تاریخ قرآن

format

اسلامی تاریخ کے طالبعلموں کے لئے ڈاکٹر حمید اللہ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ ڈاکٹر حمیداللہ نے جامعہ عثمانیہ حیدرآباد دکن سے ایم اے، ایل ایل بی کی ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد جرمنی کی بون یونیورسٹی سے اسلام کے بین الاقومی قانون پر تحقیقی مقالہ لکھ کر ڈی فل کی ڈگری حاصل کی۔ بعد ازاں فرانس کی سوبورن یونیورسٹی پیرس سے عہد نبوی اور خلافت راشدہ میں اسلامی سفارت کاری پر مقالہ لکھ کر ڈاکٹر آف لیٹرز کی سند پائی۔ جامعہ عثمانیہ کے علاوہ جرمنی اور فرانس کی جامعات میں درس و تدریس کے فرایض انجام دینے کے بعد ڈاکٹر حمیداللہ فرانس کے نیشنل سینٹر آف ساینٹفک ریسرچ سے تقریبا بیس سال تک وابستہ رہے۔ آپ اردو، فارسی، عربی اور ترکی کے علاوہ انگریزی، فرانسیسی، جرمن ، اور اطالوی زبان پر بھی عبور رکھتے تھے۔ آپ کی کتابوں اور مقالات کی تعداد سینکڑوں میں ہے جس میں فرانسیسی زبان میں آپ کا ترجمہ قران ، اور اسی زبان میں‌دو جلدوں میں سیرت پاک ، قران کی بیبلیوگرافی ‘القران فی کل اللسان’ کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی زندگی پر محققانہ تصانیف ‘بیٹل فیلڈز محمد صلی اللہ علیہ وسلم ‘ ، ‘مسلم کنڈکٹ آف اسٹیٹ’ اور ‘فرسٹ رٹن کانسٹیٹیوشن’ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

ڈاکٹر صاحب کی تحریر کی خوبی آپ کا آسان، عام فہم اور دعوتی انداز بیاں ہے۔ آپ کی تحریروں میں عالمانہ انکسار اور افہام و تفہیم کا جز جگہ جگہ نظر آتا ہے۔ آپ تحقیق کا نچوڑ اور متقابل قاری کے سامنے رکھ دیتے ہیں اور اپنی راے بیان کر کے قاری کو اپنی راے متعین کرتنے کا موقع دیتے ہیں۔ یہ انداز جدید دور کے قاری کے لئے نہایت متاثر کن ہے۔ آپ کی عمر کا ہر لمحہ علمی تحقیق اور طلب علم میں‌گذرا ۔ 17 دسمبر 2002 کو اسلام کا یہ فرزند اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔ فرانس میں‌قیام کے دوران ڈاکٹر صاحب سے ملاقات کا اشتیاق رہا لیکن شومی قسمت سے وہ جب تک صحت کی خرابی کی وجہ سےامریکہ منتقل ہو چکے تھے۔ اب جیکسن ول فلارڈا میں‌ہارڈیج گنز فیونرل ہومز میں منوںمٹی کے نیچے آرام فرما ہیں اور آپکا صدقہ جاریہ، کتابیں اور تحقیقی مقالہ جات دین کے طالبعلموں‌کے لئے زاد راہ ہیں۔

خطبات بہاولپور آپ کے مارچ 1980 میں جامعہ اسلامیہ بہاولپور میں‌ دئے جانے والے لیکچرز کی جمع کردہ کتابی شکل ہے۔ ان تیرہ عدد خطبات میں مندرجہ زیل موضوعات پر گفتگو کی گئی ہے۔ تاریخ قران مجید، تاریخ حدیث شریف، تاریخ فقہ، تاریخ اصول فقہ و اجتہاد، قانون بین الممالک، دین عقائد عبادات تصوف، مملکت اور نظم و نسق، نظام دفاع اور غزوات، نظام تعلیم اور سرپرستی علوم، نظام تشریع و عدلیہ، نظام مالیہ و تقویم، تبلیغ اسلام اور غیر مسلموں سے برتاو۔ یہ کتاب عام فہم انداز میں تحریر کردہ ہے لیکن موجودہ دور کے کئی پیچیدہ سوالوں کے عام فہم اور با معنی جوابات کے لئے اس کا مطالعہ نہایت اکثیر ہے اور اس میں ہمارے لئے فروعات سے نکل کر اصول کی پیروی کرنے کے لئے بہت خوب نصیحت ہے۔ ذیل میں انکا خطبہ تاریخ قرآن پیش کیا جارہا ہے۔

تاریخ قرآن مجید

محترم صدر، محترم وائس چانسلر، برادران و خواہران محترم!

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

قرآن مجید ایک ایسا موضوع ہے جس کے بہت سے پہلو ہیں اور ایک گھنٹے کے مختصر وقت میں یہ ممکن نہیں کہ ان سارے پہلوؤں پر روشنی ڈالی جاسکے۔ اس لیے صرف اس کے ایک پہلو یعنی تدوین قرآن مجید کی تارخ کو چند الفاظ میں آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔

مسند احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ میں ایک حدیث ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ “اللہ نے حضرت آدم سے لے کر مجھ تک ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر بھیجے۔ جن میں سے تین سو پندرہ صاحب کتاب تھے”۔ تین سو پندرہ صاحب کتاب نبیوں کے نام نہ تو قرآن مجید میں ہیں اور نہ احادیث میں ان کا ذکر ہے، لہٰذا ہمارے لیے یہ ممکن نہیں کہ ان کی تفصیل معلوم کرسکیں۔ صرف چند اشارے ملتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام پر دس صحیفے نازل ہوئے تھے۔ لیکن یہ ہماری بدنصیبی ہے ہمیں یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ کس زبان میں تھے۔ چہ جائیکہ ان کے مندرجات کا علم ہو۔ حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹھے حضرت شیث علیہ السلام بھی پیغمبر تھے ان کے متعلق بعض روایات میں ذکر ملتا ہے کہ ان پر بھی چند کتابیں نازل ہوئی تھیں۔ لیکن ان کا بھی دنیا میں اب کوئی وجود نہیں۔ قدیم ترین نبی، جن کی طرف منسوب کتاب کا کچھ حصہ ابھی حال ہی میں ہم تک پہنچا ہے حضرت ادریس علیہ السلام ہیں۔ غالباً آپ نے سنا ہو گا کہ فلسطین میں بحر مردار کے پاس بعض غاروں سے کچھ مخطوطے ملے ہیں۔ ان مخطوطوں میں سے ایک کتاب حضرت اخنوخ یا انوخ یعنی حضرت ادریس علیہ السلام کی طرف منسوب ہے۔ حال ہی میں اس کتاب کے کچھ ترجمے انگریزی زبان میں شائع ہوئے ہیں۔ اگر چہ اس بات کا کوئی حتمی و قطعی ثبوت موجود نہیں، لیکن اب تک کی تحقیق کے مطابق ہم اسے قدیم ترین نبی کی کتاب کہ سکتے ہیں۔ اس کتاب میں آخری نبی کی بشارت بھی ہے، جس کو بعد میں عہد جدید (انجیل) کے باب “مکتوب یہودا” نے بھی نقل کیا ہے۔ حضرت ادریس علیہ السلام کے بعد حضرت نوح علیہ السلام کے متعلق بھی ہمیں کچھ اشارے ملتے ہیں۔ عراق میں “صابیہ” کے نام سے ایک چھوٹا سا گروہ پایا جاتا ہے جس کا ایک مستقل دین ہے ان کا یہ دعویٰ ہے کہ “ہم حضرت نوح علیہ السلام کی کتاب اور ان کے دین پر عمل پیرا ہیں” ان کا کہنا ہے کہ “ایک زمانے میں حضرت نوح علیہ السلام کی پوری کتاب ہمارے پاس موجود تھی لیکن امتداد زمانہ کے سبب سے اب وہ ناپید ہے۔ اس کے مندرجات صرف چار پانچ سطروں میں ہمارے پاس موجود ہیں۔ جن میں اخلاق کی تعلیم دی گئی ہے”۔ اس کے بعد ایک اور نبی آئے ہیں جن کی کتاب کا ذکر خود قرآن مجید میں موجود ہے۔ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں۔ (صحف ابراہیم و موسیٰ) دو مرتبہ قرآن مجید میں اس کا ذکر آیا ہے۔ ان کی کتاب کے مندرجات یہودی اور عیسائی ادبیات میں تو نہیں قرآن میں چند سطروں کی حد تک محفوظ ملتے ہیں۔ اسی طرح بعض ایسے انسان بھی ہیں جن کو صراحت کے ساتھ نبی تو تسلیم نہیں کیا جاسکتا لیکن ان کی نبوت کے امکان کو رد بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ان میں سے ایک شخصیت “زردشت” کی ہے۔ پارسی انہیں اپنا نبی مانتے ہیں۔ ان کی نبوت کا امکان اس بنا پر بھی ہے کہ قرآن مجید میں مجوس قوم کا ذکر آیا ہے۔ مجوسیوں کا مذہب زردشت کی لائی ہوئی کتاب “آوستا پر مبنی ہے” آوستا کے متعلق ہم تک کچھ معلومات پہنچی ہیں۔ جب ہم اس کا قرآن مجید سے موازنہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ کس کو کیا برتری حاصل ہے؟ زردشت کی کتاب اسوقت کی “زند” زبان میں تھی۔ کچھ عرصے بعد ایران پردوسری قوموں کا غلبہ ہوا اور نئے فاتحین کی زبان وہاں رائج ہوئی۔ پرانی زبان متروک ہوتی گئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ملک بھر میں مٹھی بھر عالم اور مختصصین کے سوا زند زبان جاننے والا کوئی نہ رہا اس لیے زردشتی مذہب کے عماء نے نئی زبان پازند میں اس کتاب کا خلاصہ اور شرح لکھی۔ آج کل ہمارے پاس اس نسخے کا صرف دسواں حصہ موجود ہے۔ باقی غائب ہو چکا ہے۔ اس دسویں حصے میں کچھ چیزیں عبادات کے متعلق ہیں اور کچھ دیگر احکام ہیں۔ بہر حال دنیا کی ایک قدیم دینی کتاب کو ہم آوستا کے نام سے جانتے ہیں لیکن وہ مکمل حالت میں ہم تک نہیں پہنچ سکی ہے۔ یہاں ایک چیز کا میں اشارۃً ذکر کروں گا۔ آوستا میں دوسری باتوں کے علاوہ زردشت کا یہ بیان ملتا ہے: “میں نے دین کو مکمل نہیں کیا۔ میرے بعد ایک اور نبی آئے گا جو اس کی تکمیل کرے گا۔ اور اس کا نام رحمۃ للعالمین ہو گا” یعنی ساری کائنات کے لیے باعث رحمت۔

ہندوستان میں بھی کچھ دینی کتابیں پائی جاتی ہیں۔ اور ہندوؤں کا عقیدہ ہے کہ یہ خدا کی طرف سے الہام شدہ کتابیں ہیں۔ ان مقدس کتابوں میں دید، پران، اپنشد اور دوسری کتابیں شامل ہیں۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ سب کتابیں ایک ہی نبی پر نازل ہوئی ہیں۔ ممکن ہے متعدد نبیوں پر نازل ہوئی ہوں، بشرطیکہ وہ نبی ہوں، ان میں بھی خصوصاً “پران” نامی کتابوں میں کچھ دلچسپ اشارے ملتے ہیں “پران” وہی لفظ ہے جو اردو میں “پرانا” یعنی قدیم ہے۔ اس کی طرف ہمیں قرآن مجید میں ایک عجیب و غریب اشارہ ملتا ہے: (وانہ لفی زبر الاولین 26:196) اس چیز کا پرانے لوگوں کی کتابوں میں ذکر ہے)۔ میں نہیں جانتا کہ اس کا پران سے کوئی تعلق ہے یا نہیں؟ بہرحال دس پران ہیں، ان میں سے ایک میں یہ ذکر آیا ہے کہ “آخری زمانے میں ایک شخص ریگستان کے علاقے میں پیدا ہو گا۔ اس کی ماں کا نام قابل اعتماد، اور باپ کا نام، اللہ کا غلام ہو گا۔ وہ اپنے وطن سے شمال کی طرف جا کر بسنے پر مجبور ہو گا۔ اور پھر وہ اپنے وطن کو متعدد بار دس ہزار آدمیوں کی مدد سے فتح کرے گا۔ جنگ میں اس کی رتھ کو اونٹ کھینچیں گے اور وہ اونٹ اس قدر تیز رفتار ہوں گے کہ آسمان تک پہنچ جائیں گے”۔ اس کتاب میں جو مذکورہ الفاظ ہمیں ملتے ہیں ان سے ممکن ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اشارہ مستنبط کیا جاسکے۔

