کیا جزیہ صرف اسلام ہی کا طریقہ ہے یا اس سے پہلے بھی حکمراں جماعت اپنی رعایا سے اس قسم کی رقم وصول کرتی تھی؟
جزیہ کچھ اسلام کی محدثات (نئی پیدا کی ہوئی باتوں) میں سے نہیں ہے، بلکہ یہ تمدن قدیم سے رائج چلا آرہا ہے۔ ایتھینز کے رہنے والے یونانیوں سے پانچویں صدی قبل مسیح میں سواحل ایشیاء کوچک کے رہنے والوں پر جزیہ مقرر کیاگیا تھا اورانھوں نے اس جزیہ کا تقرر اس ذمہ داری کے مقابلہ میں کیا تھا جو انھوں نے ان مقامات کے باشندوں کو اہل فینیفیہ کے حملوں سے محفوظ رکھنے کی بابت اٹھائی تھی اور فینیفیہ اس زمانے میں فارس کا مقبوضہ ملک تھا۔ ان سواحل کے باشندوں کو اپنی جانوں کی حفاظت کے مقابلہ میں مال کا دے دینا آسان معلوم ہوا اور انھوں نے اسے خوشی کے ساتھ منظور کرلیاتھا۔ رومانی لوگوں نے جن قوموں کو زیر کرکے اپنا تابع و فرماں بردار بنایا ان پر انھوں نے مسلمانوں کے اس مقدار جزیہ سے جس کو فاتحین اسلام نے اس زمانہ کے بہت عرصہ بعد مقرر کیاتھا کہیں اور کئی حصہ بڑھ کر جزیہ مقرر کردیاتھا؛ کیوں کہ رومانی لوگوں نے جس زمانہ میں گال (فرانس کا ملک) فتح کیا ہے تو انھوں نے وہاں کے ہر ایک باشندہ پر جزیہ مقرر کیا تھا جس کی تعداد ۹ سے ۱۵ گنی سالانہ تک کے مابین ہوتی تھی، یا یوں کہنا چاہیے کہ مسلمانوں کے مقرر کردہ جزیہ سے سات گنی تھی۔
پروفیسر خلیق احمد نظامی نے متعدد مستند حوالوں کی روشنی میں ثابت کیاہے کہ اسلام سے پہلے اوراس کے بعد بھی دنیا کے مختلف ممالک اور ملل کے سربراہ اپنی رعایا سے ایک مخصوص رقم وصول کرتی تھی، جو اسلامی جزیہ سے ہرگز مختلف نہیں، چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ:تاریخی شواہد سے ثابت ہے کہ اسلام سے پہلے جزیہ کا لفظ رائج ہوچکا تھا اور نوشیرواں عادل نے اس کے قواعد بھی مرتب کیے تھے۔ ایران اور روم میں اس طرح کے ٹیکس لیے جاتے تھے۔ عرب کے جو علاقے ان کے زیر نگیں تھے وہ اسی طرح کے ٹیکسوں سے واقف تھے۔ ہندوستان کے شہری بھی اس قسم کے ٹیکسوں سے ناواقف نہ تھے۔ قنوج کا گہروار خاندان ایک ٹیکس ترشکی ڈانڈا وصول کرتا تھا۔ ٹاڈنے لکھا ہے کہ اس کے زمانہ میں بھی بعض راج پوت ریاستیں ایک روپیہ فی کس وصول کرتی تھی۔ ڈاکٹر ترپاٹھی کا خیال ہے کہ کم و بیش اسی نوعیت کے ٹیکس فرانس میں Hoste tax ،جرمنی میں Commen Penny انگلستان میں Sculage کے نام سے وصول کیے جاتے تھے۔
علامہ شبلی نعمانی نے بھی اپنی تحقیق میں وضاحت کی ہے کہ جزیہ اسلام سے بہت پہلے کی پیداوار ہے اور غالبا نوشیرواں کے عہد میں نہ صرف اس کا نفاذ ہوا بلکہ اس نے اس حوالے سے باضابطہ اصول و ضوابط مرتب کیے۔ اس ضابطے میں معزز حضرات شامل نہ کیے گئے اور صرف متوسط اور مفلوک الحال لوگوں سے جزیہ بمعنی ٹیکس وصول کیا جاتا رہا۔
جزیہ اور ذمی کی اصطلاح جدید دور میں :
برطانوی شہری قانون کو دیکھیں تو ایلین کی اصطلاح نظر آتی ہے ۔ اس اغیار (Aliens) سے مراد وہ تمام لوگ ہیں جو کسی دوسری قومیت سے تعلق رکھتے ہوں اور کسی دوسرے اسٹیٹ کی وفاداری کے ملتزم ہوں مگر برطانوی حدودِ مملکت میں مقیم ہوں ۔ان مختلف قسم کے اشخاص کے متعلق حسبِ ذیل اصول قابلِ ملاحظہ ہیں۔
1. اغیار میں سے ہر شخص جو برطانوی رعایا ہونے کے لئے ضروری شرائط کی تکمیل کرچکا ہو،یہ اختیار رکھتا ہے کہ اپنی سابق قومیت ترک کرکے برطانوی قومیت میں داخل ہونے کی درخواست کرے۔اس صورت میں سیکریٹری آف اسٹیٹ اس کے حالات کی تحقیق کرنے کے بعد شاہ برطانیہ کی اطاعت و وفاداری کا حلف لے کر اُسے برطانوی قومیت کا سرٹیفیکٹ عطا کردے گا۔
2. کوئی شخص خواہ پیدائشی رعایا ئے برطانیہ ہو یا باختیارِ خود برطانوی رعایا میں داخل ہو ا ہو،ازروئے قانون یہ حق نہیں رکھتا کہ مملکت برطانیہ کی حدود میں رہتے ہوئے کسی دوسری قومیت کو اختیار کر لے اور اسکی مخالف کسی دوسرے اسٹیٹ کی وفاداری کا حلف اٹھائے ۔ برطانوی قانون جنہیں”اغیار” کہتا ہے ان کی حیثیت تھوڑے سے فرق کے ساتھ وہی ہے جو اسلامی قانون میں ان لوگوں کی حیثیت ہے جو “ذمی”کہلاتے ہیں۔جس طرح برطانوی رعایا کا اطلاق پیدائشی اور اختیاری رعایا پر ہوتا ہے اسی طرح اسلام میں بھی “مسلمان” کا اطلاق دو قسم کے لوگوں پر ہوتا ہے ایک وہ جو مسلمانوں کی نسل سے پیدا ہوں،دوسرے وہ جو غیر مسلموں میں سے باختیار خود اسلام قبول کریں۔
