سائنس ’’سیکولر‘‘ (لامذہب) ہے- ایک تنازعہ اور ایک غلط فہمی
جدید دَور کی سائنس کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ ’’سیکولر‘‘ (Secular) یعنی لامذہب ہے۔ یہ ایک ایسی غلط فہمی ہے جس کی وجہ سے سائنس پڑھنے والوں یا سائنس کے چاہنے والوں میں مذہب کی رغبت ختم ہوجاتی ہے۔ یہ لوگ مذہب کو سائنس کا حریف سمجھنے لگتے ہیں اور ایک وقت وہ بھی آتا ہے جب یہ مرد و زن لامذہب ہوجاتے ہیں۔
اسی تصویر کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ جب مذہبی رجحان رکھنے والا کوئی شخص، سائنس دانوں کا یہ مجموعی رویہ دیکھتا ہے تو وہ سائنس کو اپنے عقائد کے خلاف سمجھنے لگتا ہے۔ اگر وہ سائنس کا طالب علم بھی ہو تو وہ سائنس پڑھتا ضرور ہے لیکن اسے قبول نہیں کرتا۔ ’’سائنس سیکولر ہے‘‘ کا جملہ اس پر ناگوار اثر چھوڑتا ہے اور اس میں سائنس کے خلاف ایک فطری مزاحمت پروان چڑھتی ہے۔ بہت ممکن ہے کہ ایسا کوئی شخص، سائنس کے کسی شعبے میں ڈاکٹریٹ (پی ایچ ڈی) بھی کرلے مگر وہ سائنس کی بنیادوں کو درست اور غیر جانبدارانہ انداز سے، گہرائی میں جاکر سمجھنے کی کوشش نہیں کرے گا۔
مذہبی طبقہ، جو مذہب کی حرمت اور تقدس کو ہمیشہ اپنے پیش نظر رکھتا ہے، اس کیلئے ’’سائنس سیکولر ہے‘‘ کی عبارت ایک براہِ راست حملے کا درجہ رکھتی ہے… ایک ایسا حملہ جو مذہب کی حرمت اور تقدس پر کیا گیا ہو۔ مذہب کا دفاع کرنا وہ اپنا اولین فریضہ سمجھتا ہے۔ لہٰذا وہ نہ صرف خود سائنس کے قریب جانے سے گریز کرتا ہے، بلکہ یہ کوشش بھی کرتا ہے کہ اس کے حلقۂ اثر کا کوئی فرد بھی سائنس کے مطالعے کی طرف متوجہ ہونے نہ پائے۔
آیئے اب یہ جائزہ لیتے ہیں کہ ’’سائنس سیکولرہے‘‘ کہاں سے وارد ہوا اور اس کا اصل قصہ کیا ہے؟
تاریخی تناظر
مسلمانوں کی سائنسی خدمات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ پندرہویں اور سولہویں صدی عیسوی کے دوران، جب عالمِ اسلام اندرونی اور بیرونی سازشوں کا تختۂ مشق بنا ہوا تھا اور اسلامی ممالک میں علم کے حصول او رمطالعے کی روایت دم توڑ رہی تھی، اسی زمانے میں مغرب بڑی تیزی سے مسلمانوں کے حاصل کئے ہوئے علوم کو ان سے اخذ کرنے کے بعد اپنی زبانوں میں منتقل کررہا تھا۔
عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ مغربی دانشوروں اور مترجمین نے صرف افلاطون اور ارسطو جیسے یونانی فلسفیوں کے افکار ہی عربی سے ترجمہ کئے تھے۔ اور یہ کہ مغرب نے سائنس میں تجربے کی اہمیت کو مسلمانوں سے اثر قبول کئے بغیر اجاگر کیا تھا۔ یہ نقطۂ نظر غلط ہے۔ اسلام کے ابتدائی زمانے سے لے کر تقریباً دسویں صدی عیسوی تک، مسلمانوں نے یونانی فلسفیوں کے افکار عربی میں ترجمہ کئے۔ لیکن اس کے بعد تقریباً پانچ سو سال تک متعدد نظری اور تجرباتی اختراعات کیں جو آج بھی تاریخ کے اوراق پر موجود ہیں۔ انہیں کسی بھی طرح سے یونانیوں کی ’’نقل‘‘ نہیں کہا جاسکتا۔
آج یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ مغرب نے توسیع پسندانہ رویے کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوسری تہذیوں (بالخصوص مسلمانوں) سے جو کچھ بھی حاصل کیا تھا، اس کے غیر یورپی ماخذ حذف کردیئے۔ اس حرکت کا واحد مقصد یورپ کی علمی و فکری بالادستی قائم رکھنا تھا۔ آج یہ امر بھی مسلّم ہے کہ اہل یورپ، سائنس کی عملی (تجرباتی) روح سے پہلی بار مسلمانوں ہی کے طفیل آشنا ہوئے اور انہیں معلوم ہوا کہ کسی مفروضے کو پرکھنے کیلئے تجربے کی کسوٹی کیوں، اور کس قدر ضروری ہے۔تجربے ہی نے قدیم یونانی ’’فلاسفیا‘‘ اور جدید ’’سائنس‘‘ کے درمیان اہم ترین فرق قائم کیا اور سائنس کو ترقی کی ایک نئی راہ پر گامزن کیا۔
