زوالِ امت میں غزالیؒ کا کردار! تاریخی حقائق کیا ہیں؟[2]

غزالی اور ابنِ رشد کا عملی تقابل: کیا کوئی جواز ہے؟
نیز کیا کوئی بتا سکتے ہیں کہ غزالی رح کے مقابلے میں جس ابنِ رشد کو اپنا راہنما بنانے کی تلقین رات دن کی جاتی ہے،امت کے عروج و زوال کی کہانی میں اس نے کب اور کون سا تاریخ ساز مثبت کردار ادا کیاتھا؟ تاریخ بتاتی ہے کہ ابنِ رشد موحدین ہی کا ایک درباری تھا،بلکہ عبدالواحد المراکشی (مصنف المعجب) کے بقول یہی سے اس کی شہرت ہوئی اور جو کچھ ملا،یہی سے ملا۔ابنِ رشد سے قبل اندلس کے ایک اور مشہور فلسفی ابنِ طفیل کا عبدالمومن کے دربار میں آنا جانا تھا،وہی ابنِ رشد کو دربا میں لایا،عبدالمومن کے بعد خلیفہ ابو یعقوب کے زمانہ میں اسے بہت عزت ملی،وہ خلیفہ کا مشیرِ خاص رہا،شاہی طبیب اور قرطبہ کا قاضی بنا،بعد ازاں تیسرے خلیفہ یعقوب المنصور کے زمانہ میں اس کی عزت و توقیر میں مزید اضافہ ہوا، اس کے بعد عتابِ شاہی کاشکار ہوا۔اب اس کے بارہ میں کچھ کہناممکن نہیں کہ اس کاکیا سبب تھا۔بعض کے بقول خلیفہ کے بعض ہم نشینوں نے خلیفہ کو اس کے خلاف ورغلایا تھا،جبکہ بعض کے بقول اس کا سبب اس کے دینی انحرافات تھے۔خیر ہمیں اس بحث میں نہیں جانا کہ ا ن میں سے کون سی بات درست ہے،لیکن اگر وہ واقعتاََ ان “اعلیٰ خیالات” کا حامل تھا جو خود ملحدین یا مستفلسین میں اس کی طرف منسوب کرتے ہیں اور وہ واقعتاََ مسلمانوں کے لئے فکری انتشار اور خلفشار کا باعث بن رہا تھا تو اس صورت میں اس پر نازل ہونے والے شاہی عتاب پر کیااعتراض ہو سکتا ہے؟
ابنِ رشد (الحفید)خصوصاَََ فقہ میں وسعت ِ نگاہ کے حوالہ سے اپنے ہم نام دادا احمد ابنِ رشد القرطبی (الجد)کا صحیح جانشین تھا اور اس کے علم سے انکار نہیں،اس کی کتاب”بدایۃ المجتہد”سے علمی حلقے شروع سے استفادہ کرتے آرہے تھے،لیکن اپنے الہیاتی نظریات میں وہ فلسفہ ہی کے ایک منحرف دبستاں کا پیروکار بھی تھا۔اس لئے اس سے دینی انحرافات کی توقع کچھ غلط نہیں۔اگر یہ دعویٰ ہے کہ ابنِ رشد کےموردِ عتاب ہونے سے عالمِ اسلام کا زوال اور مسیحیت کی علمی اٹھان درست ہوئی تو تاریخ کے ریکارڈ کی درستگی کے لئے عرض ہے کہ ابنِ رش کی تکفیر خود اس کے زمانہ میں مسیحیوں کے طرف سے بھی ہوئی اوراندلس پر اپنے حملے کے بعد صلیبیوں نے اس کی کتابوں کو جلابھی دیا تھا۔ہاں البتہ ملحدین کے ہاں اس کو قبولِ عام حاصل ہوا تو کیا ہمیں ابنِ رشد کو راہنما بنانے کا جو مشورہ دیا جاتا ہے،اس کا مطلب یہی ہے کہ ہم مذہب کا قلادہ اپنی گردن سے اتار پھینکیں؟