ذمی کی بحث کو سمجھنے کے لئے یہ ذہن نشین کرلینا ضروری ہے کہ برطانوی قانون میں “غیر” (ELIEN) سے مراد وہ شخص ہے جو تاج برطانیہ کی وفاداری کا ملتزم نہ ہوا اور برطانوی حدود میں آکر رہے ایسے شخص کو بشرطیکہ وہ جائز طریقے سے ملک میں آئے اور ملک کے قوانین و نظم و نسق کا احترام ملحوظ رکھے،برطانوی حدود میں تحفظ تو عطا کیا جائے گا مگر مکمل حقوق شہریت نہ دیئے جائیں گے۔حقوق شہریت صرف اُن لوگوں کا حصہ ہیں جو تاج برطانیہ کی وفاداری کے ملتزم ہوں ۔
اس کے برعکس اسلام کا دستوری قانون اُن لوگوں کو غیر مسلم قرار دیتا ہے جو خدا اور رسول کی وفاداری کے ملتزم نہ ہوں پھر وہ ان کو حیثیات اور حقوق کے لحاظ سے اس طرح تقسیم کرتا ہے:
1. جو غیر مسلم باہر سے اسلامی مملکت میں جائز طریقے سے آئیں اور ملک کے قوانین اور نظم و نسق کے احترام کا التزام کریں وہ”مستامن”ہیں ان کو تحفظ عطا کیا جائے گا۔مگر حقوق شہریت نہ دیئے جائیں گے۔
2. جو غیر مسلم اسلامی مملکت کے مستقل اور پیدائشی باشندے ہوں اُن کو بھی اسلامی قانون (تمام دنیا کے دستوری قوانین کے بخلاف)یہ حق دیتا ہے کہ وہ مملکت میں “غیر مسلم”بن کر رہیں یعنی خدا اور رسول کی وفاداری کے ملتزم نہ ہوں۔ایسے لوگ اگر اسلامی مملکت کی اطاعت و خیر خواہی کا اقرار کریں تو اسلامی قانون ان کو “ذمی رعایا” بنا لیتا ہے اور اُنہیں صرف تحفظ ہی عطا نہیں کرتا بلکہ ایک حد تک شہریت کے حقوق بھی دیتا ہے۔
3. باہر سے آنے والے غیر مسلم بھی اگر ذمی رعایا بننا چاہیں تو ذمّیت کی شرائط پوری کرکے وہ اس زمرے میں شامل ہوسکتے ہیں اور ان کو بھی تحفظ کے ساتھ نیم شہریت کے حقوق مل سکتے ہیں۔لیکن ذمّی بن جانے کے بعد پھر ان کو یہ حق نہیں دیا جاسکتا کہ وہ اسلامی مملکت میں رہتے ہوئے “ذمّہ” سے خارج ہوسکیں “ذمّہ”سے نکلنے کی صورت ان کے لئے صرف یہ ہے کہ مملکت سے نکل جائیں۔
جزیہ اسلامی تناظر میں :
آج اغیار (Aliens) سے غیر مسلم حکومتیں شہری حقوق اور رہائش، سیکورٹی، انکم کے بیسوں ٹیکس وصول کرتی ہے ،اسلامی ریاست غیر مسلموں سے ؎ سالانہ جزیہ کی ایک قلیل مقدار ہی وصول کرتی تھ ،اس کے برعکس مسلمانوں کو صدقہ،زکوٰة اور عشر اداکرنا پڑتاتھا،جوجزیہ سے کہیں زیادہ ہوجاتاتھا۔ دراصل جزیہ ایک طرح کابدل تھا جس کے اداکرنے کے بعد ذمی تمام پابندیوں سے آزاد ہوجاتے تھے اور ساتھ ہی اس کی جان ومال کی حفاظت کی ذمہ داری سربراہ مملکت پر عائد ہوجاتی تھی۔اس کے ساتھ ہی مسلمانوں پر اور کئی اہم ذمہ داریاں عائد ہوتی تھیں ۔ایک تو انہیں جنگ میں حصہ لینا پڑتا، تو دوسری طرف انہیں سرحد کی حفاظت کرنی پڑتی تھی۔آج بھی حکومت عوام سے سالانہ ایک متعین رقم وصول کرتی ہے ،ملک میں رہنے والی ہر قوم سے ۔تو اس کی کیاتوضیح کی جائے گی۔ دراصل اس قسم کی رقم حکومت وصول نہ کرے تو پھر ملک کا نظم ونسق چلانا مشکل ہوجائے گا۔
جب کسی نئے علاقہ کوفتح کرکے مسلمان اس پر اقتدار حاصل کرلیں تو مفتوحین میں سے جو لوگ مسلمانوں کی حکومت تسلیم کرکے اس ملک میں رہنا چاہیں اور عہدکریں کہ وہ مملکت کے خلاف بغاوت اور سازش میں ملوث نہ ہوں گے تو اب حکومت کے لیے ناگزیر ہو جاتا ہے کہ ان مفتوحین کو ذمی کی حیثیت سے تسلیم کرکے اس کے جان ومال اور عزت وآبرو کی بالکل اسی طرح حفاظت کرے جس طرح وہ مسلمان رعایاکی حفاظت کے لیے ہرممکن کوشش کرتاہے ۔
( علاء الدین ابی بکربن مسعود الکاشانی،بدائع الصنائع،ص:۱۱۱ج:۷مطبوعہ مصر،۱۹۱۰ء)
اب اگر کوئی بلاوجہ اس کو قتل کرتاہے تواس کے عوض اسے بھی قتل کیاجائے گا ،اور اگر مقتول کے ورثاء اپنی مرضی سے قاتل کو معاف کردیں تو قاتل بری ہوجائے گا ۔البتہ ایسے لوگوں سے مسلمان حکمراں کچھ سالانہ ٹیکس(جزیہ)لینے کے مجازہوں گے ۔ یہ ٹیکس انہی لوگوں سے وصول کی جائے گی جو فوجی خدمت کے قابل ہوں،عورت،بچے،بوڑھے،معذوراور مذہبی خدام لونڈی اورغلام اس سے مستثنیٰ قرار دیے جائیں گے۔ (کتا ب الخراج،ص:۳۶)
جزیہ کی ادائیگی کے بعد اہل ذمہ سے نہ صرف فوجی خدمات ساقط ہوجائیں گے،بلکہ وہ اپنے مذہبی ،سماجی اورعائلی معاملات میں بھی اسلامی قانون کے پابند نہ ہوں گے ۔
