غلامی ان مسائل میں سے جن کے بیان میں مستشرقین نے اسلام کو سب سے ذیادہ اپنے طنز و تضحیک کا ہدف بنایا ہے ، یہ تاثر دیا گیا کہ جیسے اسلام نے غلامی کی ابتداء کی اور اس کو تحفظ دیتا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ مسئلہ پہلے سے موجود تھا اور غلاموں کو سب سے ذیادہ حقوق اسلام نے ہی دلوائے اس دور میں جب انکو کسی قسم کا حق کہیں بھی حاصل نہیں تھا ۔ ذیل میں دنیا کے مختلف معاشروں میں غلامی کی شکلوں اور غلاموں کے ساتھ کیے جانے والے سلوک اور اسلامی اصلاحات کی تفصیل پیش کی جارہی ہے۔
روم میں غلامی
غلامی کی بد ترین مثال سلطنت روم ماضی کی عظیم ترین سلطنت رہی ہے۔ اس کا اقتدار 200BC سے شروع ہو کر کم و بیش 1500 عیسوی تک جاری رہا۔ ان قوانین کو غلامی سے متعلق سخت ترین قوانین قرار دیا جا سکتا ہے۔ پروفیسر کیتھ بریڈلے اپنے آرٹیکل “قدیم روم میں غلاموں کی مزاحمت (Resisting Slavery in Ancient Rome)” میں اس دور کی غلامی کا نقشہ کھینچتے ہوئے لکھتے ہیں:
روم اور اٹلی میں، 200 قبل مسیح سے لے کر 200 عیسوی تک، کی چار صدیوں میں آبادی کا چوتھائی بلکہ تہائی حصہ غلاموں پر مشتمل تھا۔ اس دوران کروڑوں کی تعداد میں مرد، خواتین اور بچے کسی بھی قسم کے حقوق کے بغیر رہتے رہے ہیں گویا کہ قانونی اور معاشرتی طور پر وہ سرے سے وجود ہی نہیں رکھتے۔ وہ انسان ہی نہیں سمجھے جاتے تھے۔
پلوٹرک کی بیان کردہ معلومات کے مطابق کسی غلام کا نام ہی نہ ہوا کرتا تھا۔ انہیں کوئی چیز اپنی ملکیت میں رکھنے، شادی کرنے یا قانونی خاندان رکھنے کی کوئی اجازت نہ ہوا کرتی تھی۔ غلاموں کا مقصد یا تو محض محنت کرنے والے کارکنوں کا حصول ہوا کرتا تھا یا پھر یہ اپنے آقاؤں کی دولت کے اظہار کے لئے اسٹیٹس سمبل کے طور پر رکھے جاتے تھے۔ غلاموں کو جسمانی سزائیں دینا اور ان کا جنسی استحصال کرنا عام تھا۔اپنی تعریف کے لحاظ سے ہی غلامی ایک وحشی، متشددانہ اور غیر انسانی ادارہ تھا جس میں غلام کی حیثیت محض ایک جانور کی سی تھی۔
http://www.bbc.co.uk/history/ancient/romans/slavery_02.shtml
رومی غلام زیادہ تر وہ ہوا کرتے تھے جو یا تو جنگوں میں پکڑے جائیں یا پھر وہ جو اپنے قرضے ادا نہ کر سکیں۔کثیر تعداد میں موجود غلاموں کو کنٹرول کرنے کے لئے انہیں دائمی ہتھکڑیاں اور بیڑیاں پہنا دی جاتی تھیں جو وہ سوتے وقت بھی اتار نہ سکتے تھے۔آقاؤں کی تفریح کے لئے غلاموں کو ایک دوسرے یا وحشی درندوں سے لڑایا جاتا۔ ان غلاموں کو اس کی باقاعدہ تربیت دی جاتی اور ان لڑائیوں کا نتیجہ کسی ایک کی موت کی صورت ہی میں نکلتا۔ فتح یاب غلام کو آزادی دینا اس کے مالکوں اور تماشائیوں کی صوابدید پر منحصر ہوا کرتا تھا۔
کیتھ بریڈلے کا آرٹیکل انہی بغاوتوں کے بارے میں ہے۔ ان کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق ان میں سب سے مشہور بغاوت 73-71BC میں ہوئی جس کا لیڈر مشہور گلیڈی ایٹر اسپارٹکس تھا۔ اس بغاوت میں بہت سے غلاموں نے حصہ لیا اور اس بغاوت کے نتیجے میں سلطنت روما تباہ ہوتے ہوتے بچی۔ بغاوت ناکام رہی اور اسپارٹکس کو قتل کر دیا اور اس کے ہزاروں پیروکاروں کو صلیب پر چڑھا دیا گیا جو کہ رومیوں کا عام طریق کار تھا۔ غلاموں کے ساتھ اسی سلوک پر ایک ناول سپارٹکس بہت مشہور ہوا۔
قدیم یونان
