یہ دنیا بڑی رنگین ہے، لبھاتی ہوئی اوراکساتی ہوئی.
اور میرا نفس اس چھوٹے سے بچے کی مانند … جو خود پسند ہوتا ہے. جسے اپنی چاہت دنیا کی سب سے بڑی سچائی معلوم ہوتی ہے. بہلانے سے بہلتا نہیں اور سمجھاۓ جانے پر خفا ہوتا ہے اوربپھرنے لگتا ہے.
وہ چھوٹا سا بچہ جو لمحۂ موجود میں جیتا ہے اور اسے لامتناہی خیال کرتا ہے.
اس لئے میں اپنے اس لاڈلے بچے کی ضد سے ڈر کراس کےمطالبات پورے کرتا رہتا ہوں.
مگر میں یہ دیکھتا ہوں کہ یہ بھوک مٹتی نہیں…
کوئی خواہش پوری جاۓ تویہ بہت جلد بور ہو جاتا ہے. پھر کچھ نہ سوجھنے پر کسی اور بات پر جھنجھلاہٹ اور غصہ نکالنےلگتا ہے.
ایک مہیب خلا ہے جو بھرتا نہیں..
کبھی کبھی مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میرا جی متلا رہا ہے.
ایسے میں کوئی کہہ دے کہ یہ بسیار خوری کا نتیجہ ہے کہ جب تم اپنے نفس کی حقیقی ضرورتوں کی طرف کان دھرنے اور انھیں پورا کرنے کی راہ نہیں پاتے، تو تم خوراک کے ڈھیر میں پناہ ڈھونڈتے ہو ‘ تو مجھے غصہ آجاتا ہے، کیونکہ میں اپنے لئے بہت حساس ہوں.
مگر مشکل یہ ہے کہ بہت سی واہ واہ بھی مجھے سیر نہیں کرتی.
کیونکہ میں اپنی ذات کے آئنہ خانے میں نظر انے والے اپنےہی عکس کی بدصورتی سے نگاہیں نہیں چرا پاتا جو مجھے بے چین کرتی ہے.
سیاہ پتھروں والی وہ سادہ سی کوٹھری جس کے گرد ساری کائنات گھومتی ہے، مجھے بلاتی ہے.
اس کا مالک مجھے کہتا ہے کہ ذرا کی ذرا اس ( نفس ) کو “ہشت، چپ” کہہ کر دیکھو..
جب یہ بگڑے تو اسے نظر انداز کرو. بھوکا رہے گا، تو نعمت اسے سیر کرے گی.
کچھ دیر کو تو یہ رنگ برنگے بوجھ اتار کر فقیرانہ سادگی کے ساتھ ہمارے در پر اکر بیٹھو.
تلذز کے سرور کے بالمقابل قربانی کی سکینت کو آزما کردیکھو.
بدن کی کثافتوں سے روح کے بوجھ کو ہلکا کرو. الوہی سکوں کے بحر بیکراں کے چند قطرے بھی تمہیں سرشار کر دیں گے.
مجھے لگتا ہے سیاہ کوٹھری سے ابھرتی یہ پیار بھری حکیمانہ آواز مجھے اپنی جانب کھینچ لے گی.
مگر رنگین پیرہن میں ملبوس جام لٹاتی دنیا کا جادوئی رقص ہوش ربا بھی ہے اور میرا نفس بوجھل بھی.
میں اپنے پاؤں پھیلا رہا ہوں کہ کل نکلوں گا.
گیت کی لے بلند ہورہی ہے اور میں اپنی حرم سرا کے روزن سے دیوانوں کے قافلوں کو سفید لبادوں میں سیاہ کوٹھری کی جانب جاتے دیکھ رہا ہوں، ادھر جہاں سے آواز آرہی ہے،
لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لاَ شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ، وَالنِّعْمَةَ، لَكَ وَالْمُلْكَ، لاَ شَرِيكَ لَكَ!
تحریر جویریہ سعید