البتہ وہ مسلم علاقوں میں کوئی نئی مذہبی عبادت گاہ تعمیر نہیں کرسکتے ۔پرانی عبادت گاہوں کی مرمت اور خستہ مذہبی مقامات کی دوبارہ تعمیر کرسکتے ہیں اور جہاں صرف غیر مسلم ہی رہتے ہوں تو پھر نئے منادر بھی اپنی مرضی سے قائم کرلیں تو مضائقہ نہیں۔( بدائع الصنائع،ص:۱۱۳،ج:۷ ، کتا ب الخراج،ص:۸۸)
اسی طرح وہ مسلم علاقوں میں رہ کر مذہب سے متعلق کوئی ایسا کام نہیں کرسکتے جس سے مسلمانوں کی دل آزاری ہوتی ہو اور اس کے مذہبی معتقدات کو ٹھیس پہونچتی ہو۔( بدائع الصنائع،ص:۱۱۳،ج:۷) اگر وہ اپنی مرضی سے اپنے نزاعی معاملات کے لیے شرعی عدالت سے رجوع کریں تو فیصلہ شرع کے مطابق کیاجائیگا۔( ابوالاعلی مودودی،اسلامی حکومتوں میں غیر مسلموں کے حقوق،ص:۱۷،مرکزی مکتبہ اسلامی ،دہلی،۱۹۹۸ء) کسی معاہد پر بھی شرعی نقطہ نظر سے کوئی ظلم وزیادتی نہیں کی جائے گی اور نہ مسلمان کسی اہم سبب کے معاہدہ کو توڑسکتے ہیں۔ جب تک کہ فریق ثانی کی رضامندی حاصل نہ ہوجائے ۔معاہدہ خواہ اہل کتاب سے کیا جائے یامشرکوں سے دونوں صورتوں میں مسلمانوں پر اس کی پابندی اور حفاظت یکساں لازمی ہے۔
( محمد فرید وجدی،المدنیة والاسلام،ص:۱۵۰،مطبوعہ علی گڑھ،۱۳۲۲ھ)
جزیہ اور مسلم حکومتیں
ٹیکس ہو یا جزیہ کسی بھی مملکت کے لیے اپنے ملک میں مقیم رعایا سے وصول کرنا ناگزیرامر ہے، جس کے بغیر حکومت کا نظم و نسق سنبھالا نہیں جاسکتا، کیوں کہ اس طرح کی رقم وصول کرکے رعایاپر ہی مختلف طریقے سے خرچ کردی جاتی ہے۔ مگر اس ٹیکس کی وصولی میں رعایا کے کسی بھی طبقہ کی تخصیص نہیں۔ اس کے برعکس اسلام نے غیر مسلموں سے ٹیکس وصولی میں اس کی مالی حیثیت کے علاوہ سماج کے کمزور طبقہ کو اس سے بری کردیا، جس کی وضاحت کی جاچکی ہے، اور جس مقدار میں رقم وصول کی جاتی تھی اس کی ادائیگی کسی بھی فرد کے لیے چنداں مشکل نہ تھا، جو دوسرے سربراہ مملک جبراً و قہرا اپنی رعایاسے وصول کرتے تھے۔
حضرت عمر(۶۳) نے اپنے زمانہ خلافت میں ایک غیرمسلم بوڑھے شخص کو بھیک مانگتے ہوئے دیکھا، انھوں نے اس بوڑھے فقیر سے پوچھا کہ تیرا کیا مذہب ہے، اس نے اپنا مذہب یہودی بتایا، حضرت عمر فقیر کو اپنے ساتھ لائے اور روپے پیسے دینے کے بعد بیت المال کے افسر سے کہلا بھیجا کہ اس بوڑھے اوراس کے ساتھیوں پر خیال کرو۔ اللہ کی قسم! یہ ناانصافی ہوگی کہ اس کی جوانی کی کمائی ہم کھائیں اور اب یہ بوڑھا ہوگیا ہے تو اس کو ہم نکال دیں۔ صدقے کی نسبت جو خدا نے کہا ہے کہ فقیروں اورمسکینوں کو دینا چاہیے تو فقیروں سے مسلمان اور مسکینوں سے اہل کتاب بھی مراد ہیں۔
ہندوستانی تناظر میں یہ مسلہ سب سے پہلے محمد بن قاسم کے زمانہ میں پیش آیا، جب وہ سندھ میں اسلامی حکومت کی داغ بیل ڈال رہے تھے کہ مفتوح قوم کے ساتھ کس طرح کا معاملہ کیاجائے اور شریعت کااس بارے میں کیاحکم ہے،کیوں کہ یہاں کے باشندے شبہ اہل کتاب تھے ۔ ڈاکٹر ظفرالاسلام اصلاحی لکھتے ہیں:
”غیرمسلموں کے شرعی حیثیت کے بارے میں یہ مسئلہ سب سے پہلے محمد بن قاسم کے زمانہ میں پیش آیا۔وہ اس وقت سندھ میں عربوں کی حکومت قائم کررہے تھے ۔تاریخ سندھ کے ایک مستند ماخذچچ نامہ کے بیان کے مطابق محمد بن قاسم نے سندھ کے ان مفتوحین(جن میں برہمن ،بودھ دونوں شامل تھے)کو ذمی کی حیثیت سے تسلیم کیا اور ان پر جزیہ عائد کیا ،جنہوں نے اپنے قدیم مذہب پر قائم رہتے ہوئے مسلم حکومت کے زیر نگیں رہنے پر رضامندی ظاہر کی ۔اسی حیثیت سے انہیں مذہبی آزادی ملی اور قدیم منادر کی مرمت وآباد کاری کی اجازت دی گئی ۔گر چہ چچ نامہ یاکسی اور ماخذ میں اس کی صراحت نہیں ملتی ،لیکن قرین قیاس یہی ہے کہ محمد بن قاسم نے والی عراق اور علماء سے صلاح ومشورہ کے بعدہی ہندووٴں کے سلسلہ میں فیصلہ کیاہوگا ۔جیسا کہ اس بات کے واضح ثبوت ہیں کہ انہیں قدیم معابد کی مرمت کی اجازت دینے اور بعض دوسرے مسائل میں محمدبن قاسم نے حجاج بن یوسف سے مشورہ اور علماء سے استفسار کیاتھا ۔یہاں یہ وضاحت دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ مشہور عرب موٴرخ بلاذری نے صاف طور پر یہ ذکر کیاہے کہ سندھ کی فتح کی مہم کے دوران اور بعدکے زمانوں میں بھی حجاج بن یوسف سے محمد بن قاسم کی مراسلت برابر جاری رہی اور یہ صراحت بھی ہے کہ ہر تیسرے روزخطوط کی آمد ورفت ہوتی رہتی تھی۔“
