کیا مستشرق ایک فرضی کردار ہے ؟

b

مستشرقین  پر تحاریری سلسلے کے دوران کچھ سوالات ہمیں انباکس میں موصول ہوئے، انکا جواب اس خیال سے کہ شاید یہ اشکالات کسی اور قاری کے ذہن میں بھی یہ سوال ہوں ‘ یہاں پیج پر بھی پیش کیا جارہا ہے..
1۔ بہت سے لوگوں کے سامنے جب مستشرقین کا ذکر کیا جاتا ہے تو وہ جواب میں کہتے ہیں کہ یہ اسلامی دشمنی اور اسلام کے خلاف سازش کی باتیں ملا ئی ذہن کی پیداوار ہیں، ملا کو ہر بات میں ہی سازش نظر آتی ہے، کوئی اتنا فارغ نہیں کہ ملائی اسلام کے خلاف اپنی زندگیاں لگائے اور سازشیں کرے۔
2۔کیا وجہ ہے کہ مستشرقین یہودونصاری اسلام سے اتنی نفرت اور انتہاپسندی کا شکار ہوئے؟ کیا حضورﷺ یا خلفائے راشدین نے انکے ساتھ ظلم کا معاملہ کیا ؟ کہیں اس کے پیچھے یہ وجہ تو نہیں کہ انہیں لوٹا گیا، انکے ساتھ ظلم کیا گیا؟
کیا مستشرق ایک فرضی کردار ہے ؟
ہم نے اس موضوع پر جو گزشتہ تحریرات پیش کی ہیں شاید انکے بعد ایسے کسی سوال کا تفصیلی جواب دینا بنتا نہیں ، ان میں کوئی بھی بات محض دعوی یا زبانی جمع خرچ نہیں بلکہ ہم نے ان تحاریر میں بیسوں مستشرقین کے نام اور انکی کتابوں کا بھی ذکر کیا ہے، ان میں جو کچھ جس انداز میں لکھا گیا ہے اس پر بھی تبصرہ موجود ہے، تمام تفاصیل حوالوں کے ساتھ موجود ہے۔ پھر بھی اگر کسی کو اس متعلق اشکال ہو تو وہ خود ان کتابوں کو دیکھ سکتا ہے، مستشرقین کے متعلق یہ بات کہنا محض لاعلمی اور جہالت کی وجہ سے ہے، مستشرقین، انکے کام، مقاصد، مخصوص تحقیقاتی اداروں کا انکار کرنا سورج کا انکار کرنا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اپنے لیے اس اصطلاح کا استعمال وہ لوگ خود بڑے فخر سے کرتے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں Orientalism, by Edward Said ، Islam and the West: The Making of an Image, by Norman Danielیہ دو کتابیں بھی دیکھی جاسکتی ہیں ۔
معترض نے یہ بھی لکھا کہ کوئی اتنا ویلا نہیں کہ ملائی مذہب کے خلاف سازشیں کرے ، خود کو کھپائے۔ اس بات کے پیچھے شاید جہالت سے ذیادہ معترض کا اپنا اسلام اور علماء سے حسد کارفرما ہے۔ مستشرقین کی اسلام پر کتابوں کا انکار یہ دیسی لبرل ہی کرسکتے ہیں ۔ جب انکی کتابیں موجود ہیں تو اگلا سوال یہ کیا جاسکتا ہے کہ انکا مقصد کیاہے؟
ہمیں یہ جواب موصول ہوا کہ انکا ایسا کوئی مقصد نہیں تھا جو آپ بیان کرتے ہیں ۔ عرض کیا پھر کیا مقصد تھا ؟
یہ کہنا بھی صحیح نہیں ہوسکتا کہ مستشرقین کا عمل تحقیقات اسلامی کسی مقصد کے بغیر ہو تا رہا ہے یا ہو سکتا ہے، کسی ذی ہوش آدمی کا ارادی عمل بغیر علّت غائی یعنی مقصدِ عمل کے ممکن نہیں ہے۔ کیا وہ اسلام قبول کرنا چاہتے تھے ؟ کیا وہ حق کی تلاش میں تھے؟ کیا انہیں اسلام پر مغز کھپائی کا شوق تھا؟
