عربی زبان میں ‘جمع القرآن’ کالفظ دو معانی میں استعمال ہوتا ہے: 1۔ زبانی حفظ کے معنی میں 2۔ کتابت
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مکمل قرآن مجید مختلف چیزوں پر لکھا ہوا تھا، سارے اجزا الگ
جس طرح حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا سب سے بڑا کارنامہ جمعِ قرآن ہے، اسی طرح حضرت عثمان
دور ِعثمانی میں مصاحف کی جو نقلیں تیار کرکے مختلف بلادِ اسلامیہ کو بھیجی گئیں تھیں، وہ ایسے رسم الخط
عہد رسالت میں قرآن کی تعلیم وتعلم کا بہت اہتمام تھا، چنانچہ صحابہ کرام ؓ نے حفظ اور کتابت دونوں
مستشرقین نے یورپ میں یہ بات مشہور کرائی کہ محمد صل اللہ علیہ وسلم پر وحی نہیں آتی تھی بلکہ
ہم شروع میں لکھ چکے ہیں کہ وحی ان معاملات میں اللہ کی طرف سے رہنمائی کی ایک شکل ہے،جن
مسلمانوں کے لیے قرآن کریم کی تدوین وجمع کی تاریخ سے بڑھ کر کوئی قابلِ فخر سرمایہ نہیں ہے۔ وہ
دنیا میں آنے کے بعد انسان کے لیے دو کام ناگزیر ہیں ، ایک یہ کہ وہ اس کائنات سے
ایک ملحد تحریف قرآن کے موضوع کے تحت لکھتا ہے : “یہ بات بھی بالکل غلط ہے کہ اس عثمانی
ثیودور نولڈکی (Theodor Nöldeke) کے نقش قدم پر چلتے ہوئے عیسائی مشنری ” ضائع شدہ آیات“کے موضوع سے قرآن مجید
عیسائی مشنریز کی طرف سے یہ اعتراض اٹھایا جاتا ہے جو اب انکے دیسی شاگرد ملحدین بھی کاپی کرتے ہیں