ان پرانی کتابوں کے علاوہ وہ کتابیں ہیں جو مسلمانوں میں بالخصوص معروف ہیں، یعنی توریت، زبور اور انجیل۔ قبل اسکے کہ قرآن مجید کا آپ سے ذکر کروں بطور تمہید ان کا بھی چند الفاظ میں ذکر کروں گا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر جو کتاب نازل ہوئی وہ “توریت” کہی جاتی ہے۔ لیکن دراصل توریت اس کتاب کا ایک جزو ہے، توریت کے معنی ہیں “قانون”۔ یہودی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف پانچ کتابیں منسوب کرتے ہیں، پہلی کتاب “کتاب پیدائش” کہلاتی ہے۔ دوسری کتاب “کتاب خروج” جو مصر سے نکلنے کے حالات پر مشتمل ہے۔ تیسری کتاب “قانون” ہے۔ چوتھی کتاب کا نام “اعداد و شمار ہے” کیونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حکم دیا تھا کہ یہودیوں کی قبیلے وار مردم شماری کی جائے۔ پانچویں کتاب “تثنیہ” کے نام سے موسوم ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ پرانی چیزوں کو دوبارہ دہرایا جائے، ان کو up to date کیا جائے یا ان کی تشریح کی جائے۔ شروع شروع میں یہودیوں کے ہاں یہ پانچویں کتاب (تثنیہ) نہیں پائی جاتی تھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے کوئی چھ سو سال بعد ایک جنگ کے زمانے میں ایک شخص ملک کے اس وقت کے یہودی بادشاہ کے پاس ایک کتاب لایا اور کہا کہ مجھے یہ کتاب ایک غار سے ملی ہے۔ معلوم نہیں کس کی ہے، مگر اس میں دینی احکام نظر آتے ہیں۔ بادشاہان نے اپنے زمانے کی ایک نبیہ عورت کے پاس اس نسخے کو بھیجا (یہودیوں کے ہاں عورتیں بھی نبی رہی ہیں یا کم از کم وہ اس کا دعویٰ کرتے ہیں) اس نبیہ نے جس کا نام ہلدا HULDA بیان کیا جاتا ہے یہ کہلا بھیجا کہ یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام ہی کی کتاب ہے۔ چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے چھ سو سال بعد اسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف منسوب کیا جانے لگا۔ اس کتاب کو “تثنیہ” کا نام اس لیے دیا گیا کہ اس میں پہلی چار کتابوں کے احکام میں سے کچھ احکام خلاصے کے طور پر اور کچھ اضافے کے ساتھ دہرائے گئے ہیں۔ بہر حال ان پانچ کتابوں کی سرگزشت یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وفات کے بعد آنے والے انبیاء کے زمانے میں یہودیوں نے فلسطین کا کچھ حصہ فتح کیا اور وہاں حکومت شروع کی تو کچھ عرصے بعد عراق کے حکمران بخت نصر (نبوکدنوصور) نے فلسطین پر حملہ کیا۔ چونکہ اس کا دین یہودیوں کے دین سے مختلف تھا اس لیے اس نے صرف ملک فتح کرنے پر ہی اکتفا نہ کیا بلکہ ن دشمنوں کے دین کو بھی دنیا سے نیست و نابود کرنے کے لیے توریت کے تمام قلمی نسخوں کو جمع کر کے آگ لگا دی۔ حتیٰ کی توریت کا ایک نسختہ بھی باقی نہ رہا۔ یہودی مورخوں کے مطابق اس کے ایک سو سال بعد ان کے ایک نبی “حضرت عزرا” Esdra نے جو (شاید حضرت عزیر علیہ السلام ہوں) یہ کہا کہ مجھے توریت زبانی یاد ہے۔ انہوں نے توریت املا کروائ۔ توریت کے اس اعادے کے کچھ عرصے بعد روما کے ایک حکمران نے فلسطین پر حملہ کیا۔ سپہ سالار کا نام انٹیوکس تھا اس نے بھی وہی کام کیا جو بخت نصر نے کیا تھا۔ یعنی یہودیوں کی کتابیں جمع کر کے جلا دیں۔ اس طرح دوسری مرتبہ وہ نابود کر دی گئیں۔ اس کے کچھ عرصے بعد ایک اور رومی حکمران نے طیطس نامی کمانڈر کی ماتحتی میں ایک فوج بھیجی اور اس نے تیسری مرتبہ، فلسطین میں دستیاب شدہ یہودیوں کی تمام کتابوں کو جلا دیا۔ اب ہمیں توریت کے نام سے جو کتاب ملتی ہے وہ بائبل کے حصہ عہد نامہ عتیق (Old Testament) میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف منسوب پانچ کتابیں ہیں۔ یہ کتابیں تین چار مرتبہ کی آتش زدگی کے بعد اعادہ شدہ شکلیں ہیں۔ ان کا اعادہ کس طرح ہوا اور کس نے ان کا اعادہ کیا اس کے متعلق ہمیں کوئی علم نہیں۔ البتہ جو شخص ان کتابوں کو پڑھتا ہے تو اسے دو چیزوں سے سابقہ پڑتا ہے۔ بعض اوقات اسے ایسی چیزیں نظر آتی ہیں جو کھٹکتی ہیں اور اسے احساس ہوتا ہے کہ یہ اصل میں نہ ہوں گی بلکہ بعد کا اضافہ ہیں۔ بعض مقامات پر کمی محسوس ہوتی ہے اور تشنگی باقی رہتی ہے چنانچہ بعض چیزیں جو زیادہ ہو گئی ہیں وہ اس طرح ہیں کہ جو کتاب حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف منسوب ہے اس میں وہ باتیں ہیں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وفات کے بعد پیش آئیں۔ اگر آپ کتاب “تثنیہ” پڑھیں تو اس کے آخری باب میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بیماری، حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وفات، حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تدفین اور اس کے بعد کے واقعات کا ذکر ملتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ حصہ بعد کا اضافہ ہے۔ مگر یہ تو ایسی باتیں ہیں جنہیں ہر پڑھنے والا فوراً محسوس کر لیتا ہے۔ خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ اس میں دیگر کتنی چیزوں کا اضافہ ہوا ہے جو غیر محسوس ہوں۔ اسی طرح جن چیزوں کی کمی نظر آتی ہے یا جن کا وہاں ہونا ضروری تھا مگر نہیں ہیں وہ ایسی ہیں کہ کم از کم بیس مرتبہ اس طرح کے الفاظ ملتے ہیں کہ اس حکم کی تفصیلیں فلاں باب میں ملیں گی۔ جن ابواب کے حوالے دئے گئے ہیں ان میں سے ایک بات کا نام “خدا کی جنگیں” اور ایک اور باب کا نام “مخلص اور نیک لوگوں کی کتاب” ہے۔ اور وہ باب سرے سے موجود ہی نہیں ہیں۔ یہ کچھ باتیں توریت کے متعلق تھیں جو میں نے آپ سے بیان کیں۔ توریت ضخیم صورت میں ہمارے پاس موجود ہے اور دنیا کی بیشتر زبانوں میں اس کے ترجمے ہو چکے ہیں۔

توریت کے بعد مسلمانوں میں عام طور پر زبور کا نام لیا جاتا ہے اور ہمارا تصور یہ رہا ہے کہ یہ بھی توریت اور انجیل ہی کی طرح ایک مستقل کتاب ہے۔ لیکن عہد نامہ عتیق (Old Testament) میں جو چیز حضرت داؤد علیہ السلام کی طرف منسوب ہے اور جس کو وہ سام Psalm یعنی زبور کے نام سے موسوم کرتے ہیں اس میں صرف خدا کی حمدو ثناء کی نظمیں ہیں۔ کوئی نیا حکم نہیں ہے۔ ہمارا یہ تصور ہے کہ ہر نبی ایک نئی شریعت لاتا ہے لیکن اس کتاب میں ایسی کوئی نئی شریعت نہیں ملتی۔ تاہم جس طرح پرانی کتابوں میں (کتاب ادریس سے لے کر ایران کے آوستا تک) ایک آخری نبی علیہ السلام کی بشارت ملتی ہے اس طرح زبور میں بھی ایسی چیزیں ملتی ہیں۔ نیز جو سرگزشت توریت کی رہی وہی زبور کی بھی رہی ہے اس لیے میں اس کو چھوڑ کر اب انجیل کا ذکر کرتا ہوں۔

انجیل کے متعلق مسلمانوں کا تصور عام طور پر یہ ہے کہ وہ ایک مستقل کتاب تھی جو خدا کی طرف سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئ۔ لیکن ہمارے پاس عیسائیوں کے توسط سے جو انجیل پہنچی ہیں وہ ایک نہیں بلکہ چار انجیلیں ہیں، جو یہ ہیں متی Matthew، مرقس Mark، لوقا Luke، یوحنہ John۔ ہر انجیل ایک الگ آدمی کی طرف منسوب ہے۔ یہ چار کتابیں بھی ساری انجیلیں نہیں ہیں بلکہ خود عیسائی مورخوں کے مطابق ستر سے زیادہ انجیلیں پائی جاتی ہیں جن میں سے ان چار کو قابل اعتماد اور باقی کو مشتبہ قرار دیا گیا ہے ان کو پڑھنے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ خدا کی طرف سے بھیجے ہوئے الہام یا وحی پر مشتمل نہیں بلکہ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی سوانح عمریاں ہیں۔ چار شخصوں نے یکے بعد دیگرے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی سوانح عمری لکھی اور ہر ایک نے اس کو انجیل کا نام دیا۔ لفظ انجیل کے معنی ہیں ” خوشخبری” اور اس کی وجہ تسمیہ غالباً یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جو حالات زندگی انجیل میں ملتے ہیں ان کے مطابق عام طور پر وہ کسی گاؤں میں جایا کرتے تھے اور وہاں کے لوگوں سے کہتے تھے کہ میں بشارت دیتا ہوں کہ خدا کی حکمرانی اب جلد آنے والی ہے۔ شاید اس اساس پر کتاب کا نام بھی یہی ہو گیا لیکن اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر کوئی کتاب نازل ہوئی تھی تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اسے لکھوایا نہیں اس لیے آج دنیا میں اس کا کوئی وجود نہیں۔ اب جو انجیلیں موجود ہیں، ان کی حقیقت یہ ہے کہ بہت سے لوگوں نے مختلف زمانوں میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی سوانح عمریاں لکھیں اور ان سوانح عمریوں کو ہر مؤلف نے انجیل کا نام دیا۔ ان میں سے چار کو کلیسا نے قابل اعتماد قرار دیا ہے اور باقی کو رد کیا ہے۔ ان چار انجیلوں کے انتخاب کے متعلق کسی کو کوئی علم نہیں کہ ان کو کس نے انتخاب کیا، کب انتخاب کیا اور کن معیارات کو سامنے رکھ کر انتخاب کیا؟ بہر حال اس بات پر سب متفق ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی لکھوائی ہوئی کتاب دنیا میں موجود نہیں ہے۔ جو چیز اس وقت ہمارے پاس انجیل کے نام سے ملتی ہے وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی سوانح عمریاں ہیں۔ انہیں ہم “سیرت حضرت عیسٰی علیہ السلام” کہہ سکتے ہیں۔ بعینہ جس طرح مسلمانوں کے ہاں سیرت نبوی کی کتابیں پائی جاتی ہیں۔

کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے آپ پر نازل شدہ احکام کو لکھوایا کیوں نہیں تھا؟ میرے ذہن میں جو جواب آتا ہے (ممکن ہے غلط ہو) وہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے دیکھا کہ ان سے پہلے کے نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام پر جو توریت نازل ہوئی تھی اس کی کیا درگت بنی۔ دشمن حملہ کرتے ہیں اس کی توہین کرتے ہیں اسے جلا دیتے ہیں اور نیست و نابود کر دیتے ہیں۔ غالباً انہوں نے یہ سوچا کہ کہیں میری کتاب کا بھی وہی حشر نہ ہو۔ لہٰذا بہتر ہے کہ اسے لکھوایا ہی نہ جائے۔ اس طرح یہ کتاب لوگوں کے ذہنوں میں رہے گی۔ عبادت گزار نیک لوگ اسے ادب سے یاد رکھیں گے اور اپنے بعد کی نسلوں تک پہنچائیں گے۔ شاید یہی تصور ہو جس کی بنا پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی انجیل کو نہ لکھوایا۔

دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ خدا چونکہ ازلی اور ابدی علم کا مالک ہے اس لیے یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ حضرت آدم کو ایک حکم دے اور بعد کے نبی کو کوئی دوسرا اس کے بالکل برعکس حکم دے۔ البتہ یہ ضرور ہوسکتا ہے کہ ایک نبی کو کچھ احکام اور بعد کے نبی کو کچھ اور احکام اضافے کے ساتھ دیے جائیں۔ فرض کیجئے کہ حضرت آدم علیہ السلام پر نازل شدہ کتابیں آج دنیا میں صحیح حالت میں موجود ہوتیں تو (میرا تصور یہ ہے کہ) خدا کو کوئی نئی کتاب بھیجنے کی کوئی ضرورت نہ ہوتی۔ وہی کتاب آج بھی کارآمد ہوتی۔ لیکن جس طرح ابھی ہم نے اس مختصر مطالعے میں دیکھا کہ پرانے انبیاء کی کوئی کتاب بھی بلا استثناء ہم تک من و عن کامل صورت میں نہیں پہنچی ہے اس لیے خدا نے چاہا کہ ایک مرتبہ انسان کو ایسی مکمل کتاب دی جائے جس میں تمام احکام ہوں اور اس کی مشیت یہ بھی ہوئی کہ یہ کتاب محفوظ رہے۔ وہ کتاب قرآن مجید ہے۔