یقینا یہ ساری محنت اور حکومتوں اور اوقاف کی طرف سے اتنے بڑ ے پیمانہ پر کام کوئی مقصد رکھتا ہے اور یقینا ان اعمال کا کو ئی مقصد ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ اس کا مقصد صرف تلاشِ علم ہو سکتا ہے لیکن یہ خیال اس لیے محض با طل ہو جا تا ہے کہ ہم قدیم زمانہ سے اس کام میں زیادہ تر ان ہی حضرات کو منہمک پاتے ہیں جو عیسائیت کے پُر جوش مبلغ ہیں اور آج تک اکثریت ان ہی مبلغین کی، اس کام میں مشغول نظر آتی ہے، جو دین مسیحی کے بہترین مبلغ ہیں۔ہم گزشتہ تحاریر میں کئی ناموں کا ذکر کرچکے ہیں ، ذرا ان چند ناموں پر بھی غور کیجئے یہ سب مسیحی پادری ہیں اور مدتوں تک مرتاض راہب رہ کر انہوں نے تر بیت پا ئی ہے:
پادری الیا نو المتوفی 1589ء
پادری ریلو المتوفی 1848ء
پادری مارٹن المتوفی 1880ء
پادری بلن المتوفی 1891ء
پادری ایوجی المتوفی 1895ء
پادری کو ش المتوفی 1895ء
پادری ژی کوپر المتوفی 1904ء
پادری جو لیان المتوفی 1911ء
پادری بروبر المتوفی 1919ء
پادری میکارتھی المولود 1913ء
پادری بولومواے المتوفی 1929ء
پادری زیموفین المتوفی 1928ء
پادری ڈیورنڈ المتوفی 1928ء
پادری مالون المتوفی 1938ء
پادری لامنس المتوفی 1938ء
پادری کولنگیٹ المتوفی 1938ء
پادری لاپیرے المتوفی 1950ء
پادری مونٹوڈے المولود 1880ء
پادری ہنری چارلس المولود 1900ء
پادری فلیش المولود 1904ء
یہ سب مبلغ (مشنری) اور پادری ہیں اور کلیسا کے مذہبی عہدہ دار ہیں۔ انہیں بیش قرار تنخواہیں کلیسا اور اوقاف کلیسا سے ملتی رہی ہیں۔ظاہر ہے کہ ایک مسیحی راہب اور کلیسا کا عہدے دار کلیسا کی تنخواہ لے کر اسلام پر تحقیقات کسی مقصد اور کسی جذبہ کے ما تحت کر سکتا ہے۔ اور یورپ کی استعماری حکومتوں نے ان پر جو کروڑوں رو پے خرچ کیے یا کر رہی ہیں ان کا کیا مقصد ہو سکتا ہے؟
عربی زبان سے ریاضیات، فلکیات، کیمیا، طب، نباتیات اور حیوانیات کی کتابوں کے ترجمے کرنے والوں کو شاید یہ کہہ دیا جائے کہ محض تلاشِ علم کے لیے یہ سب کچھ کر رہے ہیں یا کرتے رہے ہیں لیکن ایسے حضرات بہت ہی کم ہیں اور ہمارے مو ضوع سخن سے اس مقالہ میں یہ لو گ خارج ہیں اسلامی عقائد، قرآن حکیم، اسلامی تاریخ، سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم اور اسلامی تصوف پر تحقیقات کر نے والے ان مسیحی خانقاہ نشینوں اور مبلغوں کا مقصد صرف تلاشِ علم و ہنر کیسے ہو سکتا ہے؟