کسی ایک فلسفی کے اپنے الہیاتی نظریات کی وجہ سے زیرِ عتاب آنے سے کوئی معاشرہ یا ریاست علمی یا سیاسی زوال کا شکار نہیں ہوسکتے،نہ ہی اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اب اہلِ فکر جینوئن اور مفید سائنسی حوالہ سے غور وفکر چھوڑ دیں۔چنانچہ کتاب دوستی اور علم پروری موحدین کے دور میں بھی برابر جاری رہی۔عبدالمومن نے مراکش میں ایک بڑا کتب خانہ قائم کیا تھا جس میں چار لاکھ کتابیں تھیں۔یعقوب کا دور ہر لحاظ سے زبردست دور تھا،اس دور میں مسلمانوں کو صلیبیوں کے خلاف نہایت اہم فتوحات حاصل ہوئیں،سڑکیں، ہسپتال، سرائیں اور درسگاہیں تعمیر ہوئیں اور سید قاسم محمود کے بقول اس زمانہ میں اندلس میں بڑی زبردست سائنسی ترقی ہوئی اور ایسے اسے مصنف اور سائنس دان پیدا ہوئے کہ جو بغداد اور نیشاپور وغیرہ کے بڑے علماء سے کسی طرح کم نہیں ہیں۔(40)7)
ابنِ رشد کی بعض علمی صلاحیتیں اپنی جگہ،مگر اس تاریخ کو سامنے رکھیں اور ذرا اپنے دل پہ ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ کیا عروج و زوال کی کہانی میں غزالی رح اور ابنِ رشد کا تقابل کرنے اور دن رات اس کی مالا جپنے کا کوئی جواز ہے؟کہاں تو غزالی رح جو حکومتوں پر اثر انداز ہوکر مسلمانوں کےلئے ایک نعمت ثابت ہورہے تھے اور کہاں ابنِ رشد جن کی کہانی درباری نوازشات سے فیضیاب ہو کر درباری عتاب پر ختم ہوتی ہے اور جن کی شخصیت اتنی الجھی ہوئی ہے کہ آج تک ان کے فکر کے اجزاء کا کوئی تعین ہی نہیں ہوسکا۔ہمارا مقصود یہاں پر نہ ابنِ رشد کی تکفیر وتفسیق ہے اور نہ ہی اشعری فکر کا سلفی فکر کے ساتھ کوئی محاکمہ مقصود ہے،بلکہ ہمارا مقصود سرف یہ عرض کرنا ہے کہ امت کے عروج وزوال کی کہانی میں غزالی رح اور ابنِ رشد کا تقابل کسی حوالہ سے معقول نہیں۔
اگر مغرب کی ترقی اور مسلمانوں کے زوال کا یہی راز ہے کہ مغرب نے ابنِ رشد کی تقلید کی ہے ،تو ذرا بتائیے ناں کہ ابنِ رشد کی وہ کونسی روشن فکر ہے جس نے مغرب کی نشاۃِ ثانیہ میں کردار ادا کیا اور اسے وقت کا” سپر پاور” بنا دیا.لوگوں کو دینی انحرافات کی طرف مائل کرنے کے لئے ابنِ رشد کانام بطورِ حوالہ مت استعمال کیجئے.اگر مغرب کی ترقی کا راز اس کا الحاد اور مذہبی تقدسات سے دست کش ہوجانا ہے تو ایسی ترقی ہمیں ہر گز نہیں چاہیے اور یہ سچ ہے کہ ہم اپنے دین کے ساتھ جیسے تیسے منسلک رہنے کی وجہ سے ہزاروں خرابیوں کے باوجود ترقی یافتہ مغرب سے کہیں بہتر اور کہیں اچھے حال میں ہیں.