(سہ ماہی تحقیقات اسلامی ،علی گڑھ،جولائی -ستمبر۱۹۹۳ء،ص:۳۸،مضمون ہندووٴں کے ساتھ سلطان تغلق کا برتا وٴ، ،اسلامی قوانین کی ترویج وتنفیذ :عہد فیروز شاہی میں،ص:۷۳،علی گڑھ مسلم یونیور سٹی)
سندھ کے غیر مسلموں کی جوشرعی حیثیت متعین کی گئی،اسی قانون پر بعد کے سلاطین نے بھی عمل کیا،اور ہندووٴں سے جزیہ وصول کیاجاتارہا ۔البتہ اکبر کے زمانہ کی شروع میں تو اس پر عمل رہامگر بعدمیں اس نے ہندووٴں کو اس سے بری کردیا۔عہد جہاں گیر اور شاہ جہاں میں بھی جزیہ معاف رہا۔البتہ اورنگ زیب نے اپنی حکومت کے بائیس سال بعد اس قانون کو نافذ کردیا اور اپنے انتقال سے کچھ عرصہ قبل اسے موقوف کردیا۔
تاریخ ہند خاموش ہے کہ مسلم حکمرانوں نے ہندوستان میں داخل ہونے کے بعد جزیہ کی وصولی سے پہلے یا اس کے بعد اپنی غیرمسلم رعایاکو تعصب و تنگ نظری کی بنا پر ستایا اور تہہ تیغ کیا اور ان کے منادر و معابد پر دست درازی کی بلکہ تاریخ بتاتی ہے کہ جنھوں نے جزیہ ادا کیا یا جو ٹیکس دینے سے مجبور رہے سب کو یکساں حقوق ملے، جس حد تک فقہاء نے ان کے حقوق متعین کیے ہیں۔ بلکہ بعضے وقت تو حکمراں جماعت ان حقوق متعینہ سے زیادہ ان کا خیال رکھا اور سلطنت کے اہم امور ان کے سپرد کیے اور ان پر غیر معمولی اعتماد و بھروسہ کیا۔
مسلمان فاتح نے مفتوحوں کے ساتھ عقلمندی اور فیاضی کا سلوک کیا۔ مال گزاری کا پرانا نظام قائم رہنے دیا، اور قدیمی ملازموں کو برقرار رکھا، ہندوپجاریوں اور برہمنوں کو اپنے مندروں میں پرستش کی اجازت دی اور ان پر فقط ایک خفیف سا محصول عاید کیا جو آمدنی کے مطابق ادا کرنا پڑتا تھا۔ زمینداروں کو اجازت دی گئی کہ وہ برہمنوں اور ہندوؤں کو قدیم ٹیکس دیتے رہیں۔
سندھ میں داخلہ کے بعد محمد بن قاسم نے اگر کچھ متمول لوگوں سے جزیہ وصول کیاتو اس کے ساتھ انھوں نے غیرمسلموں کو جس فراخ دلی سے عہدے اور مناصب دئیے اس پر اختصار کے ساتھ روشنی ڈالتے ہوئے شیخ محمد اکرام لکھتے ہیں کہ:
”محمد بن قاسم نے پرانے نظام کو حتی الوسع تبدیل نہ کیا، راجا داہر کے وزیراعظم کو وزارت پر برقرار رکھا اور اس کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے تمام نظام سلطنت ہندوؤں کے ہاتھ میں رہنے دیا۔ عرب فوجی اور سپاہیانہ انتظام کے لیے تھے، مسلمانوں کے مقدمات کا فیصلہ قاضی کرتے تھے، لیکن ہندوؤں کے لیے ان کی پنچائتیں بدستور قائم رہیں۔“(رود کوثر)
جزیہ دے کر غیرمسلم اسلامی ریاست کی طرف سے فوجی خدمات، ملک کی نگہداشت اور دوسرے کاموں سے بری ہوجاتے اور انہیں مسلمانوں کے مساوی حقوق حاصل ہوجاتے۔ حالاں کہ مسلمانوں کو اس طرح کے کئی ٹیکس زکوٰة و صدقات اور عشر و خراج نکالنے پڑتے تھے اور حکومت ان سے وصول کرتی تھی، باوجود اس کے ملک کی فلاح و بہبود اوراس کی تعمیر و ترقی کے ساتھ فوجی خدمات پر بھی مامور ہونا پڑتا ہے، جہاد میں شرکت کرنا پڑتا تھا۔ چنانچہ جزیہ کی وصولی کی حکمت بیان کرتے ہوئے علامہ یوسف القرضاوی لکھتے ہیں کہ:
”ذمیوں پر جزیہ لگانے کی ایک دوسری وجہ بھی تھی اور یہ وہی وجہ ہے جس کا سہارا ہر زمانہ میں کوئی بھی حکومت ٹیکس لگاتے وقت لیتی ہے، یعنی مفاد عامہ کے اخراجات مثلاً پولیس اور عدالت کا نظام، سڑکوں اور پلوں وغیرہ کی تعمیر کے کام جو معیشت کی بہتری کے لیے ضروری ہیں اور جن سے ہرشہری چاہے وہ مسلمان ہو یا غیرمسلم یکساں فائدہ اٹھاتا ہے۔ مسلمان زکوٰة، صدقہٴ فطر اور دیگر ٹیکسوں کی صورت میں اس طرح کے اخراجات میں حصہ لیتے ہیں۔ اگر غیرمسلمین جزیہ کی صورت میں ایک معمولی رقم کے ذریعہ ان میں حصہ لیں تو تعجب کی کیا بات ہوگی۔“
پھر علامہ موصوف یہ بھی لکھتے ہیں کہ:
”اس فریضہ کے بدلہ وطن کے دفاع و حفاظت کے اخراجات میں شرکت کیلئے غیرمسلم شہریوں پر جو ٹیکس لگایا گیا ہے اسے اصطلاحاً جزیہ کہتے ہیں، چنانچہ جزیہ کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ وہ فوجی خدمت کا مالی بدل ہے نہ کہ اسلامی حکومت کے سامنے جھکنے کی علامت۔“