یورپ میں سائنس کی نشاۃ الثانیہ کا ظہور، مذہب اور سائنس کے مابین زبردست کشمکش کے ساتھ ہوا۔ یہ عین وہی زمانہ تھا جب یورپ کے مذہبی پیشواؤں کو مذہب سے لے کر سائنس تک، زندگی کے ہر پہلو کے بارے میں حکم صادر کرنے کا اختیار حاصل تھا۔ مگر ان پیشواؤں کے نزدیک سچائی صرف وہی تھی جو ان کی مذہبی کتابوں اور ان کی مقدس ہستیوں کے فرمودات، ارشادات اور اقوال میں بیان کی گئی تھی (یہ ایک الگ بحث ہے کہ عیسائیوں کی الہامی کتاب ’’انجیل‘‘ اس وقت تک اس قدر تبدیل کی جا چکی تھی کہ وہ اپنی اصلیت، کم و بیش گم کر چکی تھی)۔ یہ بات عقیدے کے خلاف تصور کی جاتی تھی کہ کوئی بھی ان پر شک و شبہ کا اظہار کرے یا ان مقدس حقائق کو تجربے یا عمیق مطالعے کی روشنی میں پرکھنے کی کوشش کرے۔
لطیفہ مشہور ہے کہ کہیں پر تین پادری آپس میں الجھ رہے تھے کہ گھوڑے کے منہ میں کتنے دانت ہوتے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک مقدس کتابوں کے حوالے سے ثابت کررہا تھا کہ گھوڑے کے منہ میں کتنے دانت ہوتے ہیں، لیکن اتفاق نہیں ہو پارہا تھا۔ ایک پادری کہتا تھا کہ مقدس کتابوں کے مطابق، گھوڑے کے منہ میں 36 دانت ہوتے ہیں۔ دوسرے کا کہنا تھا کہ نہیں! 34 دانت ہوتے ہیں اور تیسرا پادری 40 دانت ثابت کرنے پر تُلا ہوا تھا۔ اتنے میں وہاں ایک نوجوان کا گزر ہوا۔ اس نے جب یہ بحث سنی تو ازراہِ مشورہ کہہ دیا کہ گھوڑے کا منہ کھول کر دانت گن لیجئے۔ یہ سن کر تینوں پادری آگ بگولا ہوگئے اور کہنے لگے: ’’تو کیا چاہتا ہے کہ ہم اپنے بزرگوں کی کتابیں چھوڑ کر تیرا بتایا ہوا طریقہ اختیار کرلیں؟ جس کی تعلیم ہمارے مذہب نے نہیں دی۔‘‘
ممکن ہے کہ کسی نے یہ واقعہ ازراہِ تفنن اپنی طرف گھڑ لیا ہو، لیکن گیلیلیو کا قصہ بالکل سچ ہے، جس میں کوئی مبالغہ آرائی نہیں۔اس قصّے کا پس منظر یہ ہے کہ سولہویں صدی میں بطلیموس (Ptolmeus) اور ارسطو کے نظریات، کلیسا کے نزدیک بڑے اہم تھے کیونکہ وہ مذہبی پیشواؤں کی سارے معاشرے پر بالادستی کو قائم و دائم رکھنے میں مددگار تھے۔ یہی وہ پہلو تھا جس کے باعث کائنات اور نظامِ قدرت کے بارے میں بھی ان فلسفیوں کے خیالات کو نہایت احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔بطلیموس نے کائنات کا جو ماڈل پیش کیا تھا، اس کے مطابق زمین کائنات کا مرکز ہے، ساکن ہے اور ساری کائنات اس کے گرد گھوم رہی ہے۔مظاہرِ فطرت کے بارے میں ارسطو یہ رائے دے چکا تھا کہ اگر مختلف اوزان والی دو اشیاء کو ایک ساتھ بلندی سے گرایا جائے تو بھاری چیز پہلے گرے گی اور ہلکی چیز بعد میں۔ یعنی جو چیز جتنی زیادہ بھاری ہوگی، وہ اتنی ہی تیزی سے زمین پر گرے گی۔
سترہویں صدی عیسوی کی ابتداء میں گیلیلیو نے یہ بتایا کہ زمین، سورج کے گرد گردش کرتی ہے۔ پھر اس نے عملی ’’تجربے‘‘ سے یہ ثابت کیا کہ اگر مختلف اوزان رکھنے والے دو پتھر، یکساں بلندی سے ایک ساتھ گرائے جائیں تو وہ دونوں بالکل ایک ساتھ زمین سے ٹکرائیں گے۔ مبینہ طور پر اس نے یہ تجربہ، اٹلی میں پیسا کے ٹاور پر چڑھ کر کیا تھا۔ لوگوں کی آنکھوں کے سامنے جب مختلف اوزان والے دو پتھر ایک ساتھ زمین سے ٹکرائے تو وہاں آئے ہوئے مجمع میں شامل کلیسائی نمائندوں (یا ان کے پیروکاروں) نے گیلیلیو کو ’’جادوگر‘‘ قرار دینے میں کوئی تاخیر نہیں کی۔
بطلیموس اور ارسطو کے نظریات سے اختلاف کرنا گیلیلیو کا قصور بن گیا اور انہیں تجربے کی کسوٹی پر جانچنا اس کا جرم ٹھہرایا گیا۔ کٹر رومن کیتھولک ہونے کے باوجود وہ ساری زندگی کلیسا کی جانب سے عتاب میں مبتلا رہا۔ 1642 عیسوی میں، جب گیلیلیو کی وفات ہوئی، تو اس وقت بھی چرچ کی جانب سے دی گئی سزا کے طور پر کئی برسوں سے اپنے گھر میں نظر بند تھا۔
یہ تو صرف ایک مثال ہے ورنہ تاریخ کے اوراق پر معلوم نہیں ایسے کتنے واقعات موجود ہیں جب سائنس دانوں کو نئی بات کہنے پر جلا دیا گیا، جلا وطن کردیا گیا، یا ان کا سر قلم کردیا گیا۔ قصہ مختصر یہ کہ یورپ میں سائنس کی نشاۃ الثانیہ، سائنس دانوں اور مذہبی پیشواؤں میں شدید باہمی تنازعے سے گزر ی۔