ہمارے ہاں اب بھی اپنے دین کی جیسی تیسی اتباع اتنا کچھ ہے کہ دنیا کی کوئی قوم بھی الحاد کے راستے سے سپر پاور یا بین الاقوامی چودھری بن کر بھی کبھی وہ سب کچھ حاصل نہیں کرسکتی.یہ سچ ہے کہ خواہ ہم مغلوب ہی کہلاتے ہیں،مگر ہم نے ایٹم بم جیسےہتھیار بنانے میں مجرمانہ پہل نہ کرکے کوئی غلطی نہٰیں کی، ہم نے عام شہریوں پر وہ ایٹم بم گرا کر اگر خود کوسپر پاور نہیں کہلوایا تو ہم اس پر آج بھی خوش ہیں. ہم نے جنگ ہائے عظیم میں کوئی مؤژ کردار نہ ادا کرکے اور کروڑوں انسانوں کےجان و مال کے ساتھ کھلواڑ نہ کرکے اچھاہی کیا ہے،ہم نے آزادیء نسواں کے نام پر صنفِ نازک کو نہیں ورغلایا تو اس پر اللہ کے حضور شکر بجا لاتے ہیں،ہم نے دنیا کو خاندانی نظام کی بربادی کو تحفہ نہیں دیا،اخلاق اور انسانیت کے نام پر ہم نے دنیا کے ساتھ کوئی مکاری نہیں کی اور نہ ہی ہم نے انسانوں کو ملحدانہ عقلیت کے نام پرذہنی امراض کا شکار کیا.شکر ہے کہ ایسی ترقی کسی اور کے حصے میں آئی ہے اور ہم اپنی ہزاروں خرابیوں کے باوجود”ترقی یافتہ اقوام” سے آج بھی کہیں بہتر ہے.الحمدللہ!

مشرقی اسلامی دنیا میں غزالی رح کا کردار:
ہم نے گذشتہ سطور میں اندلس کے حوالہ سے غزالی رح کے کردار کے چند گوشوں پر روشنی ڈالی ہے، مگر غزالی رح خود مشرق میں تھے جہاں اس زمانہ میں سلجوقیوں کی حکومت تھی.ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ مشرق میں غزالی رح کا جو کردار تھا،اس کے چند روشن اور مثبت پہلوؤں پر بھی یہاں روشنی ڈالیں گے.ایک بات جو نہایت اہم اور قابلِ توجہ ہے، وہ یہ ہے کہ غزالی رح نے اپنی علمی وجاہت کے زمانہ میں شاہانِ سلجوقی کو کئی تربیتی اور تنبیہی خطوط لکھے جن میں شاہ سنجر سلجوقی کے نام خطوط قابلِ ذکر ہیں جو ان کے دور میں نائب امیر کے عہدے پر فائز تھا. شاہ سنجر سلجوقی نے چالیس سال حکومت کی،وہ اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود بہر حال ایک علم دوست اور ہنر پرور آدمی تھا.مسلم علم و فن اور صنعت و حرفت کے بلند پایہ مؤرخ نے اس کے لئے نہایت غیر معمولی الفاظ اس استعمال کئے ہیں.ان کے الفاظ میں؛”اس کے دربار میں ادب،شاعری اور سائنس و فلسفہ کا ویسے ہی چرچا رہتا جیسا ہارون الرشید،مامون الرشید اور محمود غزنوی کے دربار میں رہتا تھا. اس کے دور میں خراسان دار العلم بن گیا اور وہاں کے شہر بڑے بڑے مدرسوںِ،کتب خانوں،علماء اور اربابِ کمال سے بھر گئے……سلجوقی دور میں علوم و فنون کی خوب سرپرستی کی گئی اور اسلامی دنیا علمی حیثیت سے اس عہد میں عروج پر پہنچ گئی.” (41)8)
