سنن ابن ماجہ کی ایک روایت کو استعمال کرتے ہوئی عیسائی مستشرقین الزام دھرتے ہیں کہ قرآن کی کچھ آیات
اسلامی تاریخ کے طالبعلموں کے لئے ڈاکٹر حمید اللہ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ ڈاکٹر حمیداللہ نے جامعہ
انسانی زندگی دو عظیم شعبوں میں تقسیم ہے. ایک مادی جب کہ دوسرا روحانی ہے.ان دونوں شعبوں میں ہم آہنگی
چند روز قبل ایک ملحد کی جانب سے اسلام میں غلامی کے موضوع پر ایک پوسٹ کی گئی، جس میں
۔ اس موضوع پر چار بنیادی سوالات ایک عام آدمی کے ذہن میں ہوسکتے ہیں ۱۔ اسلام کے
قدیم زمانے میں غلام تین طرح کے تھے۔ ایک جنگی قیدی، دوسرے آزاد آدمی جن کو پکڑ پکڑ کر غلام
کافی عرصہ پہلے ہمارا ایک علم بشریات کی ڈگری رکھنے والے ملحد کیساتھ ناموس رسالت کی قانونی و منطقی حیثیت
گزشتہ حصہ میں ہم نے’تہذیبی نرگسیت’ کے بنیادی تضادات اور نصوص قطعیہ پر اس کے اعترضات پراجمالی روشنی ڈالی تھی ۔
تحریر :عدنان مسعود ذکر بی بی سی اردو پر سنا، برادرم راشد کامران (بلاگر) نے کتاب مستعار دی اور ہم
بہت سے مسلمان طالبعلم حیاتیاتی ارتقا ئی عمل کے مفروضے پر مبنی تشریح یعنی ”تھیوری آف ایوولیوشن“ کے بارے میں
سوشل میڈیا پر ملحدین کا ایک پیج جو اپنے جھوٹ گھڑنے کی وجہ سے مشہور ہے نے سانحہ پشاور کے
عیسائی مشنریوں کے سب حملے دور دراز کے جاہل و پسماندہ علاقوں میں ہی ہوتے جہاں یہ ’روٹی‘ کے بدلے
”اے بادشاہ! ہم لوگ ایک ایسی قوم تھے کہ سر تا سر جاہلیت میں گرفتار تھے۔ بت پوجتے تھے۔ مردار
دلیل کی قوت، حقانیت کا رعب ، سادگی، گہرائی، گیرائی، بے ساختگی، قوتِ منطق، وحدتِ مضمون (consistency) اور وسعتِ بیان
جس کسی نے عربوں کی زندگی چند سال پہلے دیکھ رکھی ہو، کیا وہ یقین کرسکتا ہے کہ عمرؓ بن
دِل کو دِل سے راہ ہوتی ہے۔ رسول اللہ ﷺاس بات کو یوں بیان کرتے ہیں:الاَرواح جنود مجندۃ (صحیح مسلم:
افراد انسانی میں جو باہم اختلافات ہیں اس میں یہی حکمت ہے۔کوئی طاقت ور ہے اور کوئی کمزور، کوئی حسین
جو حضرات اور طبقاتِ فکر جو چھلنیاں ذخیرہ حدیث اور مسلم تاریخ پر لگاتے ہیں یہ ذرا یورپ اور امریکہ
قرآن اکیڈمی میں تنظیم کے کچھ دوستوں کی وساطت سے ایک منکر حدیث سے ملاقات ہوئی۔ بیٹھتے ہی سوالات کی
کسی بھی قوم کا رابطہ اگر اپنے ماضی سے ٹوٹ جاۓ تو اس قوم کی مثال ایسی ہی ہے جیسے
اٹھارویں اور انیسویں صدی کی سائنس نے جب یہ دریافت کیا کہ کائنات میں علت اور معلول کا ایک نظام
مذہب کے خلاف دورِ جدید کا جو مقدمہ ہے، وہ اصلاً طریقِ استدلال ہے،یعنی اس کا مطلب یہ ہے کہ
مذہب و عقل کی معرکہ آرائیوں کی داستان توں تو ہمیشہ کہی اور سنی گئی ہے، لیکن پچھلی صدی میں
بعض اصطلاحات، جو کہ کچھ علوم اور فنون میں استعمال ہوتی ہیں، بسا اوقات ہمارے ذہنوں کو ایک جامد اور
عقل اور نقل کا معرکہ اسلامی عقائد کی تاریخ کا ایک مشہور معرکہ ہے۔ بنیادی طور پر یہ ایک خوامخواہ
مغرب ومشرق کے عروج وزوال کے فلسفے کی راکھ سے اٹھارہویں اور انیسویں صدی کی مسلم جدیدیت کا آغاز
وہ کہنے لگے: دیکھو بھئی۔ یہ جو سارا عقائد کا معاملہ ہے یہ صرف اس وجہ سے پیدا ہوتا ہے
ایک جانب دو سو سال سے مار کھاتی چلی آنے والی ایک بیچاری اَن پڑھ قوم، جس کو شعور کی
شریعت اور عقل کا مسئلہ امت کی تاریخ میں بڑی مدت سے باعث نزاع رہا ہے۔ اس مسئلے میں