سائنس… ’’لامذہب‘‘ یا ’’قابلِ اعادہ‘‘
اب ایک لمحے کو ٹھہر کر سائنس کی بنیادی تعریف دوہرا لیجئے، جو میں زیرِ نظر تحریر کی ابتداء میں بیان کر چکا ہوں۔ اس تعریف کی رُو سے سائنسی مشاہدات اور تجربات کو ’’قابلِ اعادہ‘‘ (Reproducible) ہونا چاہئے۔’’قابلِ اعادہ‘‘ ہونے کی وضاحت یہ ہے کہ اگر ایک تجربہ، ایک خاص ماحول (یا حالات) میں، ایک خاص طرح کے تجرباتی آلات/ اشیاء استعمال کرتے ہوئے کیا جائے، اور وہی تجربہ کسی دوسری جگہ پر، لیکن بالکل پہلے جیسے ماحول (یا حالات) میں، بالکل پہلے جیسے تجرباتی آلات/ اشیاء استعمال کرتے ہوئے، عین اسی طریقے پر کیا جائے کہ جس پر پہلا تجربہ کیا گیا تھا، تو اس (بعد والے تجربے) کے نتائج بالکل وہی برآمد ہوں گے، جو پہلی مرتبہ کئے گئے تجربے سے حاصل ہوئے تھے۔
سائنس اور کلیسا کی چپقلش کی وجہ سے یہ عبارت (شاید مذہبی طبقے کو چڑانے کیلئے) اس طرح سے بیان کی جانے لگی کہ سائنسی مشاہدات اور تجربات کے قابل اعادہ ہونے پر تجربہ/ مشاہدہ کرنے والے کے مذہب (یا مذہبی عقائد) سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
مطلب یہ کہ سائنس تجربات/ مشاہدات کے نتائج/ صداقت پر اس بات سے فرق نہیں پڑتا کہ سائنس داں کا اپنا مذہب کیا ہے، وہ کس عقیدے کا پیروکار ہے، اور کسی مذہب کو مانتا بھی ہے یا نہیں۔ اگر تجربے کی نوعیت یکساں ہے، وہ یکساں حالات کے تحت کیا گیا ہے، اور اس میں استعمال کئے گئے آلات و اشیاء بھی یکساں ہیں تو اس کے نتائج بھی یکساں حاصل ہوں گے – خواہ وہ تجربہ کرنے والا شخص مسلمان ہو، عیسائی ہو، یہودی ہو، ہندو ہو یا لامذہب ہو (یعنی ایسا فرد جو کسی بھی مذہب کو نہیں مانتا)۔
مثلاً، ہم گیلیلیو کا وہی تجربہ لیتے ہیں جو اس نے مبینہ طور پر پیسا کے ٹیڑھے مینار پر چڑھ کر کیا تھا۔ اب فرض کیجئے کہ گیلیلیو کی جگہ جابر بن حیان ہوتا، ابن الہیثم ہوتا، آپ ہوتے یا میں ہوتا، اور وہ پتھر ایک ساتھ گراتے تو کیا نتیجہ نکلتا؟ کیا افراد کی تبدیلی سے نتائج تبدیل ہوجاتے؟ یقیناً نہیں۔ جابر بن حیان، ابن الہیثم، میں یا آپ، کسی ’’شخص‘‘ یا اس کے عقائد و نظریات کا اس تجربے کے نتائج پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
یہی تجربہ آپ بھی دہرا سکتے ہیں۔ اپنے چار پانچ دوست منتخب کیجئے اور ان سے کہئے کہ وہ ایک کرسی پر باری باری کھڑے ہوں اور کسی دھات یا لکڑی سے بنے ہوئے، ایک اور آدھے کلو گرام والے گولوں کو یکساں اونچائی سے ایک ساتھ زمین پر گرائیں۔ ہر مرتبہ نتیجہ وہی رہے گا۔ یعنی دونوں گولے ایک ساتھ زمین سے ٹکرائیں گے۔ کیا اس تجربے کے نتائج پر اس بات سے کوئی فرق پڑا کہ آپ اور آپ کے دونوں کا عقیدہ کیا ہے؟ کیا آپ کی مذہبی وابستگی (یا عدم وابستگی) نے اس کے نتائج پر کوئی اثر ڈالا؟ ہر گز نہیں۔گویا سائنسی تجربات کے اس طرح قابلِ اعادہ (reproducible) ہونے کو، کہ وہ تجربہ کرنے والے کے ذاتی عقائد و نظریات سے متاثر نہ ہوں، بہ الفاظِ دیگر ’’سائنس سیکولر (لامذہب) ہے‘‘ کی عبارت میں بیان کیا جانے لگا۔
یہ پوری طرح واضح نہیں کہ کلیسا نے سائنس پر لادین ہونے کی مہر مثبت کی یا مذہبی کٹرپن کے ستائے ہوئے سائنس دانوں نے مذہب کی مدِمقابل طاقت کے طور پر منوانے کیلئے سائنس کو ’’سیکولر‘‘ کہا۔ مگر اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ سائنس کے سیکولر ہونے کی توجیح نے بیک وقت اہلیانِ مذہب اور اہلیانِ سائنس کے خیالات پر بری طرح اثر ڈالا۔ پہلے کلیسا نے کفر کے فتووں سے سنجیدہ سائنسی تحقیق کا راستہ روکا، سائنس دانوں کو مرتد، کافر اور لامذہب قرار دیا اور پھر سائنس دانوں نے خود ہی مذہب سے قطع تعلق کرنا شروع کردیا۔آج یہ کیفیت ہے کہ سائنس دانوں کی اکثریت یا تو لامذہب ہے یا پھر صرف نام کی حد تک کسی مذہب سے وابستگی رکھتی ہے۔ یہ کیفیت دنیا بھر کے سائنس دانوں میں بالعموم، اور ترقی یافتہ ممالک کے سائنس دانوں میں بالخصوص دیکھی جاسکتی ہے (جس کا اظہار ان کی تحریروں اور تاثرات سے ہوتا ہے)۔ آج ’’سائنس سیکولر ہے‘‘ کا فقرہ، سائنس کی مذہب دشمنی کا ترجمان بن گیا ہے (یا زیادہ صحیح الفاظ میں، بنا دیا گیا ہے) حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔
سائنس کا سیکولر ہونا اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ یہ اپنی ذات میں قوانینِ فطرت (قوانینِ قدرت) کی محتاج ہے نہ کہ سائنس دانوں کے ذاتی عقیدے اور مذہب کی۔ یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ قوانینِ فطرت کا اطلاق پوری کائنات پر یکساں انداز سے ہوتا ہے اور ذرّہ ذرّہ ان کا تابع ہے۔ گویا اب یہ کہا جاسکتا ہے کہ ’’سائنس سیکولر ہے‘‘ کامطلب، اس کے مشاہداتی/ تجرباتی پہلو کی صداقت اور وسعت کا اظہار ہے نہ کہ سائنس کی مذہب دشمنی کا۔
سائنس کیا نہیں؟
سائنس، طبیعی/ مادی کائنات اور اس میں موجود تمام اشیاء (Contents) کو موضوعِ بحث بناتی ہے۔ اس کے تجربات و مشاہدات قابلِ اعادہ (Reproducible) ہوتے ہیں۔ یہ مفروضہ، استنباط، تجربہ/ مشاہدہ، نتیجہ، تجزیہ، نظریہ اور قانونِ فطرت جیسے مراحل طے کرتے ہوئے اپنی ترقی کا سفر جاری رکھتی ہے۔ اس تمام بحث کا احاطہ میں اب تک کرچکا ہوں۔
مجھے توقع ہے کہ یہاں تک آتے آتے قارئین کے ذہنوں میں یہ بات خاصی حد تک واضح ہوچکی ہوگی کہ سائنس ’’بہت کچھ‘‘ ضرور ہے لیکن ’’سب کچھ‘‘ ہر گز نہیں۔تاہم اسی نکتے کی مزید وضاحت کیلئے میں آپ کا وقت اور توجہ چاہوں گا۔
آنجہانی کارل ساگان کا ناول ’’کانٹیکٹ‘‘ (Contact) اس اعتبار سے قابلِ مطالعہ ہے کہ اس میں انہوں نے سائنس کی حدود و قیود (Bounds and Limits) کے بارے میں بڑے معقول اعتراضات اٹھائے ہیں۔ حالانکہ وہ خود بیسویں صدی کا ایک عظیم فلکیات داں تھا۔ خلائی تحقیق، خصوصاً مریخ پر بھیجے گئے بعض اہم خود کار خلائی جہازوں کی کامیابی میں کارل ساگان نے نمایاں کردار ادا کیا تھا۔ یہ ناول ایک ایسی لڑکی کے گرد گھومتا ہے جس کا باپ، اس کے بچپن ہی میں فوت ہوجاتا ہے۔ غیرمعمولی طور پر ذہین یہ لڑکی، بڑی ہوکر ماہر فلکیات بن جاتی ہے اور ترقی کرتے کرتے خلائی تحقیق میں ایک اہم مقام پر فائز ہوجاتی ہے۔ دریں اثناء اس کی ملاقات ایک ایسے شخص سے ہوتی ہے جو مذہی پیشوا (پادری) ہوتا ہے۔ یہ شخص اس کا دوست بن جاتا ہے۔ پھر ایک سرکاری تقریب میں ان کی ملاقات کے دوران، ان دونوں میں مکالمہ ہوتا ہے جو صرف دلچسپ ہی نہیں بلکہ فکر کے نئے دروازے کھولنے والا بھی ہے۔ مکالمہ ملاحظہ فرمائیے :
پادری: کیا تم خدا کو مانتی ہو؟
لڑکی : بطور سائنس داں میرے پاس اس (خدا) کے ہونے یا نہ ہونے کا کوئی ثبوت نہیں۔
پادری: کیا تمہیں اپنے (آنجہانی) والد سے (آج بھی) محبت ہے؟
لڑکی : ہاں! میں آج بھی اپنے (آنجہانی) والد سے بے حد محبت کرتی ہوں۔
پادری : تو اسے ثابت کرو۔
صرف چند سطروں کے اس مکالمے میں کارل ساگان نے ’’معقولیت پسندی‘‘ (Rationalism) کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے جس کا دعویٰ اکثر سائنسداں کرتے ہوئے نظر آتے ہیں… اور اسی ’’عقل پرستی‘‘ کی بنیاد پر وہ اللہ تعالیٰ کے وجود سے انکار کردیتے ہیں۔اس مکالمے سے صاف ظاہر ہے کہ سائنس، ہر چیز کے وجود یا عدم وجود کو ثابت نہیں کرسکتی… اور یہ کہ اگر کوئی چیز سائنسی قواعد و ضوابط کی مطابقت میں نہیں تو قطعاً ضروری نہیں کہ اس کی حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا جائے۔کارل ساگان نے یہاں پر جو مثال دی ہے، وہ ایک بیٹی کی اپنے آنجہانی والد سے محبت ہے جسے کوئی سائنسی تجربہ یا مشاہدہ ثابت نہیں کرسکتا۔ پھر ایسا کوئی بھی تجربہ، قابلِ اعادہ نہیں ہوگا۔ محبت ایک جذبہ ہے، ایک حقیقت ہے، مگر سائنسی بنیادوں پر اسے ثابت نہیں کیا جاسکتا۔
