تھیں۔ یہ اعراب رفع نصب جر اور تنوین وغیرہ کی اصطلاحیں بعد کی پیداوار ہیں جو نحویوں نے ایجاد کی تھیں۔ قرآن و حدیث کو نحویوں کی اصطلاحات سے پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش گمراہی کا باعث بھی بن سکتی ہے۔
سورۃ النور میں آیا ہے:
’’ فِیْ بُیُوتٍ أَذِنَ اﷲُ أَنْ تُرْفَعَ ‘‘ (النور:۳۶)
اس کو اگر نحویوں کی زبان سے سمجھنے کی کوشش کی جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے في بیوت کو في بیوت (مرفوع) پڑھنے کی اجازت دے رکھی ہے اور یہ مفہوم صرف منکرین حدیث کی کھوپڑی میں آسکے گا، کسی صاحب ِ علم کے دماغ میں ہرگز نہیں آسکتا کیونکہ فی (حرف ِجار) کے بعد کا اسم مجرور ہی ہونا چاہئے او في بیوت کو فی بیوت پڑھنا بالبداہت عربیت کے خلاف ہے اس طرح آیت کا اصل مطلب غارت ہوکر رہ جائے گا۔
زیر بحث ضعیف حدیث میں أعربوا القرآن کا درست ترجمہ یہ ہے:
’’قرآن پاک کے معانی واضح کرو۔‘‘
کیونکہ عربی زبان میں أعرب یعرب إعراباً کے معنی بات کو واضح کرنے اور اچھی طرح بیان کرنے کے ہیں نہ کہ الفاظ پر اعراب لگانے کے۔
مشہور و مستند عربی لغت ’لسان العرب‘ میں ہے :
’’الإعراب والتعریب معناھما واحد، وھو: الإبانۃ۔ یقال: إعراب عنہ لسانہ وعرب أي أبان وأفصح۔ أعرب الکلام وأعرب بہٖ: بینہ رجل عربي اللسان إذا کان فصیحا۔‘‘(لسان العرب، ابن منظور)
عقل کے اَندھے منکرین حدیث اگر کبھی اپنے ہاں کا کوئی لکھا ہوا قرآن ہی کھول کر دیکھ لیتے تو ان کو اس کے اندر بھی قراء توں کا اختلاف نظر آجاتا جہاں کئی قرآنی الفاظ کی دو دو قراء تیں لکھی ہوئی موجود ہیں۔ (مگر یہ لوگ تو قرآن کا متن نہیں پڑھتے محض اس کے انگلش تراجم پڑھتے ہیں۔)
مثال کے طور پر سورۃ البقرہ آیت ۲۴۵ میں ہے :
’’ وَاﷲُ یَقْبِضُ وَ یَبْصُطُ ‘‘ میں یَبْصُطُ کو یَبْسُطُ بھی پڑھا جاتا ہے اور اس کے لیے حرف صاد کے اوپر چھوٹا سین (س) ڈال دیا جاتا ہے۔
اسی طر ح سورۃ الغاشیہ آیت ۲۲ میں ہے : ’’ لَسْتَ عَلَیْھِمْ بِمُصَیْطِرٍ ‘‘
اس میں بِمُصَیْطِرٍ کو بِمُسَیْطِرٍ بھی پڑھا جاتا ہے اور اس لفظ کے حرف صاد پر بھی چھوٹا سین لکھا ہوا ہے۔
لیکن منکرین حدیث بڑے ڈھیٹ اور بے شرم واقع ہوئے ہیں۔ ایک طرف وہ صحیحین کی معتبر اَحادیث کو نہیں مانتے مگر دوسری طرف ہوائے نفس کی خاطر ضعیف بلکہ موضوع حدیثوں کو دلیل بناتے ہیں۔ صحیح اَحادیث کے مقابل میں تاریخ کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ قرآن مجید کی من مانی تفسیر اور دور از کار تاویلیں کرتے ہیں۔ علمائے اِسلام پر اعتماد کرنے کی بجائے مستشرقین کو اپنا مرشد مانتے ہیں۔ حکومت وقت کی خوشامد ان کا پیشہ ہے اور اپنا مؤقف بار بار بدلنا ان کا شیوہ ہے۔ آپ ان کے کسی ایک اعتراض کا جواب دے دیں وہ جھٹ سے دوسرا اعتراض گھڑ کر پیش کردیں گے۔ اَللّٰھُمَّ اھْدِھِمُ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ
(بشکریہ ماہنامہ رشد)