ہم خدا کی عبادت کیوں کریں ؟

۔

۔

ہم خدا کی عبادت کیوں کریں ؟
جب ہم اپنے پسندیدہ کھلاڑی کی میدان میں بہترین کارکردگی و صلاحیت کو دیکھتے ہیں، جب کسی جرات مندانہ کارنامے کو دیکھتے ہیں، یا پھر جب حوصلہ افزا یا جذبات کو ابھارنے والی تقریر سنتے ہیں تو ہم بےساختہ داد دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ہم کھڑے ہوتے ہیں، تالیاں بجاتے ہیں، پرجوش نعرہ ہائے تحسین بلند کرتے ہیں، تھرکتے ہیں، متاثر ہوجاتے ہیں ، ہمیں حوصلہ ملتا ہے ، ہم خوش ہو جاتے ہیں اور اپنے ان تاثرات میں پوری طرح ڈوب جاتے ہیں۔ ہم ان لمحات کو ساری زندگی بھلا نہیں پاتے۔ ایک پل کے لئے آپ ماضی کے اس لمحے میں جائیں جب آپ نے ان سب تاثرات کو محسوس کیا تھا اور کیسے آپ کا ردِعمل بےساختہ اور فطری تھا۔
چلئے اب ہم اپنی توجہ کائنات کی طرف موڑتے ہیں۔ ہم ایک شاندار کائنات میں رہتے ہیں۔ ہم پرامید ہیں، پیار کرتے ہیں، انصاف کو مانتے اور انسان کی برتر حیثیت پر یقین رکھتے ہیں۔ ہم توجیہات تلاش کرتے، محسوس کرتے، ردِعمل دیتے اور نئی دریافتیں کرتے ہیں۔ ہم ایک لامتناہی کائنات میں رہتے ہیں جس میں اربوں ستارے، کہکشائیں اور سیارے ہیں۔ اس کائنات میں آگہی کی غیرمعمولی صلاحیت کے حامل اجسام پائے جاتے ہیں۔ ہم غیرمرئی سوچ کا حامل دماغ رکھتے ہیں جو کہ بیرونی مادی دنیا سے تعلق قائم رکھتا ہے۔ کائنات کے قانون اور ضابطے ہیں جن میں زرا سی بھی تبدیلی باشعور زندگی کی نمو کو ناممکن بنا دیتی۔ ہم اپنے اندر گہرائی سے بدی کی مخالفت اور نیکی کی اچھائی کو محسوس کرتے ہیں۔
ہماری کائنات میں جانور اور حشرات ہیں، چیونٹی جیسے کیڑے جو اپنے جسمانی وزن سے کئی گنا وزن اٹھا سکتے ہیں، اور بیج، جو آگ کی گرمی سے نمو پاتے ہیں۔ ہم ایسے سیارے پر رہتے ہیں جہاں ہزاروں زبانیں بولی جاتی ہیں اور لاکھوں اقسام کے جانداروں کی نسلیں آباد ہیں۔ ہم ایسی دنیا میں رہتے ہیں جہاں انسانی دماغ زندگی کو زمین سے فنا کر دینے والے ہتھیار بنا سکتا ہے اور ایسی تباہی کو روک سکنے والے طریقے بھی سوچ سکتا ہے۔ ہم ایسی کائنات میں رہتے ہیں جہاں اگر ان گنت ایٹموں میں سے صرف ایک کو توڑا جائے تولامحدود توانائی کا اخراج ہوتا ہے۔ ہم ایسی دنیا میں رہتے ہیں جہاں اگر دلوں کو جوڑا جائے تو ساری دنیا میں امن قائم ہو سکتا ہے۔
لیکن پھر بھی ہم میں سے کچھ خدا کی، جو کہ ساری کائنات اور اس میں موجود ہر چیز کو پیدا کرنے والا ہے، ستائش اور تعریف نہیں کرتے۔ کیا ہم ہر پل، لمحے اور واقعات کو پیدا کرنے والے کی تعریف نہیں کر سکتے؟ ہم بھٹکے ہوئے، فریب کا شکار، اور اس خدا کو بھولے ہوئے ہیں جس نے ہمیں پیدا کیا۔” اے انسان! تجھے کس چیز نے اپنے ربِ کریم کے بارے میں دھوکے میں ڈال رکھا ہے”۔(سُورة الْإِنْفِطَار، آیت، 6)