ان سلجوقی حکمرانوں کے نام لکھے گئے مکاتیب میں غزالی رح نے انہیں کئی حوالوں سے تنبیہات فرمائیں،خصوصاََ بیت المال کے حوالہ سے بدعنوانی برتنے پر انہیں ٹوکا،لیکن اپنے خطوط میں انہوں نے ان کی علمی وفنی سرگرمیوں پر کوئی ایک بھی تنقیدی کلمہ نہیں کہا.اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ غزالی رح کو علمی وفنی ترقی کا دشمن گرداننا ان پر کتنا بڑا اتہام ہے.سوچنے کی بات ہے کہ انہیں اگر اسپر کوئی اعتراض ہوتا تو جب وہ اپنے مکاتیب میں ان پر نکیر کرنے کی ہمت کرہی رہےتھے تو اس حوالہ سے ان کا قلم اور ان کے لب کیوں خاموش رہتے؟
تاہم جیسا کہ ہم نے لکھا کہ مملکت کا محض تعلیمی و صنعتی سرگرمیوں سے آباد ہوجانا اس کے وجاہت اور استحکام کی ضمانت نہیں ہے،بلکہ اس کے لئے بعض اور لوازمات کی بھی ضرورت ہوتی ہے.چنانچہ سلجوقی حکمرانوں پر ان کی تمام تر علم پروریوں کے باوجود جب ان لوازمات میں کمی آئی تو ریاست غیر مستحکم ہوگئی. غزالی رح کے دور میں اندلس کی طرح مشرق میں بھی اسلامی دنیا کی سرحدوں پر صلیبی حملہ آور تھے.ان کی زندگی میں بیت المقدس پرصلیبیوں کا قبضہ ہوچکا تھا. تاہم اس حوالہ سے وہ محض چند جذباتی کلمات لکھ دینے کے بجائے انہوں نے اپنے منصب کے مطابق نہایت حکیمانہ انداز میں مسلم معاشرہ کی داخلی امراض کی تشخیص و علا ج میں اپنی زندگی صرف کی اور اس حوالہ سے خود کو ایک دیر پا علاج کے لئے وقف کیا.وہ غالباََ مشرق میں کسی پُر جلال شخصیت کو نہیں دیکھ رہے تھے جو اس وقت صحیح معنوں میں صلیبیوں کے مدِ مقابل آسکتی.مسلم معاشرہ میں اس وقت وہ دینی روح بہت کمزور ہوچکی تھی جو مسلمانوں کو یکسوئی کے ساتھ صلیبیوں کے ساتھ مقابلہ کے لئے کھڑی. عالمِ اسلام کے ایک بڑے حصے پر باطنیوں کی خود مختار حکومت تھی اور وہ اپنے بارہ میں کئی سو سالوں سے خلافت کے دعوےدار تھے جس کا مرکز مصر تھا.بغداد کی عباسی خلافت برائے نام رہ گئی تھی اوردراصل محکومی کے دور سے گزر رہی تھی. سلجوقیوں کی طاقت ملک شاہ کے تین بیٹوں محمد، محمود اور برکیارق (سنجر اسی کا نائب تھا) میں منقسم ہوچکی تھی.خانہ جنگی کی وجہ سے کئی علاقے خود ان کے ہاتھوں سے نکل چکےتھے.ملک شاہ کے وزیر نظام الملک اور اس کے بیٹے فخرالملک نے جو تعلیمی نظام مملکت کے اطراف میں قائم کررکھا تھا،اس میں روحانیت سے زیادہ مادیت کا غلبہ تھا،علم کا حصول عہدہ،عزت اور دولت کے لئے ہوتا تھا،اخلاق کی روح نہایت کمزور تھی. غزالی رح نے اسی خلا سے اثر لےکر اس نظام سے کنارہ کشی ختیار کی تھی.جبکہ فلسفہ کے نام پر منحرف معقولی جو ظلمت پھیلارہے تھے،وہ ان سب پر مستزاد تھی.
