ایک فیس بکی مفکر قاری ڈار صاحب کچھ عرصے سے تواتر کے ساتھ احادیث کے خلاف پروپیگنڈہ کرتے آرہے ہیں.
منکرین حدیث نے پہلے دن سے حدیث وسنت کی تاریخیت ‘ حفاظت اور اس کی حجیت کو مشکوک بنانے کے
آج کل جو متجددین احادیث صحیحہ کو بظاہر مانتے تو ہیں لیکن ان کے مطالب و مفاہیم کسی پر اعتماد
فہمِ قرآن کے لیے سب سے زیادہ اہم اور بنیادی ضرورت اس امر کی ہے کہ قرآنِ کریم کے کسی
حدیث قرآن کے بعد شریعت کا دوسرا بڑا ماخذ ہے،قرآن مجید الفاظ ہیں اور حدیث و سنت ان الفاظ کا
اعتراض : سنت کی ضرورت ہی کیوں ؟ کیا کتاب اللہ کا قانون (نعوذ باللہ) نامکمل تھا اور جو کچھ
۔ بلاشبہ سنت کی تحقیق اور اس کے تعین میں بہت سے اختلافات ہوئے ہیں اور آئندہ بھی ہو سکتے
چند بنیادی سوالات: سنت سے کیا مراد ہے؟ سنت اور حدیث میں کیا فرق ہے؟ ماخذ دین سنت ہے یا
انکارِ سنت کا فتنہ اسلامی تاریخ میں سب سے پہلے دوسری صدی ہجری میں اٹھا تھا اور اس کے اٹھانے
اہل علم جانتے ہیں کہ صحیحین، سنن اور دیگرمفصل کتب حدیث نہ تو عوام الناس کیلئے لکھی گئی ہیں اورنہ
معترضین کے خیال میں ایسی روایات جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملات زن وشو کا ذکر
علم حدیث پر منکرین حدیث نے یہ اعتراض بھی بڑی شدومد سے اٹھایا ہے کہ محدثین کے پاس اتنی تعداد
منکرین حدیث کا ماخذ دین پر بنیادی اعتراض یہ ہے کہ سنت و حدیث کو حجت ماننے کے باعث عالم
منکرین حدیث کی طرف سے عموما یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ حدیث ہی فرقوں / مسالک/مذہبی انتشار کے وجود
فکر ِاصلاحی وغامدی کا تجزیہ: حدیث و سنت کے حوالے سے مولاناامین احسن اصلاحی وغامدی صاحبان کے موقف کا خلاصہ
منکرین حدیث و متجددین نے اپنے مخصوص مقاصد کے لیے چند خوشنما معیار قائم کیے ہیں جن پر یہ احادیث
معیار چہارم، خلافِ علم و مشاہدہ نہ ہو: جہاں تک اس معیار کا تعلق ہے تو قرآن میں مذکور تمام
اعتراض : قرآن مجيد تو اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے اسکی حفاظت کی ذمہ داری تو خود اللہ تعالیٰ کے
صحیح بخاری میں ایک حدیث کچھ یوں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو ایک
مستشرقین نے اہل اسلام کو اپنے دین سے متعلق شکوک شبہات میں مبتلا کرنے، تجدد و مغربیت اختیار کرنے اور
منکرین حدیث اس حدیث کا اپنی مرضی کا ترجمہ و تشریح کرتے اور پھر مذاق اڑاتے ہیں . ایک منکر حدیث
عرش کے نیچے سجدہ کرنے کے متعلق روایت کی سیاق و سباق اور سورت یس کی آیت اڑتیس کی روشنی
بہت سے ملحدین و عیسائی مشنری صحیح مسلم کی ایک روایت کا سہارا لے کر اس بات کا جواز پیش
ڈاکٹر شبیر لکھتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حفصہ کے سامنے قسم کھائی کہ اپنی کنیز
ایک منکر حدیث اپنے مخصوص انداز میں لکھتے ہیں :” حضرت انس کہتے ہیں ایک انصاری عورت جناب رسول علیہ
،برصغیر کے مسلمانوں پر مغربی اقوام کے سیاسی نظریاتی تسلط کے بعد مسلمانوں کا ایک ایسا طبقہ وجود میں آیا
اعتراض : ”حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین چیزیں منحوس ہیں گھوڑا، عورت اور مکان” … اس ارشاد
صاحبانِ فکر ونظر کے لئے اس امر کا مطالعہ بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ اس جدید انکار حدیث
پرویز صاحب کا قرآن کے متعلق مقدمہ : قرآن کے ذریعے اختلاف پیدا ہونا ممکن نہیں: 1۔”قرآن کریم اپنے منجانب
ایک منکر حدیث حدیث پیش کرتے ہیں : ”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی تمام بیویوں کے پاس ہررات