اب ہم یہ دیکھیں گے کہ قرآن کس طرح محفوظ حالت میں ہم تک پہنچا ہے۔ اولاً میں اس کی زبان کے بارے میں کچھ عرض کروں گا۔ یہ عربی زبان میں ہے۔ اس آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کتاب کے لیے عربی زبان کا انتخاب کیوں ہوا؟ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ زبانیں رفتہ رفتہ بدل جاتی ہیں۔ خود اردو زبان کو لیجئے۔ اب سے پانچ سو سال پہلے کی کتاب مشکل سے ہمیں سمجھ میں آتی ہے۔ دنیا کی ساری زبانوں کا یہی حال ہے انگریزی میں پانچ سو سال پہلے کی مؤلف “چاسیر” (Chaucer) کی کتاب کو آج کل لندن کا کوئی شخص، یونیورسٹی کے فاضل پروفیسروں کے سوا، سمجھ نہیں سکتا۔ یہی حال دوسری قدیم و جدید زبانوں کا ہے۔ یعنی وہ بدل جاتی ہیں اور رفتہ رفتہ ناقابل فہم ہو جاتی ہیں۔ اگر خدا کا آخری پیغام بھی کسی ایسی ہی تبدیل ہونے والی زبان میں آتا تو خدا کی رحمت کا اقتضاء یہ ہوتا کہ ہم بیسویں صدی کے لوگوں کو پھر ایک نئی کتاب دے تاکہ ہم اسے سمجھ سکیں کیونکہ گزشتہ صدیوں کی کتاب اب تک ناقابل فہم ہو چکی ہوتی۔ دنیا کی زبانوں میں سے اگر کسی زبان کو یہ استثناء ہے کہ وہ نہیں بدلتی تو وہ عربی زبان ہے۔ چنانچہ واقعہ یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہم عصر عربی یعنی قرآن مجید اور حدیث شریف میں جو زبان استعمال ہوئی ہے اور جو عربی آج ریڈیو پر آپ سنتے ہیں یا جو آج عربی اخباروں میں پڑھتے ہیں، ان دونوں میں بہ لحاظ مفہوم الفاظ، گرامر (صرف و نحو)، ہجے اور تلفظ، کوئی فرق نہیں ہے۔ آج رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہوں اور میں ایک عرب کی حیثیت سے اپنی موجودہ عربی میں آپ سے گفتگو کروں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا ہر لفظ سمجھیں گے۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے جواب مرحمت فرمائیں تو آپ کا ہر لفظ میں سمجھ سکوں گا۔ کیونکہ ان دونوں زبانوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ میں اس سے یہ استنباط کرتا ہوں کہ آخری نبی پر بھیجی ہوئی آخری کتاب ایسی زبان میں ہونی چاہیے جو غیر تبدیل پذیر ہو لہٰذا عربی کا انتخاب کیا گیا، عرض کرنا یہ ہے کہ اس عربی زبان میں دیگر خصوصیات مثلاً فصاحت، بلاغت، ترنم وغیرہ کے علاوہ ایک خصوصیت ایسی ہے جس کا ہم سب مشاہدہ کرسکتے ہیں۔ وہ یہ کہ عربی زبان غیر تبدیل پذیر ہے اور اس کے لیے ہمیں عربوں کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ انہوں نے مختلف علاقوں کی بولیوں کو اپنی زبان نہیں بنایا۔ بلکہ اپنی علمی اور تحریری زبان وہی رکھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے چلی آ رہی تھی۔

جہاں تک قرآن کا تعلق ہے آپ سب واقف ہیں کہ وہ بیک وقت نازل نہیں ہوا۔ جیساکہ توریت کے متعلق یہودیوں کا بیان کہ اسے خدا نے تختیوں پر لکھ کر ایک ہی مرتبہ دے دیا تھا۔ اس کے برخلاف قرآن مجید تئیس سال تک جستہ جستہ، (نجماً نجماً) نازل ہوتا رہا اور یہ ان مختلف زمانوں میں نازل شدہ اجزاء کا مجموعہ ہے جو قرآن مجید کی صورت میں ہمارے پاس ہے۔ اس کا آغاز دسمبر سنہ 609ء میں ہوا جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم غار حرا میں معتکف تھے۔ وہاں حضر جبرئیل علیہ السلام آتے ہیں اور آپ تک خدا کا پیغام پہنچاتے ہیں۔ وہ پیغام بہت ہی اثر انگیز ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک امی ہیں۔ انہیں لکھنا پڑھنا نہیں آتا۔ اس امی شخص کو جو پہلا حکم دیا گیا وہ ہے “اقراء” یعنی پڑھ اور پھر قلم کی تعریف کی گئی ہے۔ پڑھنے کا حکم دے کر پھر قلم کی تعریف کیوں کی جاتی ہے؟ اس لیے کہ قلم ہی کے ذریعے سے خدا انسا کو وہ چیز بتاتا ہے جو وہ نہیں جانتا دوسرے الفاظ میں قلم ہی وہ چیز ہے جو انسانی تمدن اور انسانی تہذیب کی حفاظت گاہ (Depository) ہے۔ اس کا وجود اس لیے ہے کہ پرانی چیزوں کو محفوظ رکھا جاسکے۔ آنے والے اس میں نئی چیزوں کا اضافہ کرتے ہیں۔ انسانی تہذیب و تمدن کے ارتقاء کا راز یہی ہے اور اسی وجہ سے انسان کو دیگر حیوانات پر تفوق حاصل ہے ورنہ آپ غور کریں گے کہ کوا آج سے بیس لاکھ سال پہلے جس طرح گھونسلا بناتا تھا آج بھی اسی طرح بناتا ہے۔ اس نے کوئی ترقی نہیں کی۔ لیکن انسان و جانور ہے جو چاند تک پہنچ چکا ہے۔ اس نے اتنی ترقی کی کہ آج وہ ساری کائنات پر حکومت کر رہا ہے۔ یہ ساری ترقیاں انسان نے اس لیے کی ہیں کہ اس کو اپنے سے پہلے کے لوگوں کے تجربات کا جو علم حاصل ہوا اس کو محفوظ رکھا اور اس میں اس نے اپنے ذاتی تجربوں سے روز افزوں اضافہ کیا اور اس سے استفادہ کرتا رہا۔ اور یہ سب قلم کی بدولت ممکن ہوا۔ آیت (علم بالقلم، علم الانسان مالم یعلم) میں اسی حقیقت کی طرف قرآن مجید نے بہت ہی بلیغ انداز میں اشارہ کیا ہے۔ جب “سورۃ اقراء” (یعنی سورۃ العلق) کی پہلی پانچ آیاتا نازل ہوئیں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم غار کو چھوڑ کر گھر واپس آئے اور اپنی بیوی حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو بتایا کہ مجھے آج یہ واقعہ پیش آیا ہے۔ مجھے خوف ہے کہ وہ شاید کسی دن مجھے نقصان نہ پہنچائے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے تسلی دی اور کہا کہ خدا آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو ضائع نہیں کرے گا۔ ورقہ بن نوفل میرا چچا زاد بھائی ہے جو ان معاملات (یعنی فرشتے، وحی وغیرہ) سے واقف ہے۔ کل صبح جا کر ہم اس سے گفتگو کریں گے، وہ آپ کو بتائے گا۔ میں ان چیزوں سے واقف نہیں ہوں لیکن مجھے یقین ہے کہ شیطان کبھی آپ کو دھوکا نہیں دے سکے گا۔ ایک روایت کے مطابق صبح کو وہ آپ کو اپنے ساتھ ورقہ بن نوفل کے پاس لے جاتی ہیں۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے ان کے عزیز دوست ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے ان کو یہ قصہ سنایا اور کہا کہ انہیں اپنے ساتھ لے جا کر ورقہ سے ملاؤ۔ ورقہ بن نوفل بہت بوڑھے تھے۔ ان کی بصارت زائل ہو چکی تھی، مذہباً نصرانی تھے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس پہنچے اور یہ قصہ سنایا تو ورقہ نے بے ساختہ یہ الفاظ کہے: “اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) جو چیزیں تم نے ابھی بیان کی ہیں، اگر وہ صحیح ہیں تو یہ ناموس موسیٰ علیہ السلام سے مشابہ ہیں”۔ “ناموس” کا لفظ اردو میں عام طور پر عزت کے لیے مستعمل ہے۔ ظاہر ہے کہ یہاں یہ مفہوم نہیں ہوسکتا۔ بعض مفسرین ناموس کے معنی “قابل اعتماد” لکھتے ہیں، وہ بھی یہاں موزوں نہیں ہے۔ بعض لکھتے ہیں کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام کو ناموس کا نام دیا جاتا ہے۔ اسلامی ادبیات میں وہ “روح الامین” ہیں مگر یہ معنی بھی یہاں کام نہیں دیتے۔ میرے ذہن میں یہ آتا ہے کہ “ناموس” اصل میں ایک اجنبی لفظ ہے، جو معرب ہو کر عربی زبان میں استعمال ہوا۔ یہ یونانی زبان کا لفظ “ناموس” (Nomos) ہے۔ یونانی زبان میں لفظ توریت کو نوموس یعنی قانون کہتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں ورقہ بن نوفل کا بیان ہے کہ یہ چیز حضرت موسیٰ علیہ السلام کی توریت سے مشابہ ہے۔ اور یہی معنی زیادہ قرین قیاس نظر آتے ہیں۔

قرآن مجید کی تبلیغ و اشاعت کے متعلق قدیم ترین ذکر ابن اسحٰق کی کتاب المغازی میں ملتا ہے۔ یہ کتاب ضائع ہو گئی تھی لیکن اس کے بعض ٹکڑے حال ہی میں ملے ہیں اور حکومت مراکش نے ان کو شائع بھی کیا ہے۔ اس میں ڈیڑھ سطر کی ایک بہت دلچسپ روایت ہے، جسے ابن ہشام نے اپنی سیرۃ النبی میں معلوم نہیں کس بناء پر یا سہواً چھوڑ دیا ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں: “جب کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن مجید کی کوئی عبارت نازل ہوتی تو آپ سب سے پہلے اس مردوں کی جماعت میں تلاوت فرماتے پھر اس کے بعد اسی عبارت کو عورتوں کی خصوصی محفل میں بھی سناتے”۔ اسلامی تاریخ میں یہ ایک ہم واقعہ ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عورتوں کی تعلیم سے بھی اتنی ہی دلچسپی تھی جتنی مردوں کی تعلیم سے۔ یہ قدیم ترین اشارہ ہے جو قرآن مجید کی تبلیغ کے متعلق ملتا ہے۔ اس کے بعد کیا پیش آیا یہ کہنا مشکل ہے لیکن بالکل ابتدائی زمانے ہی سے ہمیں ایک نئی چیز کا پتہ چلتا ہے وہ یہ کہ قرآن مجید کو لکھوا یا جائے اور غالباً حفظ کرانا بھی اسی ابتدائی زمانے سے تعلق رکھتا ہے، جب حضرت جبرئیل علیہ السلام نے پہلی وحی کے موقع پر قرآن مجید کی سورۂ اقراء کی پہلی پانچ آیتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچائیں تو ایک حدیث کے مطابق حضرت جبرئیل علیہ السلام نے دو کام اور کیے۔ ایک تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو استنجاء اور وضو کرنا سکھایا کہ نماز کے لیے کس طرح اپنے آپ کو جسمانی طور پر پاک کریں۔ دوسرے یہ کہ نماز پڑھنے کا طریقہ بھی بتایا۔ خود جبرئیل علیہ السلام امام بنے اور پیغمبر مقتدی کی حیثیت سے پیچھے کھڑے دیکھتے رہے کہ پہلے کھڑے ہوں، پھر رکوع میں جائیں، پھر سجدہ کریں وغیرہ اور ساتھ ساتھ خود بھی وہی کرتے رہے۔ ظاہر ہے کہ نماز میں قرآن مجید کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں، لہٰذا ابتدائی زمانے ہی سے جب لوگ مسلمان ہونے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا ہو گا کہ قرآن مجید کو حفظ بھی کرو اور روزانہ جتنی نمازیں پڑھنی ہوں ان نمازوں میں ان کا اعادہ بھی کرتے رہو۔ گویا اس وقت ہمیں دو باتیں نظر آتی ہیں۔ قرآن مجید حفظ کرنا اور اسی کو لکھنا۔ آدمی کو کسی نئی چیز کو ازبر کرنے میں کچھ وقت لگتا ہے۔ اس کے سامنے کوئی تحریری عبارت ہو تو اس کو بار بار پڑھتا ہے بالآخر وہ حفظ ہو جاتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں قرآن کو حفظ کرنا اور لکھنا دونوں ایک ہی زمانے کی چیزیں ہیں۔ ہمارے مورخ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب کوئی آیت نازل ہوتی تو وہ اپنے صحابہ میں سے کسی ایسے شخص کو جسے لکھنا پڑھنا آتا ہوتا، یاد فرماتے اور اس کو املا کراتے تھے۔ اہم بات یہ بیان ہوئی ہے کہ لکھنے کے بعد اس سے کہتے کہ “جو کچھ لکھا ہے اسے پڑھ کر سناؤ” تاکہ اگر کاتب نے کوئی غلطی کی ہو تو اس کی اصلاح کرسکیں۔ یہ قرآن مجید کی تدوین کا آغاز ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ تھا کہ لکھوانے کے بعد اپنے صحابہ کو حکم دیتے کہ اسے ازبر کر لو اور روزانہ دو وقت کی نمازوں میں پڑھو۔ اس وقت دو نمازیں تھی معراج کے بعد پانچ نمازیں ہوئیں تو دو کے بجائے پانچ مرتبہ اس کو لوگ نماز میں دہرانے لگے۔ اس کا ایک عملی فائدہ یہ ہے کہ اگر آدمی کا حافظہ اچھا نہ ہو اور سال بھر میں مثلاً صرف عید الاضحیٰ اور عید الفطر کے دن قرآن مجید کو حافظے کی مدد سے پڑھے تو ممکن ہے کہ اس کو بھول جائے لیکن اگر کوئی آدمی روزانہ پانچ مرتبہ دہراتا ہے تو ظاہر ہے قرآن مجید اس کے حافظے میں رہے گا اور وہ اسے نہیں بھولے گا۔