مسلمہ مذہبی حقائق اور معقولیت پسندی
بہت ساری باتیں ہمارے عقائد کا حصہ ہیں اور سائنس سے ثابت نہیں ہوتیں۔ تو کیا ’’معقولیت پسندی‘‘ کی رَو میں بہہ کر ہم اپنے عقائد کو بالائے طاق رکھ دیں؟ مثلاً ’’روح‘‘ کو لے لیجئے۔ اسلام سمیت تمام الہامی اور غیر الہامی مذاہب میں یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ روح ایک وجود رکھتی ہے۔ اس کی حقیقت مسلّمہ اور غیر متنازعہ ہے۔کیا آج تک ایسا کوئی تجربہ/ مشاہدہ ہوسکا ہے جو ’’سائنسی‘‘ ہو اور جس کی مدد سے ’’روح‘‘ کی موجودگی ثابت کی گئی ہو؟ سردست اس سوال کا جواب ’’نہیں‘‘ کی صورت میں ہمارے پاس ہے۔علاوہ ازیں سائنسی نظریات میں بھی ایسی کوئی چیز موجود نہیں جو روح کے وجود یا عدم وجود کے بارے میں ہماری کسی بھی قسم کی رہنمائی کرسکے۔ لیکن کیا اس سے یہ سمجھ لیا جائے کہ روح کا کوئی وجود نہیں۔
یہ نہیں کہا جاسکتا، مگر یہ ماننا زیادہ موزوں ہوگا کہ روح ایک ایسی چیز، ایک ایسا وجود ہے جو سائنس سے ماوراء ہے۔ سائنس کی بنیاد پر روح کا ثبوت فراہم کرنے کی کوشش کرنا، اسے کسی ریاضیاتی مساوات یا سائنسی فارمولے کے ذریعے بیان کرنا، میری ناقص رائے میں حماقت آمیز ہی نہیں بلکہ گمراہ کن عمل ہوگا۔ جب ’’روح‘‘ سائنس کے دائرہ اختیار میں آنے والی چیز ہی نہیں تو ہمیں روح کا ’’سائنسی جواز‘‘ تلاش کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
جب کوئی انسان مرتا ہے تو ہم کہتے ہیں کہ اس کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی، یعنی اس کی روح نے جسم کا ساتھ چھوڑ دیا۔ غور طلب بات یہ ہے کہ کسی شخص کی موت سے ذرا پہلے اس کے جسم کی حیاتی کیمیائی (Biochemical) ساخت اور ترکیب کا موازنہ، اس کے مرنے کے فوراً بعد کی حیاتی کیمیائی ساخت اور ترکیب سے کیا جائے تو حیرت انگیز طور پر بے انتہاء معمولی فرق کا انکشاف ہوگا۔ اگر وہ فرق دور کردیا جائے اور موت سے پہلے والی حیاتی کیمیائی ساخت اور ترکیب بحال کردی جائے تو سائنسی نقطۂ نگاہ سے اس شخص کو زندہ ہوجانا چاہئے… کیونکہ ’’معقولیت پسندانہ‘‘ طرزِ فکر ہمیں یہی بتاتا ہے۔لیکن کیا ایسا کرنے سے کوئی بھی شخص واقعی دوبارہ زندہ ہوجاتا ہے؟ یقیناً ایسا نہیں ہوتا۔زندگی کسی ’’سوئچ‘‘ کے ’’آن‘‘ ہونے کا، اور موت اس سوئچ کے ’’آف‘‘ ہوجانے کا نام نہیں۔ اگر ایسا کوئی ’’حیاتیاتی سوئچ‘‘ (Biological Switch) ہوتا تو اسے دوبارہ ’’آن‘‘ کرکے مُردے زندہ کر لئے جاتے۔
مرنے کے بعد انسان کی روح ’’برزخ‘‘ میں چلی جاتی ہے جہاں سے وہ یومِ حشر میں پہنچے گی، حساب کتاب ہوگا اور جنت و دوزخ کا فیصلہ کیا جائے گا۔ کیا کوئی سنجیدہ سائنسی مشاہدہ یہ بتا سکتا ہے کہ برزخ کس جگہ واقع ہے؟ اس کا جواب بھی ’’نہیں‘‘ میں ہے۔ کیا کوئی مروجہ اور مسلّمہ سائنسی نظریہ یا قانونِ فطرت یہ پیش گوئی کرسکتا ہے کہ جنت کا ماحول کیسا ہوگا اور جہنم کا درجہ حرارت کتنا ہوسکتا ہے؟ ایک بار پھر ہمارا سامنا اسی ’’نہیں‘‘ سے ہوتا ہے۔
’’نادان دوستوں‘‘ کی غلطیاں
روح کی طرح جنات اور فرشتوں کے بارے میں بھی الہامی کتابیں ہمیں بتاتی ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں سے ہیں۔ بڑے بوڑھے اکثر جنوں سے اپنی ملاقاتوں کے قصے سناتے ہیں، اور کثرت سے سناتے ہیں۔ فرشتوں کا معاملہ بھی اسی طرح کا ہے۔کوئی ایسا طریقہ بتائیے کہ جنوں یا فرشتوں کا ’’سائنسی مطالعہ‘‘ کیا جاسکے (ایک بار پھر، سائنس کی بنیادی تعریف ذہن میں رکھئے جو ابتداء میں بیان کی گئی ہے)۔ قرآن کہتا ہے جن ’’آگ‘‘ کی اور فرشتے ’’نور‘‘ سے بنی ہوئی مخلوقات ہیں۔ تاحال کوئی سائنسی مشاہدہ، تجربہ یا نظریہ اس قابل نہیں ہوسکا جو فرشتوں اور جنوں کے وجود پر روشنی ڈال سکے۔