اسی طرح خدا کی فرمانبرداری اس کے ماننے والے سے تقاضا کرتی ھے کہ اس کا خوف ھمہ وقت اس کے دل میں جاگزیں رھے۔ لیکن یہ خوف کسی دشمن یا بری طاقتوں کے خوف جیسا نھیں بلکہ اس سے بالکل مختلف چیز ھے۔ خدا ھمیشہ ھماری بھلائی چاھتا ھے۔ یہ خوف کسی کی محبت کے کھو جانے یا اس کے ناراض ھو جانے کا خوف ھے۔ ھمارا ڈر یا خوف اس لئے ھوتا ھے کہ کھیں خدا ھم سے ناراض نہ ھو جائے۔ اس نقطہ کی مزید وضاحت کیلئے مثال ملاحظہ کریں: فرض کریں آپ ایک شاپنگ مال میں خریداری کر رھے ھیں۔ آپ دیکھتے ھیں کہ ایک ماں اپنے بچے کو یھاں وھاں بھاگنے پر ڈانٹ رھی ھے۔ بچہ روتا ہے پھر اپنی ماں کی ٹانگ سے لپٹ جاتا ھے اور اپنی ماں سے معافی مانگتا ھے ۔ ماں بچے کو بتاتی ھے کہ وہ ایسا صرف اس کے بھلے کیلئے کر رھی تھی تاکہ وہ محفوظ رھے اور اسے چوٹ نہ لگ جائے۔ بچہ ڈرتا ہے کہ کہیں وہ اپنی ماں کی محبت اور خوشی سے محروم نہ ھو جائے۔اور کہیں اس کی ماں اس سے ناراض نہ ھو جائے۔ بالکل ایسا خوف اور ڈر خدا کیلئے بھی ہے ۔ ہم خدا کی اطاعت کرتے ہیں کیونکہ ہم اسکی نافرمانی کے روحانی نتائج سے ڈرتے ہیں. ان نتائج میں خدا کی محبت کا کھو جانا اور اس تعلق کا ٹوٹ جانا جو ھم نے عبادات اور اس کی بندگی کر کے کمایا ہے’ شامل ھیں۔ نافرمانی اصل میں خدا کی رحمت سے دور بھاگنے کے مترادف ھے۔ اور اس کی رحمت سے دوری خود اذیتی اور آخر کار جہنم میں جانے کا باعث بنتی ھے۔ امام غزالی نے اس کو اس طرح بیان کیا ھے:’اگر کسی چیز سے محبت کرتے ھیں تو آپ کواس چیز کے چھن جانے کا بھی ڈر لگا رھتا ھے۔لہذا محبت اور ڈر ھمیشہ ساتھ ساتھ ھوتے ھیں۔ تو کسی چیز کے کھو کا ڈر اصل میں اس چیز سے محبت کو ظاھر کرتا ھے’۔ قرآن نے خشیت الہی(خدا کا خوف یا ڈر) کا زکر کیا اور اس ڈر کی نوعیت بلکل ویسی ھے جیسی اوپر بیان ھوئی ۔ قرآن میں شعورالہی کا بھی ذکر ملتا ھے جسے عام طور پر تقوی کہتے ھیں۔ ایک اچھے مترجم کو چاھئیے کہ وہ ان دو نظریات(ڈر یا خوف اور تقوی) کے درمیان فرق کر سکے۔ کچھ جگہوں پر یہ دونوں ایک معنی میں استعمال ھوتے ھیں اور کچھ جگہوں پر مختلف معنیٰ میں۔ ڈر سے مراد اللہ کی نافرمانی کی صورت میں اس کی محبت کا کھو جانا اور اس کا ناراض ھو جانا ھے جبکہ تقویٰ سے مراد یہ ھے کہ خدا ھمیں ھر وقت دیکھ رھا ھے اس لئے ھمیں ھمہ وقت اس کی خوشنودی کا طلب گار رہنا چاھئیے۔۔اس موضوع پر ہماری تفصیلی تحریر یہاں ملاحظہ فرمائیے
چار بڑی وجوہات:
خدا سب سے برتروعظیم اور ہماری تابعداری اور عبادت کا حقدار ہےاسکی تین بڑی وجوہات ملاحظہ فرمائیں :
1۔خدا کی عبادت کیے جانا اس کی موجودگی/عظمت کا بنیادی حق ہے:
ان سوالات کے جوابات کے لیے لیے یہ بہتر ہو گا کے ہم خدا کی ذات کو عبادت کے تناظر میں سمجھیں. خدا کا مطلب ایک ایسی ذات جو عبادت اور پرستش کے لائق ہو. اور یہ خدا کے ہونے کے لیے ضروری امر بھی ہے کے اس کی عبادت کی جائے. قرآن بار بار ہماری توجہ اس حقیقت کی طرف مبذول کرواتا ہے .
