اعتراض :
حضرت عثمانؓ نے مصحف کو مرتب کرنے والی جماعت کے تینوں قریشی اَراکین سے یہ فرمایا تھا:
”إذا اختلفتم أنتم وزید بن ثابت في شيء من القرآن فاکتبوہ بلسان قریش فإنما نزل بلسانھم””جب تمہارا زید بن ثابت ؓسے قرآنِ کریم کے کسی لفظ کے متعلق اختلاف ہوجائے تو اسے قریش کی زبان میں لکھنا، کیونکہ قرآن اُن کی زبان میں نازل ہوا ہے۔
”اور اس فرمان پر عمل بھی ہوا۔ اگرحضرت عثمان ؓنے ساتوں حروف باقی رکھے تھے تو ان کے اس فرمان کا کیا مطلب سمجھا جائے؟
جواب :
مصاحف ِعثمانیہ سات حروف کی ان تمام جزئیات پر مشتمل تھے جن کا رسم عثمانی متحمل ہوسکتا تھا اور ان میں وہ تمام قراء ات موجود تھیں جو عرضۂ اخیرہ ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جبرائیل ؑ کے ساتھ آخری دَورِ قرآن) میں باقی رکھی گئی تھیں ۔ مصاحف ِعثمانیہ کا رسم نقطوں اور اِعراب سے خالی رکھا اسی وجہ سےتھا کہ ان میں ساتوں حروف سما سکیں ۔لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہر ہر مصحف میں ساتوں حروف کی تمام تر جز ئیات جمع تھیں ، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر مصحف حروف ِسبعہ کی ان تمام جزئیات پر مشتمل تھا جو اس کے رسم میں سما سکتی تھیں ۔ باقی رہیں حروف سبعہ کی وہ جزئیات جو ایک رسم کے تحت نہ آسکیں ، اُنہیں ان چھ مصاحف میں تقسیم کردیا گیا تھا۔مثلاً {وَوَصّٰی} کی قراء ت مدنی اور شامی مصحف میں موجود نہیں ہے، لیکن باقی چاروں مصاحف میں موجود ہے۔ اسی طرح سورت توبہ کے آخر میں {تَجْرِي مِنْ تَحْتِھَا} صرف مکی مصحف میں موجود ہے، باقی میں {تَجْرِیْ تَحْتَھَا}ہے۔ اسی طرح کچھ اور قراء ات بھی ہیں جو ایک رسم میں سما نہ سکنے کی وجہ سے بعض مصاحف ِعثمانی میں موجود ہیں ، بعض میں نہیں ہیں ۔ جبکہ{فَتَبَیَّنُوْا} {ھَیْتَ لَکَ} اور{اُفٍّ} جیسے الفاظ کا رسم چونکہ تمام قراء ات متواترہ کا متحمل ہے، لہٰذا اُنہیں لفظوں اور اعراب سے خالی رکھ کر تمام مصاحف میں جگہ دی گئی۔
1. حضرت عثمان ؓ کے اس فرمان کا یہ مطلب سمجھنا کہ اُنہوں نے چھ حروف کو ختم کر کے صرف حرف ِقریش کو باقی رکھا تھا ، سرا سر غلط ہے کیونکہ صرف روایت حفص ہی کو دیکھیں تو اس میں بھی لغت قریش کے علاوہ اور لغات بھی موجود ہیں۔ ۔حقیقت یہ ہے کہ اس ارشاد سے ان کا مطلب یہ تھا کہ قرآنِ کریم کی کتابت کے دوران اگر کہیں رسم الخط کے طریقے میں کوئی اختلاف ہو جائے تو قریش کے رسم الخط کو اختیار کیا جائے۔ ۔اس کی دلیل یہ ہے کہ کتابت ِقرآن کے دوران صحابہ کرامؓ کی جماعت کے درمیان صرف ایک اختلاف پیش آیا۔اور وہ اختلاف یہ تھا کہ قرآن کی آیت{أَن يَأْتِيَكُمُ ٱلتَّابُوتُ…﴿٢٤٨﴾…سورة البقرة} میں لفظ التابوت کو کس انداز سے لکھا جائے، آیا لمبی تا کے ساتھ التابوت لکھا جائے یا گول تا کے ساتھ التابوة لکھا جائے۔یہ معاملہ جب حضرت عثمانؓ کے سامنے پیش ہوا تو اُنہوں نے فرمایا : ”اسے التابوت لکھو ، کیونکہ قرآن قریش کی زبان میں نازل ہوا ہے ۔”اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ حضرت عثمان ؓنے جس اختلاف کا ذکر فرمایا تھا، اس سے مراد محض رسم الخط کا اختلاف تھا کہ جملہ قراء ات کے سلسلے میں قریشی رسم الخط کو ترجیح حاصل ہے۔