فرشتے ہوں، جن ہوں، روح ہو، عالمِ برزخ ہو، روزِ محشر ہو، جنت کی راحت ہو، یا جہنم کا عذاب، یہ ساری باتیں ہمارے ایمان کا حصہ ہیں۔ ان کی حقیقت مسلّمہ ہے لیکن یہ ساری چیزیں اور یہ ساری باتیں، سائنس کے دائرے سے باہر ہیں۔ مگر، ایک بار پھر، اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ ان کا کوئی وجود نہیں۔ ان کا سائنسی ثبوت مانگنا یا سائنسی ثبوت دینا، حماقت کا ثبوت ہے۔
انتہائی معذرت کے ساتھ، اس موقع پر میں ان ’’سائنس دانوں‘‘ کی تحقیقات کو قطعاً غیر سائنسی کہنے پر مجبور ہوں جنہوں نے جہنم کا درجہ حرارت بیان کرنے کیلئے ریاضیاتی مساواتیں یا طبیعیات کے فارمولے وضع کئے ہیں، فرشتوں کی رفتار اخذ کی ہے، جن پکڑ کر بجلی بنانے کا تصور پیش کیا ہے، نماز کے ثواب کا تخمینہ لگایا ہے، یا یہ بتایا ہے کہ ملکی وے کہکشاں (جس کے کنارے پر ہمارا نظامِ شمسی گردش کررہا ہے) کا مرکز ہی اللہ تعالیٰ کا ’’عرش‘‘ ہے، وغیرہ۔ میرے محدود مطالعے اور ناقص رائے میں اس طرح سے مذہب اور سائنس کا ملاپ کروانا غیر فطری عمل ہے۔ یہ باتیں مذہب اور سائنس، دونوں ہی کے سطحی مطالعے کی پیداوار ہیں لہٰذا یہ مذہب کیلئے جتنی خطرناک ہیں، اتنی ہی نقصان دہ سائنس کیلئے بھی ثابت ہوتی ہیں۔
اپنی مذکورہ بالا رائے کی دلیل میں ایک مثال پیش کرنا چاہوں گا۔آپ نے تھرمامیٹر اور فٹ اسکیل (جسے عرفِ عام میں ’’فٹا‘‘ بھی کہتے ہیں) ضرور دیکھے ہوں گے۔ آپ یقیناً یہ بھی جانتے ہوں گے کہ تھرمامیٹر کا مقصد درجہ حرارت معلوم کرنا ہے اور فٹ اسکیل سے کسی چیز کی لمبائی ناپی جاتی ہے۔
خدانخواستہ آپ بیمار ہوجاتے ہیں اور ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں۔ ڈاکٹر آپ کو ایک کونے میں کھڑا کرتا ہے، فٹ اسکیل سے آپ کا قد ناپتا ہے اور تشویشناک لہجے میں کہا ہے ’’اوفوہ! آپ کا بخار تو 150 ڈگری سینٹی میٹر پر پہنچا ہوا ہے۔‘‘ ایسے کسی ڈاکٹر کے بارے میں آپ کیا رائے قائم کریں گے؟ یہی ناں کہ وہ پاگل ہے، کیونکہ اس نے بخار ناپنے کیلئے غلط آلے کا انتخاب اور غلط پیمانے کا استعمال کیا ہے۔ کوئی بھی مریض، ایسی حرکت کرنے والے ڈاکٹر سے فوراً یہی کہے گا، ’’ڈاکٹر صاحب! تھرمامیٹر لگا کر بخار معلوم کیجئے، یہ کیا فٹا اٹھا کر قد ناپنے کھڑے ہوگئے؟‘‘مجھے یقین ہے کہ کسی قاری نے یہ حرکت کبھی نہیں کی ہوگی، اور نہ اس حرکت کو صحیح الدماغ ہونے کی علامت سمجھا ہوگا کہ تھرما میٹر منہ میں لگایا جائے، تھوڑی دیر بعد نکالا جائے اور اس کا پارہ دیکھ کر کہا جائے ’’آپ کا قد تو صرف 37 سینٹی گریڈ ہے۔‘‘
اس مثال کے ذریعے میرا مقصد قطعاً یہ نہیں کہ قارئین سے مذاق کیا جائے، بلکہ میں یہ بتانا چاہ رہا ہوں کہ کوئی بھی نتیجہ اسی وقت درست کہلائے گا جب وہ درست پیمانے کا انتخاب اور درست آلے کا استعمال کرتے ہوئے اخذ کیا جائے گا۔ ہم تھرمامیٹر کے ذریعے درجہ حرارت معلوم کرتے ہیں اور فٹ اسکیل ہمیں لمبائی ناپنے میں مدد دیتا ہے۔ جب ہماری عقل، تھرمامیٹر سے ناپے گئے (سینٹی گریڈ میں) قد کو اور فٹ اسکیل سے معلوم کئے گئے (سینٹی میٹر میں) درجہ حرارت کو درست نہیں مانتی تو کیا یہ ممکن ہے کہ وہ چیزیں جو سائنس کے دائرۂ کار سے ماوراء ہیں، ان کی حقیقت کا ادراک ہم سائنسی مشاہدات یا تجربات کے ذریعے کرسکیں؟
توقع رکھتا ہوں کہ اس مرتبہ ’’نہیں‘‘ کہنے میں آپ خاصی پختگی سے میری ہمنوائی فرمائیں گے۔
قرآن اور سائنس کا تعلق