“میں الله ہوں میرے سوا کوئی معبود نہیں تم میری ہی عبادت کرو اور میری ہی یاد کی نماز پڑھا کرو” سوره طہٰ آیت نمبر ١٤
چونکہ خدا کا مطلب ہی یہ ہے کہ وہ ذات جو ہماری عبادت کے لائق ہے ، لحاظہ مخلوق کی تمام تر عبادتوں کا محور اسی ذات کو ہونا چاہئے۔
اسلامی تعلیمات کے مطابق اللہ کی ذات ہر عیب سے پاک ہے۔ اسکی ذات اقدس بہترین ناموں اور صفات کی حامل ہے اور ہر ہر صفت کاملیت کی انتہا تک پہنچی ہوئ ہے۔جیسا کہ اسکی ایک صفت “الودود” ہے جس سے مراد نہایت محبت کرنے والے کے ہیں اور اس سے بڑھ کر کوئ محبت نہیں کر سکتا۔ انہی صفات کی وجہ سے یہ اللہ کی ذات کا حق ہے کہ اسکی عبادت کی جائے۔ ہم ہمیشہ اچھے اخلاق، علم اور وجدان کے حامل لوگوں کی تعریف کرتے ہیں ، خدا تعالی کی ذات جو کہ الرحم الراحمین ہے، العلیم ہے اور الحکیم ہے، ہر نقص سے پاک ہے، وہ کیوں کر مخلوق کی ہمہ وقت حمد و ثنا کی حقدار نہ ہو گی، یہی حمدوثنا/تعریف عبادت ہی کی ایک شکل ہے. وہ علیم و خبیر ذات ہے جس کو اپنی قدرت سے یہ معلوم ہے کہ اس کی مخلوق کے لیے کس امر میں بھلائی ہے اور وہ اپنے بندوں کے بارے میں خیر چاہتا ہے لہٰذا یہ صرف ایسی ذات کا ہی حق ہے کہ اس سے مناجات کی جائیں ا ور اس کو حاجت روا مانا جائے. خدا ہماری عبادات کا حقدار ہے کیوں کہ خدا میں ایسا کچھ ہے جو کہ اسے اس کا حقدار بناتا ہے۔ اس کے نام اور صفات ہر لحاظ سے کامل ہیں۔
خدا کی عبادت کرنے کے حوالے سے ایک اہم نکتہ یہ ملحوظ رہے کہ وہ ہماری عبادت کا حقدار ہے اگر ہمیں اس کی طرف سے کوئی راحت نا بھی ملے۔ خدا کا معبود ہونا اس کا رحم کرنے والی صفت سے مشروط نہیں ہے۔خدا کی عبادت کو دوطرفہ تعلقات کے تناظر میں نہیں دیکھا جا سکتا کہ اس نے ہمیں اچھی زندگی عطاء کی اور ہم بدلے میں اس کی عبادت کرتے ہیں۔خدا کی عبادت کسی گیو اینڈ ٹیک ریلیشن شپ کی بنیاد پر نہیں ہے۔ اگر ہماری ساری زندگی مصیبتوں میں بھی گزرے ، پھر بھی اسکی عبادت ضروری ہے، خدا کی ذات کی پرستش صرف اس لیے ضروری نہیں ہے کہ اس نے ہمیں طرح طرح کی نعمتوں سے نوازا ہے بلکہ یہ اس کی ذات کی عظمت ہے جو اس بات کی متقاضی ہے کے اس کی عبادت کی جائے.
2۔خدا ہر چیز کو پیدا اور قائم کرنے والا ہے۔
خدا نے ہر چیز کو پیدا کیاہے۔ اسی نے کائنات کو قائم رکھا ہے اور ہمیں اپنی رحمت سے نوازتا ہے۔ قرآن نے کئی مقامات پر اس حقیقت کو بیان کیا ہے، جو پڑھنے اور سننے والوں کے دلوں میں خدا کی عظمت اور کبریائی کو بیدار کرتا ہے۔
“وہی تو ہے جس نے سب چیزیں جو زمین میں ہیں تمہارے لیے پیدا کیں” ۔(سورة البَقَرَة، آیت، 29)
“کیا وہ ایسوں کو شریک بناتے ہیں جو کچھ بھی پیدا نہیں کرسکتے اور خود پیدا کیے جاتے ہیں”۔(سورة الاٴعرَاف، آیت، 191)
“لوگو خدا کے جو تم پر احسانات ہیں ان کو یاد کرو۔ کیا خدا کے سوا کوئی اور خالق (اور رازق ہے) جو تم کو آسمان اور زمین سے رزق دے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں پس تم کہاں بہکے پھرتے ہو؟” (سورة فَاطِر، آیت، 3)
لہذا، ہر وہ چیز جو ہم روزانہ استعمال کرتے ہیں، تمام لوازمات جو کہ ہمیں زندہ رہنے کے لئے درکار ہیں، سب خدا کے مرہون ہیں۔ اس کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ سب تعریفیں خدا کے لئے ہی ہیں۔ جیسا کہ ہم سمیت ہر چیز کو خدا نے پیدا ہے، وہی ہر چیز کا مالک ہے۔ لہذا ہمیں خدا کی عظمت اور کبریائی کو ماننا ہے۔ چونکہ خدا ہمارا مالک ہے، ہمیں اسکی تابعداری کرنی ہے ۔ ان سب سے انکار نا صرف حقیقت سے انکار ہوگا بلکہ یہ انتہا درجے کی ناسمجھی، غرور اور ناشکری ہوگا۔
خدا نے ہمیں پیدا کیا اور ہماری ذات کی موجودگی اس کی مرہونِ منت ہے۔ “تم خدا سے کیوں کر منکر ہو سکتے ہو جس حال میں کہ تم بےجان تھے تو اس نے تم کو جان بخشی پھر وہی تم کو مارتا ہے پھر وہی تم کو زندہ کرے گا پھر تم اسی کی طرف لوٹ کر جاؤ گے۔” (سورة البَقَرَة، آیت، 28)