الغرض قرآن مجید کو لکھنے اور اسے حفظ کرنے کا حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا تھا۔ اس سے پہلے کے انبیاء علیہم السلام کی تاریخ میں ایسی کوئی مثال ہمیں نظر نہیں آتی ہے۔ ا س سے بڑھ کر ایک اور کام بھی ہوا وہ یہ کہ فرض کیجئے میرے پاس ایک تحریری نسخہ موجود جس میں کسی نہ کسی وجہ سے کتابت کی کچھ غلطیاں موجود ہیں اس غلط نسخے کو میں حفظ کر لیتا ہوں۔ اس طرح میرا حفظ بھی غلط ہو گا۔ اس کی اصلاح کس طرح کی جائے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرف بھی توجہ فرمائی اور حکم فرمایا کہ ہر مسلمان کو کسی مستند استاد ہی سے قرآن مجید پڑھنا چاہیے۔ ظاہر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے بڑھ کر قرآن مجید سے کون واقف ہوسکتا ہے؟ اس لیے ہر مسلمان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن سیکھنا اور پڑھنا چاہیے۔ اگر اس کے پاس تحریری نسخہ موجود ہے تو اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تلاوت کرنا چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر فرمائیں کہ ہاں یہ نسخہ ٹھیک ہے تب اسے حفظ کیا جائے۔ جب مسلمانوں کی تعداد بڑھ گئی تو ظاہر ہے کہ ایک آدمی سارے لوگوں کو تعلیم و تربیت نہیں دے سکتا تھا۔ اس لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چند ایسے صحابہ کو جن کی قرآن دانی کے متعلق آپ کو پورا اعتماد تھا یہ حکم دیا کہ اب تم بھی پڑھایا کرو۔ یہ وہ مستند استاد تھے جن کو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سند دیتے تھے کہ تم پڑھانے کے قابل ہو اور اس کا سلسلہ آج بھی دنیا میں قائم ہے۔ اگر کوئی شخص کسی استاد سے قرآن مجید پڑھتا ہے تو قرات کی تکمیل کے بعد استاد کی طرف سے اسے جو سند ملتی ہے اس میں وہ استاد لکھتا ہے کہ “میں نے اپنے شاگرد فلاں کو قرآن مجید کے الفاظ، قرآن مجید کی قرات کے اصولوں کو ملحوظ رکھ کر یہ تعلیم دی ہے۔ یہ بالکل وہی ہے جو میرے استاد نے مجھ تک پہنچائی تھی اور اس نے مجھے اطمینان دلایا تھا کہ اس کو اس کے اپنے استاد نے اسی طرح پڑھایا تھا۔ اس کا سلسہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتا ہے اور یہ سلسلہ آج بھی محفوظ خاطر رکھا جاتا ہے۔

اسلامی روایات (Tradition) کے سوا دنیا کی کسی قوم نے اپنی مذہبی کتاب کو محفوظ کرنے کے لیے یہ اصول کبھی اختیار نہیں کیے تھے۔ یہ چیزیں قرآن مجید کی تدوین کے سلسلے میں عہد نبوی میں ہی پیش آئیں مگر اسی پر اکتفا نہیں کیا گیا۔ ایک اور چیز کی بھی شروع ہی سے ضرورت تھی۔ قبل اس کے کہ میں اس کا ذکر کرو، قرآن مجید کے تحریری نسخوں کے متعلق بھی کچھ آپ کو بتاتا چلوں کہ ان کا کب سے پتہ چلتا ہے۔ غالباً نبوت کے پانچویں سال کا واقعہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسلام قبول کیا۔ ان کے واقعہ سے آپ واقف ہوں گے۔ وہ اس زمانے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سخت جانی دشمن تھے۔ ایک دن یہ طے کر کے گھر سے نکلے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (نعوذ باللہ) قتل کر ڈالوں۔ راستے میں ان کا ایک رشتہ دار ملا جس نے اسلام تو قول کر لیا تھا لیکن اسے چھپا کر رکھا تھا۔ اس نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ ہتھیار سے لیس ہو کر کہاں جا رہے ہو؟ چونکہ وہ رشتہ دار تھا اس لیے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے بتا دیا کہ میں محمد کو (نعوذ باللہ) قتل کرنے جا رہا ہوں کہ اس نے ہنگامہ مچا رکھا ہے۔ اس رشتے دار نے کہا اے عمر، اپنے قبیلے کو بنو ہاشم کے قبیلے سے جنگ میں الجھانے سے پہلے اپنے گھر کی خبر لو۔ تمہاری بہن فاطمہ بھی مسلمان ہو چکی ہے اس کا شوہر بھی مسلمان ہو چکا ہے۔ پہلے اپنے گھر کی خبر لو بعد میں دنیا کی اصلاح کرنا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حیران ہوئے اور سیدھے بہن کے گھر پہنچے۔ دروازے کے پاس انہوں نے اندر سے کچھ آواز سنی جیسے کوئی شخص گا رہا ہے یا خوش الحانی سے کچھ پڑھ رہا ہے۔ انہوں نے بہت زور سے دروازہ کھٹکھٹایا، گھر سے ایک شخص نکلا اور یہ اندر پہنچے۔ وہاں بہن اور بہنوئی سے جو سخت کلامی ہوئی اس سے آپ لوگ واقف ہیں۔ میں مختصراً ذکر کر رہا ہوں کہ بالآخر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی بہن کواس بات پر آمادہ کر لیا کہ جو چیزیں پڑھ رہی تھیں وہ ان کو دکھائیں۔ انہوں نے غسل کرانے کے بعد آپ کو وہ چیز پیش کی۔ یہ قرآن مجید کی چند سورتیں تھیں۔ ان کو پڑھ کر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ متاثر ہوئے اور مسلمان ہو گئے۔ اس واقعے سے میں اس بات کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں کہ قرآن مجید کی کم از کم چند سورتوں کے تحریری صورت میں پائے جانے کا ذکر سنہ ٥ نبوی ہی سے یعنی قبل ہجرت سے ملتا ہے۔ اس کے بعد جس تحریری نسخے کا پتہ چلتا ہے اس کا ذکر بھی دلچسپ ہے۔ یہ غالباً بیعت عقبہ ثانیہ کا واقعہ ہے۔ مدینے سے کچھ لوگ آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر مسلمان ہوئے ان میں سے بنی زریق کے ایک شخص کے بارے میں مؤرخین نے صراحت سے لکھا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید کی اس وقت تک نازل شدہ سورتوں کا مکمل مجموعہ ان کے سپرد کیا۔ یہ صحابی مدینہ منورہ پہنچ کر اپنے قبیلے میں اپنے محلے کی مسجد میں اسے روزانہ با آواز بلند پڑھا کرتے تھے۔ گویا قرآن مجید مدون ہونے یا تحریری صورت میں پائے جانے کا یہ دوسرا واقعہ ہے جس کا مورخوں نے صراحت کے ساتھ ذکر کیا ہے۔

میں یہ بیان کر رہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے قرآن کو کسی مستند استاد سے پڑھنا پہلی خصوصیت تھی۔ دوسری خصوصیت تحریری صورت میں محفوظ رکھنا، تاکہ اگر کہیں بھول جائے تو تحریر دیکھ کر اپنے حافظے کو تازہ کر لیا جائے اور تیسری خصوصیت اسے حفظ کرنا تھا۔ ان تین باتوں کا حکم دیا گیا تھا۔ لیکن اس میں ایک پیچیدگی اس طرح پیدا ہو گئی تھی کہ قرآن مجید کامل حالت میں بہ یک وقت نازل نہیں ہوا تھا۔ بلکہ جستہ جستہ 23 سال کے عرصے میں نازل ہوا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو میکانیکی طور پر مدون نہیں کیا کہ پہلی آیت شروع میں ہو اور بعد میں نازل شدہ دوسرے نمبر پر رہے بلکہ اس کی تدوین الہام اور حکمت نبوی کے تحت ایک اور طرح سے کی گئی۔ قرآن مجید کی اولین نازل شدہ آیتیں جیسا کہ میں نے ابھی آپ سے عرض کیا سورۂ اقراء کی ابتدائی پانچ آیتیں ہیں۔ یہ آیتیں سورہ نمبر 96 میں ہیں۔ جب کہ قرآن مجید کی کل سورتیں 114 ہیں۔ ان میں 96 نمبر پر ابتدائی سورۃ ہے۔ قرآن مجید میں اب جو بالکل ابتدائی سورتیں ملتی ہیں، مثلاً سورہ بقرہ وغیرہ وہ ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں نازل ہوئیں۔ دوسرے الفاظ میں قرآن مجید ترتیب کے لحاظ سے مدون نہیں ہوا بلکہ ایک دوسری صورت میں مرتب ہوا۔ اس کی وجہ سے لوگوں کو دشواریاں پیش آسکتی تھیں۔ یعنی آج ایک سورۃ نازل ہوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہدایت دیتے ہیں کہ اس کو فلاں مقام پر لکھو۔ پھر کل ایک آیت نازل ہوئ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں کہ اس کو فلاں آیت سے قبل لکھو یا فلاں آیت کے بعد لکھو یا فلاں سورۃ میں لکھو۔ اس لیے ضرورت تھی کہ وقتاً فوقتاً نظر ثانی ہوتی رہے۔ لوگوں کے ذاتی نسخوں کی اصلاح اور نظر ثانی کا ذکر بھی ہجرت کے بعد سے ملتا ہے۔ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان شریف کے مہینے میں دن کے وقت قرآن مجید کو جتنا اس سال تک نازل ہوا تھا با آواز بلند دہرایا کرتے تھے اور ایسے صحابہ جن کو لکھنا پڑھنا آتا تھا وہ اپنا ذاتی نسخہ ساتھ لاتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاوت پر اس کا مقابلہ کرتے جاتے تاکہ اگر ان سے کسی لفظ کے لکھنے میں یا سورتوں کو صحیح مقام پر درج کرنے میں کوئی غلطی ہوئی ہے تو وہ اس کی اصلاح کر لیں۔ یہ چیز “عرضہ” یا پیشکش کہلاتی تھی۔ مؤرخین مثلاً امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے صراحت کی ہے کہ آخری سال وفات سے چند ماہ پہلے جب رمضان کا مہینہ آیا تو آپ نے پورے کا پورا قرآن مجید لوگوں کو دو مرتبہ سنایا اور یہ بھی کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ میری وفات قریب آ گئی ہے کیونکہ قرآن حکیم کے متعلق جبرئیل علیہ السلام نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں دو مرتبہ پڑھ کر سناؤں تاکہ اگر کسی سے غلطیاں ہوئی ہوں تو باقی نہ رہیں۔ یہ تھی تدبیر جو آخری نبی نے آخری پیغام ربانی کی حفاظت کے لیے اختیار فرمائ۔ اس طرح قرآن مجید کے ہم تک قابل اعتماد حالت میں پہنچنے کا اہتمام ہوا۔

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی تو شروع میں قرآن مجید کی طرف کسی کی توجہ مبذول نہ ہوئ۔ لوگوں کے پاس جو کچھ موجود تھا اس کو نماز میں پڑھا کرتے تھے اور اس کا احترام کرتے تھے لیکن پھر ایسا واقعہ پیش آیا جس نے نہ صرف اسلامی حکومت بلکہ تمام مسلمانوں کو مجبور کر دیا کہ وہ قرآن مجید کی طرف فوری توجہ دیں۔ اس زمانے میں قرآن مجید کا کوئی سرکاری نسخہ موجود نہیں تھا اور غالباً کسی ایک شخص کے پاس بھی کامل قرآن مجید لکھا ہوا موجود نہیں تھا۔ یہ واقعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد پیش آیا۔ ہوا یوں کہ ملک میں چند لوگ مرتد ہو گئے اور مسلیمہ کذاب نے نہ صرف ارتداد کیا بلکہ نئے نبی ہونے کا اعلان بھی کر دیا۔ وہ چونکہ ایک طاقتور قبیلے کا سردار تھا اس لیے بہت سے لوگ اس کے حامی بھی ہو گئے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے جنگ کی۔ یہ جنگ بہت شدید تھی اور اس میں مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی جب کہ دشمن کی تعداد بہت زیادہ تھی اور جنگ بھی دشمن کے علاقے میں یمامہ کے مقام پر ہوئ۔ میں جب وہاں گیا تھا تو وہاں کے لوگوں نے بتایا کہ یہ جنگ موجود شہر ریاض کے مضافات میں ہوئی تھی۔ اس جنگ میں بہت سے مسلمان شہید ہوئے۔ ان شہید ہونے والوں میں چند لوگ ایسے بھی تھے جو قرآن مجید کے بہترین حافظ تھے۔ مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئ۔ مدینے کے مسلمانوں کو فتح پر خوشی ہوئی لیکن یہ اطلاع پاکر کہ بہت سے برگزیدہ اور بہترین حافظ قرآن مسلمان اس جنگ میں شہید ہوئے ہیں رنج بھی ہوا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اگر قرآن مجید کے تحفظ پر حکومت نے توجہ نہ کی اور حافظ قرآن رفتہ رفتہ آئندہ جنگوں میں شہید ہوتے رہے یا طبعی موت سے اس دنیا سے رخصت ہوتے رہے تو پھر قرآن مجید کے لیے بھی وہی دشواری پیش آئے گی جو پرانے انبیاء علیہ السلام کی کتابوں کے سلسلے میں پیش آئی تھی۔ اس لیے وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئے اور کہا کہ اے امیر المومنین قرآن کے تحفظ پر توجہ فرمائیے۔ یمامہ کی جنگ میں چھ ہزار مسلمان شہید ہو چکے ہیں جن میں بہت سے حافظ قرآن بھی تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس تجویز پر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جواب، ان کی سیرت کے ایک خاص پہلو کا مظہر ہے۔ وہ فدائے رسول تھے اور فدائے رسول کا جواب ایسا ہی ہونا چاہیے۔ انہوں نے جواب دیا کہ اے عمر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) جو کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا وہ میں کیسے کروں؟ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بحث کرتے ہیں۔ بالآخر دونوں اس بات پر رضا مند ہوئے کہ کسی تیسرے شخص کو حاکم بنائیں اور وہ جو فیصلہ کر دے اس پر عمل کریں۔ چنانچہ انہوں نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنا حاکم بنایا۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک کاتب وحی تھے۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فوری جواب بھی وہی تھا جو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا تھا کہ جو کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا وہ ہم کیسے کریں؟ دوبارہ بحث ہوئی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ نے ان سے کہا اے زید! اگر لکھیں تو اس میں حرج کیا ہے؟ روایت میں حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے الفاظ یہ ہیں کہ واقعی حرج تو مجھے بھی نظر نہیں آتا۔ یہ ایک جذباتی رویہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا تو ہم کیسے کریں؟ لیکن اگر کریں تو اس سے کوئی امر مانع نظر نہیں آتا۔ مگر وہ کہتے ہیں کہ جب حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا کہ یہ کام میں سر انجام دوں تو مجھے یہ اتنا مشکل معلوم ہوا کہ قرآن مجید کی تدوین کے مقابلے میں اگر مجھے جبلِ احد کے سرپر اٹھانے کا حکم دیا جاتا تو وہ میرے لیے آسان ہوتا۔