جزیہ فوجی خدمات سے سبکدوشی کا بدل ہے، اگر کوئی ذمی اپنی مرضی سے اس میں شامل ہونا چاہتا ہے یا ریاست کے مفاد کے لیے اپنی خدمات پیش کرنا چاہتا ہے اور مسلمانوں کے ساتھ مل کر دشمنان اسلام سے دارالاسلام کو بچانے کے لیے جنگ میں حصہ لیتے ہیں تو ایسی صورت میں ان سے جزیہ ساقط ہوجائے گا اور تمام حقوق مثل مسلمان کے اسے حاصل رہیں گے۔“
اسی طرح اگر حکام وقت ذمیوں کی حفاظت کرپانے پر قادر نہیں ہیں تو پھر ضروری ہوگا کہ امارت کے سربراہ جزیہ کی رقم واپس کردیں۔ جس کی طرف گذشتہ سطور میں اشارہ کیا جاچکا ہے کہ ایسے حالات میں لی گئی جزیہ کی رقم واپس کردی گئی۔ انہی رعایتوں سے فائدہ اٹھاکر بہت سے ذمیوں نے ترقی کے اعلیٰ مدارج طے کیے اور بڑے بڑے عہدے ان کے ذمے کیے گئے (۱۰۰) اور بقول مولانا شبلی نعمانی ہرزمانے میں سیکڑوں اور ہزاروں عیسائی، یہودی، ہندو، آتش پرست سرکاری خدمتوں پر مامور ہوئے، ہندوستان میں ایک خاص تغیر ہوا، یعنی یہ کہ ہندوؤں نے کثرت سے فوجی خدمتیں قبول کیں اور فوج میں بہت بڑا حصہ ان کا تھا۔ اس کا یہ نتیجہ ہوا کہ ہندوؤں نے ہرقسم کے بڑے بڑے عہدے حاصل کیے۔
کیا جزیہ ظالمانہ ٹیکس تھا ؟
اسلام کے اصول جزیہ پر کچھ متعصبین نے اعتراض کیا کہ یہ انتہائی ذیادہ تھا ، اس سے بچنے کے لیے لوگ تبدیلی مذہب پر مجبور ہو جایا کرتے ہیں۔اس الزام کاجواب دیتے ہوئے ڈاکٹر اوم پرکاش پرساد لکھتے ہیں:
”ہندوستان پر مسلمانوں کی حکومت تقریباًسوسال تک رہی اور زیادہ تر زمانوں میں جزیہ وصول کیاگیا،اس کے باوجود عہد قدیم سے چلے آئے مذہبی معتقدات اور مذہبی مقامات کی اپنی حیثیت بر قراررہی۔اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ جزیہ کی وجہ سے بڑے پیمانے پر مذہب کی تبدیلی کا عمل ہواہو ۔ اگر ایسا ہواہوتاتو اسلام کے شیدائی اس کابیان بڑھا چڑھا کر کرنے سے بعض نہ رہتے۔“( اورنگ زیب ایک نیا زاویہ نظر،ص:۴۰-۴۱)
جزیہ کی جو مقدار متعین کی گئی ہے اور جس کی تفصیل کتابوں ملتی ہے اسی کے مطابق محمد بن قاسم نے ہندو رعایا سے وصول کیا اوراسی اصول پر اورنگ زیب تک عمل ہوتارہا ۔ اس کی مقدار اس سے کئی گنا ہ کم تھی جو مسلمانوں سے قبل شاہان وقت اپنی رعایا سے وصول کرتے تھے ۔اگر یہ معمولی سا ٹیکس ادا کرکے لوگ تبدیلی مذہب کا شکار ہوجاتے ہیں تو وہ اس کے مذہب کی کمی ہے نہ کہ شاہان اسلام کا جبر۔ چنانچہ علامہ شبلی نعمانی لکھتے ہیں:
”اب ہم پوچھتے ہیں کہ ایسا ہلکا ٹیکس جس کی تعداد اس قدر قلیل تھی ،جس کے اداکرنے سے فوجی کو پر خطر خدمت سے نجات مل جاتی تھی ،جس کی بنیاد نوشیرواں عادل نے ڈالی تھی ۔کیا ایسی ناگوار چیز ہو سکتی ہے جیسی کہ اہل یورپ نے خیال کی ہے ۔کیا دنیا میں ایک شخص نے بھی اس سے بچنے کے لیے اپنا مذہب چھوڑا ہوگا ؟کیا کسی نے اپنے مذہب کو ایسے ہلکے ٹیکس سے بھی کم قیمت سمجھاہوگا؟اگر کسی نے ایسا سمجھاتو ہم کو اس کے مذہب کے ضائع ہونے کا رنج بھی نہ کرنا چاہیے۔جو لوگ جزیہ اداکرتے تھے ، ان کو اسلام نے جس قدر حقوق دیے،کون حکومت اس سے زیادہ دے سکتی ہے۔“( مقالات شبلی،ص:۲۳۱،ج:۱)
نفاذجزیہ کے سلسلہ میں سب سے زیادہ محمدبن قاسم ،علاء الدین خلجی ،سلطان فیروز شاہ تغلق اور اورنگ زیب عالم گیر کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ کہ ان لوگوں نے زبردستی غیر مسلموں پر جزیہ کا قانون نافذکیا۔ جس سے ہندووٴں کی مالی حالت کمزورہوگئی اور مسلمان بحیثیت مال کے مستحکم ہوگئے ۔یہ سب غلط فہمی ہے یاہٹ دھرمی ،کہ وہ جزیہ کی اصل غرض وغایت کوسمجھنے سے قاصر ہیں۔
مولاناآزادکی رائے بالکل درست ہے:
”اورنگ زیب نے باتفاق جمیع علماء حنفیہ ہندہندووٴں پر جزیہ کے احکام جاری کیے تھے ،نادانی وبے خبری سے ہندووٴں نے سمجھاکہ یہ ان کی تذلیل وتحقیر ہے ،حالاں کہ اگر اس وقت علماء محققین ہوتے اور وہ جزیہ کی غرض و غایت اوراہل ذمہ کے حقوق معتبرفی الشرع کوکھول کر بیان کرتے تو ہندووٴں کومعلوم ہوجاتا کہ ان کی تذلیل نہیں بلکہ وہ بہترسے بہتر سلوک ہے جودنیا میں کوئی حاکم قوم محکوم کے ساتھ کرسکتی ہے“۔
(ابوالکلام آزاد،جامع الشواہد فی دخول غیر المسلم فی المساجد،ص:۸۴۔مکتبہ ماحول ،کراچی،۱۹۶۴ء)