ہم خودمختار یا اپنے لیے کافی نہیں ہیں ، ہم اپنی بقا کو قائم نہیں رکھ سکتے، اگرچہ ہم سے کچھ اس دھوکے میں ہیں کہ ہم ایسا کر سکتے ہیں۔ اگرچہ ہم آرام دہ اور شاہانہ زندگی گزار رہے ہوں یا غربت اور افلاس بھری، ہم ہر لحاظ سے خدا ہی کے بھروسے پر ہوتے ہیں ۔ اس کائنات میں خدا کے بنا کچھ بھی ممکن نہیں اور جو کچھ بھی ہو رہا وہ اس کی اجازت سے ہے۔۔ ہماری زندگی میں کامیابیاں اور جو بڑی چیزیں ہم نے حاصل کیں وہ بنیادی طور پر خدا ہی کی مرہونِ منت ہیں ۔ خدا نے کائنات میں وہ عوامل پیدا کیے جب کی بنیاد پر ہم کامیابی حاصل کرتے ہیں اور اگر خدا کی مرضی شامل نا ہو تو ہم کبھی بھی کامیابی حاصل نا کر سکیں۔ ہمارے دلوں میں خدا کے لئے احسان مندی اور انکساری کو ابھارنے کے لئے یہ سمجھ ہی کافی ہے کہ ہم ہر چیز کے لئے اس کے محتاج ہیں۔ خدا کے حضور عاجزی اختیار کرنا اور اس کی عنایات کا احسان مند ہونا بھی عبادت کی ہی شکل ہے ہے۔ خدا کی رحمت اور برکات سے انکار کی ایک بڑی وجہ خودانحصاری کا فریب بھی ہے جو کہ صرف غرور اور تکبر کا نتیجہ ہے۔ قرآن میں اس بات کو واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔
“مگر انسان سرکش ہو جاتا ہے۔ جب کہ اپنے تیئں غنی دیکھتا ہے” (سورة العَلق، آئت 6-7)
“اور جس نے بخل کیا اور بےپروا بنا رہا ﴿۸﴾ اور نیک بات کو جھوٹ سمجھا ﴿۹﴾ اسے سختی میں پہنچائیں گے ﴿۱۰﴾ اور جب وہ (دوزخ کے گڑھے میں) گرے گا تو اس کا مال اس کے کچھ کام نہ آئے گا ﴿۱۱﴾ ہمیں تو راہ دکھا دینا ہے ﴿۱۲﴾” (سورة اللیْل، آیت 8-12)
3۔خدا کی ہم پر بےشمار عنایات ہیں۔
” اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکو۔ کچھ شک نہیں کہ انسان بڑا بےانصاف اور ناشکرا ہے۔”(سورة إبراهیم، آیت 34)
ہمیں ساری زندگی خدا کا شکرگزار ہونا چاہئے کیوں کہ ہم اس کی رحمت کا کبھی بھی بدلہ نہیں چکا سکتے۔ دل کی ہی مثال لیجئے۔ انسانی دل ایک دن میں100,000 بار دھڑکتا ہے جو کہ ایک سال میں تقریباً 35,000,000 بار بنتا ہے۔ اگر ہم 75 سال تک زندہ رہیں تو دل کی دھڑکن 2,625,000,000 بار ہوگی۔ ہم میں سے کتنوں نے کبھی اس دھڑکن کو گننے کی کوشش کی ہوگی؟ کسی نے بھی نہیں۔ اس سب کو گننے کے لئے آپ کو اپنی پیدائش کے دن سے گنتی شروع کرنا ہوگی۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ ایک عام زندگی نہیں گزار سکیں گے کیوں کہ آپ کو دل کی ہر دھڑکن کو اسی وقت گننا ہوگا۔ تاہم دل کی ہر دھڑکن ہمارے لئے قیمتی ہے۔ ہم میں سے کوئی بھی سونے کا پہاڑ تک خرچ کرنے کو تیار ہوگا اس بات کو یقینی بنانے کے لئے کہ ہمارا دل ٹھیک طرح سے کام کرتا رہے۔ لیکن پھر بھی ہم اس ذات کو بھول جاتے ہیں اور اس کی نفی کرتے ہیں جس نے دل پیدا کیا اور اس کے ٹھیک طرح کام کرنے کو یقینی بنایا۔ یہ مثال اس بات کو واضح کرتی ہے کہ ہمیں خدا کا احسان مند ہونا چائے اور شکرگزاری کا یہ احساس عبادت ہی کا ایک حصہ ہے۔ اوپر کی مثال صرف ایک دھڑکن کے متعلق ہے۔ ذرا تصور کریں کہ ہمیں خدا نے ہم پر جو دوسری عنایات فرمائی ہیں ان کے لئے ہمیں اسکا کتنا شکرگزار ہونا چاہیے۔ اس تناظر میں دھڑکن کے علاوہ ہر چیز اضافی نفع ہے۔ خدا کی عنایات کو ہم شمار نہیں کر سکتے، اور اگر ہم ان کو گن بھی سکیں تب بھی ہمیں اس صلاحیت کے لئے بھی اس کا شکر ادا کرنا چایئے۔


4۔آزاد غلام [The free slave]