قرآن مجید کی تدوین کے سلسلے میں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے احکام قابل ذکر ہیں۔ انہوں نے شہر مدینہ میں ڈھنڈورا پٹوا دیا کہ جس شخص کے پاس قرآن مجید کا کوئی حصہ تحریری صورت میں موجود ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس “عرضہ” کے موقع پر جو تلاوت ہوتی تھی اس سے کر کے تصحیح شدہ ہے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پڑھا ہوا نسخہ موجود ہے تو وہ لا کر اس کمیشن کے سامنے پیش کرے۔ کمیشن کے صدر حضرت زید بن ثابت تھے لیکن کئی اور مددگار بھی تھے جن میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی شامل تھے۔ اس کمیشن کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ قرآن مجید کے جو نسخے پیش کیے جائیں قابل اعتماد ہوں، عرضہ میں پیش کیے ہوئے نسخے ہوں۔ اگر کوئی آیت کم سے کم دو تحریری نسخوں میں موجود ہو تو اسے لکھا جائے ورنہ رد کر دی جائے۔

حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں اس طرح قرآن مجید کی تدوین ہوئی اور اس کو ایک کاتب وحی حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نگرانی میں انجام دیا گیا۔ یہ بات بھی نہ بھلائیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت کم از کم پچیس حافظ موجود تھے جن میں سے کچھ انصار تھے اور کچھ مہاجرین، جنہیں سارا قرآن مجید زبانی یاد تھا۔ ان میں ایک خاتون حافظہ حضرت ام ورقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی تھیں۔ خود اس کمیشن کے صدر، زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی حافظ تھے۔ اس لیے انہوں نے جو کچھ لکھا اس میں یقین کے ساتھ لکھا کہ ان کے ذہن میں بھی اسی طرح موجود ہے یہاں ایک اور چھوٹی سی بات کا ذکر کرتا ہوں کہ جب لوگ نسخہ لا کر پیش کرتے تھے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ انہیں حکم دیتے تھے کہ قسم کھا کر بتاؤ کہ یہ نسخہ جو تم پیش کر رہے ہو وہی ہے جس کی تصحیح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہوئی ہے۔ وہ قسم کھا کر یقین دلاتے تو پھر اس سے استفادہ کیا جاتا۔ جب پورا قرآن مجید لکھا جا چکا تو حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اسے شروع سے آخر تک پڑھا۔ اس میں مجھے ایک آیت کم نظر آئی یہ آیت میرے حافظے میں تو موجود تھی مگر کسی تحریری نسخے میں موجود نہیں تھی۔ چنانچہ میں نے شہر کے چکر لگائے۔ ہر گھر میں داخل ہوا اولاً مہاجرین کے گھروں میں، کسی کے پاس یہ آیت تحریری صورت میں موجود نہیں تھی۔ پھر انصار کے گھروں کو گیا۔ بالآخر ایک شخص کے پاس ایک تحریری نسخہ ملا۔ وہ نسخہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پڑھا ہوا تھا لیکن حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہدایت تھی کہ جب تک دو تحریری نسخے نہ ملیں اس وقت تک اس کو قرآن کے طور پر قبول نہ کیا جائے۔ جبکہ یہ آیت صرف ایک تحریری نسخے میں ملی تھی۔ لیکن یہاں مشیت خداوندی اپنا اثر دکھاتی ہے۔ اتفاق سے یہ وہ شخص تھا جس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ اس کے کسی کام سے خوش ہو کر کہا تھا کہ آج سے تمہاری شہادت دو شہادتوں کے مساوی سمجھی جائے گی، ان کا نام خزیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھا۔ غرض یہ قدرت کی طرف سے پیشگی انتظام تھا۔ اس طرح اس آیت کو انہوں نے صرف ایک شخص سے لے کر نقل کیا۔ ان کا بیان ہے کہ اس کے بعد میں نے قرآن کو دوبارہ پڑھا تو ایک اور آیت کی بھی کمی نظر آئی۔ ممکن ہے کہ وہ ایک ہی واقعہ ہو اور آیت کے متعلق راویوں میں اختلاف ہو۔ بہر حال وہاں بھی یہی کہا جاتا ہے کہ اس نام والے ایک شخص نے وہ چیز بیان کی۔ یہ آیتیں جن کا ہمارے پاس صراحت سے ذکر موجود ہے، کہ کون سی آیتیں تھی، فرض کیجئے کہ اگر آج ہم ان کو قرآن مجید سے خارج بھی کر دیں تو کوئی اہم چیز خارج نہیں ہوتی۔ قرآن مجید کی جن آیتوں کی طرف یہ اشارہ ہے ان کا مفہوم دوسری آیتوں میں بھی موجود ہے۔ لیکن بہر حال جس احتیاط سے قرآن مجید کی تدوین عمل میں آئی اس کا مقابلہ تاریخ عالم کی دینی کتابوں می سے کوئی کتاب بھی نہیں کرسکتی۔

ایک اور نکتہ یہاں بیان کرنا خالی از فائدہ نہ ہو گا اور اسی پر یہ تقریر ختم کرتا ہوں۔ کچھ عرصہ پہلے کا ذکر ہے، جرمنی کے عیسائی پادریوں نے یہ سوچا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں آرامی زبان میں جو انجیل تھی وہ تو اب دنیا میں موجود نہیں۔ اس وقت قدیم ترین انجیل یونانی زبان میں ہے اور یونانی سے ہی ساری زبانوں میں اس کے ترجمے ہوئے ہیں۔ لہٰذا یونانی مخطوطوں کو جمع کیا جائے اور ان کا آپس میں مقابلہ کیا جائے۔ چنانچہ یونی زبان میں انجیل کے نسخے جتنے دنیا میں پائے جاتے تھے کامل ہوں کہ جزوی، ان سب کو جمع کیا گیا اور ان کے ایک ایک لفظ کا باہم مقابلہ (Collation) کیا گیا۔ اس کی جو رپورٹ شائع ہوئی اس کے لفظ یہ ہیں: “کوئی دو لاکھ اختلافی روایات ملتی ہیں” یہ ہے انجیل کا قصہ۔ غالباً اس رپورٹ کی اشاعت سے کچھ لوگوں کو قرآن کے متعلق حسد پیدا ہوا۔ جرمنی ہی میں میونک یونیورسٹی میں ایک ادارہ قائم کیا گیا “قرآن مجید کی تحقیقات کا ادارہ” اس کا مقصد یہ تھا کہ ساری دنیا سے قرآن مجید کے قدیم ترین دستیاب نسخے خرید کر، فوٹو لے کر، جس طرح بھی ممکن ہو جمع کیے جائیں۔ جمع کرنے کا یہ سلسلہ تین نسلوں تک جاری رہا۔ جب میں 1933ء میں پیرس یونیورسٹی میں تھا تو اس کا تیسرا ڈائریکٹر پریتسل Pretzl، پیرس آیا تھا تاکہ پیرس کی پبلک لائبریری میں قرآن مجید کے جو قدیم نسخے پائے جاتے ہیں ان کے فوٹو حاصل کرے۔ اس پروفیسر نے مجھ سے شخصاً بیان کیا کہ اس وقت (یہ 1933ء کی بات ہے) ہمارے انسٹی ٹیوٹ میں قرآن مجید کے بیالیس ہزار نسخوں کے فوٹو موجود ہیں اور مقابلے (Collation) کا کام جاری ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں اس ادارے کی عمارت پر ایک امریکی بم گرا اور عمارت اس کا کتب خانہ اور عملہ سب کچھ برباد ہو گیا لیکن جنگ کے شروع ہونے سے کچھ ہی پہلے ایک عارضی رپورٹ شائع ہوئی تھی۔ اس رپورٹ کے الفاظ یہ ہیں کہ قرآن مجید کے نسخوں میں مقابلے کا جو کام ہم نے شروع کیا تھا وہ ابھی مکمل تو نہیں ہوا لیکن اب تک جو نتیجہ نکلا ہے وہ یہ ہے کہ ان نسخوں میں کہیں کہیں کتابت کی غلطیاں تو ملتی ہیں لیکن اختلافاتِ روایت ایک بھی نہیں۔ ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ کتابت کی جو غلطی ایک نسخے میں ہو گی وہ کسی دوسرے نسخوں میں نہیں ہو گی۔ مثلاً فرض کیجئے “بسم اللہ الرحیم” میں “الرحمٰن” کا لفظ نہیں لیکن یہ صرف ایک نسخے میں ہے۔ باقی کسی نسخے میں ایسا نہیں ہے۔ سب میں “بسم اللہ الرحمٰن الرحیم” ہے۔ اس کو ہم کاتب کی غلطی قرار دیں گے۔ یا کہیں کوئی لفظ بڑھ گیا ہے مثلاً ایک نسخے میں بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ہے باقی نسخوں میں نہیں تو اسے کاتب کی غلطی قرار دیں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسی چیزیں کہیں کہیں سہو قلم یعنی کاتب کی غلطی سے ملتی ہیں لیکن اختلاف روایت یعنی ایک ہی فرق کئی نسخوں میں ملے ایسا کہیں نہیں ہے۔ یہ قرآن مجید کی تاریخ کا خلاصہ، جس سے ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ قرآن مجید میں خدا کا جو فرمان ہے (انا نحن نزلنا الذکر ونا لہ لحافظون) “ہم ہی اسے نازل کرتے ہیں اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے” یہ تمام واقعات جو میں نے آپ سے بیان کیے اس آیت کی حرف بحرف تصدیق کرتے ہیں۔

سوالات و جوابات

برادران کرام: خواہران محترم السلام علیکم

سوالات کی ایک خاصی تعداد جمع ہوئی ہے۔ اس سے محسوس ہوتا ہے کہ میری تقریر کو توجہ کے ساتھ سنا گیا ہے۔ اسی وجہ سے کئی سوالات ذہنوں میں پیدا ہوئے ہیں۔ میں کوشش کروں گا کہ اپنی بساط کے مطابق ذہن میں جو جواب آئے وہ آپ سے عرض کروں۔ ظاہر ہے کہ ایک گھنٹے کی مختصر تقریر میں ساری باتوں کو بیان کرنا ممکن نہیں تھا۔ جیسا کہ آپ نے دیکھا کہ کسی تحریری چیز کو میں نے نہیں پڑھا بلکہ آپ سے معلومات برجستہ بیان کرتا چلا گیا۔ چنانچہ اس موقعے سے فائدہ اٹھا کر کچھ باتیں حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے کی تدوین قرآن کے بارے میں، آپ سے عرض کرنا چاہتا ہوں۔ دو سوال اس بارے میں بھی آئے ہیں۔

[فاضل مقرر نے یہ دونوں سوال نہیں سنائے۔ لیکن جواب کی نوعیت سے ظاہر ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ سوال کیا گیا تھا کہ

تدوین قرآن کے سلسلے میں ان کی خدمات کیا ہیں اور انہیں جامع القرآن کیوں کہا جاتا ہے

جواب:

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں جب قرآن مجید کی تحریراً تدوین ہوئی تو مؤرخین نے لکھا ہے کہ یہ نسخہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں پیش کیا گیا اور ان کی وفات تک ان کے پاس رہا۔ جب ان کی وفات ہوئی تو وہ نسخہ ان کے جانشین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس چلا گیا۔ اور پھر مؤرخین لکھتے ہیں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ کی شہادت واقع ہوئی تو وہ نسخہ ان کی بیٹی ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس چلا گیا۔ امہات المومنین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات میں سب پڑھی لکھی نہیں تھی۔ بعض کو صرف پڑھنا آتا اور بعض کو پڑھنا لکھنا دونوں آتے تھے۔ جب کہ بعض امی تھیں۔ اس میں کوئی اعتراض کا پہلو نہیں صرف یہ کہنا چاہتا تھا کہ حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا (حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کی بیٹی ان معدودے چند عورتوں میں تھیں جن کو پڑھنا لکھنا دونوں آتے تھے۔ بہر حال حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لیے تیار شدہ نسخہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات کے بعد حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس چلا گیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جانشین حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے غالباً ان کی شخصیت اور وجاہت کی بناء پر، یہ مناسب نہیں سمجھا کہ وہ نسخہ ان سے لے لیں۔ خاص طور پر اس لیے بھی کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ خود حافظ قرآن تھے۔ ان کے پاس ان کا اپنا نسخہ موجود تھا۔ انہیں ضرورت بھی محسوس نہیں ہوئی کہ وہ اس نسخے کو حاصل کریں۔ لیکن ایک واقعہ ایسا پیش آیا جس کی بنا پر ضرورت پیش آئی کہ وہ نسخہ دوبارہ خلیفہ وقت کے پاس لایا جائے اور اس سے استفادہ کیا جائے۔