چند دلائل:
1۔ مصاحف ِعثمانیہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے صحیفوں کو سامنے رکھ کرتیارکئے گئے تھے اور علما کا اس بات پر اِجماع ہے کہ صدیقی صحیفوں میں سبعہ اَحرف کی وہ تمام جزئیات موجود تھیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تواتر کے ساتھ ثابت تھیں اور ان میں صرف وہی قراء ات اورآیات درج تھیں جو عرضۂ اخیرہ کے وقت باقی رکھی گئی تھیں اور ان کی تلاوت منسوخ نہیں ہوئی تھی اور یہی صدیقی صحیفے ہی درحقیقت مصاحف ِعثمانیہ کی بنیاد اور مصدر تھے جن کو سامنے رکھ کر مصحف ِعثمانیہ کو مدوّن کیا گیا تھا۔
2۔ کسی ایک صحیح یا ضعیف روایت سے بھی ثابت نہیں ہے کہ حضرت عثمانؓ نے کاتبینِ قرآن کو یہ حکم دیا ہو کہ وہ صرف ایک حرف پر اکتفا کریں اور باقی چھ حروف کو ترک کردیں ۔
3۔ کوئی بھی مسلمان جو صحابہ کرامؓ کے دین میں رسوخ اور کتاب اللہ کے ساتھ ان کی والہانہ محبت اور قرآنِ کریم کو دنیوی و اُخروی سعادتوں کا محور سمجھنے کے عقیدہ سے واقف ہے، کبھی یہ تصور نہیں کرسکتاکہ اس وقت موجود ۱۲ ہزار سے زائد صحابہ کرامؓ نے حضرت عثمان ؓ کی اِن ‘حروف’ کے ختم کرنے پر تائید کی ہو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تواتر کے ساتھ ثابت ہیں ۔ دورِ عثمانؓ میں جمع قرآن کے محرکات جو کچھ بھی تھے، لیکن اُمت ِمسلمہ کو متحد کرنے اور اُنہیں اختلاف سے بچانے کے لئے حضرت عثمان قرآنِ کریم میں سے کوئی چیز حذف نہیں کرسکتے تھے اور نہ ہی اُنہوں نے کی۔بلکہ اس صورتِ حال میں اُنہیں یہی کرنا چاہئے تھا کہ حروفِ سبعہ میں سے جو کچھ تواتر سے ثابت ہے ،اس کے لحاظ سے قرآنِ کریم کو لکھنے کا حکم دیتے۔ اور اُمت کو اس تواتر پر قائم رکھتے اور اُ نہیں بتاتے کہ ان کے علاوہ دیگر قراء ات شاذ جنکی شروع میں آسانی کی خاطر نازل اجازت دی گئی تھی اور عرصۂ اخیرہ کے وقت اُنہیں منسوخ کردیا گیا تھا، لہٰذا اب نہ اُن کی قراء ت جائز ہے اور نہ ہی اُنہیں قرآن سمجھنا درست ہے۔ یہی وہ صحیح طریقہ تھا فتنہ کی بیخ کنی، اُمت ِمسلمہ کی صفوں میں اتحاد پیدا کرنے اور نزاع کو ختم کرنے کا اور اسی طریقہ کو ہی حضرت عثمان ؓ نے اختیار کیا تھا اور اسی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ؓ نے ان کی موافقت اور تائید کی تھی۔