وجودیت کے اعتبار سے خدا کی عبادت درحقیقت آزادی ھے۔اگر ھم ایک خدا کی عبادت کا انکار کریں تو پھر ھمیں ایک سے زیادہ خداؤں کے سامنے جھکنا ھو گا۔ھم اپنی ھی خواھشات اور انا کے پیروکار بن جائیں گے۔ ھر ایک بندہ سوچتا ھے کہ وہ ٹھیک ھے اور باقی سب غلط اور وہ اپنے نظریات دوسروں پر تھوپنے کی کوشش کرتا ھے۔ اس طرح ھم ایک اپنے ہی غلام بن کے رہ جاتے ہیں گے۔ قرآن اس نقطے کو بیان کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ ایسے لوگ ہیں جنہوں نے اپنی خواہشات کو اپنا رب بنا لیا ہے : ” بھلا بتاؤ جس شخص نے اپنا خدا اپنی نفسانی خواہش کو بنا لیا ہو، تو (اے پیغمبر) کیا تم اس کی ذمہ داری لے سکتے ہو ؟ یا تمہارا خیال یہ ہے کہ ان میں سے اکثر لوگ سنتے یا سمجھتے ہیں ؟ نہیں ! ان کی مثال تو بس چار پاؤں کے جانوروں کی سی ہے، بلکہ یہ ان سے زیادہ راہ سے بھٹکے ہوئے ہیں۔ (سورۃ الفرقان آیت 43، 44)
اپنی عبادت بعض دفعہ ہمیں مختلف قسم کے دباؤ، نظریات، معیاروں اور ثقافتوں کی عبادت تک لے جاتی ھے۔ وہ ھمارا مقصود بن جاتے ھیں،ہم ان سے محبت کرنے لگتے ہیں، ان کے بارے میں مزید جاننا چاہتے ہیں اور ھم ہر اس شخص کی اطاعت کرنے لگتے ہیں جو ہمیں یہ مہیا کردے . مثال کے طور پر مادیت پرستی۔ ہم پیسے اور مادی چیزوں سے مغلوب ہوچکے ہیں ۔ ہمارے سارا وقت اور کوششیں مال جمع کے لئے وقف ہیں، دنیا کی کامیابی اور آسائش کا حصول ھماری زندگیوں میں بنیادی اھمیت اختیار کر چکاھے، اس طرح سے دنیاوی چیزیں ہمیں کنٹرول کرناشروع کرتی ہیں اور خدا کی عبادت کے بجائے ہمیں مادہ پرستی کی طرف لے جاتی ہیں.
جین ایم ٹونگ اور ٹیم کیسر کی طرف سے کی گئی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ نوجوانوں کے درمیان نسل در نسل مادیت پرستی میں اضافہ ہوا ہے – یہ مطالعہ 1976 سے 2007 تک اعداد و شمار پر مبنی تھا اور یہ بہت زیادہ ہے. سماجی عدم استحکام جیسے طلاق، بے روزگاری، نسل پرستی، انتشار کا رویہ، زندگی میں عدم اطمینان اور دیگر سماجی مسائل میں اور مادیت پرستی میں کچھ نا کچھ تعلق ضرور موجود ہے.
)Twenge JM & Kasser T. Generational changes in materialism and work centrality, 1976-2007: Associations with temporal changes in societal insecurity and materialistic role modeling. Personality and Social Psychology Bulletin. 2013,. 39 (7) 883-897(
اس کی تائید ایس۔جے۔اوپری کی تحقیق سے ھوتی ھے اس تحقیق کے مطابق اگر بچپن مادیت پرستی میں گزرے تو جوانی میں زندگی سے عدم اطمینان میں اضافہ ھوتا ھے۔
) Opree SJ, Buijzen M, & Valkenburg PM. Lower life satisfaction related to materialism in children frequently exposed to advertising. Pediatrics. 2012,130 (3) e486-e491; DOl:
10.1542/peds.2011-3148. (
بے شک ایسی تحقیقات سو فیصد درست نھیں ھوتیں اور اس پر اور زیادہ کام کرنے کی ضرورت ھے مگر اس سے مجموعی طور پر یہ بات واضح ھوتی ھے کہ ایسی ترجیحات درست نھیں۔ ہماری پہچان آج کل ہماری ملازمت، آمدنی، دولت اور مال پر مبنی ہے. ہماری پہچان آہستہ آہستہ مادی چیزیں بنتی جا رھی ھیں بجائے ہمارے اخلاقی معیارات، بشمول خدا اور دیگر انسانوں سے منسلک اعلی اقدار کے.
لازمی طور پراگر ہم خدا کی عبادت نہیں کر رہے ہیں توھم کسی اور کی پرستش میں مبتلا ھیں۔ یہ ھماری خواہشات، انا، یا مادی چیزیں ھو سکتی ھیں۔ اسلامی تہذیب میں خدا کی عبادت یہ فیصلہ کرتی ھے کہ ھم کون ھیں کیونکہ یہ ھماری فطرت کا حصہ ھے۔ اگر ھم خدا کو بھول کر کسی اور چیز کی عبادت شروع کر دیں تو ایک دن ھم اپنی بھی شناخت بھول جائیں گے:
اور تم ان جیسے نہ ہوجانا جو اللہ کو بھول بیٹھے تھے، تو اللہ نے انہیں خود اپنے آپ سے غافل کردیا۔ (سورۃ الحشر ، آیت 19)
ہماری اپنی سمجھ بوجھ کا تعلق خدا کے ساتھ ہمارے تعلقات پر منحصر ہیں، جو ہماری عبادت اور بندگی سے پیدا ہوتے ہیں. اس معنی میں، جب ہم خدا کی عبادت کرتے ہیں تو ہم دوسرے ‘معبودوں’ سے آزاد ہو جاتے ہیں، چاہے وہ ھم خود ھوں یا چیزیں جن کے ھم مالک ھیں یا چیزیں جن کی ھم خواہش رکھتے ہیں.