جو حضرات صرف جزیہ کو لے کر یا انہدام منادر کو لے کر غیرمسلموں کی طرف داری کرتے ہوئے یہ آواز بلند کرتے ہیں کہ ان افعال سے ہندو مسلمانوں کی بہ نسبت پست اور کمزور ہوگئے ان کی سماجی اور معاشی حیثیت گھٹ گئی۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ محمد بن قاسم کے بعد سے ہندوستان میں جب تک مسلمانوں کی حکومت رہی صرف تین سلاطین کے عہد میں جزیہ کی وصولی ہوئی۔ ورنہ بیشتر سلاطین کے عہد میں ان پر سے یہ بوجھ جو شرعی نوعیت کا تھا ہٹارہا۔ باوجود اس کے تینوں سلاطین کے عہد میں غیرمسلم بخوشی جزیہ ادا کرتے رہے اوراپنے آپ کو کسی بھی طرح کا کمتر شہری تصور نہ کرتے تھے۔ حالانکہ تمام سلاطین کے عہد میں شریعت کا دارومدار اوراس کی افہام و تفہیم کی ساری ذمہ داری علماء کے ذمہ سپرد تھی اور وہ شریعت کی روشنی میں اس کا نفاذ بھی کرنے کے خواہاں تھے، مگر کسی سلاطین نے سیاسی مفاد کے تحت اس کو نافذ نہیں کیا۔ چنانچہ سیدصباح الدین کا یہ مندرجہ ذیل اقتباس ملاحظہ کیا جائے جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس ٹیکس کی وصولی سے غیرمسلموں کو کیا کیا فوائد حاصل ہوئے:
”اسی طرح جزیہ کو ایک توہین آمیز ٹیکس سمجھا جاتا ہے اور یہ محض اس لیے کہ سلاطین اور علماء دونوں نے اس کے روشن پہلو کی وضاحت پوری طرح نہیں کی۔ جزیہ دراصل اس ٹیکس کو کہتے ہیں جو اسلامی حکومت اپنی غیرمسلم رعایا سے اس خدمت کے معاوضہ میں وصول کرتی ہے کہ وہ ان کے سیاسی، معاشرتی اور مذہبی حقوق کی حفاظت کی ذمہ دار ہے۔ اس ٹیکس کے لینے کے بعد حکومت ہر طرح سے ذمیوں کے جان ومال کی نگرانی کرتی تھی اور ایسا کرنا اس کے مذہبی فریضہ میں داخل تھا اور جو حکومت ان کی حفاظت کرنے سے قاصر رہتی اس کو جزیہ وصول کرنے کا حق نہ ہوتا۔ اس کے علاوہ کسی عالم یا فقیہہ نے جزیہ کا کچھ اورمطلب بتایا تو یہ اس کا قصور ہے، ٹیکس کا نقص نہیں۔ علماء کے اصرار کے باوجود مسلمانوں کے پورے دور حکومت میں صرف تین حکمرانوں علاء الدین خلجی، فیروز تغلق اور اورنگ زیب کے عہد میں یہ ٹیکس لگایا گیا اوراس زمانہ میں یہ ٹیکس اتنا اشتعال انگیز نہیں سمجھا گیا جتنا اب طرح طرح کی موشگافیوں سے سمجھا جانے لگا ہے۔ اس زمانے کے تمام راجہ اس کو اور ٹیکسوں کی طرح ایک ٹیکس سمجھ کر ادا کردیاکرتے تھے اور کسی حال میں وہ اپنے کو کمتر درجہ کا شہری تسلیم نہیں کرتے تھے۔ حالانکہ اب یہی بتایا جاتا ہے کہ ٹیکس غیرمسلموں کو سیاسی، اقتصادی، مذہبی اور اخلاقی حیثیت سے ہٹاکر گری ہوئی حالات میں رکھنے کے لیے عائد کیا جاتا تھا۔ مگر جب ہاتھ میں تلوار موجود تھی تو ایسا کرنے کے لیے ٹیکس لگانے کی کیا ضرورت تھی اورایسے مورخ کی کوئی وقعت نہیں ہوگی جو یہ تسلیم نہ کرے کہ ملک گیری کے سلسلے میں مسلمانوں کی تلوار تو خوب چمکی لیکن ملک داری میں ان کی تلوار ہمیشہ نیام میں رہی، وہ میدان جنگ میں خواہ کیسی ہی خوں ریزی کرتے لیکن جنگ کے بعد معتدل روش اختیار کرلیتے؛ کیوں کہ ملک کی زراعت اور تجارت ہندوؤں کے ہاتھوں میں تھی، اونچے عہدے دار تو مسلمان ضرور تھے لیکن دوسرے تمام عہدے ہندوؤں کے ہاتھوں میں ہوتے تھے، کیوں کہ ان کی مدد کے بغیر حکومت کا ڈھانچہ کھڑا نہیں ہوسکتا تھا۔ اور اگر ان کے ساتھ روادارانہ سلوک نہ کیا جاتا تو تھوڑی تعداد اور قلیل فوج کی مدد سے ہر جگہ مسلمانوں کی حکومت قائم نہیں رہ سکتی۔“
حقیقت یہ ہے کہ مسلم حکمرانوں کے عہد میں غیر مسلموں کے درمیان یہ ٹیکس کبھی خلجان کا باعث نہ رہااور نہ ان لوگوں نے اسے اپنے لیے بار سمجھا،بلکہ انہوں نے اسے بخوشی قبول کیا،کیوں کہ وہ سمجھ رہے تھے کہ اس طرح کے تعاون کے بغیر حکومت کا کاروبار اچھی طرح سے چلایا نہیں جاسکتا۔جیسا کہ سید صباح الدین عبدالرحمٰن کی مندرجہ ذیل تحریر سے بھی اس کی وضاحت ہوتی ہے:
”اس زمانہ کے تمام راجہ اس کو اور ٹیکسوں کی طرح ایک ٹیکس سمجھ کر ادا کردیا کرتے تھے ،اور کسی حال میں وہ اپنے کو کمتر درجہ کا شہری تسلیم نہیں کرتے تھے ۔حالاں کہ اب یہی بتایا جاتا ہے کہ یہ ٹیکس غیر مسلموں کو سیاسی ، اقتصادی ،مذہبی اور اخلاقی حیثیت سے تابع بناکر گری ہوئی حالت میں رکھنے کے لیے عائد کیا جاتا تھا ۔مگر جب ہاتھ میں تلوار موجود تھی تو ایساکرنے کے لیے ٹیکس لگانے کی کیا ضرورت تھی اور ایسے موٴرخ کی کوئی وقعت نہیں ہوگی جو یہ تسلیم نہ کرے کہ ملک گیری کے سلسلہ میں مسلمانوں کی تلوارتو خوب چمکی ،لیکن ملک داری میں ان کی تلوار ہمیشہ نیام میں رہی۔وہ میدان جنگ میں خواہ کیسی ہی خوں ریزی کرتے لیکن جنگ کے بعد معتدل روش اختیار کرلیتے۔کیوں کہ ملک کی زراعت اور تجارت ہندووٴں کے ہاتھوں میں تھی۔اونچے عہدے دار تو مسلمان ضرور تھے ،لیکن دوسرے تمام عہدے ہندووٴں کے ہاتھوں ہی میں ہوتے تھے۔ کیوں کہ ان کی مدد کے بغیر حکومت کا ڈھانچہ کھڑا نہیں ہو سکتا تھا،اور اگر ان کے ساتھ روادارانہ سلوک نہ کیا جاتا تو تھوڑی تعداد اور قلیل فوج کی مدد سے ہر جگہ مسلمانوں کی حکومت قائم نہیں رہ سکتی تھی۔“
( سید صباح الدین عبدالرحمن،ہندوستان کے سلاطین،علمااور مشائخ کے تعلقات پر ایک نظر،ص:۴۶ ،مطبع معادف ،اعظم گڑھ،۱۹۶۴ء)
تبدیلی مذہب کی وجوہات
ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت کے باوجود غیر مسلموں نے مسلمانوں پر مظالم زیادہ کیے اور مسلمانوں کی عزت و عصمت پر ڈاکہ ڈالا اور ان کے مذہبی شعائرکے ساتھ توہین آمیز معاملہ کیا۔اگر ان باتوں پر مسلمانوں نے بعض ہندووٴں کے ساتھ سختی کامعاملہ کیا تواس پر طوفان کھڑاکرنا چہ معنی دارد۔چوں کہ غیر مسلموں کی حیثیت ہندوستان میں ذمی کی تھی ،اور اگر کوئی ذمی اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ نارواسلوک کرتا ہے تواسلام اس وقت حکم دیتاہے کہ ان کی سخت گوش مالی کی جائے۔ مگرسلاطین ہند نے اپنے اسلامی اصول وقوانین پر عمل نہ کرکے ان کے ساتھ بے جا رواداری کامعاملہ کیا۔ان کے جرائم کو بعضے اوقات نظراندازکردیا اور انہیں آزادی سے زندگی بسر کرنے پر مانع ومزاحم نہ ہوئے۔یہی وجہ ہے کہ بہت سے ہندو وٴں نے اسلام قبول کیا۔اب اگر کوئی معترض ہوتا ہے کہ اسلام جبر سے پھیلا،تو مسلمانوں کی حکومت ہندوستان سے ختم ہوتے ہی وہ سارے کے سارے ہندوجنہوں نے جبراًاسلام قبول کیاتھااسلام سے پھرجاتے اوراپنے سابق مذہب کو اختیار کرلیتے ۔مگر تاریخ میں ایسے واقعات بہت کم ملیں گے کہ اسلام قبول کرنے کے بعد بہت سے ہندوبیک وقت اسلام سے منحرف ہوگئے ہوں۔دوچار واقعات اس قسم کے ضرور رونما ہوئے ۔ اس سے اسلام کی کمزوری یاجبر ہرگز ظاہر نہیں ہوتا ۔
دراصل یہ وہ لوگ تھے جوحب جاہ اور مالی منفعت کے لیے اسلام قبول کرتے تھے اور اگر جبراًاسلام پھیلایاجاتا تو آگرہ، دہلی، اودھ، بہار،دکن وغیرہ میں مسلمانوں کی تعداد ہرگز کم نہ ہوتی ،کیوں کہ یہ علاقے براہ راست مرکز سے تعلق رکھتے تھے ۔آٹھ سوبرس کاعرصہ گزرجانے کے باوجودوہاں پندرہ فیصد سے زیادہ مسلمانوں کی تعداد نہ بڑھی ۔اس کے بر خلاف جہاں مسلمانوں کا اقتدار زیادہ مضبوط نہ تھا،ان علاقوں میں مسلمانوں کی تعداد میں حیرت انگیزطور پر اضافہ ہوا۔ سندھ،کشمیراور بنگال وغیرہ کو مثال کے طور پرپیش کیاجاسکتاہے ۔ یہاں ایک دوسرے ہندو موٴرخ کابیان قول فیصل کادرجہ رکھتاہے:
”ظن غالب یہ ہے کہ ہندومت کی پابندیوں نے بنگال کی نیچ ذاتوں کواس نئے مذہب کے قبول کرنے پر آمادہ کردیا تھا۔ آٹھویں صدی عیسوی سے لے کر بارہویں صدی عیسوی تک بنگال پر پال خاندان کی حکومت تھی جوبدھ کاپیروتھا۔اس کے زمانہ میں نیچ ذاتوں کوبڑی آزادی حاصل تھی ۔جب سین خاندان کے لوگ جنوب کی طرف بنگال میں داخل ہوئے تو وہ اپنے ساتھ ہندومت اور اس کی تمام معاشرتی پابندیاں بھی لے آئے ،جن سے نیچ ذاتوں کے جذبات کو ہمیشہ ٹھیس لگتی تھی اور جب بارہویں صدی میں اسلام آزادی اور مساوات کاڈنکا بجاتاہوا بنگال پہونچا تو عوام کی طبیعتیں خود بخود اس کی طرف مائل ہوگئیں ۔لوگ جوق در جوق مسلمان ہوتے چلے گئے۔ یہ ایک بڑاسبب ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے کسی دوسرے سبب کی تلاش کی حاجت نہیں“۔(اے شارٹ ہسٹری،ص:۲۱۸-۲۱۹ترجمہ اردو:مختصر تاریخ ہند،یوسف کوکن عمر ی، ص:۲۱۸-۲۱۹)
اسلام قبول کرنے والے صرف نچلی سطح کے لوگ نہ تھے بلکہ اعلیٰ اور اونچی ذات کے لوگوں نے بھی بڑھ چڑھ کر حلقہ اسلام میں داخل ہوئے۔ وہاں کون سی وجوہات کار فرماتھیں ۔یہ لوگ تو سماج کے ہر قیودسے آزادتھے ۔دولت تھی،عزت تھی،اور حاکم تھے ۔ اس لیے ان کے ساتھ معاشرہ میں کسی ظلم وزیادتی کاکوئی سوال ہی نہیں۔انکی مذہب کی تبدیلی کی ایک وجہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پروفیسر آرنلڈ لکھتے ہیں :
