شبہ نمبر2: محدود جرم کی ”لامحدود” سزا دینا غیر عقلی بات ہے؟ (اس اعتراض میں فوکس ‘سزا کی لامحدودیت” پر ہوتا ہے)۔
تبصرہ:
معترضین نے یہاں لامحدود کا معنی سمجھنے میں ٹھوکر کھائی ہے۔ اصولی بات یہ کہ اصولا لامحدود اور محدود کا ‘بالکل درست’ تصور قائم کرسکنا محدود انسانی عقل کی بساط ہی سے باہر ہے (یہاں اسکی تفصیلات میں جانا ممکن نہیں)۔ چنانچہ لامحدود کا جو تصور ہم قائم کرسکتے ہیں وہ بس یہ ہے کہ ”یہ ایک ان گنت، لاتعداد، اور نا قابل تصور بڑی شے ہے”۔ اب لامحدود کی اس وضاحت کو ذہن میں رکھیں اور اس بات کو اس کے ساتھ ملائیں کہ کافر اپنے رب کی لاتعداد نعمتوں کی (آخری درجے میں) ناشکری کرتا ہے لہذا ضروری ہے کہ اسے اس لاتعداد، ان گنت اور ناقابل تصور ناشکری کی اتنی ہی بڑی سزا دی جائے (اور یہ نسبت محض سزا ہی نہیں بلکہ اجر کیلئے بھی قائم کی گئی ہے)۔ اب اس بات پر کسی کو کیا اعتراض رہا؟
ملحدین لامحدود کو محض وقتی تناظر میں دیکھتے ہیں۔ چلئے ایک لمحے کیلئے اس تصور لامحدود ہی کو بنیاد بنا لیتے ہیں۔ تو بھی اس سے یہی ثابت ہوا نا کہ ان گنت، لاتعداد اور ناقابل تصور بڑے جرم کی سزا کیلئے ان گنت، لاتعداد اور ناقابل تصور طویل زمانہ بھی موجود ھونا چاھئے، پھر قابل اعتراض بات کیا رہی؟
اس استدلال میں بنیادی غلطی یہ ھے کہ یہاں محض سزا کی وقتی طوالت کی طرف دیکھا جارھا ھے مگر جرم کی لامحدودیت (ناقابل تصور بڑے ھونے) کی طرف نہیں۔ اسی یک جہتی سوچ کی وجہ سے یہ لوگ اپنے رب کی نعمتوں کا انتہائی ناقص تصور قائم کرتے ہیں جسکی وجہ سے یہ کافر کے جرم کی سنگینی کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں۔ اسے ذرا بڑی جہت سے دیکھنے کی ضرورت ھے۔ انسان کا یہ چھ فٹ کا وجود خدا کی اس قدر ان گنت نعمتوں کا متقاضی ھے کہ انسان اسکا تصور بھی قائم نہیں کرسکتا۔ ذرا اپنے نفس جسم پر ہی غور کیجئے جو نجانے کتنے لاکھوں فنکشنز کے درست کام کرنے سے زندہ رہتا ھے، اپنی خوراک، سانس لینے کے نظام، کائنات میں روشنی کے انتظام الغرض اگر انسان غور کرتا چلا جاۓ تو معلوم ہوتا ھے کہ ایک چھپکلی کا وجود بھی انسانی وجود کے لئے نجانے کتنے انجان طریقوں سے مددگار ھے (یقینا اگر ھم خدا کی نعمتوں کا شمار کرنا بھی چاہیں تو شمار نہیں کرسکتے)۔ درحقیقت اس دنیا میں انسان کے سانس لینے کا عمل خدا کی بنائی ہوئی اس کائنات اور اس میں بکھری ھوئی لاتعداد نعمتوں کا مرھون منت ھے۔ کافر اپنے رب کا انکار کرکے (آخری درجے میں) ان لاتعداد نعمتوں کی ناشکری کرکے ناقابل تصور بڑا جرم کرتا ھے۔ تو اگر اسکا رب اسے ایسے جرم پر ناقابل تصور بڑی سزا دے تو کیا غلط ھوگا؟
ویسے بھی، اگر دنیا میں چند لمحوں کے جرم پر خود ملاحدہ بھی کئی کئی سالوں پر محیط سزا دینے کو عقلی رویہ سمجھتے ہیں تو پھر یوم آخرت کے حوالے سے ایسا ماننے میں کونسی چیز امر مانع ھے؟
جب اخروی سزا کی ”لامحدودیت” کی وضاحت کردی جائے کہ انسانی نسبت سے اس سے مراد ناقابل تصور بڑی شے اور ناقابل تصور طویل زمانہ ہے تو پھر ملاحدہ کی طرف سے یہ اعتراض اٹھایا جاتا ہے کہ دنیاوی جرم (مثلا امریکہ کا ایٹم بم گرانا ہی کیوں نہ ہو) بہرحال متناہی (قابل تصور بڑا) ہوتا ہے لہذا اسکی سزا لامتناہی (ناقابل تصور بڑی) نہیں ہونی چاہئے۔ (اس اعتراض میں فوکس جرم کی محدودیت ثابت کرنے کی طرف ہوتا ہے)
تبصرہ:
ملحدین جب کہتے ہیں کہ امریکہ کا ایٹم بم گرانا بہر حال ایک قابل تصور بڑا یعنی محدود جرم ھے تو یہ دعوی کرتے وقت یہ لوگ دو غلط مفروضات قائم کئے ھوئے ہیں:
(الف) ایک فعل کے تمام امکانی اثرات اور ڈائمنشنز کا احاطہ کرنا انسان کیلئے ممکن ھے
ب) جرم کی سنگینی ان تمام قابل احاطہ جہات کے اثرات کا سادہ حاصل جمع ھے (یعنی انہیں وزن دینے کی کوئ ضرورت نہیں)۔ یہ دونوں ہی مفروضے غلط ہیں۔ ذیل میں انکی مختصر وضاحت کی جاتی ھے:
الف) ایٹم بم کی جہت صرف یہی نہیں کہ اس کے چلنے سے بس چند لاکھ لوگ لقمہ اجل بن گئے، یہ محض اسکی ‘ایک’ جہت ھے۔ ذرا ان لاکھوں افراد کے لواحقین اور انکی آنے والی نسلوں پر اسکے اثرات پر غور کریں، اس عمل سے جو بے شمار بیماریاں نسل در نسل ان لوگوں میں در آئیں ذرا اس پر پھی توجہ رہے، پھر ذہن انسانی پر اس عمل کے جو انمٹ خوفناک اثرات آئے اسے بھی نہیں بھولنا چاھئے،پھر مختلف اقوام کے درمیان نفرت اور غضب کی جو کیفیات اس عمل نے طاری کیں یہاں تک کہ یہ ایک ڈسکورس کی شکل اختیار کرگیا اسے پھی یاد رکھیں، پھر اس عمل نے اقوام پر اپنے مدمقابل کو زیر کرنے کیلئے خوفناک ہتھیار بنانے کی جو ریس مسلط کردی وہ بھی ذہن نشین رہے، اتنا ہی نہیں ایک ایسا اکیڈمک ڈسکورس بھی تیار کرلیا گیا جو اس سفاکانہ عمل کا جواز بھی فراھم کرنے کے کوشش کرتا ہے اور اس ڈسکورس سے نجانے کتنے انسان کس کس طرح متاثر ہوئے، پھر اس عمل نے تاریخ کے دھارے پر بھی اثرات ڈالے وغیرہ۔ یہ مختصر تفصیل بتانے کا مقصد صرف یہ دکھانا ہے کہ امریکہ کا ایٹم بم چلانا ایک ساد سا عمل نہیں ھے کہ جسے کوئی بڑی آسانی سے ‘محدود’ کہہ کر آگے بڑھ جائے۔ چنانچہ ہم یہ کہتے ہیں کہ انسانی اعمال کے اثرات کی امکانی جہات اسقدر ہیں کہ انکا احاطہ کرنا سرے سے محدود انسانی ذہن کے بس کی بات ہی نہیں یہ صرف خدا اپنے لامحدود علم ہی سے کرسکتا ھے جو وہ آخرت میں کرے گا اور اسکی بنیاد پر سزا (و انعام) کا تعین ھوگا۔ پس جس کا جرم ناقابل تصور بڑا ھوگا اسے ایسی ہی سزا ملے گی اور وہ اسی کا حقدار ہے
ب) چلئے ایک لمحے کیلئے فرض کرلیتے ہیں کہ ایک فعل کی تمام امکانی جہات کا احاطہ انسانی ذہن کیلئے ممکن ھے۔ تب بھی اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ وہ فعل بذات خود متناہی و محدود ھے جب تک کہ یہ فرض نہ کرلیا جائے کہ فعل کا حجم یا سائز محض ان جہات کا سادہ حاصل جمع ھے (size of the action is a “simple sum” of its all possible dimensions)۔ ظاہر ہے یہ ایک غلط مفروضہ ھے، مثلا ایٹم بم گرا کر دو لاکھ انسانوں کو قتل کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ اسکا حجم ایک متناہی عدد ‘دولاکھ’ کے برابر ہے۔ اس جرم کاحجم متعین کرنے کیلئے یہ طے کرنا بھی ضروری ھے کہ ایک فعل کی ہر جہت کا وزن، اھمیت یا سنگینی (weight) کیا ھونا چاھئے اور سزا کے تعین میں یہ کلیدی حیثیت رکھتا ھے۔ اگر ایک معصوم انسانی زندگی کے قتل کو نوع انسانی کے قتل کے مساوی قرار دیا جائے تو یقینا اسکی سزا کا تصور اس سزا سے یکسر مختلف ہوگا جو ایک انسانی جان کے قتل کو ‘ایک انسان کا قتل’ فرض کرنے سے نکلے گا۔ چنانچہ اگر جہات کو متناہی مان بھی لیا جاۓ مگر ہر جہت اور اسکے اندر شامل اثرات کی سنگینی کا تعین کرنے والے اوزان (یعنی ان سے متعلقہ حساسیت) ناقابل تصور بڑی ھوگی تو فعل کا حجم بھی لامحدود ہوگا (اگرچہ جہات محدود مان بھی لی جائیں)۔ یعنی size of the action is not simple sum, rather “weighted sum” of its all possible dimensions. If weights are infinitely large, so will be the size of the action”
اب اس مقام پر مسئلہ صرف یہ رہ جاتا ہے کہ کس جہت کو کتنی حساسیت یعنی ویٹ کے ساتھ سزا کے تعین میں شامل بحث کرنا ھے، ہم یہ کہتے ہیں کہ انسان اپنی محدود ذہنی صلاحیتوں سے یہ کرنے سے عاجز ھے یہ خدا ہی اپنے لامحدود علم کی بنا پر کرے گا۔ جس کے برے اعمال کا وزن ناقابل تصور بڑا ہوگا اسے یقینا ایسی ہی سزا ملے گی اور وہ اسی کا حقدار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روز قیامت اعمال “تولے” جائیں گے، “گنے” نہیں جائیں گے۔