بہت ممکن ہے کہ یہاں تک آکر آپ یہ سوچ رہے ہوں کہ جب ہمیں مذہبی عقائد اور ایمان کے معاملے میں کسی سائنسی (یا عقلی) دلیل کی ضرورت ہی نہیں، تو اس کتاب کو تحریر کرنے اور ’’قرآن حکیم کی روشنی میں سائنس کا بیان‘‘ کرنے کی ضرورت بھی باقی نہیں رہ جاتی۔آپ کا اعتراض بالکل درست ہے۔ ہمارے ایمان اور عقیدے کو اتنا پختہ ہونا چاہئے کہ ہر حال میں قرآن کا حکم، ہمارے لئے اٹل حقیقت رہے۔ ہمیں قرآنی احکامات کو ماننے اور ان کی صداقت کو تسلیم کرنے میں کسی بھی طرح کی عقلی دلیل، یا سائنسی ثبوت کا محتاج نہیں ہونا چاہئے۔ البتہ اس امر سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ قرآن میں واضح طور پر متعدد ایسے اشارہ جات موجود ہیں جو سائنس کے معاملے میں ہماری رہنمائی کرتے ہیں۔ میں ذیل کی سطور میں اسی نکتے کو واضح کرنے کی کوشش کروں گا۔
انسان، زمین پر اللہ تعالیٰ کا خلیفہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب، قرآنِ پاک کا مخاطب اور موضوع بھی یہی خلیفہ (انسان) ہے۔ قرآنِ پاک صرف چودہ سو سال پہلے ہی معجزہ نہ تھا، بلکہ یہ آج بھی معجزہ ہے اور رہتی دنیا تک معجزہ رہے گا۔ کوئی انسان بھی یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ وہ قرآن کو پوری طرح سمجھ پایا ہے، کیونکہ قرآنِ پاک کی ہر آیت کے لاتعداد مطالب، مفاہیم اور معانی ہیں۔
یہ کتاب، جس کی صداقت میں کوئی شبہ نہیں، زندگی کے ہر پہلو اور ہر شعبے میں ہماری رہنما ہے۔ سائنس بھی انہی میں سے ایک ہے۔ لہٰذا یہ کہنا کہ قرآن صرف سائنسی کتاب ہے، قرآن کے تقدس کو پامال کرنے کے مترادف ہے۔ قرآن کو سائنسی فارمولوں کی کتاب سمجھنا یا اس میں سائنسی فارمولے تلاش کرنا اور بھی غلط ہے۔ قرآن کا اپنا ایک مخصوص انداز بیان ہے۔ یہ مظاہرِ قدرت اور نظامِ کائنات کی طرف ہماری توجہ مبذول کراتا ہے، ہمیں ان کے بارے میں اشارات دیتا ہے، ہمارے تجسس کو اُبھارتا ہے اور آگے بڑھ جاتا ہے۔ اب یہ ہماری اپنی سمجھ بوجھ، دستیاب معلومات کی فراوانی اور فکر کی گہرائی پر منحصر ہے کہ ہم ان قرآنی آیات سے کیا نتیجہ اخذ کرتے ہیں۔ ڈاکٹر مورس بوکائے اپنی کتاب ’’قرآن، بائبل اور سائنس‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’قرآن جو کچھ کہتا ہے، وہ تو معجزہ ہے ہی لیکن قرآن جہاں توقف کرتا ہے (اور مزید تفصیل میں نہیں جاتا) تو قرآن کا یہ توقف بھی معجزہ ہے۔‘‘
قرآن ہمیں غور و فکر کی دعوت دیتا ہے کہ ہم میں جاننے کی خواہش پیدا ہو، حصولِ علم کا جذبہ بیدار ہو، ہم تحقیق کی طرف مائل ہوں، دریافت کی جستجو کریں، تسخیرِ کائنات کی تدبیر کریں اور زمین پر اللہ کا نائب (خلیفہ) ہونے کا حق ادا کریں۔ مگر ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ قرآن، خالقِ کُل کی کتاب ہے۔ یہ اُسی ہستی کا کلام ہے جو ہر اعتبار سے مکمل اور ہر شے پر قادر ہے۔ ہم، انسان اسی اللہ رب العزت کی مخلوق ہیں۔ یہ اُسی کی کرم فرمائی ہے کہ اس نے ہمیں زمین پر اپنا خلیفہ بنایا۔
مخلوق کی حیثیت سے ہماری ذات اور ہمارے اختیارات بھی محدود ہیں۔ ہمارا علم ناقص و نامکمل ہے جو تغیر پذیر رہتا ہے۔ پھر انسان خطا کا پتلا بھی ہے۔ کیا یہ تسلیم کیا جاسکتا ہے کہ محدود اختیارات اور محدود تر علم کی حامل وہ مخلوق جو زمان و مکان کے تانے بانے میں قید ہو، اپنے خالق کی لامحدود ذات اور اس کے اعلیٰ ترین کلام (قرآنِ پاک) کو مکمل طور پر سمجھ سکے یا اسے پوری طرح سمجھنے کا دعویٰ کرسکے؟ یقیناً یہ ناممکن ہے۔ کائنات کی وسعت اور ہیبت کے سامنے انسان خود کو بے انتہاء حقیر محسوس کرتا ہے۔ ذرا سوچئے کہ جس خالق کے صرف ایک حکم ’’کُن‘‘ (ہو جا) پر یہ ساری کائنات (یعنی زماں و مکاں) تخلیق ہوگئی ہو، وہ خود کتنا عظیم ہوگا۔ قرآنِ پاک اسی خالقِ کائنات کا کلام ہے۔