قدیم یونانی معاشرہ میں پورا ایک طبقہ ہیلوٹس کا تھا جو غلاموں پر مشتمل ہوتا تھا۔ یونان میں بہت سے لوگوں کے پاس اپنی زمین نہ تھی اور (مزارعت پر کاشت کرنے کی وجہ سے) انہیں اپنی فصل کا بڑا حصہ جاگیر داروں کو دینا ہوتا تھا۔ اس وجہ سے یہ لوگ قرض لینے پر مجبور ہوتے اور سوائے اپنے جسم و جان کے ان کے پاس کوئی چیز رہن رکھنے کے لئے نہ ہوا کرتی تھی۔ ان لوگوں کو غلام بنا لیا جاتا۔ کہا جاتا ہے کہ ایک وقت میں ایتھنز شہر میں محض 2100 شہری اور 460,000 غلام موجود تھے۔۔ غلاموں کو اپنے آقاؤں کو خوش کرنے کے لئے سب کچھ کرنا پڑتا تھا۔ پہلے عبرانیوں کے ہاں اور پھر یونانیوں میں غلاموں سے نہایت ہی سخت برتاؤ رکھا جاتا تھا۔ یونان کی تمام شہری ریاستوں میں معاملہ ایک جیسا نہ تھا۔ ایتھنز میں غلاموں سے کچھ نرمی برتی جاتی جبکہ سپارٹا میں ان سے نہایت سخت سلوک کیا جاتا لیکن عمومی طور پر غلام بالکل ہی بے آسرا تھے۔
چین اور کنفیوشن ممالک
چین روم کی طرح مکمل طور پر ایک غلام معاشرہ نہیں بن سکا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ یہاں ہمیشہ سے عام طور پر سستے کارکن موجود رہے ہیں۔ بعض غلاموں سے اچھا سلوک بھی کیا جاتا رہا ہے لیکن اس کے باوجود انہیں بہت سے انسانی حقوق حاصل نہ رہے ہیں۔تفصیل
http://www.britannica.com/eb/article-24156/slavery
کنفیوشس (551 – 479BC) کے فلسفے اور اخلاقیات پر یقین رکھنے والے دیگر ممالک جیسے مشرقی چین، جاپان اور کوریا میں بھی غلامی موجود رہی ہے۔ اسمتھ کے مطابق ابتدائی طور صرف حکومت کو غلام بنانے کی اجازت دی گئی جو کہ جنگی قیدیوں اور دیگر مجرموں کو غلام بنانے تک محدود تھی۔ کچھ عرصے بعد پرائیویٹ غلامی اور جاگیردارانہ مزدوری کا نظام بھی آہستہ آہستہ پیدا ہو گیا۔
قدیم مصر
مصر میں بھی دنیا کے دوسرے خطوں کی طرح غلامی موجود رہی ہے۔ مصری قوانین کے تحت پوری رعایا کو فرعون کا نہ صرف غلام سمجھا جاتا تھا بلکہ ان سے فرعون کی عبادت کا مطالبہ کیا جاتا تھا۔ اہرام مصر کی تعمیر سے متعلق جو تفصیلات ہمیں ملتی ہیں، ان کے مطابق اہرام کی تعمیر ہزاروں کی تعداد میں غلاموں نے کی تھی۔ کئی کئی ٹن وزنی پتھر اٹھانے کے دوران بہت سے غلام حادثات کا شکار بھی ہوئے تھے۔
دیکھیے http://nefertiti.iwebland.com/timelines/topics/slavery.htm )
مصر میں چوری جیسے جرائم کی سزا کے طور پر غلام بنانے کے رواج کا ذکر قرآن مجید کی سورہ یوسف میں ہوا ہے۔ یہاں یہ وضاحت موجود نہیں ہے کہ ایسے شخص کو ساری عمر کے لئے غلام بنا دیا جاتا تھا یا پھر کچھ مخصوص مدت کے لئے ایسا کیا جاتا تھا۔
مصر میں غربت کے باعث لوگوں میں خود کو فروخت کر دینے کا رجحان بھی موجود تھا۔حضرت یوسف علیہ السلام کا قرآن میں ذکر ہے انکو بھی اسی طرح بیچا گیا ۔ مصر کی تاریخ میں سیدنا یوسف علیہ الصلوٰۃ والسلام وہ پہلے ایڈمنسٹریٹر تھے جنہوں نے اس رواج کو ختم کرتے ہوئے کثیر تعداد میں غلاموں کو آزادی عطا کی۔
ہندوستان
کے ایس لا ل کی فراہم کردہ تفصیلات کے مطابق قدیم ہندوستان میں بھی غلامی موجود رہی ہے البتہ دنیا کے دیگر خطوں کی نسبت یہاں غلاموں سے بہتر سلوک کیا جاتا رہا ہے۔ گوتم بد ھ نے اپنے پیروکاروں کو حکم دیا کہ وہ غلاموں سے صرف اتنا ہی کام لیں جو وہ کر سکیں۔