مستشرقین کی اسلامی تحقیقات کا مقصد جو ان تحریروں سے صاف ظاہر ہوتا ہے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈہ، استعمار کے لیے راستہ کی ہمواری اور مسلمانوں میں تفریق پھیلانے کی جدو جہد کے سوا کچھ اور نظر نہیں آتا۔ اس مقصد کے لیے وہ بڑے خلوص اور تندہی سے کام کرتے ہیں تحقیق کے نام سے منافقوں اور اسلام دشمن اشخاص کے قدیم اقوال ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر نکالتے ہیں۔ ہم پہلے بھی لکھ چکے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ متونِ کتاب کی طباعت و اشاعت میں انہوں نے جو کام کیا ہے۔ فہرست سازی اور اشاریہ نویسی میں جو محنتیں انہوں نے کی ہیں وہ لائق صد آفریں ہیں ان کی محنت و مساعی سے بہت سی نایاب اور قیمتی کتابیں چھپ کر ہمارے لیے قابلِ حصول ہو گئیں۔ لیکن جہاں انہوں نے تر جمہ و تحشیہ کا کام کیا ہے یا کتاب لکھی ہے۔ وہاں کبھی بالارادہ اپنے جذبہ عداوت کے ماتحت اور کبھی محض اپنی جہالت سے کتاب کو کیا سے کیا بنا کے بھی رکھ دیا ہے اور عجیب عجیب گل کھلائے ہیں مثال کے لیے مشہور مستشرق فلوگل کو لیجئے انہوں نے قرآن مجید کا ایک نسخہ چھاپا الفاظ کی فہرست مرتب کی اور 1842ء میں ایک وسیع لغت الفاظ قرآن مجید کا شائع کیا۔ اس لغت میں انہوں نے 39 الفاظ کے غلط عربی مادے لکھ دئیے اور نتیجتا معانی بدل ڈالے مثال کے لیے ان پانچ الفاظ کو دیکھیے:
(1) اثرن کا مادہ “ا- ث- ر” قرار دیا حالانکہ اس کا صحیح مادہ فعل “ث- و- ر” ہے۔
(2) المخاص کا مادہ “خ- و – ص“ قرار دیا حالانکہ اس کا صحیح مادہ فعل ” م- خ -ص “ ہے۔
(3) استبقوا کا مادہ “ب- ق -ی“ قرار دیا حالانکہ اس کا صحیح مادہ فعل “س – ب- ق“ ہے۔
(4) وقرن کا مادہ “ق – ر-ن“ قرار دیا حالانکہ اس کا صحیح مادہ فعل “ق -ر-ر” ہے۔
(5) مقیلا کا مادہ “ق – و- ل“ قرار دیا حالانکہ اس کا صحیح مادہ فعل “ق- ی- ل“ ہے۔
اس تبدیلی سے معانی بالکل بد ل گئے۔ یہ وہ مسٹر فلوگل ہیں جن کو مستشرقین کے نزدیک سندِ مستند کا مقام حاصل ہے۔
چونکہ ہمیشہ سے یہ اعتراض مسیحیت پر کیا جاتا رہا ہے کہ انجیل مقدس کے نام سے جو کتاب پیش کی جاتی ہے وہ حضرت عیسیٰ کی غلط اور فرضی سوانح عمری ہے۔ اس میں ایک الفاظ بھی وحی الٰہی کا نہیں ہے اور یہ اعتراض بالکل صحیح ہے۔ دنیا میں کہیں وحی الٰہی کا ایک لفظ بھی بجزنا قرآن مجید کے مو جود نہیں ہے۔ یہ امر واقعہ ہے اس کا کوئی جواب عیسائی مبلغین کے پاس نہیں ہے۔ اس لیے مستشرقین نے اپنی تحقیقات اسلامی کا سارا زور اس پر لگا دیا ہے کہ قرآن مجید بھی اصلی نہیں ہے اور قابلِ اعتماد نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے وہ عجیب عجیب دلاول پیدا کرتے ہیں۔ مثلا گولڈ زیہر اپنی کتاب “مذاہب التفسیر الاسلامی“ میں لکھتے ہیں کہ قرآن مجید کے ایک لفظ کی صحت بھی قابلِ اعتماد نہیں۔ کیونکہ ابتدا جب اسے لکھا گیا تھا تو حروف پر نقطے نہیں تھے۔ اس لیے لو گوں نے نہ جانے کیا لکھا تھا اور پڑھا۔
