شبہ نمبر 9: ایک ایسا بندہ (ملحد) جو خدا پر ایمان تو نہیں رکھتا مگر بے شمار اچھے کام کررھا ھے (مثلا غریبوں کی مدد کررھا ھے، ھسپتال بنا رھا ھے وغیرہ) نیز اچھے اخلاق کا حامل بھی ھے، تو خدا اسکے اچھے کاموں کو نظر انداز کرکے اس کے کفر یا شرک کی وجہ سے اسے سزا کیوں دے گا؟
تبصرہ:
یہاں گفتگو کے کئی تناظر ہیں۔ ایک یہ کہ نیک اعمال کا اجر اسے ملے گا جو اجر ملنے کی امید سے کام کررھا ھے، جسے اجر ملنے کی امید ہی نہیں یا وہ اسے حاصل کرنے کی آرزو ہی نہیں رکھتا تو اگر اسے اجر نہ دیا جائے تو پھر وہ شکایت کس بات کی کررھا ھے؟
پس ثواب بھی اسے ملے گا جو اپنے رب کی طرف سے حصول ثواب کی نیت اور امید رکھتا ھے، جسے اس اجر کی پرواہ ہی نہیں تو اسکا رب اگر اسکی پرواہ نہ کرے تو اسے شکایت بھی نہیں کرنی چاہئے (یہ اس شخص کے لحاظ سے ہے جو روز قیامت اپنے کفر کا کوئی واقعی عذر نہ رکھتا ہوگا، جسکا عذر ویلڈ ہوگا اسکا معاملہ الگ ہے جیسےپہلے کہا گیا)۔
دوسری بات یہ کہ ‘اچھا کام’ کوئی پروسیجرل(procedural) تصور نہیں بلکہ اچھا کام وہ ھوتا ھے جسکا حکم خدا نے دیا ھے اور وہ اس نیت ہی سے کیا جائے کہ اسکا حکم خدا نے دیا ھے نیز وہ اس سے راضی ھوتا ھے۔ مثلا اگر کوئی یہ سمجھ کر سچ بول رھا ھے کہ یہ مارکیٹنگ کا اصول ھے، یا اس سے نفع زیادہ ھوتا ھے، یا اس میں میری قوم کا بھلا ھے، یا یہ میرے ضمیر کی آواز ھے، یا ایسا کرنا مجھے اچھا لگتا ھے، یا لوگوں میں میری نیک نامی ھوگی وغیرہ تو یہ عمل ہرگز بھی اچھا نہیں۔ پس عمل کی ادائیگی کرتے وقت جسکی نیت ہی حصول رضا ئے الہی نہیں وہ عمل اچھا ھے ہی کب کہ اسکا اجر دیا جانا چاہئے؟
بوجہ کفر اعمال کے غیر نفع بخش ہوجانے کو یوں سمجھئے گویا جیسے ایک شخص عمدہ کھیر تو پکائے مگر ساتھ تھوڑا زہر بھی ملا دے تو وہ کھیر صحت بخش نہیں بلکہ موت ہی کا باعث ہوگی۔ کفر بھی اعمال کے لئے گویا بمنزل زہر ہے۔
تبصرہ:
یہاں گفتگو کے کئی تناظر ہیں۔ ایک یہ کہ نیک اعمال کا اجر اسے ملے گا جو اجر ملنے کی امید سے کام کررھا ھے، جسے اجر ملنے کی امید ہی نہیں یا وہ اسے حاصل کرنے کی آرزو ہی نہیں رکھتا تو اگر اسے اجر نہ دیا جائے تو پھر وہ شکایت کس بات کی کررھا ھے؟
پس ثواب بھی اسے ملے گا جو اپنے رب کی طرف سے حصول ثواب کی نیت اور امید رکھتا ھے، جسے اس اجر کی پرواہ ہی نہیں تو اسکا رب اگر اسکی پرواہ نہ کرے تو اسے شکایت بھی نہیں کرنی چاہئے (یہ اس شخص کے لحاظ سے ہے جو روز قیامت اپنے کفر کا کوئی واقعی عذر نہ رکھتا ہوگا، جسکا عذر ویلڈ ہوگا اسکا معاملہ الگ ہے جیسےپہلے کہا گیا)۔
دوسری بات یہ کہ ‘اچھا کام’ کوئی پروسیجرل(procedural) تصور نہیں بلکہ اچھا کام وہ ھوتا ھے جسکا حکم خدا نے دیا ھے اور وہ اس نیت ہی سے کیا جائے کہ اسکا حکم خدا نے دیا ھے نیز وہ اس سے راضی ھوتا ھے۔ مثلا اگر کوئی یہ سمجھ کر سچ بول رھا ھے کہ یہ مارکیٹنگ کا اصول ھے، یا اس سے نفع زیادہ ھوتا ھے، یا اس میں میری قوم کا بھلا ھے، یا یہ میرے ضمیر کی آواز ھے، یا ایسا کرنا مجھے اچھا لگتا ھے، یا لوگوں میں میری نیک نامی ھوگی وغیرہ تو یہ عمل ہرگز بھی اچھا نہیں۔ پس عمل کی ادائیگی کرتے وقت جسکی نیت ہی حصول رضا ئے الہی نہیں وہ عمل اچھا ھے ہی کب کہ اسکا اجر دیا جانا چاہئے؟
بوجہ کفر اعمال کے غیر نفع بخش ہوجانے کو یوں سمجھئے گویا جیسے ایک شخص عمدہ کھیر تو پکائے مگر ساتھ تھوڑا زہر بھی ملا دے تو وہ کھیر صحت بخش نہیں بلکہ موت ہی کا باعث ہوگی۔ کفر بھی اعمال کے لئے گویا بمنزل زہر ہے۔