قدیم ہندوستان غلامی کی ایک اور شکل بھی تھی وہ تھا انکا ذات پات کا نظام ۔ اس نظام کے تحت معاشرے کو چار بنیادی ذاتوں میں تقسیم کیا گیا۔ ان میں برہمن کا کام مذہبی رسومات سر انجام دینا، کھشتری کا کام فوج اور حکومتی معاملات دیکھنا، ویش کا کام تجارت کرنا اور شودر کا کام زراعت، صفائی اور دیگر نچلے درجے کے کام کرنا ہے۔
آواگون کے عقیدے کے تحت (کسی شخص کے ) غلام ہونے کو اس کے پچھلے جنم کے گناہوں کی سزا قرار دیا گیا،
عرب میں غلامی
غلاموں کا طبقہ عرب معاشرے میں “حقیر ترین” طبقہ تھا۔ عربوں کے زیادہ تر غلام افریقہ سے لائے گئے تھے۔ ان کے علاوہ سفید رنگت والے رومی غلام بھی ان کے ہاں پائے جاتے تھے۔ یہ زیادہ تر عراق یا شام سے لائے جاتے تھے۔ان غلاموں کی خرید و فروخت جانوروں یا بے جان اشیاء کی طرح کی جاتی تھی۔ مالک غلام کی کسی غلطی پر مالک اسے موت کی سزا بھی دے سکتا تھا
آقا کو لونڈی پر مکمل جنسی حقوق حاصل ہوا کرتے تھے لیکن اگر آقا کسی لونڈی کی شادی کر دے تو پھر وہ خود اپنے حق سے دستبردار ہو جایا کرتا تھا۔ بہت سے آقا اپنی لونڈیوں سے عصمت فروشی کروایا کرتے تھے اور ان کی آمدنی خود وصول کیا کرتے تھے۔ ایسی لونڈیوں کو جنس مخالف کو لبھانے کے لئے مکمل تربیت فراہم کی جاتی تھی۔ شب بسری کے لئے کسی دوست کو لونڈی عطا کر دینے کا رواج بھی ان کے ہاں پایا جاتا تھا۔
عربوں میں لڑائی جھگڑا اور بین القبائل جنگیں عام تھیں۔ ان جنگوں میں فاتح، نہ صرف مفتوح کے جنگی قیدیوں کو غلام بناتا بلکہ اس قبیلے کی خواتین اور بچوں کو بھی غلام بنانا فاتح کا حق سمجھا جاتا تھا۔
اسلام اور غلامی
اسلام سے پہلے ہم دنیا بھر کے مختلف معاشروں کی تاریخ کا اگر جائزہ لیں تو غلام بنائے جانے کے یہ طریقے معلوم ہوتے ہیں:
• بچوں کو اغوا کر کے غلام بنا لیا جائے۔
• اگر کسی کو کوئی لا وارث بچہ یا لا وارث شخص ملے تو وہ اسے غلام بنا لے۔
• کسی آبادی پر حملہ کر کے اس کے تمام باشندوں کو غلام بنا لیا جائے۔
• کسی شخص کو اس کے کسی جرم کی پاداش میں حکومت غلام بنا دے۔
• قرض کی ادائیگی نہ کر سکنے کی صورت میں مقروض کو غلام بنا دیا جائے۔
• پہلے سے موجود غلاموں کی اولاد کو بھی غلام ہی قرار دے دیا جائے۔
• غربت کے باعث کوئی شخص خود کو یا اپنے بیوی بچوں کو فروخت کر دے۔
• جنگ جیتنے کی صورت میں فاتحین جنگی قیدیوں کو غلام بنا دیں۔
اسلام نے جو اصطلاحات نافد کیں انکا ایک حصہ تو ان غلاموں سے متعلق ہے جو معاشرے میں پہلے سے ہی موجود تھے اور دوسرا حصہ آئندہ بنائے جانے والے غلاموں سے متعلق ہے۔
آئندہ بنائے جانے والے غلام
آئندہ بنائے جانے والے غلاموں کے ذیل میں اسلام نے غلامی کی آخری وجہ کے علاوہ باقی انسانی غلامی کے سارے طریقوں پر پابندی لگادی ۔ آخری وجہ (جنگی قیدیوں کو غلام بنانا) کو کیوں برقرار رکھا گیا اس کی اصل یہ ہے کہ اس میں مخلوق کی جان بچائی گی ہے، کیونکہ جب ایک دشمن مسلمانوں کے مقابلے میں فوج کشی کرتا ہو اور اس کے ہزاروں لاکھوں آدمی مسلمانوں کے ہاتھوں میں قید ہوں، تو اب ہمیں کوئی بتلا دے کہ ان قیدیوں کو کیا کرنا چاہیے؟
ایک صورت تو یہ ہے کہ ان سب کو رہا کردئیے جائے، اس کا حماقت ہونا ظاہرہے کہ دشمن کے ہزاروں لاکھوں کی تعداد کو پھر اپنے مقابلے کے لئے مستعد کردیا۔
ایک صورت یہ ہے کہ سب کو فورا قتل کردیا جائے، اگر اسلام میں ایسا کیا جاتا تو مخالفین جتنا شور و غل مسئلہ غلامی پر کرتے ہیں ، اس سے کہیں زیادہ اس وقت کرتے کہ دیکھئے کہ کیا سخت حکم ہے کہ قیدیوں کو فورا قتل کردیا گیا؟