4۔ معترضین کا یہ دعویٰ کہ حضرت عثمان ؓ نے کاتبینِ قرآن کو صرف لغت قریش باقی رکھنے اور دیگر لغات کو ختم کرنے کا حکم دیا تھا، اگر صحیح ہوتا تو اس کا لازمی تقاضا تھا کہ قرآنِ کریم قریش کے سوا دیگر لغات سے خالی ہوتا، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ قرآنِ کریم میں لغت ِقریش کے سوا دیگر لغات کے بھی بے شمار کلمات موجود ہیں ۔ قرآنِ کریم میں ان کلمات کا وجود اس حقیقت کا واضح ثبوت ہے کہ مصاحف ِعثمانیہ میں صرف لغت ِقریش پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ حروفِ سبعہ کی وہ تمام جزئیات اُن میں موجود ہیں جو تواتر سے ثابت اور عرضۂ اخیرہ کے وقت برقرار رکھی گئی تھیں ۔
علمائے امت کی آراء:
جمہور علماء کی رائے یہی ہے کہ اسطرح حضرت عثمانؓ کا مقصد ’’ سات حروف‘‘ کو ختم کرنانہ تھابلکہ انھوں نے توانھیں ہمیشہ کے لیے محفوظ کیالیا۔ یہ نقطۂ نگاہ علامہ ابن حزم نے الفصل فی الملل میں، مولانا عبد الحق حقانی نے مقدمہ تفسیر حقانی میں ،علامہ زرقانی نے مناہل العرفان میں بیان کیاہے آپ نے درحقیقت ایسا رسم الخط اختیار فرمایا کہ اس کی موجودگی میں تمام قرأتوں والے اپنے اپنے انداز کے مطابق پڑھ سکیں ۔
علامہ جزری لکھتے ہیں:
فقہاء قراّء اور متکمین کی جماعتوں کا نقطۂ نگاہ یہ ہے کہ عثمان مصاحف ساتوں حروف پرمشتمل ہیں ۔‘‘(النشر فی القراءت العشر، ابن الجزری، جلد اول، صفحہ 31،المکتبۃ التجاریہ مصر)
علامہ بدر الدین عینی ،امام ابوالحسن علی اشعری کا قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :
واقعہ یہ ہے کہ ساتوں حروف ہماری موجودہ قرأت میں موجود ہیں ۔(عمدۃ القاری ، کتاب الخصومات، جلد12، صفحہ 258)
علامہ زرکشی نے قاضی ابوبکر کا قول نقل کیاہے کہ :
صحیح بات ہے کہ یہ ساتوں حروف حضوراکرم صلعم سے شہرت کے ساتھ منقول ہیں اأمہ نے انھیں محفوظ رکھاہےاور حضرت عثمانؓاورصحابہ کرام نے انھیں
مصحف میں باقی رکھا۔(البرہان فی علوم القرآن، جلد اول ، صفحہ 151، زرکشی، داراحیاء، الکتب، العربیہ)
ان حضراتِ گرامی کے علاوہ علامہ علی القاری،علامہ زرقانی، شاہ ولی اﷲ، علامہ انور شاہ کشمیری ، علامہ زاہد الکوثری نے اسی نقطہ نگاہ کا اظہار کیا ہے۔
علامہ زاہد لکوثری لکھتے ہیں :
’’بہت سے لوگوں نےابن جریر طبری کے مقام سے متاثر ہوکر یہ رائے قائم کرلی ہے کہ اس وقت قرآنِ مجید صرف ایک ہی حرف پر
موجودہے۔۔۔ابن جریرکی رائے نہایت سنگین اور خطرناک ہے”۔ (مقالات کوثری، صفحہ 21)
علامہ انور شاہ کشمیر ی ؒ بھی ابن جریر کے اس خیال کو مصحفِ عثمانؓ میں ’’سات حروف‘‘ ختم کردئے گئے، درست تسلیم نہیں کرتے۔ فرماتے ہیں کہ دراصل علامہ ابن جریر طبری پر’’سبعہ احرف ‘‘کے صحیح معافی واضح نہیں ہوسکے۔(فیض الباری، جلد سوئم، صفحہ 321-322)
حضرت عثمان کا فرمان کہ قرآن کو قریش درست کرلیں گے :