”اکثر ہندو دنیوی منافع کے خیال سے مسلمان ہونا گوارہ کیا،ہزارہا راجپوت اسی طرح مسلمان ہوگئے،جن کی اولاد اب تک ملک کے دولت مندزمین داروں میں شمارہوتی ہیں۔ان میں بجگوٹی راجپوتوں کا مسلمان خاندان سب سے زیادہ معزز ہے جو ملک اودھ کے مسلمان تعلقہ دارکی فہرست میں اول درجہ رکھتاہے۔ایک روایت کے موافق اس خاندان کے وارث اعلیٰ تلوک چند کو بابر بادشاہ قید کرکے لے گیا اور تلوک چند نے قید سے رہائی پانے کے لیے اسلام قبول کیا۔“( ٹی۔ڈبلو۔آرنلڈ۔دعوت اسلام(آرنلڈ)ص:۲۷۷،مطبع فیض عام،آگرھ،۱۸۹۸ء)
اس سے زیادہ وضاحت سے ڈاکٹر اوم پرکاش پرساد نے اونچی ذات کے لوگوں کے قبول اسلام کی وجہ بتائی ہے ۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
”اپریل۱۶۶۷ء میں سود خوری کے الزام میں چار ہندو قانون گویوں کو عہدہ سے معزول کیاگیا ،سزا پانے کے ڈر سے ان لوگوں نے اسلام قبول کرلیا۔چوکی گڑھ کاانچارج بننے کے لیے بھوپ سنگھ نے اپنے بھائی مراری داس کو اسلام قبول کرلینے کی صلاح دی ۔لیکن اس نے اپنے بھائی کے لالچ بھرے مشورہ کو تسلیم نہیں کیا اور ہندو ہی رہا۔۱۶۸۱ء مین منوہر پور کے ز مین دار دیوی چند نے اسلام قبول کیا تاکہ ۲۵۰/فوجیوں کے بجائے ۴۰۰/کا منصب حاصل کرے۔چنانچہ۱۵جنوری ۱۷۰۴ء کو اس نے اسلام قبول کیا ۔ راجہ اسلام خاں نے ہندو مذہب ترک کرکے اسلام قبول کیا تاکہ اپنے بہن کی شادی اورنگ زیب کے بیٹے سے کرسکے ،لیکن یہ شادی نہیں ہوسکی ۔ جاگیر حاصل کرنے کے لیے رام پور کے شاہی منصب دارراؤگوپال سنگھ کے بیٹے رتن سنگھ نے اسلام قبول کیا ۔“( اورنگ زیب ایک نیا زاویہ نظر،ص:۴۳-۴۴)
معلوم یہ ہوا کہ ہندووٴں کے نزدیک اپنے دھرم کی کوئی حقیقت نہیں تھی اس لیے وہ اپنی دولت کی حفاظت کے لیے اپنے دھرم کو بھی خیر باد کہہ دیتے تھے ۔حالاں کہ مسلمان فاتحین نے انہیں اپنے مذہب پرقائم رہنے اور ان پرعمل کرنے کی پوری آزادی دے رکھی تھی کہ وہ جزیہ اداکرکے من مانی زندگی اختیارکریں ۔مگر ہندو اپنے مذہب کو بچانے اور اس پر قائم رہنے کی خاطر اپنی دولت کا معمولی حصہ ادا کرنے سے پیچھے رہے ۔یہ ان کے مذہب کی کمزوری تھی ،یااسلام کاقانون اس کے لیے مزاحم بنا۔سچا مذہب وہی ہے جواپنے ماننے والوں کے ایمان ویقین کو اس طرح مستحکم کردے کہ وہ سب کچھ تو کرسکتے ہیں مگر اپنے ایمان کا سودا ہرگز نہیں کر سکتے ۔ آج دنیامیں بڑی بڑی جنگیں ہورہی ہیں اورلوگ اسلام کو مٹانے کی ہرممکن کوشش کررہے ہیں مگر اسلام کے شیدائی اپنے مذہب کو زندہ رکھنے کے لیے دشمنان دین کاکھل کر بلکہ آگے بڑھ کر مقابلہ کررہے ہیں اور کرتے رہیں گے ۔
اسلامی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں نے غیرمسلموں سے جزیہ وصول کرکے انہیں ہر قسم کی آزادی اور امان دے دیا۔ یہاں تک کہ انہیں یہ بھی ضمانت دی کہ دشمنوں کے حملے اور ان کے ظلم سے انہیں محفوظ رکھا جائے گا۔
جب کبھی مسلم فاتح اس قسم کے حقوق دینے میں خود کو کمزور پایا تو وصول کی جانے والی جزیہ کی رقم کو واپس کردیا یہ کہہ کر کہ ان حالات میں تمہاری حفاظت ممکن نہیں، تم اپنی حفاظت خود کرو، جس کی ایک مثال یہ ہے کہ حضرت عمر ہی کے زمانے میں جب اسلامی فوجیں حمص (شام) سے ہٹ آئیں تو حضرت عبیدہ(۶۵) رضی اللہ عنہ نے وہاں کے یہودیوں اور عیسائیوں کو بلاکر کئی لاکھ رقم جزیہ کی یہ کہہ کر واپس کردی کہ اب تمہاری حفاظت نہیں کرسکتے، اس لیے جزیے کی رقم بھی نہیں رکھ سکتے۔ اس قسم کی حفاظت اور تعاون کی مثال کیا دنیا کے کسی دوسرے فاتحین کی تاریخ میں مل سکتی ہے کہ اس نے غیر مذہب رعایا کی خاطرداری اوراس کی حفاظت کی ذمہ داری اس انداز میں لی ہو(۶۶)۔ بلکہ اگر تاریخ کا مطالعہ کیاجائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہود و نصاریٰ نے جب بھی عروج حاصل کیا تو ایک نے دوسرے پر کتنے شدید مظالم ڈھائے اور انہیں نیست و نابود کیا۔ حکمراں جماعت نے کمزور طبقہ کو بڑی بے دردی سے کچلا اور ستایا۔ خود ہندوستان میں ہندو مذہب اور بدھ مت کے عروج و زوال کی داستان بڑی کرب ناک ہے ایک دوسرے نے اپنے زمانہ عروج میں محکوم طبقہ کا جینا حرام کردیا اور ایک دوسرے کے معابد و منادر کو منہدم اور مسمار کیا۔