اگر کوئی خدا ہے تو کیا اس نے ہم سے پوچھ کر ہمیں انسان بنایا ہے ؟؟؟ اس سے کہیں بہتر تھا کہ اس نے ہمیں فرشتہ بنایا ہوتا کم از کم جہنم کی آگ میں جلنے کا رسک تو نہ ہوتا ۔۔۔۔۔
جواب : اس بات کا سب سے مختصر جواب تو یہ ہے کہ خالق اپنے کسی بھی کام میں مخلوق سے پوچھنے کا پابند نہیں ۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ اعتراض ہی غیر منطقی ہے ۔ اس کے غیر منطقی ہونے کے ثبوت کے لیئے ذرا پہلے فرشتوں اور انسانوں کے فرق پر روشنی ڈال لیتے ہیں ۔
١ ۔ فرشتے اللہ کی نوری مخلوق ہیں اور انسان خاکی ۔
٢ ۔ فرشتے بے اختیار ہے جب کہ انسان با اختیار ۔
٣ ۔ فرشتوں کے لیئے نہ جنت ہے نہ جہنم جبکہ انسان جنت میں بھی جا سکتا ہے اور جہنم میں بھی ۔
٤ ۔ فرشتے اللہ کے حکم پر غیر اختیاری طور پر پابند ہیں جب کہ انسان کی پابندی اختیار کے ساتھ ہے ۔
٥ ۔ فرشتوں کو اللہ نے عبادت کی غرض سے پیدا فرمایا ہے جس کے ساتھ ساتھ ان پر کچھ اموری ذمہ داریاں ہیں ۔ ان تمام معاملات پہ ان کا کوئی اختیار نہیں ۔ انسان کو بھی اللہ نے عبادت کی غرض سے پیدا کیا ہے جس کے ساتھ ساتھ ان کی بھی کچھ اموری ذمہ داریاں ہیں جن پر ان کا اختیار ہے ۔
اب آجایئے منطق پر ۔ اعتراض یہ کیا گیا ہے کہ اگر میں فرشتہ ہوتا تو جہنم سے بچ جاتا ۔ سبحان اللہ ۔
یہ اعتراض اس صورت میں قابلِ تسلیم ہے جب اللہ نے کہیں یہ اعلان کیا ہوتا کہ ہر انسان ہی جہنمی ہے ۔ کیا اللہ نے کہیں یہ کہا ہے کہ ہر انسان ہی جہنم میں جائے گا ۔ بلکہ اللہ تو کئی مقامات پہ یہ فرماتے ہیں کہ انسان اگر سمندر کی جھاگ برابر گناہ کر کے مجھ سے توبہ کر لے تو میں نہ صرف اس کی توبہ قبول کروں گا بلکہ اس کے ان تمام جھاگ برابر گناہوں کو اس کی نیکیوں میں بدل دوں گا ۔
اب یہاں پہلا سوال یہ ہے کہ جنت میں جانے کے لیئے انسان کو کرنا کیا ہے ؟
جواب : صرف اللہ کی فرماں برداری ۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ فرشتے کیا کرتے ہیں ؟
جواب : صرف اللہ کی فرماں برداری ۔
تیسرا سوال یہ ہے کہ صرف اللہ کی فرماں برداری کرنے پر انسان کو ملے گا کیا ؟
جواب : جنت
چوتھا سوال یہ ہے کہ صرف اللہ کی فرماں برداری کرنے پر فرشتوں کو کیا ملے گا ؟
جواب : کچھ بھی نہیں ۔
پانچواں اور آخری سوال یہ ہے کہ جب اللہ کی فرماں برداری ہی کرنی ہے تو اس کے لیئے فرشتہ بننے کی ضرورت ہی کیا ہے ؟ جن کو اس فرماں برداری کا کچھ صلہ نہیں ملنے والا ۔ انسان بن کر کیوں نہیں کر لیتیں کہ جو اللہ کی فرماں برداری کرے اور جنت میں سکون کی زندگی گزارے ؟ اور اگر ڈر اس بات کا ہے کہ انسان ہوں خطا ہو جائے گی تو اتنی بڑی آفر موجود ہے کہ سمندر کی جھاگ کے برابر گناہ کرنے کے بعد بھی انسان اگر شرمندہ ہو اور توبہ کر لے تو میں نہ صرف اس کو معاف کر دوں گا بلکہ اس کے گناہوں کو نیکیوں میں بدل دوں گا ۔ اور کیا چاہیئے ؟
اس سوال کا جواب اب آپ نے دینا ہے ۔
میرے خیال سے یہ اعتراض تو فرشتوں کا بنتا ہے کہ جو کچھ ہم صبح شام کر رہے ہیں اس کا محض عشرِ عشیر کرنے پر انسانوں کو جنت مل رہی ہے جبکہ ہمیں کچھ نہیں مل رہا ۔ مگر آپ انسان ہیں اس لیئے اعتراض کر رہی ہیں ۔ فرشتوں کے پاس تو اعتراض کا بھی اختیار نہیں ۔
امید ہے اب آپ میری رہنمائی فرمائیں گی ۔
تحریر محمد سلیم