ایک صورت یہ ہے کہ سب کو کسی جیل خانے میں بند کر دیا جائے اور وہاں رکھ کر ان کو روٹی کپڑا دیا جائے، اس سے جیل کا عملہ اور ہزاروں جنگی بے کار ہو جاتا ہے ۔ پھر تجربہ شاہد ہے کہ جیل خانے میں رکھ کر آپ چاہے قیدیوں کو کتنی ہی راحت پہنچائیں ، ان کی ان کو کچھ قدر نہیں ہوتی کیونکہ آزادی سلب ہونے کا غیظ ان کو اس قدر ہوتا ہے کہ وہ آپکی ساری خاطر مدارات کو بے کار سمجھتے ہیں، تو سلطنت کا اتنا خرچ بھی ہوا اور سب بے سود کہ اس سے دشمن کی دشمنی میں کمی نہ آئے، پھر قید خانے میں ہزاروں لاکھوں قیدی ہوتے ہیں وہ سب کے سب علمی اور تمدنی ترقی سے بلکل محروم رہتے ہیں اور یہ سب بڑا ظلم ہے۔
اسلام نے اس کے بجائے معاشرے میں انویسٹ کردیا، انکو قیدی سے بہتر انسانی حقوق اور آزادی دی ۔ سوسائٹی نے انکو خوشی سے قبول کیا اور سلطنت بھی بار عظیم سے بچ گی ، چونکہ ہر شخص کو اپنے قیدی سے خدمات لینے کا حق ہوتا ہے اس لئے وہ اسکو روٹی کپڑا جو کچھ دے گا ، اس پر گراں نہیں ہوتا، اس کے لیے ایک نوکر کا معاملہ ہوگیا جس سے وہ خدمت لیتا اور اسے معاوزہ میں روٹی کپڑا اور مکان دیتا،پھر چونکہ غلام کو چلنے پھرنے سیر و تفریح کرنے کی آزادی ہوتی ہے ، قید خانے میں بند نہیں ہوتا ، اس لئے اسکو اپنے آقا پر غیظ نہیں ہوتا، جو جیل خانہ میں کے قیدی کو ہوتا ہے ۔
آقا کو غلاموں کے ساتھ احسان اور نرمی کا برتاو کرنے کا حکم شرعی بھی تھا اس لیے اچھے سلوک سے اس کا احسان دل میں گھر کر لیتا ہے اور وہ اس کے گھر کو اپنا گھر ، اس کے گھر والوں کو اپنا عزیز سمجھنے لگاتا ہے. یہ سب باتیں ہی نہیں بلکہ واقعات ہیں۔
اسلام نے غلاموں کی تربیت کا حکم دیا ۔ آقا خود چاہتا ہے کہ میرا غلام مہذب و شائستہ ہو، وہ اس کو تعلیم بھی دلاتا ہے، صنعت و حرفت بھی سکھاتا ، اسکو علمی اور تمدنی ترقی کا بھرپور موقع ملتا۔ چنانچہ اسلام میں صد ہا علماء زہاد ایسے ہوئے ہیں جو اصل میں موالی (آزاد کردہ غلام) تھے، غلاموں کے طبقہ نے تمام علوم میں ترقی حاصل کی، بلکہ غلاموں کو بعض دفعہ بادشاہت بھی نصیب ہوتی تھی. تاریخ اسلام میں سلطنت غلامان کا تذکرہ موجود ہے
پہلے سے موجود غلاموں کا مسئلہ
جو لوگ پہلے سے غلام تھے یا جنگی قیدیوں کی صورت میں بعد میں آئے انکو اسلام نے بدتریج غلامی سے نکالا۔ اسلام کے احکام میں تدریج کا باعث یہ چیز ہے کہ معاشرے میں پھیلی ہوئی بعض برائیاں جن کی جڑ یں کسی معاشرے میں بہت دور تک پھیل جائیں ، ان کو یک لخت ختم کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔اس طریقے سے معاشرے میں بجائے خیر کے ، انتشار اور بدنظمی پھیلنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے شراب کے احکام بھی اسی طرح سے نازل فرمائے تھے۔چونکہ عرب میں غلامی ایک ادارے کی صورت پر موجود تھی، اور ایک ایک آدمی کے پاس بیس ، تیس اور سو تک غلام ہوتے تھے۔اسلام نے اس لعنت کا آغاز نہیں کیا تھا، بلکہ یہ لوگ صدیوں اور نسلوں سے اسی طرح کام کر رہے تھے۔عرب کے طول و عرض اور عراق ، شام اور مصر کی ریاستیں فتح ہوئیں تو اس سارے علاقے میں کروڑوں غلام کام کر رہے تھے۔چنانچہ اگر ان سب کو بیک وقت آزاد کر دیا جاتا تو معاشرے میں بدنظمی اور انتشار پھیل جاتا۔لاکھوں خواتین، مرد اور بچے بے گھر اور لا وارث ہو جاتے۔چوروں ، ڈاکوؤں ، بھکاریوں اور بدکاروں کی وہ فوج منظر عام پر آتی جسے سنبھالنا کسی کے بس میں نہ ہوتا۔
