آج اہل یورپ بضد ہیں کہ شرق وغرب کی صحیح ومستند تاریخ وہی ہے جو حکماءمغرب نے لکھی ہے۔ مگر
ذہنی غلامی کے کیچڑ میں لتھڑے ہوئے مسلمانوں کے لیے لمحہ فکریہ: تعلیمی اداروں، میں پڑھائی جانے والی درسی کتابوں
سائنس اور جدید تہذیب پر تنقید کے جواب میں ایک عجیب و غریب استدلال جب کبھی جدید سائنس و ٹیکنالوجی
۔ جو لوگ بڑے طمطراق سے تمام مفسرین، محدثین، متکلمین، فقہا و صوفیا پر جہالت و کم عقلی کا فیصلہ
ایمان کی بے قدری کے اس دور میں اس متاع عظیم کو ہلکا اور خفیف بتانے کیلئے یہ عجیب و
نظام کی تسخیری قوت اور سائنسی علمیت پر اندھے اعتماد پر مبنی تصورات ۔۔۔ عام بلکہ ‘جدید تعلیم یافتہ’ لوگوں
مارکیٹ کا مفہوم بالمعوم place where exchange of goods and services takes place (خرید و فروخت کا مقام) لیا جاتا
اکثر و بیشتر مذھبی اور مغربی فکر میں پاۓ جانے والے تصورات آزادی کو بری طرح خلط ملط کرکے ”اسلام
۔ موٹروے پر کار ڈرائیو کرتے وقت یہ بات باآسانی محسوس کی جا سکتی ھے کہ ہمارے یہاں 95 فیصد
جدید دنیا کا “آئیڈئیل” (‘خیر القرون’) اور خیرالقرون کی طرف مراجعت کی اہمیت علم معاشیات میں مکمل مسابقت سے مراد
عام طور پر اشتراکیت کو سرمایہ داری سے علی الرغم کوئی نظام سمجھا جاتا ھے۔ اس غلط فہمی کی وجہ
سوشل ازم سے مراد مزدوروں کی ریاستی ڈکٹیٹرشپ کے زیر نگرانی ایک پالیسی پیکج ھے جبکہ کمیونزم کا مطلب اس
دوائیاں، ہتھیار اور عورتیں ان تینوں چیزوں کو سرمایہ دارانہ نظام کی مکمل حمایت، پشت پناہی اور تحفظ حاصل ہے۔
خیر کا تعلق پروسیجر سے نہیں بلکہ شرع سے ھے عام طور پر اخلاقی اقدار کو ‘انسانی شے’ سمجھ کر
جدید تہذیب کی دلکش مگر پرفریب ترین اشیاء میں سے سب سے بڑی جمہوریت ھے جو عوام کو یہ سراب
موجودہ دور میں نظر آنے والے بے شمار پروفیشنل خیراتی اداروں اور این جی اوز کا مارکیٹ (لبرل سرمایہ دارانہ)
ہر ماڈرنسٹ کہتا ھے کہ میں اصل اسلام سمجھنے کی کوشش کررہا ھوں، میں قرآن کے الفاظ سے استدلال کرتا
جدید دور کی ایک نمایاں خصوصیت جرائم میں بے تحاشا اضافہ بھی ھے۔ جرائم کے اس فروغ اور مارکیٹ نظم
اٹھاریوں و انیسویں صدی کی الحادی سائنس (خصوصا فزکس) سے دماغ کچھ یوں مبہوت ھوئے کہ بڑے بڑے ذہین مسلمان
ایک این جی او کے تحت ”بڑھتی ھوئی آبادی کے مسائل” پر کانفرنس کے سیشن کے دوران اظہار خیال کرتے
موجودہ عالمگیر مادہ پرستانہ تہذیب کے ظاہر فریب پردوں کے پیچھے جھانک کر انسانیت کا جائزہ لیجیے، تو وہ حال
e یہ ایک بہت فرسودہ سوال ہوچکا ہے کہ اگر ہر چیز کی کوئی علت ہے تو خدا کی علت
ایک “عامی” کے حق میں ‘دلیل’ اس وقت وہ جنگل ہےجس میں ہزاروں خونخوار بھیڑے گھس آئے ہیں جو سود
تمام مسلمانوں کی طرح میرا اپنے رب کی ربوبیت اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر یقین شعوری
دیسی ملحدین بسا اوقات اسلام دشمنی میں ایسی بات کر جاتے ہیں ، جس سے ان ملحدین کی عقلی سطحیت
سوال خ عموما اس طور پر اٹھایا جاتا ھے کہ ” اگر ھر چیز کو خدا نے وجود بخشا ھے
ملحد لوگ ہر بات میں ہم سے عقلی دلیل طلب کرتے ہیں ، ان سے صرف ایک عقلی سوال کیا
ممتاز سعودی عالم شیخ العریفی کہتے ہیں : میں یمن گیا اور شیخ عبد المجید زندانی سے ملا جو جید
چلتے چلتے تھک کر پوچھا دل سے پاؤں کے چھالوں نے ! بستی کتنے دور بسا لی ، دل میں
آجکل خلافِ عقل کا لفظ نئے تعلیم یافتہ اور سیکولر لبرل حضرات کی زبانوں پر ایسا چڑھا ہے کہ شریعت