یہ پاکستان نہیں امریکا کی بات ہے۔ ایک خاتون کے ساتھ دو لوگوں نے زیادتی کی۔ انکوائری کے دوران پولیس نے بہت سے مشتبہ لوگوں کے ڈی این اے سیمپل لئے اور لیب رپورٹ کے مطابق ایک انیس سالہ نوجوان کا ڈی این اے میچ کر گیا۔ اسے پچیس سال قید کی سزا سنا دی گئی۔ تقریبا پانچ سال کی قید کے بعد پتا چلا کہ ڈی این اے میچنگ کے طریقہ کار میں غلطی تھی تو اسے آزاد کر دیا گیا۔ یہ پہلا یا آخری کیس نہیں تھا جس میں غلط شخص کو سزا سنا دی گئی بلکہ امریکا جیسے ملک میں بھی ایسے کیسز خاصی تعداد میں ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہرگز نہیں ہے کہ ڈی این اے ٹیسٹ کی سائنس میں کوئی مسئلہ ہے بلکہ آپریٹرز عام طور پر رزلٹس بناتے ہوئے غلطیاں کرتے ہیں۔
اب آپ کو ڈی این اے ٹیسٹ کے بارے میں بتاتے ہیں۔ فنگر پرنٹس کی طرح سوائے “یکساں جڑواں” (identical twins) کے ہر شخص کا ڈی این اے مختلف ہوتا ہے۔ یہ آپ کے بالوں، ناخن، سکن، کسی بھی جسمانی مواد وغیرہ سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ یہ آپ سے زبردستی، دھوکہ دہی یا انجانے میں بھی لیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح پاکستان جیسے ملک جہاں جھوٹی گواہی،جھوٹی ایف آئی آر، تفتیشی اداروں کی رشوت ستانی، ذاتی و سیاسی استعمال اور جعلی میڈیکل رپورٹس، میڈیکل بورڈز معمول کی بات ہیں، وہاں ڈی این اے کے ساتھ بھی کیا نہیں ہو سکتا؟ امریکا جیسے ملک میں کم از کم یہ یقینی ہوتا ہے کہ sanctity of evidence will be ensured شواہد کی حفاظت اور اس میں کوئی دو نمبری نا ہونا کم از کم وہاں یقینی ہوتا ہے۔
اس پس منظر کو ذہن میں رکھیں اور فرض کریں کہ کسی کیس میں بہت زیادہ عوامی دباؤ آ جاتا ہے پولیس پر اور وزیروں پر۔ وہ کسی بھی شخص کو پکڑتے ہیں، اس کا ڈی این اے سیمپل لیتے ہیں اور تمام کیسز میں تبدیل کر دیتے ہیں۔ لیں جی جرم ثابت ہو گیا۔ بلے بلے ہو گئی۔ کیس ختم اور اصل مجرم دندناتے پھر رہے ہیں اب بھی۔ جس غریب کی گردن میں پھندہ فٹ ہو گیا، اسے پھانسی دے دی۔ کہانی ختم پیسہ ہضم۔
اگلا کیس فرض کریں۔ ایک مرد اور ایک عورت نے باہمی رضامندی سے بدکاری کی اور بعد ازاں خاتون نے اس پر زیادتی کا الزام لگا دیا۔ محض ڈی این اے پر انحصار کی صورت میں تو وہ شخص مجرم ثابت ہو گیا فورا۔
مزید اگلا کیس فرض کریں۔ خاتون کے ساتھ کسی نے زیادتی کی۔ خاتون اثر و رسوخ رکھتی تھیں۔ انہوں نے جو حلیہ بتایا تھا وہ آپ سے تھوڑا بہت میچ کرتا تھا۔ آپ وہاں سے اپنے کسی کام کے سلسلے میں محض گزر رہے تھے تو پولیس نے آپ کو پکڑ لیا۔ جو ڈی این اے سیمپل پہلے لیا گیا تھا، اس کی جگہ آپ کا سیمپل ڈال کر “مجرم” پکڑ لیا جی پولیس نے۔ صاحب بہادر کی ترقی ہو گئی اور آپ کو پھانسی۔ خاتون بھی مطمئن ہو گئیں اور کیس بند۔
اس لئے ڈیبیٹ ڈی این اے ٹیسٹ کے قابل قبول ہونے یا نا ہونے کی نہیں ہے۔ دراصل ڈیبیٹ ان حقائق کی ہے جو ہمارے معاشرے میں آئے دن دیکھنے کو ملتے ہیں۔ جہاں ایک غیر ملکی کو پاکستان کا قومی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ محض پیسے خرچ کر کے مل سکتا ہو، وہاں کیا نہیں ہو سکتا!
یہ بنیادی وجہ اور پس منظر ہے ہماری کورٹس کے ڈی این اے کو پرائمری شواہد میں شمار نا کرنے کی اور سیکنڈری شواہد میں قابل قبول سمجھنے کی۔ انصاف محض مظلوم کے ساتھ نہیں بلکہ ملزم کے ساتھ بھی ہونا ضروری ہے ورنہ ملزم بھی مظلوم ہی بن جاتا ہے، ایک ایسا مظلوم جس کے ساتھ کوئی ہمدردی بھی نہیں کرتا بلکہ ہر کوئی نفرت ہی کرتا ہے، اسے وکیل تک نہیں مل پاتا۔ ملزم اور مجرم میں فرق رکھنا بہت ضروری ہے تا کہ ہم ہمیشہ اصل مجرم تک پہنچ سکیں نا کہ قربانی کے بکرے کی بلی چڑھا کر مطمئن ہو جائیں۔
اس لئے ڈی این اے ٹیسٹ کے سلسلے میں سیمپلنگ، ٹیسٹنگ، کلیکشن، تفتیش اور استغاثہ کا الگ الگ اور آزاد ہونا، غیر سیاسی ہونا، پروفیشنل ہونا سب سے زیادہ ضروری ہے۔ یہ چیزیں یقینی بنا لیں تو ہماری کورٹس موجودہ قوانین کے تحت ہی ڈی این اے کو زیادہ وزن دینے لگ جائیں گی۔
اس بیان کئے گئے طریقہ کار کے سوا آپ چاہے اسلامی نظریاتی کونسل کو موردالزام ٹھہرا کے”فیشن” پورا کرتے رہیں یا اسلام کو یا قانون کو، کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔
پس تحریر:
عام طور پر پائی جانے والی غلط فہمی کے برخلاف اس وقت پاکستان میں آئینی، قانونی اور ہمیشہ سے مذہبی پوزیشن یہ رہی ہے کہ چار گواہ صرف زنا کے جرم کے لئے چاہیے ہوتے ہیں۔ ریپ کے سلسلے میں ایسی کوئی شرط نا کبھی تھی نا ہے۔ بلکہ اسے ویسے ہی ثابت کیا جا سکتا ہے جیسے کسی اور جرم کو اور ڈی این اے اس میں بطور ایویڈنس کے قابل قبول ہے۔ یہ یقینی بنانا جج کا فرض ہوتا ہے کہ باقی حالات بھی ملزم کے مجرم ہونے کی دلالت کرتے ہیں۔
تحریر علی احمد بشکریہ دانش ڈاٹ پی کے