غزالی رح کو خدا نے ایک سیال اور مؤثر قلم عطاکیاتھا.اپنی اصلاح کے لئے مجاہدے کے ساتھ ساتھ انہوں نے مسلم معاشرہ کی اصلاح کی اصلاح کے لئے نہایت وقیع اور عمدہ تصنیفات کیں،جن سے ایک بڑی مخلوق نے استفادہ کیا.وہ باوجود متکلم اور صوفی ہونے کے خود اہل تصوف اور اہلِ کلام پر ماہرانہ تنقید کرتے ہیں،ان کی وفاداری کاتمام تر محور دینِ اسلام ہے،وہ سلاطین پر تنقید کرتے،علماء کو فریضئہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لئے اکساتے،علم اور عمل کے حوالہ سے اہلِ اسلام کی حسیات کو بیدار کرتےہیں،انہیں اللہ کے رنگ میں پھر سے نہا جانے کی دعوت دیتے ہیں،فلسفہ اور باطنیت ہر نہایت نکتہ رس تنقیدات کرتے ہیں.ان کے اخلاص اور قلم کی برکت سے ایک بڑی مخلوق کو فائدہ ہوا.ان کی تنقید سے فلسفہ کا وہ دبستاں جو کندی سے شروع ہوکرابنِ رشد اندلسی پر ختم ہوتا ہے اور جس کامقصد دینِ اسلام کو فلسفہ کے چوکھٹے میں فٹ کرنا ہے،مشرق میں ایسا نیم جاں ہوا کہ پھر سراٹھا نہ سکا.
نیز انہوں نے نظامِ مدارس کے بالمقابل اپنے گھر کے ساتھ ایک خود انحصار مدرسہ اور خانقاہ کی بنیاد رکھی جس میں وہ کمزوریاں نہیں تھیں جو انہیں مملکت کے عمومی مدارس کی فضا میں محسوس ہوئی تھیں. محققین کے ایک طبقے کے بقول یہ ایک مثال تھی جو غزالی رح نے قائم کی تھی.اس سے علم وعلم کے چراغ جلنا شروع ہوئے اور اصلاحی مدارس کی ایک نئی طرح قائم ہوئی.بقول ان محققین کے صلیبیوں کے سیلاب کے بالمقابل اتابک عماد الدین زنگی،نورالدین زنگی اور صلاح الدین ایوبی (رحمہم اللہ) کی جو نسل تیار ہوئی اور جس کے ذریعے بیت المقدس کی بازیافت ہوئی،وہ غزالی جیسے بزرگوں کی اصلاحی مسعی کا نتیجہ تھی.اس سلسلہ میں دکتو ماجد عرسان الکیلانی کی کتاب”ھکذا ظھر جیل صلاح الدین وھکذا عادت القدس”مذکورہ موضوع کا متخصصانہ احاطہ کرتی ہے اور یہ بعض لوگوں کے اس سوال کا جوا ب ہے کہ مشرقی اسلامی دنیا جو غزالی رح کے زمانہ میں صلیبی حملوں کی زد میں تھی،غزالی رح نے اپنی کتابوں میں اس پر تبصرہ کیوں نہیں کیا یا اس کے خلاف عملاََ جہاد میں حصہ کیوں نہیں لیا؟ ہم اندازہ کرسکتے ہیں کہ اگر مشرق میں بھی اس وقت یوسف بن تاشفین رح جیسا ذی حشمت اور طاقتور آدمی دستیاب ہوتا تو غزالی رھح ضرور اس کی پشت پناہی کرتے،غالباََ ایسا کوئی آدمی سامنے نہ آنے کی وجہ سے ہی غزالی رح کی نباضی اور حکیمانہ تشخیص نے انہیں وہ اصلاحی منہج اختیا رکرنے پر اکسایا جس کے نتیجہ میں چند سال بعد زنگی اور ایوبی کی نسل منظر پر آئی.(42)9)
بعض محققین کی طرح ہمارا بھی خیال ہے کہ مذکورہ کتاب میں صلاح الدین رح کے ظہور کاجوڑ جس طرح کلی طور پر غزالی رح کی اصلاحی مساعی سے قائم کیا گیا ہے، اس میں کچھ مبالغہ محسوس ہوتا ہے،لیکن اس میں شک نہیں کہ زنگی اور ایوبی صوفیاء کے قدر دان تھے اور ااس حوالہ سے تاریخ میں ایک سے زیادہ ثبوت ہیں،لہٰذا اگر ان صف شکن مجاہدین کی تشکیل میں دکتور ماجد عاسر کیلانی کے بقول امام غزالی اور شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہم اللہ جیسے چوٹی کے صوفیاء کی برکات شامل رہی ہوں تو اس میں کوئی عجیب بات نہیں ہے. امام غزالی اور شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہم اللہ جیسے بزرگوں نے جس زمانہ میں مسلم معاشرہ میں رجوعِ الی اللہ کا صور پھونکا تھا، اس زمانہ میں واقعی اس امت کو اس صور کی ضرورت تھی اور اسی وجہ سے ان بزرگوں کی اصلاحی مساعی امت کی تاریخ دعوت و عزیمت کا ایک عظیم باب سمجھی جاتی ہیں.نیز غزالی رح کے ظہور کے کچھ ہی عرصے بعد زنگی اور ایوبی مجاہدوں نے جس طرح مصر میں باطنیوں کی تقریباََ تین سو سال کی حکومت کا جس طرح خاتمہ کیا تھا ،وہ مسلم معاشرہ کے اس حوالہ سے تحرک اور بیداری کا پتہ دیتا ہے جس کا ایک بڑا سبب غزالی رح کی طرف سے باطنیوں پر کی گئی علمی تنقید رہی ہو تو اس میں بھی ہرگزکوئی عجیب بات نہیں. لہذا زنگی اور ایوبی جیسے مجاہدین کی تشکیل میں غزالی رح کا اگرچہ براہِ راست کردار نہ بھی رہا ہو مگر بلواسطہ اثرات سے انکار نہیں کیا جاسکتا.
اگر عملی میدان میں بھی دیکھا جائے تو نظر آتا ہے کہ غزالی رح کی نظر اس زمانہ میں مغرب کے یوسف بن تاشفین رح کی طرف تھی اور اس سے انہیں نیک توقعات تھیں.ابنِ خلکان اور سہکی کی روایت کے مطابق انہوں نے اسکندریہ سے براستہ سمندر بذاتِ خود اس کی طرف جانے کےلئے تیاری بھی کررکھی تھی،مگر ابھی وہ اسکندریہ ہی کے اندر تھے کہ انہیں ابن تاشفین رح کی وفات کی خبر پہنچی جس کی وجہ سے انہوں نے جانے کا ارادہ موقوف کردیا.( 43)10) روایات کے مطابق ابن تاشفین رح نے 500 ھ میں وفات پائی.یوں جب اندلس سے ان کی وفات کی خبر اسکندریہ میں غزالی رح کو پہنچی تو یقیناََ یہ بھی 500ھ یا 501ھ کا سال ہوگا. بیت المقدس پر صلیبیوں کاحملہ تقریباََ 492ھ میں ہوا تھا اور یہ وہی سال ہے جب غزالی کے شاگرد ابوبکر ابن العربی ،یوسف بن تاشفین رح کے نام ان کا خط لے کر جارہے تھے جس میں انہیں اندلس کو ایک یکسو حکومت پر جمع کرنے کی تلقین کی گئی تھی.اس وقت ممکن نہ تھا کہ یوسف بن تاشفین رح کو مشرق آکر یہاں کے حالات سنبھالنے کی دعوت دی جاتی.
اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ 500ھ کے پس و پیش زمانہ تک جب اندلس اور مغرب میں ابنِ تاشفین رح کے استحکام کی خبر غزالی رح کو پہنچی ہوگی تو یقیناََ مشرق میں ان کی قوت سے استفادہ کی غرض سے وہ خود ہی ان کے پاس بنفسِ نفیس چل کر جانے کا ارادہ رکھتے ہوں گے،مگر ابنِ تاشفین رح کو اجل نے آلیا اور یہ ارادہ پورا نہ ہوسکا.یوں غزالی رح نے نہ صرف مشرق میں صلیبی حملوں کے زمانے میں مسلمانوں کی عمومی اصلاح کے گراں قدر خدمات انجام دیں،بلکہ کہا جاسکتا ہے کہ 500ھ کے پس و پیش زمانہ میں ابنِ تاشفین رح کے پاس جانے کا ان کا ارادہ مشرق کے حکمرانوں سے کسی ہنگامی درست اقدام کی توقع نہ ہونے کی بناء پر ابنِ تاشفین رح کو عملی جہاد کے لئے تیار کرنے کی غرض سے ہی ہوگا جو ابنِ تاشفین رح کے پاس پہنچ نہ پانے سے پورا نہ ہوپایا اور اس ارادہ کے تفصیلی نقوش بھی تاریخ ٰؐں مذکور ہونے سے رہ گئے.