” اللہ نے ایک مثال یہ دی ہے کہ ایک (غلام) شخص ہے جس کی ملکیت میں کئی لوگ شریک ہیں جن کے درمیان آپس میں کھینچ تان بھی ہے اور دوسرا (غلام) شخص وہ ہے جو پورے کا پورا ایک ہی آدمی کی ملکیت ہے۔ کیا ان دونوں کی حالت ایسی جیسی ہوسکتی ہے ؟ (١٣) الحمدللہ (اس مثال سے بات بالکل واضح ہوگئی) لیکن ان میں سے اکثر لوگ سمجھتے نہیں۔(سورۃ الزمر، آیت 29)
خدا لازمی طور پر ہم سے کہہ رہا ہے کہ اگر ہم اسکی عبادت نہیں کریں گے تو ہم آخرکار کسی اور کی عبادت کرنے لگ جائیں گے۔ یہ مادی چیزیں پہلے ھمیں اپنا غلام بنائیں گی پھر ھماری آقا بن جائیں گی۔ قرآن کی مثال بتا رہی ہے ایک خدا کو نہ مان کر ھمیں بہت سے خداؤں کو ماننا پڑتا ھے اور ھر خداھم سے کچھ نا کچھ مانگتا ھے اور انکے آپس میں بھی اختلاف ہوتے ہیں جس سے پریشانیوں، الجھنوں اور غمو ں کی حالت ھمارا مقدر بن جاتی ھے۔ خدا جس کے پاس ہر چیز کا علم ہے وہ ھمارے بارے میں سب جانتا ھے اوررحیم و کریم بھی ہے ھے وہ ھمیں بتا رھا ھے کہ صرف اس کی بندگی ہی ھمیں دوسرے تمام جھوٹے خداؤں سے نجات دلا سکتی ھے جنہوں نے اس سچے خدا کی جگہ لے رکھی ھے
مشرق وسطی کے عظیم شاعر، محمد اقبال نے اس نقطہ نظر اس طرح بیان کیا ھے:
یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ھے
ہزار سجدے سے دیتا ھے آدمی کو نجات
کیا خدا کو ہماری عبادت کی ضرورت ہے؟
عام طور پر یہ سوال اسلام کے تصور سے نا واقفیت کی بنیاد پر اٹھایا جاتا ہے۔ قرآن و حدیث میں بارہا مرتبہ یہ آ چکا ہے کہ اللہ کی ذات ہر قسم کی ضرورت سے پاک ہے ۔”اور جو شخص محنت کرتا ہے وہ اپنے ہی (نفع کے) لیے محنت کرتا ہے (ورنہ) خدا تعالیٰ کو (تو) تمام جہان والوں میں کسی کی حاجت نہیں.”(سوره العنکبوت آیت نمبر ٦)
لہذا خدا کو ہماری عبادت کی کوئ ضرورت نہیں ہے ، اسے ہماری عبادت سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا اور ہمارے عبادت نا کرنے سے بھی اسکی شان ، عظمت میں کوئی کمی نہیں آتی ۔ ہم خدا کی عبادت اس لیے کرتے ہیں کہ خدا نے اپنی حکمت سے ہمیں تخلیق ہی اس طرح کیا ہے کہ ہم اس کی عبادت کریں ، اور اس عبادت کو خدا نے ھمارے لئے جسمانی اور روحانی دونوں طرح سے فائدہ مند بنایا ھے۔

خدا نے ہمیں اپنی عبادت کے لیے کیوں پیدا کیا ؟
1۔خدا خود چونکہ سراپا اچھائی ھے لہذا وہ خود بھی اچھائی کو پسند کرتا ھے۔ چنانچہ ہر اچھا کام اسکی عبادت میں شمار ہوتا ہے اب جو اچھے کام کرے گا اسے اچھائی یعنی رب اور اسکی رحمت ملے گی ۔ مختصر یہ کہ خدا نے ھمیں اپنی عبادت کیلئے پیدا کیا کیونکہ وہ ھماری بھلائی چاھتاھے وہ یہ چاھتا ھے کہ ھم اسکی رحمت جنت کے حقدار بنیں ۔
2۔خدا کے بہترین ناموں اور صفات کا اظہار ہونا تھا اس لیے عبادت کرنے والی مخلوق کا تخلیق ہونا ناگزیر تھا. ایک آرٹسٹ ناگزیر طور پر آرٹ تخلیق کرتا ہے کیونکہ وہ اس کی فنکارانہ صفت کا اظہار ہوتا ہے ۔ چونکہ خدا معبود ہے اس لیے یہ ناگزیر تھا کہ اسکا اظہار بھی ہو ،اسکی ایسی مخلوق ہو جو اسکی عبادت کرتی ہو. یہ ناگزیریت ضرورت پر مبنی نہیں ہے بلکہ خدا کے نام اور صفات کا ایک لازمی اظہار اورمثال ہے.