چنانچہ اسلام نے اس مسئلے کا حل یہ نکا لا کہ مسلمانوں کو غلاموں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا، ان کو حقوق دینا شروع کردیے ، انکو معاشرے میں حیثیت متعارف کروائی ،حکم دیا جو خود کھاؤ ، غلاموں اور لونڈیوں کی اچھی تربیت کرو۔ پھر انکو مختلف بہانوں سے غلامی سے نکالنے کی کوششیں شروع کروائیں ، مثلا لونڈیوں کو آزاد کر کے ان کے ساتھ شادی کو دہرے اجر کا باعث قرار دیا۔غلاموں کو آزاد کرنے کو اسلام نے سب سے بڑ ی نیکی قرار دیا۔ مختلف گنا ہوں کے کفارے میں غلام آزاد کرنے کی ترغیب دی۔پھر مکاتبت کا اصول قرآن نے دیا ، جس کی رو سے جو غلام آزاد ہونا چاہتا وہ اپنے مالک سے رقم طے کر کے قسطوں میں ادا کر کے آزاد ہو سکتا تھا۔اسی طرح قرآن نے نیک اور صالح غلاموں اور لونڈیوں کے نکاح کرانے کا حکم دیا وغیرہ وغیرہ ۔
غلاموں کی آزادی کے متعلق چند آیات و احادیث
أَلَمْ نَجْعَلْ لَهُ عَيْنَيْنِ. وَلِسَاناً وَشَفَتَيْنِ. وَهَدَيْنَاهُ النَّجْدَيْنِ۔ فَلا اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَ۔ وَمَا أَدْرَاكَ مَا الْعَقَبَةُ۔ فَكُّ رَقَبَةٍ۔ أَوْ إِطْعَامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ۔ يَتِيماً ذَا مَقْرَبَةٍ۔ أَوْ مِسْكِيناً ذَا مَتْرَبَةٍ۔ (90:11-15)
کیا ہم نے اس (انسان) کے لئے دو آنکھیں، زبان اور دو ہونٹ نہیں بنائے اور دونوں نمایاں راستے اسے نہیں دکھائے۔ مگر اس نے دشوار گزار گھاٹی سے گزرنے کی کوشش نہیں کی اور تمہیں کیا معلوم کہ وہ دشوار گزار گھاٹی ہے کیا؟ کسی گردن کو غلامی سے آزاد کروانا، یا فاقے میں مبتلا کسی قریبی یتیم یا مسکین کو کھانا کھلانا۔
وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلَى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ فَمَا الَّذِينَ فُضِّلُوا بِرَادِّي رِزْقِهِمْ عَلَى مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَهُمْ فِيهِ سَوَاءٌ أَفَبِنِعْمَةِ اللَّهِ يَجْحَدُونَ۔
اللہ نے تم میں سے بعض کو دیگر پر رزق کے معاملے میں بہتر بنایا ہے۔ تو ایسا کیوں نہیں ہے کہ جو رزق کے معاملے میں فوقیت رکھتے ہیں وہ اسے غلاموں کو منتقل کر دیں تاکہ وہ ان کے برابر آ سکیں۔ تو کیا اللہ کا احسان ماننے سے ان لوگوں کو انکار ہے ؟(النحل 16:71)
لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَالْمَلائِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَآتَى الْمَالَ عَلَى حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّائِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ۔ (2:177)
نیکی یہ نہیں کہ تم اپنے چہروں کو مشرق یا مغرب کی طرف کر لو بلکہ نیکی تو یہ ہے کہ کوئی اللہ، یوم آخرت، فرشتوں، آسمانی کتب، اور نبیوں پر ایمان لائے اور اپنے مال کو اللہ کی محبت میں رشتے داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں، سائلوں اور غلاموں کو آزاد کرنے کے لئے خرچ کرے۔
وَالَّذِينَ يَبْتَغُونَ الْكِتَابَ مِمَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ فَكَاتِبُوهُمْ إِنْ عَلِمْتُمْ فِيهِمْ خَيْراً وَآتُوهُمْ مِنْ مَالِ اللَّهِ الَّذِي آتَاكُمْ۔ (النور 24:33)
