حقیقی ملحد وہ ہوتا ہے جو پورے خلوص سے سچائی کا متلاشی ہو.. وہ جانتا ہے کہ سائنس کا مقصد خدا کی تلاش نہیں بلکہ رموزِ کائنات کو سمجھنا ہے.. وہ سائنس اور مذہب کو گڈمڈ نہیں کرتا.. اسے خبر ہوتی ہے کہ اشیاء کی ماہیت و تراکیب سمجھنے کا علم (سائنس) اشیاء کے خالق (خدا) کی تحقیق کرنے پر لاگو نہیں ہو سکتا.. وہ مظاہرِ فطرت کی رنگینیوں سے دنگ رہ جاتا ہے.. وہ فطرت کو خدا ماننے کی بجائے فطرت کے پالنہار کی کھوج میں ہوتا ہے.. ایسا ملحد نہ تو مذہب کو مانتا ہے اور نہ انکار کرتا ہے.. دراصل وہ ذہنی خلفشار کا شکار ہوتا ہے.. وہ اپنی الجھن کو اسلام یا کسی اور مذہب پر بے جا اور غیرعقلی اعتراضات سے ظاہر نہیں کرتا.. وہ اگر مذہب دوست نہ ہو تو مذہب دشمن بھی نہیں ہوتا، کیونکہ وہ مانتا ہے کہ عداوت اور تعصب حق کی کھوج میں رکاوٹ ہوتے ہیں.. سو اگر کوئی واقعی سچا ملحد ہے جو تلاشِ خالق میں سرگرداں ہے تو اسکے ساتھ ہمارا بنیادی اختلاف اللہ کے وجود پر ہے.. ہمارا اوّل موضوع ذاتِ باری تعالی ہے.. باقی موضوعات ثانوی حیثیت رکھتے ہیں..!
اگر اللہ کا وجود کسی حقیقی ملحد کو سمجھ میں آجائے،، تو مذہب ہے یا نہیں اور اگر ہے تو سچا کون سا ہے وغیرہ جیسے مسائل خودبخود حل ہوسکتے ہیں..!
اللہ جل شانہ کے وجود پر ہمارا اور ملحد کا پہلا نکتہِ بحث یہ ہے کہ جب کائنات میں کچھ نہیں تھا تو کون تھا؟ یعنی کائنات میں سب سے پہلے کون تھا؟
ملحد کا ماننا ہے کہ کائنات میں سب سے پہلے جو بھی تھا، وہ خود بےاختیار اور بے شعور تھا.. پھر اس بےاختیار، بےشعور، بےعقل اور بےسمجھ مادے سے یہ ساری کائنات، اسکی اثر آفرینیاں، اسکے مربوط ریاضیاتی اور طبیعاتی قوانین وجود میں آئے.. دیگر جانداروں کو فی الحال چھوڑ دیں.. انسان جیسی عاقل، بااختیار، بامقصد، ذہین تر اور حسین ترین مخلوق بھی اسی مادے سے بنی جسکے پاس کچھ کرنے کا اختیار اور فکر ہی نہ تھی..!
اسکے مقابلے میں ہم کہتے ہیں کہ نہیں جناب، کائنات میں سب سے پہلے جو وجود تھا وہ اللہ کریم کی ذات تھی.. جو ساری قدرتوں کی یکتا مالک، ساری حکمتوں کی اکیلی حاکم، ساری طاقتوں کی واحد مرکز اور ہر قسمی نقص سے پاک ذات ہے.. اس واحد و یکتا ذات نے اپنی ذاتی قدرتوں اور حکمتوں کے ساتھ اس سارے عالم کو ایسا بےخطا سجایا کہ دیکھنے والے انگشت بدنداں رہ گئے.. اس تنہا نے تمام تر مخلوقات کو اپنے اختیار و ارادے سے وجود بخشا.. پھر انسان جیسے اشرف المخلوقات کو تخلیق فرما کر اسے ایک عظیم منشور دیا اور اس پر عمل کرنے کو کہا.. بطور امتحان اُس نے اپنی ہستی اور عالمِ آخرت کو پردہِ غیب میں رکھا.. پھر اس نے کائنات میں جابجا اپنے ہونے کی نشانیاں بکھیر دیں تاکہ سمجھنے والے سمجھ سکیں.. اس پہ مستزاد یہ کہ اس نے غیب پر مطلع فرمانے کیلئے پے در پے اپنے پیغامبر بھیجے جن سب نے خدا کا ایک جیسا تعارف کرایا اور اسکے فرامین سے نوعِ انسانی کو آگاہ کیا.. ایک وقت آئے گا جب یہ غیب کسی کی نظروں سے اوجھل نہ ہو گا، مگر تب کا ماننا ہرگز کوئی نفع نہ دے گا.. دیکھ کر کون نہیں مانتا،، ایمان کا امتحان یہ ہے کہ بِن دیکھے مانا جائے..!
اس پیچیدگی کے رفع ہوتے ہی حقیقی ملحد کا (نہ کہ کسی مذہب بیزار/نفس پرست/ہٹ دھرم کا) اگلی جستجو یہ فوری سوال ہوتا ہے کہ خدا کو کس نے بنایا؟
دیکھیں ابھی ابھی آپ نے سمجھ لیا کہ خدا “خالق” ہے.. اگر خدا کو بنانے والی کوئی اور ذات ہوتی تو پھر “وہ ذات” خالق کہلاتی اور خدا مخلوق.. جبکہ آپ جانتے ہیں کہ خدا مخلوق نہیں بلکہ خالق ہے.. خالق وہ ہوتا ہے جو اپنی ذات اور “ذاتی صفت” کی بنا پر قائم و دائم ہو.. پس یہ سوال (کہ خدا کو کس نے بنایا؟) منطقی طور پر درست نہیں بلکہ مبنی بر مغالعہ ہے.. اگر بالفرض ہم یہ کہہ بھی دیں کہ خدا کو “فلاں” نے بنایا،، تو آپ فوراً اگلا سوال یہ پوچھیں گے کہ فلاں کو کس نے بنایا؟ :)ارے بھئی خدا ہوتا ہی وہ ہے جو پیدا ہونے اور مرنے سے پاک ہو..!
یہاں تک ہمارے سامنے دو مختلف النوع مقدمے واضح ہو گئے.. اب ہر غیرجانبدار انسان خدا کی ودعیت کردہ عقل کو ذرا سا استعمال کرکے خود ہی فیصلہ کرسکتا ہے کہ ان دونوں میں سے کون سا موقف دل کو لگتا اور شعور کو بھاتا ہے اور کونسا خلافِ عقل معلوم ہوتا ہے..!!
.
تحریر: محمد نعمان بخاری