ہمارا علم چونکہ محدود ہے اس لیے ہم کبھی بھی خدا کی حکمت کو مکمل طور پر سمجھنے کے قابل نہیں ہوسکتے۔ اگر ہم ایسا کرنے کے قابل ھو گئے تو یا تو ہم خدا بن جائیں گے یا خدا ھمارے جیسا تصور ھو گا۔ یہ دونوں صورتیں ناممکنات میں سے ہیں ۔ خدا نے اپنی دائمی حکمت کی وجہ سےہمیں ایسا پیدا کیا ہم اسکا مکمل کھوج اپنے علم سے نہیں لگا سکتے، خدا کو بس اتنا ہی سمجھنا ممکن ھے جتنا خود اس نے اپنے بارے میں بتایا۔ چنانچہ اب صورتحال یہ ہے کہ فرض کریں کہ آپ ایک چٹان کے کنارے پر کھڑے تھے اور کسی نے آپ کو نیچے سمندر میں دھکا دے دیا. سمندر کے پانی میں بہت سی شارک مچھلیاں موجود ہیں. تاہم جس نے آپ کو دھکا دیا، اسی نے آپ کو ایک نقشہ اور ایک آکسیجن ٹینک دیا جس سے آپ کو ایک خوبصورت جزیرے پر پہنچنے میں مدد ملے گی، جہاں آپ ہمیشہ آرام میں رہیں گے. اگر آپ ذہین ہیں تو آپ نقشہ کا استعمال کریں گے اور جزیرے تک با حفاظت پہنچنے کی کوشش کریں گے. تاہم اگر آپ اسی سوال پر پھنس گئے، تم نے مجھے یہاں پھینکا کیوں تھا؟ تو یا تو آپ کو شارک کھاجائے گی یا آکسیجن ختم ھونے پر آپ سانس بند ھونے کی وجہ سے مر جائیں گے. مسلمان کے لئےقرآن اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نقشہ اور آکسیجن ٹینک ہیں. یہ ہمارے وسائل ہیں جو محفوظ طریقے سے زندگی گرازنے میں ھماری رہنمائی کرتے ھیں. ہمیں خدا کوجاننا،اس سے محبت کرنا اوراس کی اطاعت کرنا ہے ۔ ہمارے پاس اس پیغام کو نظر انداز کر کے خود کو نقصان پہنچانے کا اختیار ہے، یا اسے قبول کرکے خدا کی محبت اور رحمت کا حق دار ہونے کا. اب یہ ھماری صوابدید پر ھے کہ ھم کونسا رستہ اختیار کرتے ھیں۔

صفت اور اسکے اظہار کا تعلق :
یہ سوال صفت اور اسکے اظہار کے مابین ناگزیر بیانیہ تعلق کو نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ صفت اور اسکے اظہار کے بارے میں ‘کیوں’ کا سوال ہی غیر متعلقہ ھوتا ھے کیونکہ انکے درمیان تعلق ”وجہ” کا نہیں بلکہ ”ہے” (to be) کا ہوتا ہے، یعنی صفت کا اظہار ہی صفت کی تعریف (یعنی ڈسکرپشن) ہوتی ہے۔ مثلا سماعت کا معنی ھے سنائی دینا، یعنی سنائی دینے کا عمل صفت سماعت کا اظہار یا اسکی تعریف ھے اور اس اظہار سے علی الرغم اسکا کوئی معنی نہیں۔
چنانچہ خدا کی ایک صفت ‘خالق’ ھونا ھے، پس مخلوق کا ھونا خدا کی صفت خلاقیت کا ‘اظہار’ ھے، یہاں وجہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ سوال ایسا ہی ھے جیسے کوئی کہے کہ صفت بینائی سے دکھائی کیوں دیتا ھے یا صفت سماعت سے سنائی کیوں دیتا ھے۔ ظاھر ھے یہ سوال ھی غلط ھے کیوں کہ دکھائی دینے اور بینائی کے درمیان تعلق صفت اور اسکے اظہار کا ھے، یعنی دکھائی دینا صفت بینائی کی تعریف ھے اس پر “مقصد” کا سوال غیر متعلق ھے۔ بالکل اسی طرح خدا کی مخلوق کا ھونا خدا کے خالق ھونے کا اظہار ھے، یہاں اصولا “کیوں” کا سوال ہی پیدا نہیں ھوتا۔
اسی طرح یہ سوال کہ خدا امتحان کیوں لے رہا ہے؟اسکا جواب بھی یہی ہے کہ خدا کی صفات ‘حق’ و “عادل” ہونا بھی ہیں، پس حق و باطل کا معرکہ اسی صفت “حق” اور جزا و سزا کا نظام صفت “عادل” کا اظہار ہے، لہذایہاں بھی کیوں کا سوال بے محل ھے۔

ان صفات کے اظہار کا مقصد کیا تھا؟ ان صفات کا اظہار کرنے کی کیا وجہ پیش آگئی تھی؟