آخری بات
ہمارا مقصود یہاں صرف غزالی رح کی شخصیت کی طرف دعوت دینا نہیں ہے.اس قضیہ کے اندر ہماری دعوت اور ہمارا مقصد دراصل یہ ہے کہ امت کا ماضی،حال اور استقبال اسلام کے ساتھ وابستہ ہے،نہ کہ دینی انحرافات کے ساتھ.انہیں اگر پھر سے اپنی نشاۃِ ثانیہ کا خواب دیکھنا ہے تو انہیں اسلام کے ساتھ اپنے رشتے کو مضبوط سے مضبوط تر کرنا چاہئیے اور اپنے پیکر کو اسلامی پیکر بنانا چاہیئے.دینی انحرافات میں کامیابی کا کوئی راستہ نہیں. ہمارا اصل تنقید دینی انحرافات پر ہے،نہ کہ کتاب دوستی اور علم پروری کے رویہ پر،بلکہ ہم کہہ چکیں ہیں کہ اپنے دفاع کے لحاظ سے چوکنا رہنااور ضروری لوازمات کا اختیار کرنا توخود ان کے دینی فرائض میں شامل ہے.
تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں کو تاریخ میں جو بھی عزت ملی تھی، وہ انہیں اپنے دین کے ساتھ عہد ووفا نبھا نے پر ملی تھی.وہ اسلام کے داعی تھے،قرآن ان کا دعویٰ اور قرآں ہی ان کی دلیل تھا،ان کے دلوں میں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےلئے ایسے مرعوبیت و عقیدت کے جذبات تھے کہ ان (ﷺ) کے لعابِ دہن کو اپنے چہروں پہ مَلنا اپنی سعادت سمجھتے تھے.تاریخ گواہ ہےکہ وہ اپنےانہی صفاتی خدوخال اور اسی ایمانی پیکر کے ساتھ دنیا میں بلند ہوئے تھے.روم وفارس اور یونان کے فلسفے،ان کی بھری ہوئی لائبریریاں اور ان کا علمی رعب و دبدبہ مدینہ کے خاک نشینوں کے آگے شکست کھا گیاتھا اور روم و فارس صرف سیاسی طور پر ہی ان کے ہاتھوں مغلوب نہیں ہوئے تھے،بلکہ علمی، تہذیبی اورمذہبی اعتبار سے بھی وہ اسلام کے حلقہ بگوش ہوگئے تھے. یہ ان کے فلسفوں کی،ان کے مذہب کی اوران کی تہذیب و تمدن کی شکست تھی.حق یہ تھا کہ مسلمان سلاطین اپنے اس شاندار ماضی سے رشتہ نباہتے،جن کے آباء کے ہاتھوں یہ فتوحات حاصل ہوئی تھیں ان کے آباء کے اسوہ کو سامنے رکھتے اور ان مفتوحہ علاقوں کے حوالہ سے ان کا جو اسوہ تھا،اسے اپنے لئے آئین و دستور کی حیثیت سے پیشِ نظر رکھتے.مگر ان سلا طین کی سرگرمیوں کے حوالے سے مسلمانوں کے روایتی علمی ورثہ کا شروع سے عدمِ تحسین کا رویہ ہی اس بات کی کافی وافی شہادت ہے کہ یہ سرگرمیاں اسلامی آداب اور تقاضوں خۓ حوالہ سے کس سطح کی تھی.