واقعہ یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں غیر معمولی تیز رفتاری سے چہار دانگ عالم میں فتوحات ہوئیں تو بہت سے ایسے لوگ جو دنیا طلب تھے انہیں موقع پرستی کے تحت خیال آیا کہ وہ بھی اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کریں۔ لیکن حقیقت میں وہ مسلمان نہیں تھے بلکہ منافق تھے اور ان کی کوشش تھی کہ اسلام کو اندر سے ٹھیس پہنچائی جائے۔ اس سلسلے میں وہ قرآن مجید پر بھی حملے کرتے رہے۔ ممکن ہے اس کی کوئی اہمیت نہ رہی ہو لیکن ایک واقعے سے سنگین صورتحال پیدا ہو گئی۔ وہ یہ کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں آرمینیا سے جنگ کرنے کے لیے ایک فوج بھیجی گئ۔ آرمینیا کا تصور غالباً آپ کے ذہنوں میں نہیں ہو گا۔ یوں سمجھ لیجئے کہ شمالی ترکی جہاں آج کل ارض روم شہر ہے اور ایرانی سرحد کا علاقہ ہے۔ اس علاقے میں ارمنی رہتے تھے۔ یہ علاقہ آرمینیا کہلاتا تھا۔ قسطلانی جو بخاری کے شارح ہیں وہ لکھتے ہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک فوج جب ارزن روم کے قریب موجود تھی (یہ ارزن روم اب ارض روم بن گیا ہے) تو اس وقت فوج میں ایک حادثہ پیش آیا۔ وہ یہ تھا کہ امام اور مقتدیوں میں بعض آیتوں کی قرات کے بارے میں جھگڑا ہو گیا۔ امام نے ایک طرح سے عبارت پڑھی اور حاضرین نے کہا یوں نہیں یوں ہے۔ ایک نے کہا ہمیں فلاں استاد فلاں صحابی نے پڑھایا ہے۔ دونوں اپنی اپنی باتوں پر اڑے رہے۔ قریب تھا کہ تلواریں چلیں اور خوں ریزی ہو کہ فوج کے کمانڈر انچیف نے حسن تدبیر سے اس فتنے کی آگ کو ٹھنڈا کیا۔ جب وہ فوج مدینہ منورہ واپس آئی تو کمانڈر انچیف حذیمہ بن یمان اپنے گھر میں بچوں کی خیریت پوچھنے سے پہلے سیدھے خلیفہ کے پاس پہنچتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یا امیر المومنین امت محمد کی خبر لیجئے۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا کہ کیا واقعہ پیش آیا؟ تو انہوں نے یہ قصہ سنایا۔ اس پر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فوراً فیصلہ کیا۔ ان میں ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ کوئی کام ان کے ذہن میں آتا اور فیصلہ کر لیتے تو فوراً اس کی تعمیل بھی کراتے۔ جیسے ہی یہ صورت حال سامنے لائی گئی تو انہوں نے فرمایا کہ اس کی اصلاح ہونی چاہیے۔ حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس ایک آدمی بھیجا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لیے تیار شدہ جو نسخہ آپ کے پاس ہے وہ مجھے مستعار دیجئے۔ استفادہ کرنے کے بعد میں آپ کو واپس کر دوں گا۔ وہ نسخہ ان کے پاس آیا تو انہوں نے اسے دوبارہ پرانے کاتب وحی زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی کے سپرد کیا کہ اس کی نقلیں تیار کرو، اور ان نقلوں کا مقابلہ کر کے اگر ان میں کتابت کی غلطیاں رہ گئی ہوں تو ان کی اصلاح کرو۔ قرآن مجید چونکہ عربی زبان کی پہلی کتاب ہے اس لیے ابتدائی زمانے میں عربی خط میں کچھ خامیاں ہوسکتی ہیں۔ لہٰذا حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ بھی ہدایت کہ اگر تلفظ کی ضرورت کے لحاظ سے املا میں کچھ ترمیم کی ضرورت محسوس ہو تو ضرور کرو۔ یہ نکتہ بھی سمجھایا کہ عربی زبان مختلف علاقوں میں کچھ فرق بھی رکھتی ہے۔ قبیلہ نجد کے لوگ ایک لفظ کو ایک طریقے ادا کرتے ہیں مدینے کے لوگ دوسرے طریقے سے، فلاں جگہ کے لوگ تیسرے طریقے سے۔ اس لیے اگر کسی لفظ کے تلفظ میں اختلاف پایا جاتا ہے تو قرآن مجید کو مکہ معظمہ کے تلفظ کے مطابق لکھو۔ چنانچہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے چند مددگاروں کے تعاون سے دوبارہ اس پرانے نسخے کو سامنے رکھ کر نقل کرنا شروع کرتے ہیں حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ بھی فرمایا کہ اگر کسی مسئلے میں اختلاف ہوتو مسئلہ میرے پاس بھیجو، میں خود اس کا فیصلہ کروں گا۔ بدقسمتی سے یہ واقعہ جو ارض روم میں پیش آیا تھا کہ فلاں آیت کے متعلق یا فلاں لفظ کے متعلق فوج میں جھگڑا ہوا، اس کی کوئی تفصیل نہیں ملتی، شاید اس جھگڑے کی بنیاد قبائلی بولیوں اور لہجوں کا اختلاف ہو۔ اس قسم کی ایک مثال مجھے یاد آتی ہے۔ قرآن مجید میں “تابوت” کا لفظ آیا ہے، جس کے معنی صندوق کے ہوتے ہیں۔ اس کا تلفظ مدینہ منورہ کی بولی (Dialect) میں “تابوہ” ہوتا تھا۔ آخر میں “ۃ” کے ساتھ جب کہ مکے کے لوگ “تابوت” کے ساتھ پڑھتے تھے۔ اس پر کمیشن کے ارکان متفق نہیں ہوسکے۔ یہ اختلافی مسئلہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے پیش ہوا تو حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ تابوت بڑی ت کے ساتھ لکھو، یہ کوئی بڑی اہمیت کی بات نہیں، لیکن میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جو کہا جاتا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں قرآن مجید کی تدوین ہوئی اس کی حقیقت کیا ہے؟ حقیقت صرف اس قدر ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں قرآن مجید کی نقلیں تیار کی گئیں۔ املا میں کہیں کہیں ترمیم کی گئ۔ لفظ کی آواز کو نہیں بدلا گیا۔ لیکن اس آواز کی املا میں کچھ فرق کیا گیا۔ اس کے بعد اس کے چار نسخے یا ایک روایت کے مطابق سات نسخے تیار کیے گئے۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں علمی دیانت داری کا جو معیار تھا اس کے تحت انہوں نے حکم دیا کہ ان ساتوں نسخوں کو ایک ایک کر کے، مسجد نبوی میں ایک شخص با آواز بلند شروع سے لے کر آخرت تک پڑھے تاکہ کسی شخص کو بھی یہ شبہ نہ رہے کہ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قرآن میں کہیں کوئی تبدیلی کی ہے۔ جب یہ سارے نسخے اس طرح پڑھے گئے اور سب کو اطمینان ہو گیا کہ یہ نسخے صحیح ہیں تو حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی وسیع سلطنت کے مختلف صوبوں کے صدر مقاموں پر وہ نسخے بھیجے۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے کی اسلامی سلطنت کی وسعت کا اندازہ اس سے لگائیے کہ 27 ہجری یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے صرف پندرہ سال بعد، اسلامی فوج ایک طرف اسپین میں اور دوسری طرف دریائے جیجوں کو عبور کر کے ماوراء النہر (چین) میں داخل ہو گئی تھی۔ یورپ، ایشیا اور افریقہ، اسلامی سلطنت ان سب براعظموں میں پھیل گئی تھی اس کے بڑے بڑے صوبوں میں قرآن مجید کے یہ نسخے بھیجے گئے اور یہ حکم دیا گیا کہ آئندہ صرف انہیں سرکاری مستند نسخوں سے مزید نقلیں لی جایا کریں۔ اس بات کی تاکید بھی کی گئی کہ اگر کسی کے پاس کوئی نسخہ اس کے خلاف پایا جائے تو اسے تلف کر دیا جائے۔ اس حکم کی تعمیل کس حد تک ہوئ، اس کے بارے میں کچھ پتہ نہیں چلتا۔ عملاً یہ ناممکن بھی تھا کہ تین براعظموں کے ہر ہر مسلمان کے گھر میں پولیس جائے اور قرآن مجید کا شروع سے لے کر آخر تک سرکاری نسخے سے مقابلہ کرے۔ اور پھر اس میں کوئی اختلاف نظر آئے تو اسے تلف کر دے۔ تاریخی طور پر ایسے کسی واقعے کا ذکر بھی نہیں ملتا لیکن بہر حال حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے سے آج تک قرآن مجید کے جو نسخے ہمارے پاس نسلاً بعد نسلاً چلے آ رہے ہیں، وہ پہلی صدی ہجری سے لے کر آج تک وہی ہیں۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو چار یا سات قلمی نسخے مختلف مقامات پر بھیجے ان میں سے کچھ اب تک محفوظ سمجھے جاتے ہیں۔ ثبوت کوئی نہیں، لیکن یہ روایت ہے کہ یہ انہی نسخوں میں سے ہیں۔ ایک نسخہ آج کل روس کے شہر تاشقند میں ہے وہاں کیسے پہنچا اس کا قصہ یہ ہے کہ یہ نسخہ پہلے دمشق میں پایا جاتا تھا جو بنی امیہ کا صدر مقام تھا۔ جب دمشق کو تیمور لنگ نے فتح کیا تو وہاں کے مال غنیمت میں سب سے زیادہ قیمتی چیز کے طور پر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قرآن مجید پایا۔ اسے لیا اور اپنے ساتھ پایہ تخت سمر قند لایا اور وہاں اسے محفوظ رکھا۔ یہ نسخہ سمر قند میں رہا تا آنکہ گزشتہ صدی میں روسیوں نے سمر قند کو فتح کر لیا۔ فتح کرنے کے بعد اس نسخے کو جس کی بڑی شہرت تھی روسی کمانڈر انچیف نے وہاں سے لے کر سینٹ پیٹرس برگ منتقل کر دیا جو آج کل لینن گراڈ کہلاتا ہے۔ روسی مؤرخ بیان کرتے ہیں کہ اس نسخے کو سمر قند کے حاکم نے روسی کمانڈر انچیف کے ہاتھ 25 یا 50 روپے میں فروخت کر دیا تھا، ہم نے اسے چرایا نہیں بلکہ خرید کر لائے ہیں۔ بہر حال پہلی جنگ عظیم کے اختتام تک وہ نسخہ لینن گراڈ میں رہا اس کے بعد جیسا کہ آپ کو معلوم ہے زار کی حکومت ختم ہو گئی اور کمیونسٹوں نے حکومت پر قبضہ کر لیا۔ اس وقت بہت سے روسی باشندے جو کمیونسٹ حکومت کے ماتحت رہنا نہیں چاہتے تھے روس چھوڑ کر دنیا میں تتر بتر ہو گئے۔ ان میں سے ایک صاحب پیرس بھی آئے جو جنرل علی اکبر توپچی باشی کے نام سے مشہور تھے۔ میں خود ان سے مل چکا ہوں، انہوں نے اس کا قصہ مجھے سنایا۔ کہنے لگے کہ جب زار کو قتل کیا گیا اس وقت میں فوج میں ایک بڑے افسر کی حیثیت سے سینٹ پیٹرس برگ ہی میں موجود تھا۔ میں نے ایک کمانڈر (فوجی دستہ) بھیجا کہ جا کر شاہی محل پر قبضہ کرو اور شاہی کتب خانے میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جو قرآن مجید کا نسخہ ہے اسے تلاش کر کے لے آؤ۔ کمانڈر گیا اور وہ قرآن مجید لے آیا۔ انہوں نے ایک فوجی جنرل کی حیثیت سے ریلوے اسٹیشن جا کر وہاں کے اسٹیشن ماسٹر سے کہا کہ مجھے ایک ریل کا انجن درکار ہے۔ اس انجن میں اس قرآن کو رکھا اور اپنے آدمیوں کی نگرانی میں انجن ڈرائیور کو حکم دیا کہ جس قدر تیزی سے جاسکتے ہو اس انجن کو ترکستان لے جاؤ۔ اس کی اطلاع کمیونسٹ فوجی کمانڈروں کو چند گھنٹے بعد ملی۔ چنانچہ اس کے تعاقب میں دوسرا انجن اور کچھ افسر روانہ کیے گئے لیکن وہ انجن ان کے ہاتھ سے باہر نکل چکا تھا اور اس طرح یہ نسخہ تاشقند پہنچ گیا۔ جب کمیونسٹ دور میں تاشقند پر روسیوں نے دوبارہ قبضہ کر لیا تو اس نسخے کو وہاں سے لینن گراڈ منتقل کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئ۔ چنانچہ وہ نسخہ اب تک تاشقند میں محفوظ ہے۔ زار کے زمانے میں اس قرآن مجید کا فوٹو لے کر ایک گز لمبی تقطیع پر کل پچاس نسخے چھاپے گئے تھے۔ ان میں سے چند نسخے میرے علم میں ہیں اور وہ دنیا میں محفوظ ہیں۔ ایک امریکہ میں ہے۔ ایک انگلستان میں ہے۔ ایک نسخہ میں نے کابل میں دیکھا تھا۔ ایک مصر کے کتب خانے میں پایا جاتا ہے۔ میرے پاس اس کا مائیکرو فلم بھی ہے۔ یہ ایک نسخہ ہے۔ دوسرا نسخہ استنبول میں توپ قاپی سرائے میوزیم میں موجود ہے جس کو حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ اس میں سورۂ بقرہ کی آیت (فسیکفیکھم اللہ) پر سرخ دھبے پائے جاتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ یہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خون ہے۔ کیونکہ وہ جس وقت تلاوت کر رہے تھے اس وقت انہیں شہید کر دیا گیا تھا۔ تیسرا نسخہ انڈیا آفس لائبریری لندن میں ہے۔ اس کا فوٹو میرے پاس ہے۔ اس پر سرکاری مہریں ہیں اور لکھا ہے کہ یہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نسخہ قرآن ہے۔ ان نسخوں کے خط اور تقطیع میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ نسخے ایک دوسرے کے ہم عصر ہیں۔ یہ نسخے جھلی پر لکھے گئے ہیں، کاغذ پر نہیں ہیں۔ ممکن ہے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نسخے ہوں یا اس زمانے میں یا اس کے کچھ ہی عرصہ بعد کے لکھوائے ہوئے نسخے ہوں۔ بہر حال یہ بات ہمارے لیے قابل فخر اور باعث اطمینان ہے کہ ان نسخوں میں اور موجودہ مستعملہ نسخوں میں، باہم کہیں بھی، کوئی فرق نہیں پایا جاتا۔

حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جامع القرآن کہا جاتا ہے اس کے معنی یہ نہیں کہ انہوں نے قرآن کو جمع کیا۔ اس کی تاویل ہمارے مورخوں نے یہ کی ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کو ایک ہی قرآن پر جمع کیا۔ جو اختلاف بولیوں میں پایا جاتا تھا اس سے ان کو بچانے کے لیے مکہ معظمہ کے تلفظ والے قرآن کو انہوں نے نافذ کیا اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر یہ اجازت دی تھی کہ مختلف قبائل کے لوگ مختلف الفاظ کو مختلف انداز میں پڑھ سکتے ہیں تو اب اس کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہی کیونکہ مکہ معظمہ کی عربی اب ساری دنیائے اسلام میں نافذ اور رائج ہو چکی ہے۔ اس طرح حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسلمانوں کو ایک قرآن مجید پر جمع کیا۔ خدا ان کی روح پر اپنی برکات نازل فرمائے۔

سوال ٢ مع جواب:

میں سمجھتا ہوں کہ اس کے بعد میں دوسرے سوالوں پر توجہ کرسکتا ہو۔ ایک سوال حروف مقطعات کے متعلق ہے۔ یعنی قرآن مجید میں بعض جگہ الفاظ نہیں ہیں بلکہ حروف ہیں مثلاً الم، حم، عسق، وغیرہ۔ معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ان الفاظ کی کبھی تشریح نہیں فرمائی۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود تشریح فرما دی ہوتی تو بعد میں کسی کو جرات نہ ہوتی کہ اس کے خلاف کوئی رائے دے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ کم از کم ساٹھ ستر آراء پائی جاتی ہیں۔ الف صاحب یہ بیان کرتے ہیں۔ ب صاحب وہ بیان کرتے ہیں اور یہ چودہ سو سال سے چلا آ رہا ہے۔ اس کا قصہ ابھی ختم نہیں ہوا۔ آج بھی لوگ نئی نئی رائے دے رہے ہیں۔ لطیفے کے طور پر میں عرض کرتا ہوں۔ 1933ء کی بات ہے۔ میں پیرس یونیورسٹی میں تھا، تو ایک عیسائی ہم جماعت نے ایک دن مجھ سے کہا کہ مسلمان ابھی تک حروف مقطعات کو نہیں سمجھ سکے۔ میں بتاتا ہوں کہ یہ کیا چیز ہے؟ وہ موسیقی کا ماہر تھا، کہنے لگا کہ یہ گانے کی جو لے اور دھن وغیرہ ہوتی ہے ان کی طرف اشارہ ہے۔ کہنے کا منشا یہ ہے کہ لوگ حروف مقطعات کو جاننے کی کوشش کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ اپنی حد تک میں کہہ سکتا ہوں مجھے اس کے متعلق کوئی علم نہیں ہے۔ سوائے ایک چیز کے اور وہ یہ ہے کہ ایک حدیث میں کچھ اشارہ ملتا ہے کہ ایک دن کچھ یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور پوچھا کہ تمہارا دین کب تک رہے گا؟ کم و بیش اسی مفہوم کے الفاظ انہوں نے ادا کیے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؟ “الم” تو انہوں نے کہا اچھا تمہارا دین الف (١) ل(٣۰) اور م(٤۰) یعنی اکہتر سال رہے گا الحمد للہ اکہتر سال بعد تمہارا دین ختم ہو جائے گا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھ پر “الر” اور “المر” بھی نازل ہوا ہے۔ انہوں نے کہا الر ٢٣١ سال المرا ٢٧ سال۔ پھر آپ نے فرمایا کہ مجھ پر فلاں فلاں لفظ بھی نازل ہوا ہے مثلاً لحم عسق وغیرہ۔ یہاں تک کہ یہودیوں نے کہا کہ ہمیں کچھ سمجھ نہیں آتا اور چلے گئے ہوسکتا ہے کہ انہیں پریشان کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا جواب دیا ہو۔ لیکن اس میں اس بات کی طرف اشارہ بھی ملتا ہے کہ حروف کی گویا عددی قیمت ہے۔ جس طرح لوگ واقف ہیں کہ الف کے ایک، ب کے دو، ج کے تین اور د کے چار عدد مقرر ہیں اسی طرح عربی زبان میں اٹھائیس حروف ہیں۔ ان سے بہت ہی مکمل طریقے سے ایک ہزار تک لکھ سکتے ہیں تاکہ ہندسہ لکھنے میں اگر کوئی غلط فہمی پیدا ہو تو حروف کے ذریعے اسے دور کیا جاسکے۔ میں نے سنا ہے کہ سنسکرت میں بھی یہ طریقہ موجود ہے لیکن سنسکرت میں حروف تہجی ٢٨ سے کہیں زیادہ ہیں اور اس میں ایک سو مہاسنکھ تک لکھ سکتے ہیں۔ بہر حال ایک ہزار ہماری ضرورتوں کے لیے کافی ہے۔ یہ تھا حروف مقطعات کے متعلق میری معلومات کا خلاصہ۔ میں معذرت چاہتا ہوں کہ اس سے زیادہ میں آپ کو کوئی معلومات فراہم نہیں کرسکتا۔

 

سوال ٣:

ایک اور سوال ہے۔ اچھا ہوتا اگر وہ نہ کیا جاتا۔ سوال یہ ہے کہ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کو یہ بات مان لینی چاہیے کہ قرآن مجید حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تصنیف ہے اس میں مسلمانوں کے لیے زیادہ فخر کی بات ہے وہ یہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک پڑھے لکھے انسان تھے۔

جواب:

جیسا کہ میں نے عرض کیا اگر یہ سوال نہ کیا جاتا تو بہتر تھا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اگر پڑھے لکھے ہوتے تو کیا آپ کی عزت بڑھ جاتی؟ یا امی تھے تو کیا آپ کی عزت گھٹ گئی؟ باقی خود قرآن کریم کہتا ہے کہ میں کسی انسان کی تصنیف نہیں ہوں، میں خدا کا کلام ہوں۔ فرشتے اس کے شاہد ہیں۔ خدا شہادت دیتا ہے کہ خدا کا کلام ہے (لا یاتیہ الباطل من بین یدیہ علا من خلفہ ٤٢:٤١) خود رسول بھی اس میں کوئی اضافہ نہیں کرسکتا اور نہ ہی ترمیم کرسکتا ہے۔ قرآن نے ایک چیلنج بھی دیا ہے جو میری دانست میں اس کے کلام الٰہی ہونے کا ثبوت ہے۔ وہ چیلنج یہ ہے کہ قرآن جیسی ایک سورت یعنی کم از کم تین آیتیں لکھنے کی کوشش کرو۔ دنیا کے سارے انسانوں، سارے جنات کی مدد سے بھی تم نہیں لکھ سکو گے۔ یہ قرآن کا چیلنج تھا۔ اس قرآن کے چیلنج کو آج چودہ سو سال کے بعد بھی کسی نے کوئی ایسا جواب نہیں دیا، جسے لوگ قبول کرسکیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان حالات میں یہ کہنا کہ اگر قرآن مجید کسی انسان کی تصنیف ہو تو اس کی عزت بڑھ جائے گی، میرے نزدیک کوئی یقینی بات نہیں۔ شخصی طور پر مجھے اس سے اتفاق نہیں ہے۔

 

سوال:

ایک اور سوال ہے کہ آپ نے فرمایا کہ اگر کوئی آیت قرآن مجید سے نکال لی جائے تو کوئی حرج واقع نہیں ہو گا کہ اس قسم کی دوسری آیات موجود ہیں۔ جس سے اس کا مفہوم ادا ہوسکتا ہے۔ اس کمی بیشی کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی؟

جواب:

اپنے مفہوم کو میں نے شاید ٹھیک طرح سے ادا نہیں کیا یا شاید آپ نے اس کو پوری طرح سمجھا نہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ قرآن مجید کی کچھ آیتیں نکال لی جائیں۔ میں نے صرف یہ کہا تھا کہ قرآن مجید کی جن دو آیتوں کے متعلق یہ روایت آتی ہے کہ وہ دونوں تحریری صورتوں میں نہیں ملیں، ان میں حقیقتاً کوئی ایسی اہم بات نہیں ہے کہ اگر وہ اتفاقاً نکل بھی جائیں تو اس سے قرآن مجید کی تعلیم متاثر ہو۔ مثلاً صرف ایک آیت میں یہ ذکر ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ فرض کیجئے یہ آیت نہ رہے تو اس کا امکان تھا کہ اسلام صحیح صورت میں باقی نہ رہ سکے۔ میرے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ جن آیتوں کی طرف مذکورہ روایت میں اشارہ ہوا ہے ان میں ایسی کوئی چیز نہیں مثلاً یہ عبارت کہ (لقد جاء کم رسول من انفسکم عزیز علیہ ماعنتم حریص علیکم بالمومنین رؤف رحیم۔ فان تو لو افقل حسبی اللہ لا الہ الا ہو علیہ توکلت وھو رب العرش العظیم ١٢٨:١٩ تا ١٢٩) اس میں یہ ذکر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسے نبی ہیں جن کو اپنی امت کے ساتھ بڑی شفقت ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف کی چیز تو ہے لیکن اس میں کوئی ایسی بات نہیں کہ یہ عبارت نہ ہوتی تو اسلام باقی نہ رہ سکے۔ میرے کہنے کا مطلب یہ ہرگز نہیں تھا کہ قرآن مجید کی آیتوں کے حذف کرنے کا امکان پایا جاتا ہے۔ ویسے میں آپ سے عرض کروں گا کہ قرآن کی بعض آیتیں مکرر ہیں۔ ایک ہی آیت بار بار آتی ہے۔ فرض کیجئے کہ ان میں سے ایک حذف کر دی جائے تو ظاہر ہے کہ قرآن کی تعلیمات میں کوئی کمی واقع نہیں ہو گی۔ مثلاً سورۂ رحمان میں فبای الاء ربکما تکذبان کوئی پندرہ بیس مرتبہ آیا ہے۔ ان میں سے اگر ایک جگہ حذف کر کے دو آیتوں کو ایک آیت بنا دیا جائے تو قرآن مجید میں جو چیزیں انسان کی تعلیم کے لیے آئی ہیں ان میں عملاً کوئی کمی نہیں آئے گی۔ یہ نہیں کہ اس کا امکان ہے یا یہ مناسب ہے۔ میں یہ بالکل نہیں کہہ رہا ہوں۔ میں تو صرف یہ کہنا چاہتا تھا کہ قرآن مجید کی جس آیت کے متعلق حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تلاش کی ضرورت پیش آئی تھی اس میں کوئی ایسی چیز نہیں جو اسلام کی تعلیم پر موثر ہو۔ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف بیان کی گئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف میں اور آیتیں بھی موجود ہیں۔ یہ تو دراصل نمونہ ہے اس بات کا کہ قرآن کی تدوین میں کتنی عرق ریزی کی گئی ہے۔ یہ تھا میرا منشا۔

 

سوال ٥:

خواتین کے مبعوث ہونے کے متعلق اپنی تحقیق سے مطلع فرمائیں تو ممنون ہوں گا۔

جواب:

قرآن مجید میں ایک آیت ہے کہ خدا نے مردوں کو نبی بنا کر بھیجا ہے۔ اور عورت کو نبی بنا کر بھیجنے کا اس میں کوئی ذکر نہیں ہے لیکن جیسا کہ میں نے اپنی تقریر میں ابھی ذکر کیا تھا کہ یہودیوں کے ہاں عورت کے نبی ہونے کا بھی پتہ چلتا ہے۔ خدا کا بیان تو یہ ہے کہ ہم نے کسی عورت کو نبی بنا کر نہیں بھیجا لیکن یہودی کہتے ہیں کہ نہیں، ہمارے ہاں نبیہ عورت ہوئی تھی تو اس کا فیصلہ خدا ہی کرے گا۔ میرے لیے یہ مشکل ہے کہ میں اس کا فیصلہ کروں۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ میری بہنیں جو یہاں موجود ہیں، الحمد اللہ سب دیندار اور مسلمان ہیں اور کوئی بھی نبوت کے منصب کی امیدوار نہیں ہے۔

 

سوال ٦:

انجیل برنا باس کی صحت کے متعلق آپ کی کیا تحقیق ہے؟

جواب:

میں سمجھتا ہوں کہ قرآن مجید کی تاریخ میں انجیل برناباس کی کم ضرورت ہے۔ قصہ یہ ہے کہ برنا باس حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں دین قبول کرنے والوں میں سے ایک تھے۔ اور ایک زمانے میں ان کی بڑی اہمیت تھی۔ سینٹ پال کا نام آپ نے سنا ہو گا۔ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں ان کا دشمن رہا، عیسائیوں کو تکلیف دیتا رہا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اس دنیا سے سفر کر جانے کے بعد ایک دن اس نے کہا کہ مجھے کشف ہوا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا دین سچا تھا۔ اس دن سے وہ عیسائی بنا۔ مگر لوگوں کو اس پر اعتبار نہیں تھا۔ اکثر لوگ کہتے تھے کہ یہ منافق ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی میں جب یہ ہم کو تکلیفیں دیتا رہا تو اب ہم کیسے یقین کر لیں کہ وہ حقیقتاً کایا پلٹ ہو کر دین دار ہو گیا ہے۔

برناباس، جن کو میں رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہہ سکتا ہوں، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں میں سے تھے۔ انہوں نے کہا نہیں مجھے اطمینان ہے کہ یہ پال پکا اور سچا دین دار ہے۔ اس کے کچھ عرصے بعد شہر بیت المقدس میں ایک اجتماع ہوا۔ جہاں اس بات پر بحث ہو رہی تھی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا جو قول ہے کہ میں “توریت کے ایک شوشے کو بھی تبدیل کرنے نہیں آیا ہوں آیا اس کی من و عن تعمیل کی جانی چاہیے؟، اس قانون کو ہم برقرار رکھیں گے یا لوگوں کو اپنے دین کی طرف مائل کرنے کے لیے اس میں کچھ نرمی کریں”۔ یہ یروشلم کونسل کہلاتی ہے۔ وہاں سینٹ پال کا اصرار تھا کہ اس کو باقی نہ رکھا جائے بلکہ توریت کے سخت احکامات کر نرم کر دیا جائے۔ برنا باس نے اس کی مخالفت کی تھی اور اس وقت شدت سے کہا تھا کہ یہ شخص منافق معلوم ہوتا ہے لیکن عیسائیوں نے برناباس کی تازہ ترین شہادت کو قبول نہیں کیا۔ برناباس کو کونسل سے نکال دیا اور سینٹ پال کی بات کو قبول کر لیا۔ عہد نامہ جدید کے ایک باب میں صراحت سے لکھا ہے کہ ہم لوگوں کو روح القدس کی طرف سے یہ معلوم ہوا ہے کہ اب تم پر پرانے احکام باقی نہیں رہے، سوائے چار چیزوں کے۔ ایک تو یہ کہ خدا کو ایک مانیں، دوسرے یہ کہ اگر کسی بت پر جانور کو ذبح کیا گیا ہو تو اسے نہ کھائیں، تیسرے یہ کہ فحش کاری نہ کریں۔ اسی طرح ایک اور چیز کا بہ صراحت ذکر ہے۔ اس کے علاوہ باقی جتنی پابندیاں اور ممانعتیں تھیں اب وہ تم پر باقی نہیں رہیں۔ چنانچہ اب لوگ، عیسائی دنیا میں سینٹ پال کی اس رائے پر عمل کرتے ہیں اور خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے الفاظ کہ “میں توریت کا ایک شوشہ بھی تبدیل کرنے نہیں آیا ہوں اس کی من و عن تعمیل ہونی چاہیے” اس پر عمل نہیں کرتے۔

انجیل برنا باس، جس کے متعلق سوال کیا گیا ہے، زمانہ حال کی دستیاب شدہ ایک چیز ہے۔ اس کا کوئی پرانا نسخہ نہیں ملا۔ اور وہ برنا باس کی مادری زبان آرامی زبان میں بھی نہیں ہے۔ بلکہ اطالوی زبان میں ہے اور اس کے قلمی نسخے کے حاشیے پر جا بجا عربی الفاظ بھی لکھے ہوئے ہیں۔ ان حالات میں عیسائی محققین کا خیال ہے بلکہ اصرار ہے کہ یہ مسلمانوں کی تالیف کردہ جعلی انجیل ہے اور یہ حضرت برنا باس کی انجیل نہیں ہے۔ مجھے اس کے متعلق کوئی علم نہیں ہے البتہ اس حد تک جانتا ہوں کہ انجیل برنا باس کے دونسخے ایک زمانے میں ملتے تھے۔ ایک وہ جو آسٹریا میں تھا اور جو غالباً اب بھی محفوظ ہے۔ غالباً میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ مجھے ٹھیک علم نہیں ہے۔ دوسرا وہ نسخہ جو اسپین میں تھا۔ جب آسٹریا کا نسخہ انگریزی ترجمے کے ساتھ شائع کیا گیا تو اسپین کا نسخہ یکایک غائب ہو گیا۔ غالباً اسے ضائع کر دیا گیا بہر حال یہ مختصر سے حالات ہیں، مجھے شخصی طور پر انجیل برناباس کے متعلق معلومات نہیں ہیں۔ سوائے اس کے کہ اس میں جا بجا ایسے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جو اسلامی عقائد سے زیادہ مطابقت رکھتے ہیں اور عیسائیوں کے جو عام عقائد ہیں اس سے بہت کچھ اختلاف رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ میں اور کچھ نہیں جانتا۔ اس کو میں شخصی طور پر کوئی زیادہ اہمیت بھی نہیں دیتا کیونکہ میرے مطالعے کا جو موضوع ہے وہ اس سے ذرا ہٹا ہوا ہے۔ مجھے اس سے زیادہ کوئی واقفیت نہیں ہے۔ ادب سے معافی چاہتا ہوں۔

 

سوال ٧:

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کے کون سے سال میں قرآن کا پہلا نسخہ مدون ہوا۔ یہ کون ساہجری سال تھا؟

جواب:

یہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خلیفہ بننے کے چند مہینے بعد ہی کا واقعہ ہے۔ یہ ١١ھ کے اواخر کا زمانہ ہو گا۔ یعنی مسلیمہ کذاب سے جو جنگ ہوئی تھی اس جنگ کے فوراً بعد کا ذکر ہے۔

 

سوال٨:

احادیث مبارکہ میں مختلف آیات کی شان نزول کے متعلق جو بعض اوقات متعارض روایات ملتی ہیں، ان کو کس طرح حل کیا جائے؟

جواب:

غالباً صرف یہ کہا جاسکتا ہے کہ شان نزول کے متعلق ہی نہیں اور چیزوں کے متعلق بھی اگر احادیث میں اختلاف پایا جاتا ہے تو جس طرح ہم ان کو حل کرتے ہیں اسی طرح اس کو بھی حل کیا جاسکے گا۔ اولاً ہم دیکھیں گے کہ یہ روایت صحیح ہے یا وہ روایت صحیح ہے۔ اس کے راوی زیادہ قابل اعتماد ہیں یا اس کے راوی زیادہ قابل اعتماد ہیں۔ احادیث کے تمام اختلافات رفع کرنے کا یہ طریقہ اس کے متعلق بھی استعمال کیا جائے گا اور میں سمجھتا ہوں کہ شان نزول کے متعلق جو اختلاف ہیں انہیں کوئی بڑی اہمیت بھی حاصل نہیں ہے۔ ان معنوں میں فرض کیجئے ایک راوی یہ کہتا ہے کہ (اقرا باسم ربک الذی خلق) کے بعد سب سے پہلے سورہ “الم” نازل ہوئ۔ دوسرے راوی یہ کہتے ہیں کہ نہیں فلاں سورت نازل ہوئی تو اس اختلاف کی میرے نزدیک کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اس سے صحابہ کی واقفیت کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ انہیں جیسا یاد رہا انہوں نے ویسا ہی بیان کر دیا۔ اس کے متعلق میں نے حقیقتاً غور نہیں کیا، کبھی مطالعہ نہیں کیا۔ اس لیے اس وقت اس پر اکتفا کرتا ہوں۔

 

سوال ٩:

ام ورقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کون تھیں؟ کیا صرف وہی حافظہ تھیں یا جناب ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی حافظہ قرآن تھیں؟

جواب:

حضرت ام ورقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ایک انصاری عورت تھیں جو بہت پہلے ایمان لائی تھیں چنانچہ ان کے متعلق لکھا ہے کہ جنگ بدر (٢ھ) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینے سے روانہ ہوئے تو انہوں نے اپنی خدمات پیش کیں کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے بھی اپنے ساتھ لے چلیں۔ میں اسلام کے دشمنوں سے جنگ کرنا چاہتی ہوں۔ ان کے متعلق ایک اور روایت ہے جو اس سے بھی زیادہ عملی یا علمی دشواریاں پیدا کرے گی وہ یہ کہ حضرت ام ورقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو رسول اللہ نے ان کے محلے “اہل دارہا” نہ کہ “اہل بیتھا” کی مسجد کا امام مامور فرمایا تھا جیسا کہ سنن ابی داؤد اور مسند احمد بن حنبل میں ہے اور یہ بھی کہ ان کے پیچھے مرد بھی نماز پڑھتے تھے اور یہ کہ ان کا مؤذن ایک مرد تھا۔ ظاہر ہے کہ مؤذن بھی بطور مقتدی ان کے پیچھے نماز پڑھتا ہو گا۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ عورت کو امام بنایا جاسکتا ہے یا نہیں؟ اس حدیث کے متعلق یہ گمان ہوسکتا ہے کہ یہ شاید ابتدائے اسلام کی بات ہو اور بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو منسوخ کر دیا ہو لیکن اس کے برعکس یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت ام ورقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے تک زندہ رہیں اور اپنے فرائض سر انجام دیتی رہیں۔ اس لیے ہمیں سوچنا پڑے گا۔ ایک چیز جو میرے ذہن میں آئی ہے وہ عرض کرتا ہوں کہ بعض اوقات عام قاعدے میں استثناء کی ضرورت پیش آتی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے استثنائی ضرورتوں کے لیے یہ استثنائی تقرر فرمایا ہو گا۔ چنانچہ میں اپنے ذاتی تجربے کی ایک چیز بیان کرتا ہوں۔ پیرس میں چند سال پہلے کا واقعہ ہے کہ ایک افغان لڑکی طالب علم کے طور پر آئی تھی۔ ہالینڈ کا ایک طالب علم جو اس کا ہم جماعت تھا، اس پر عاشق ہو گیا۔ عشق اتنا شدید تھا کہ اس نے اپنا دین بدل کر اسلام قبول کر لیا۔ ان دونوں کا نکاح ہوا۔ اگلے دن وہ لڑکی میرے پاس آئی اور کہنے لگی کہ بھائی صاحب میرا شوہر مسلمان ہو گیا ہے اور وہ اسلام پر عمل بھی کرنا چاہتا ہے لیکن اسے نماز نہیں آتی اور اسے اصرار ہے کہ میں خود امام بن کر نماز پڑھاؤں۔ کیا وہ میری اقتدا میں نماز پڑھ سکتا ہے؟ میں نے اسے جواب دیا کہ اگر آپ کسی عام مولوی صاحب سے پوچھیں گی تو وہ کہے گا کہ یہ جائز نہیں لیکن میرے ذہن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طرز عمل کا ایک واقعہ حضرت امام ورقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا ہے۔ اس لیے استثنائی طور پر تم امام بن کر نماز پڑھاؤ۔ تمہارے شوہر کو چاہیے کہ مقتدی بن کر تمہارے پیچھے نماز پڑھے اور جلد از جلد قرآن کی ان سورتوں کو یاد کرے جو نماز میں کام آتی ہیں۔ کم از کم تین سورتیں یاد کرے اور تشہد وغیرہ یاد کرے۔ پھر اس کے بعد وہ تمہارا امام بنے اور تم اس کے پیچھے نماز پڑھا کرو۔ دوسرے الفاظ میں ایسی استثنائی صورتیں جو کبھی کبھار امت کو پیش آسکتی تھیں۔ ان کی پیش بندی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ انتخاب فرمایا تھا۔ ہمارے دوست سوال کرتے ہیں کہ کیا اور عورتیں بھی حافظہ تھیں؟ مجھے اس کا علم نہیں، ان معنوں میں کہ حافظ ہونے کا صراحت کے ساتھ اگر کسی کے بارے میں ذکر ملتا ہے تو صرف انہیں کے متعلق۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا یا ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا وغیرہ کے متعلق میں نے کبھی کوئی روایت نہیں پڑھی کہ وہ حافظہ تھیں۔ انہیں کچھ سورتیں یقیناً یاد ہوں گی اور ممکن ہے کہ بہت سی سورتیں یاد ہوں لیکن ان کے حافظہ قرآن ہونے کی صراحت مجھے کہیں نہیں ملی، اس کے سوا اور میں کچھ عرض نہیں کروں گا۔

تبصرہ عدنان مسعود

کمپوزنگ خاور بلال

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password