پہلے واضح کیا گیا کہ صفت کے اظہار پر ‘کیوں’ کا سوال پیدا نہیں ھوتا۔ گفتگو کو آگے بڑھانے سے قبل اھل مذھب کا یہ اصولی مقدمہ یاد رکھنا چاھئے کہ خدا کو بس اسی حد تک پہچانا جاسکتا ھے جس قدر خود اس نے اپنے نبی کے ذریعے اپنا اظہار کیا، اس سے زیادہ عقل کے سامنے کوئی سوال رکھنا عقل پر ایسا بوجھ ڈالنا ھے جسکی وہ متحمل نہیں ھوسکتی۔ چنانچہ خدا نے بتایا کہ میں ‘خالق’ ھوں تو ہمیں پتہ چلا کہ کسی مخلوق کا ھونا اس صفت کا اظہار ھے۔
اب یہ سوال کہ صفات بالقوہ کو بالفعل میں ‘کس سبب و مقصد سے’ تبدیل کیا گیا؟ جب ہم انسان “مقصد” کا سوال اٹھاتے ھیں تو وہ “ذات سے بیرون” کسی شے کی جستجو کا تصور ھوتا ھے۔ اب خدا سے یہ توقع رکھنا کہ “اس سے الگ” کوئی مقصد ھوگا جسکی وہ جستجو کرے گا یہ خدا کی صفت صمدیت (self-determined and contained) کے تناظر میں خود سے ایک تضاد ہے، یعنی خدا کے کسی عمل کا کوئی “بیرونی مقصد” نھیں ھوسکتا کہ جسکے حصول کا خدا یا اسکا عمل گویا ذریعہ بنے۔ اب لامحالہ یہ مقصد کا سوال “خدا کے اندرون” سے متعلق ھی ھوسکتا ھے اور اس اندرون کو ھم اسی قدر جان سکتے ہیں جس قدر وہ اپنی شان کے مطابق ظاھر کرے۔ خدا کے اندرون سے متعلق ھم صرف اسقدر ہی جانتے ہیں کہ اس نے اپنا تعارف “فعال للما یرید” (جو چاھتا ھے کرگزرتا ھے) سے کروایا ہے۔ تو گویا یوں سمجھئے کہ “یوں عدم کو وجود بخشنا بھی” اسکی “صفت ارادہ” ہی کا اظھار ھے۔ اس کے علاوہ ھم کوئی دوسری بات قطعیت کے ساتھ خدا کے اندرون کے بارے میں نھیں جانتے۔ اب اس صفت کے اظہار پر بھی اصولا ‘کیوں’ کا سوال پیدا نہیں ھوتا۔
یہاں یہ اھم بات بھی ذھن نشیں رھنا چاھئے کہ خدا کی ذات کے حوالے سے اس قسم کے بہت سے سوالات اسکی صفات کو الگ الگ تصور کرنے سے بھی پیدا ھوتے ہیں۔ اھل مذھب کے یہاں خدا فعال للما یرید، خالق، عادل، علیم، حکیم وغیرھم سب “ایک ساتھ” ہے۔ چنانچہ یوں کہہ سکتے ہیں کہ “خدا اپنے ارادے سے اپنی صفات کا (اپنی شان کے مطابق) پرحکمت اظھار کرتا ھے۔”
یہ بات اچھی طرح سمجھنی چاہئے کہ ہر وجود سے متعلق بہت سے سوالات غیر متعلق ھوتے ہیں اور بہت سے متعلق۔ مثلا اگر میں اپنا چشمہ اپنے کمرے میں رکھ کر جاؤں اور جب واپس آؤں تو وہ کمرے کے بجائے باہرر ٹیرس پر ھو تو اس پر ذھن میں سوال آئے گا کہ ‘چشمہ باھر کیسے چلا گیا’؟ اب فرض کریں چشمے کے بجائے میرا ایک دوست کمرے میں بیٹھا تھا اور میرے واپس آنے پر وہ ٹیرس میں کھڑا تھا۔ کیا اب میرے ذہن میں ”کیسے” کا سوال پیدا ھوگا؟ نہیں، کیونکہ انسان کی ڈسپکرپشن یہ ھے کہ وہ ”متحرک بالارادہ” ھوتا ھے لیکن چشمہ نہیں۔ تو جو سوال چشمے کے تناظر میں عین عقلی تھا انسان کیلئے (اسکی صفت ‘متحرک بالارادہ’ کے سبب) غیر متعلق ھوگیا۔ پس یہی معاملہ خدا کا بھی ھے کہ اس کی ذات پر بہت سے سوالات بذات خود غیر متعلق ہیں جیسے یہ کہ ‘خدا ایسا کیوں ھے’ کیونکہ وہ الصمد (قائم بالذات ھستی) ھے، ایسی ھستی جو اپنے ھونے کا جواز خود اپنے اندر رکھتی ھے۔، چنانچہ خدا کی صفات پر ‘کیوں’ کا سوال اٹھانے کا مطلب ہی یہ ھے کہ ھم خدا کے الصمد ھونے سے سہو نظر کرلیں۔ پس خدا کی مقصدیت کی تلاش خدا کی صمدیت کا انکار اور اسے اپنے جیسی محتاج مخلوقات پر قیاس کرنا ہے۔
تحریر ڈاکٹر زاہد مغل ، حمزہ اینڈریس، عثمان عمران ، محمد نعیم، دانش

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password