ہم پہلے عرض کرچکے ہیں کہ مفید انسانی علوم سے اسلام کو، اہلِ اسلام کو اور علمائے اسلام کو کبھی کوئی پرخاش نہیں رہی اور نہ ہی ان سے استفادہ کرنا ان کے نزدیک کوئی قابلِ اشکال چیز تھا.عہدِ ملوکیت میں علمی و عقلی سرگرمیوں کے نام پر جو کچھ ہوا، اگر وہ بھی اسی دائرے میں رہتا یا زیادہ سے زیادہ کچھ مباح تفریحی مشاغل کی حد تک ہوتا تو کوئی حرج نہ تھا اور نہ ہی اس پر کسی کا اعتراض ہونا تھا،ہوا یہ کہ یہاں پر حلال و حرام کی تمیز مٹا دی گئی،انتہائی غیر ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے مسلمانوں کو لغویات میں لگادیاگیا،ان کے آپس کے درمیان اختافات پھوٹ پڑے، نئے نئے فتنے اور فرقے وجود میں آئے اور اسلام کے مقتدایان کی تمام تر دُہائیوں کے باوجود یہ سلسلہ پادشاہانِ اسلام کی سرپرستی میں روز افزوں رہا اورخود اختلاف کرنے والے علماء کو بھی زبردستی ان معاملات میں ملوث کرنے کی کوشش کی گئی،ظاہر ہے کہ اس ساری صورتِ حال کو کوئی بھی واقفِ حال مسلمان نہ تو ماضی میں اور نہ آج ،بنظرِ تحسین دیکھ سکتا ہے.
اسلامی اندلس جسے اموی خلافت کے سقوط کے بعد ہی اپنے وجود اور بقاء کےلالے پڑ گئے تھے اور طوائف الملوکی سے فائدہ اٹھا کر صلیبی اس کو تھوڑا تھوڑا کرکے لپیٹے جارہے تھے،پہلے مربطین اور پھر موحدین کی حکومت کی وجہ سے اس کو سہارا ملا اور تقریباََ تین سو سال تک یہ علاقہ مسلمانوں کے پاس باقی رہا.جبکہ موحدین کی حکومت کے بعد ایک بار پھرسابقہ کیفیت پیدا ہوئی،اسلامی اندلس کی حدود سمٹتی چلی گئیں اور کہانی بالآخر اندلس کے مکمل سقوط پر ختم ہوئی.آپ جان چکے ہیں کہ تقریباََ تین سو سال تک کا وہ سہارا جو اسلامی اندلس کو ملا،اس میں غزالی رح کا کس قدر کلیدی حصہ شامل تھا.نیز خود مشرق میں دینی روح کی کمزوری کی وجہ سےاسلامی سرحدوں پر جس طرح صلیبی حملہ آور تھے،اس کے تدارک کے لئےلئے غزالی ر ح جیسے بزرگوں نے اسلامی بیداری کا جو صور پھونکا،اس کے کتنے خاطر خواہ نتائج نکلے.
تحریر محمد عبداللہ شارق
حوالہ جات:–
(36 ) 2الغزالی،علامہ شبلی تعمانی،صفحہ 225،ط؛اسلامی کتب خانہ لاہور.
(37) 3تاریخِ دعوت و عزیمت،جلداول،صفحہ 191-193،ط،مجلسِ نشریاتِ اسلام،کراچی.
(38 ) 4تفصیل کے لئے دیکھئے”قصۃ الاندلس”،راغب السرجانی،صفحہ 538،537.
(11 ) 5 دیکھئے”قصۃ الاندلس”،راغب السرجانی،صفحہ 581.
(39) 6مسلم سائنس،سید قاسم محمود،صفحہ119،118،ط؛الفیصل لاہور.
(40) 7مسلم سائنس،سید قاسم محمود،صفحہ119،118،ط؛الفیصل لاہور.
(41) 8مسلم سائنس،سید قاسم محمود،صفحہ119،118.
(42) 9مسلم سائنس،سید قاسم محمود،صفحہ 100.
(43 ) 10 تفصیل کے لئے دیکھئے ھکذا ظھر جیل صلاح الدین،دکتور ماجد عرسان الکیلانی،الباب الثالث،الفصل العاشر،دور مدرسۃ ابی حامد الغزالی فی الاصلاح و التجدید، ط؛المعہد العالمی اللفکر الاسلامی.

حصہ اول

Leave Your Comment

Your email address will not be published.*

Forgot Password