حضرت عثمانؓ کے تیار کردہ نسخہ پرایک اعتراض یہ کیا گیا ہے کہ:آپ کے سامنے آپ کاتیار کردہ نسخہ لایا گیا تو آپ نے فرمایا:’’بے شک قرآنِ مجید میں ‘‘لحن‘‘ہے ۔ عرب اپنی زبان سے اسے درست کرلیں گے‘‘۔(کتاب المصاحف صفحہ 32)
روایت کی سند:
اس سلسلے میں علامہ محمود آلوسی نے وضاحت کی ہے ۔ آپ لکھتے ہیں یہ روایت حضرت عثمانؓ سے بالکل ثابت نہیں ۔ اس روایت کی سند مقطع اور مضطرب ہے اور اس کے راوی ضعیف ہیں ۔(روح المعانی، آلوسی، جلد اول، صفحہ 28)
وہ مزید لکھتے ہیں :مصحف عثمانؓ پر صحابہ اکرمؓ کا اِجماع ہے۔رسم عثمانی وحی سے بھی ثابت ہے۔حدیث نبوی کی رُو سے غلطی پر اجماع ہوہی نہیں سکتا ۔
ا س روایت میں مذکور ہے حضرت عثمانؓ نے ’’جمع قرآن کمیٹی‘‘کے ارکان کاخطاب کرتے ہوئے فرمایا:یعنی تم سے اچھا اورعمد ہ کام کیا ہےاگر اس کام میں کوئی غلطی ہوتی تو آپ اس غلطی کی تحسین کیو ں کر فرماسکتے تھے۔
ابو عبید ہ نے عبد الرحمٰن بن ہانی سے نقل کیاہے کہ میں حضرت عثمانؓ کے پاس تھاکہ تبانِ مصاحف،مصحف کے حصّے آپ کے سامنے پیش کرتے تھے تواس میں لم یتسن، لا تبدیل لخلق اللہ لکھا ہواتھا۔آپ نے تینو ں مقامات پر قلم دوات منگواکرغلطی کی اصلاح فرمادی ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عثمانؓ ذاتی طورپر مصحف کو چیک کرتے تھے اور غلطیوں کی اصلاح فرمایا کرتے تھے۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے فرمان کی حقیقت:
اس اعتراض کاایک جواب یہ بھی ہے کہ یہاں ’’لحن‘‘ سے مراد غلطی نہیں بلکہ قرآن کے وہ صحیح الفاظ مراد ہیں جو اہلِ عرب کی زبان پرچڑ ھے ہوئے نہ تھے اوریہ الفاظ ان کی طرزِ گفتار کے مطابق نہ تھے۔ ایسے الفاظ کے بارے میں حضرت عثمانؓ نے فرمایا تھاقرآنِ مجید میں ایسے انداز کے الفاظ ہیں جنھیں عرب بار بار پڑھنے سے صحیح طور پر پڑھنے لگیں گے اوران کی زبانیں رفتہ رفتہ اس طرزِپر پڑھنے کی عادی ہو جائیں گی۔
اس میں شک نہیں کہ لفظ ’’لحن ‘‘دو معنوں میں مشترک ہے ۔ایک معنیٰ غلطی ہے اور ایک طرزِکلام۔ یہاں دوسرامعنیٰ مراد لیاجائے گا کیونکہ اس دور میں مسئلہ لحن بمعنی طرز کلام کا ہی تھا ۔یہی معنیٰ اما م راغب اصفہانی نے مفردات القرآن میں بیان کیاہے کہ اسے ’’لحن محمو د‘‘کہا جاتا ہے۔اسی کے متعلق شاعر کہتا ہے۔
‘اچھی بات وہ ہے جو ایک خاص طرز سے کہی جائے ‘
یہی معنیٰ خود قرآنِ مجید کی آیتِ مبارکہ ولتعرفن فی لحن القول میں استعمال کیاگیاہے۔ بخاری شریف میں حضورﷺکاایک فرمان موجود ہے ۔یعنی فریقینِ مقدمہ میں سے کبھی ایک فصیح طرزِ کلام کا ماہر ہوتاہے اس کی بات سن کر فیصلہ کردیتا ہوں ۔ لہٰذاگر کسی بھائی کا حق اسے
میں وہ اسے ہر گزنہ لے ۔ یہ اس کے حق میں آگ کا ایک ٹکڑاہے۔
یہاں ’’لحن ‘‘سے رسم الخط کا لحن بھی مراد ہو سکتا ہے کہ رسمِ مصحف عثمانی میں بعض جگہ ملفوظ اور مکتو ب الفاظ مو افق نہیں لیکن عرب اہلِ زبان اپنی زبان سے اسے درست پڑھ لیں گے۔