تمہارے غلاموں میں سے جو مکاتبت کرنا چاہیں، ان سے مکاتبت کر لو اگر تم ان میں بھلائی دیکھتے ہو اور ان کو اس مال میں سے دو جو اللہ نے تمہیں دیا ہے۔
إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَاِبْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنْ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ۔ (التوبة 9:60)
یہ صدقات تو دراصل فقرا، مساکین اور سرکاری ملازموں (کی تنخواہوں) کے لئے ہیں، اور ان کے لئے جن کی تالیف قلب مقصود ہو۔ یہ غلام آزاد کرنے، قرض داروں کی مدد کرنے، اللہ کی راہ میں خرچ کرنے اور مسافروں کی مدد کے لئے ہیں۔ یہ اللہ کی طرف سے ایک فریضہ ہے اور اللہ علم و حکمت والا ہے۔
لا يُؤَاخِذُكُمْ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا عَقَّدْتُمْ الأَيْمَانَ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلاثَةِ أَيَّامٍ ذَلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمَانِكُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ۔ (المائدة 5:89)
تم لوگ جو بغیر سوچے سمجھے قسمیں کھا لیتے ہو، ان پر تو اللہ تمہاری گرفت نہ کرے گا مگر جو قسمیں تم جان بوجھ کر کھاتے ہو، ان پر وہ ضرور تم سے مواخذہ کرے گا۔ (ایسی قسم توڑنے کا) کفارہ یہ ہے کہ تم دس مساکین کو اوسط درجے کا وہ کھانا کھلاؤ جو تم اپنے بال بچوں کو کھلاتے ہو یا انہیں لباس فراہم کرو یا پھر غلام آزاد کرو۔ جسے یہ میسر نہ ہو وہ تین دن کے روزے رکھے۔ یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے۔
وَالَّذِينَ يُظَاهِرُونَ مِنْ نِسَائِهِمْ ثُمَّ يَعُودُونَ لِمَا قَالُوا فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَتَمَاسَّا ذَلِكُمْ تُوعَظُونَ بِهِ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ۔ (المجادلة 58:3)
جو لوگ اپنی بیویوں کو ماں قرار دے بیٹھیں اور پھر اپنی کہی ہوئی بات سے رجوع کرنا چاہیں تو ان کے لئے لا زم ہے کہ وہ ایک دوسرے کو ہاتھ لگانے سے پہلے ایک غلام آزاد کریں۔ اس سے تمہیں نصیحت کی جاتی ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اس سے باخبر ہے۔
وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ أَنْ يَقْتُلَ مُؤْمِناً إِلاَّ خَطَأً وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِناً خَطَأً فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ وَدِيَةٌ مُسَلَّمَةٌ إِلَى أَهْلِهِ إِلاَّ أَنْ يَصَّدَّقُوا فَإِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍ عَدُوٍّ لَكُمْ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ وَإِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ مِيثَاقٌ فَدِيَةٌ مُسَلَّمَةٌ إِلَى أَهْلِهِ وَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ تَوْبَةً مِنْ اللَّهِ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيماً حَكِيماً۔ (النساء 4:92)
کسی مومن کو یہ بات روا نہیں ہے کہ وہ کسی دوسرے مومن کو قتل کرے سوائے اس کے کہ غلطی سے ایسا ہو جائے۔ تو جو شخص غلطی سے کسی مسلمان کو قتل کر بیٹھے وہ ایک مسلمان غلام آزاد کرے اور مقتول کے وارثوں کو قانون کے مطابق دیت ادا کرے، سوائے اس کے کہ وہ معاف کر دیں۔
احادیث