ذرا غور فرمائیے اس فاضل مستشرقین نے کیا بات پیدا کی ہے۔ جس قوم میں مادر زاد اندھے حافظ رہے ہوں اور جس میں آج تک استاد سے شاگرد کی طرف علم کی منتقلی بذریعہ صوت آواز ہو اس میں نقطہ کی اہمیت کیا ہے۔ صحابہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کی زبانِ اقدس سے آواز سنتے تھے یا لکھی ہو ئی تحریر وں سے قرآن مجید یاد کرتے تھے۔ اور آج تک کسی مسجد اور کسی مدرسہ میں قرآن مجید بغیر معلم کی آواز کے بلیک بورڈ پر لکھ کر پڑھا جاتا ہے۔ قرآن مجید کی آواز مد، سکون، وقف، سکتہ یہ سب کچھ بذریعہ روایت محفوظ ہے اس کے لیے حروف اور نقطہ کی ضرورت بھی کہاں پڑتی ہے؟
شاید گولڈ زیہر کا مقصد یہ ہے کہ جب وحی آتی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم اسے لکھوا کر اس لیے محفوظ فر ما دیتے تھے کہ لوگ آکر مسجد میں رکھے ہو ئے اس نو شتہ کو پڑھ لیا کریں اور آپ کسی کو زبان سے کچھ نہیں سنایا کرتے تھے۔یہی ہو تا تو حضرت عبدا للہ بن ام مکتوم نا بینا صحابی نے قرآن مجید کیسے یاد کیا اور ناحرف شناس تو بہت سے حافظ قرآن صحابہ میں مو جود تھے۔
اسی طرح کی مہمل دلیلوں اور مغالطوں کے ذریعہ حضرات مستشرقین یہ ثابت کر نا چاہتے ہیں کہ تورات شریف اور انجیل مقدس کی طرح قرآن مجید بھی دنیا سے ناپید ہو گیا۔ اسی طرح سیرت طیبہ، اسلامی تاریخ اور فقہ اسلامی میں طرح طرح کے شک پیدا کر نے کی کبھی بالارادہ کو ششیں کرتے ہیں اور کبھی نقصِ مطالعہ اور غرورِ علم و فضل کی آمیزش سے ایسی باتیں لکھ جاتے ہیں:
سنئیے ایک مبلغ اور مستشرق ہیں “لوئی ونڈر مین“ انہوں نے ایک علمی مجلس میں یہ اعتراض کیا کہ ام المومنین بی بی خدیجة الکبریٰ کے گھر حضرت زبیر اکثر جاتے تھے۔ اور کبھی کبھی وہیں سو بھی جایا کرتے تھے۔ ام المومنین ان کے سر میں کنگھی بھی کر دیتی تھیں حالانکہ اسلام میں کسی عورت کا غیر مرد سے اس طرح خلا ملا جائز نہیں ہے۔
“اس اعتراض کے بعد جب انہیں بتا یا گیا کہ حضرت ام المومنین بی بی خدیجة الکبریٰ حضرت زبیر کی حقیقی پھوپھی تھیں اور ان ہی نے بچپن سے ان کو پا لا تھا کو ئی غیر نہ تھیں” تو نہایت معصومیت سے فرمایا اچھا یہی بات ہوگی۔”
مثالوں سے بات بڑی طویل ہو جائے گی اس لیے اب میں اس گفتگو کو ختم کرتا ہوں۔

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password