ابو بردہ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و اٰلہ و سلم نے فرمایا، “تین قسم کے افراد کے لئے دوگنا اجر ہے : اہل کتاب میں سے کوئی شخص جو اپنے نبی پر ایمان لا یا اور اس کے بعد محمد پر بھی ایمان لا یا۔ ایسا غلام جو اللہ کا حق بھی ادا کرتا ہے اور اپنے مالکان کی تفویض کردہ ذمہ داریوں کو بھی پورا کرتا ہے۔ ایسا شخص جس کے پاس کوئی لونڈی ہو جس سے وہ ازدواجی تعلقات رکھتا ہو، وہ اسے بہترین اخلاقی تربیت دے، اسے اچھی تعلیم دلوائے، اس کے بعد اسے آزاد کر کے اس سے شادی کر لے تو اس کے لئے بھی دوہرا اجر ہے۔(بخاری، کتاب العلم، حديث 97)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و اٰلہ و سلم نے خود اس کی مثال قائم فرمائی۔ آپ نے سیدہ صفیہ اور ریحانہ رضی اللہ عنہما کو آزاد کر کے ان کے ساتھ نکاح کیا۔ اسی طرح آپ نے اپنی لونڈی سیدہ ام ایمن رضی اللہ عنہا کو آزاد کر کے ان کی شادی سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ سے کی۔ آپ نے اپنی ایک لونڈی سلمی رضی اللہ عنہا کو آزاد کر کے ان کی شادی ابو رافع رضی اللہ عنہ سے کی۔
ابوہرہرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کہ نبی صلی اللہ علیہ و اٰلہ و سلم نے فرمایا: “جو شخص بھی کسی مسلمان غلام کو آزاد کرتا ہے ، اللہ تعالی اس (غلام) کے ہر ہر عضو کے بد لے (آزاد کرنے والے کے ) ہر ہر عضو کو جہنم سے آزاد کرے گا۔” سعید بن مرجانہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد میں علی بن حسین (زین العابدین) رضی اللہ عنہما کے پاس گیا اور ان سے یہ حدیث بیان کی تو انہوں نے اپنے ایک غلام کی طرف رخ کیا اور اسے آزاد کر دیا۔ اس غلام کی قیمت عبداللہ بن جعفر دس ہزار درہم یا ایک ہزار دینار لگا چکے تھے۔
(بخاری، کتاب العتق، حديث 2517)
ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و اٰلہ و سلم سے پوچھا، کس غلام کو آزاد کرنا سب سے افضل ہے ؟” آپ نے فرمایا، “جو سب سے زیادہ قیمتی ہو اور اپنے آقاؤں کے لئے سب سے پسندیدہ ہو۔” میں نے عرض کیا، “اگر میں ایسا نہ کر سکوں تو؟” آپ نے فرمایا، “تو پھر کسی کاریگر یا غیر ہنر مند فرد کی مدد کرو۔” میں نے عرض کیا، “اگر میں یہ بھی نہ کر سکوں؟” آپ نے فرمایا، “لوگوں کو اپنی برائی سے بچاؤ۔ یہ بھی ایک صدقہ ہے جو تم خود اپنے آپ پر کرو گے۔”(بخاری، کتاب العتق، حديث 2518)
ابو دردا رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے فرمایا: “جو شخص بھی مرتے وقت غلام آزاد کرتا ہے ، وہ تو اس شخص کی طرح ہے جو (گناہوں سے) اچھی طرح سیر ہونے کے بعد (نیکی کی طرف) ہدایت پاتا ہے۔(سنن نسائی الکبری، کتاب العتق، حديث 4873)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و اٰلہ و سلم کو غلاموں کی آزادی سے ذاتی طور پر دلچسپی تھی۔ اوپر بیان کردہ عمومی احکامات کے علاوہ آپ بہت سے مواقع پر خصوصی طور پر غلاموں کو آزاد کرنے کی ترغیب دیا کرتے تھے۔ بہت سی جنگوں جیسے غزوہ بد ر، بنو عبدالمصطلق اور حنین میں فتح کے بعد آپ نے جنگی قیدیوں کو غلام نہ بنانے کے لئے عملی اقدامات کئے اور انہیں آزاد کروا کر ہی دم لیا۔ اس کے علاوہ بھی آپ مختلف غلاموں کے بارے میں ان کے مالکوں سے انہیں آزاد کرنے کی سفارش کیا کرتے تھے۔آپ خود بھی جب یہ محسوس فرماتے کہ آپ کا کوئی غلام آزادانہ طور پر زندگی بسر کرنے کے لئے تیار ہو گیا ہے تو اسے آزاد فرما دیتے۔ یہ سلسلہ آپ کی پوری زندگی میں جاری رہا حتی کہ آپ کی وفات کے وقت آپ کے پاس کوئی غلام نہ تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و اٰلہ و سلم کے برادر نسبتی عمرو بن حارث جو ام المومنین جویریہ بنت حارث رضی اللہ عنہما کے بھائی ہیں، کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و اٰلہ و سلم نے اپنی وفات کے وقت درہم، دینار، غلام، لونڈی اور کوئی چیز نہ چھوڑی تھی۔ ہاں ایک سفید خچر، کچھ اسلحہ (تلواریں وغیرہ) اور کچھ زمین چھوڑی تھی جسے آپ صدقہ کر گئے تھے۔(بخاری، کتاب الوصايا، حديث 2739)
آپ نے حکومتی سطح پر بھی بہت سے غلاموں کو خرید کر آزاد کرانے کی روایت ڈالی ، بعض مکاتبوں کو اپنی رقم کی ادائیگی کے لئے ان کی مدد کی گئی، اس کی ایک مثال سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ ہیں۔ بعد میں خلفاء راشدین کے دور میں بھی بیت المال سے غلاموں کو خرید خرید کر آزاد کیا جاتا تھا۔ اگر کسی کا کوئی وارث نہ ہوتا تو اس کی چھوڑی ہوئی جائیداد کو بیچ کر اس سے بھی غلام آزاد کئے جاتے۔
طارق بن مرقع نے ایک غلام کو اللہ کی رضا کے لئے آزاد کیا۔ وہ فوت ہو گیا اور اس نے کچھ مال ترکے میں چھوڑا۔ یہ مال اس کے سابقہ مالک طارق کے پاس پیش کیا گیا۔ وہ کہنے لگے، “میں نے تو اسے محض اللہ کی رضا کے لئے آزاد کیا تھا، میں اس میں سے کچھ نہ لوں گا۔” یہ بات سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو لکھ کر بھیجی گئی کہ طارق مال لینے سے انکار کر رہے ہیں۔ انہوں نے جواب دیا، “اگر وہ قبول کر لیں تو ٹھیک ہے ورنہ اس سے غلام خرید کر آزاد کرو۔” راوی کہتے ہیں کہ اس مال سے پندرہ غلام آزاد کئے گئے۔
(مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب المیراث، حدیث 32086)
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و اٰلہ و سلم نے فرمایا، “مکاتب کے مال میں کوئی زکوٰۃ نہیں ہے جب تک وہ مکمل آزاد نہ ہو جائے۔
”(دارقطنى، سنن، كتاب الزكوة)
سیدنا ابوہرہرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و اٰلہ و سلم کے پاس آیا اور کہنے لگا، “میں ہلاک ہو گیا۔ میں نے روزے کی حالت میں اپنی بیوی سے ازدواجی تعلقات قائم کر لئے ہیں۔” آپ نے فرمایا، “غلام آزاد کرو۔” وہ کہنے لگا، “میرے پاس کوئی غلام نہیں ہے۔” آپ نے فرمایا، “دو مہینے کے لگاتار روزے رکھو۔” وہ کہنے لگا، “مجھ میں اتنی طاقت نہیں ہے۔” آپ نے فرمایا، “پھر ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلاؤ۔” وہ بولا، “میرے پاس یہ بھی تو نہیں ہے۔”
اسی اثنا میں آپ کے پاس کھجوروں کو ایک ٹوکرا لا یا گیا۔ آپ نے فرمایا، “وہ سائل کہاں ہے ؟” اسے ٹوکرا دے کر ارشاد فرمایا، “اسی کو صدقہ کر دو۔” وہ بولا، “مجھ سے زیادہ اور کون غریب ہو گا۔ اللہ کی قسم اس شہر کے دونوں کناروں کے درمیان میرے خاندان سے زیادہ غریب تو کوئی ہے نہیں۔” یہ سن کر نبی صلی اللہ علیہ و اٰلہ و سلم ہنس پڑے اور آپ کے دانت ظاہر ہو گئے۔ آپ نے فرمایا، “چلو تم ہی اسے لے جاؤ۔”
(بخاری، کتاب الادب، حديث 6087)
تہذیبی نرگسیت -ایک تہذیبی مرعوب کی سرگذشت کا اصولی جواب – حصہ اول | الحاد جدید کا علمی محاکمہ
June 12, 2015 at 6:40 am[…] اور غلامی کے موضوع پر تفصیل یہاں اور یہاں پیش کی جاچکی ہیں، ہم یہاں اعتراض کے ضابطے پر […]