یہ گزارشات بیان کرنے کا مقصد، قارئین کو یہ باور کرانا تھا کہ اگر آج ہم قرآنی آیات میں سائنسی افکار دیکھ رہے ہیں تو اس کی وجہ سائنس سے ہماری اپنی وابستگی اور آگہی ہے۔ ورنہ قرآنی آیات میں تو پہلے دن سے لے کر آج تک، چودہ سو سال بعد تک، سرِمو فرق نہیں آیا، اور تاقیامت نہیں آئے گا۔ ہاں! یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ سائنسی ترقی کی وجہ سے آج ہم پر قرآنی آیات کے وہ مطالب اور مفاہیم کھل رہے ہیں، جن سے دو سو سال پہلے ہمارے بزرگ واقف نہیں تھے۔ میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر مزید نئی دریافتوں اور تحقیقات کے بعد کوئی نیا نظریہ سامنے آتا ہے، جس کی وجہ سے کسی قرآنی آیت کی سابقہ سائنسی تشریح غلط ثابت ہوجاتی ہے تو اس سے قرآنِ پاک کی صداقت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ سائنسی تشریح ہم نے، انسانوں نے کی تھی لہٰذا اسے ہماری غلطی ہی کہا جائے گا۔
تشکر و کتابیات:
1۔زیر نظر تحریر کی تیاری میں راقم الحروف اپنے محترم استاد، پروفیسر ڈاکٹر خورشید اطہر صدیقی کا بطورِ خاص شکر گزار ہے کہ انہوں نے 1994ء میں اپنا ایک غیر مطبوعہ مقالہ بعنوان ’’Where do we stand now‘‘ مجھے پڑھنے کےلئے دیا۔ علاوہ ازیں، نظری طبیعیات (تھیوریٹیکل فزکس) پڑھانے کے ساتھ ساتھ انہوں نے سائنسی فلسفے کو سمجھنے میں بھی اس ناچیز کی بے حد رہنمائی کی۔ اللہ تعالیٰ ان کا سایہ ہمیشہ ہمارے سروں پر قائم رکھے۔
2۔ An Intelligent Man‘s Guide to Science, Isaac Asimov
3۔ The Structure of Scientific Revolutions, Thomas Kuhn
4۔ Philosophy of Science: A Very Short Introduction, Samir Okasha
تحریر علیم احمد ، مدیر ماہنامہ گلوبل سائنس
سائنس کیا ہے اور سائنس کیا نہیں؟ | الحاد جدید کا علمی محاکمہ
April 15, 2019 at 9:55 am[…] آج سے تقریباً بارہ سال پہلے یہ تحریر ’’کیا سائنس ایک مذہبی عقیدہ ہے؟ کیا مذہب ایک سائنسی نظریہ ہے؟‘‘ کے عنوان سے ماہنامہ گلوبل سائنس کے ایک شمارے میں شائع ہوئی تھی۔ گزشتہ برس یہ ضمیمہ خاص کے طور پر راقم کی تصنیف ’’اک نسخہ کیمیا، جلد اوّل: سائنسی فکر‘‘ میں ترامیم و اضافہ جات کے ساتھ شائع کی گئی۔ اُمید ہے کہ فیس بُک پر بھی قارئین کی معلومات میں اضافے کا باعث بنے گی۔ اس سے پہلے کہ میں اپنے اصل موضوع کی طرف آؤں، یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس مضمون کو کتاب میں شامل کرنے اور بطور ضمیمہ اوّل، خصوصی جگہ دینے کا پس منظر بھی قارئین پر واضح کردیا جائے۔ یادش بخیر! یہ 1997 ء کی بات ہے۔ میں اُن دنوں ماہنامہ ’’سائنس ڈائجسٹ‘‘ کا مدیر تھا۔ ایک روز پاکستان کے دور دراز اور پس ماندہ علاقے سے کسی قاری کا خط آیا۔ اس نوجوان نے اپنے خط میں سائنس کی خوب تعریف و توصیف کرنے کے بعد، اپنے مشاہدے اور مطالعے کی روشنی میں یہ اخذ کیا تھا کہ سائنس ہی ’’سب کچھ‘‘ ہے، اور خط کے آخر میں لکھا تھا:’’جناب! میں سائنس سے بے حد متاثر ہوں اور یہ چاہتا ہوں کہ سائنس کو بطور مذہب اختیار کروں۔ برائے مہربانی آپ مجھے ایسے افراد کے بارے میں بتائیے جن کا مذہب، سائنس ہو۔ میں ان سے مل کر سائنس کا مذہب قبول کرلوں گا۔‘‘ سائنس کا شوق رکھنے والے ایک ادنیٰ مسلمان کی حیثیت سے مجھے خطرے کا احساس ہوا۔ میں نے فوری طور پر اس نوجوان کو جوابی خط لکھا اور بتایا کہ سائنس کسی مذہب کا نام نہیں اور سائنس کو مذہب سمجھنا، مذہب اور سائنس، دونوں ہی کیلئے سخت نقصان دہ ہے۔ یہ خط قدرے تفصیلی شکل اختیار کر گیا لیکن میں نے اپنے تئیں اس نوجوان کی غلط فہمی رفع کرتے ہوئے اسے سائنس، سائنسی طریقِ عمل اور سائنس کی حدود و قیود سے آگاہ کیا۔ یہ خط روانہ کرنے کے بعد میرے ذہن میں ایک ہیجان سا برپا ہوگیا۔ میں سائنس کی افادیت سے کبھی انکاری نہیں رہا، لیکن اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ سائنس کا ہر پہلو انسانیت کیلئے فائدہ مند ہے اور اس کا ہر روپ عامتہ الناس کیلئے مفید۔ اُس روز مجھے شدت سے احساس ہوا کہ محض سائنسی مضامین پڑھنا اور سائنسی معلومات سے آگاہ ہونا ہی کافی نہیں، بلکہ یہ جاننا بھی بے حد ضروری ہے کہ آخر سائنس بذاتِ خود کیا ہے اور یہ کیسے کام کرتی ہے۔ یہ امر حقیقت ہے کہ سائنس ’’بہت کچھ‘‘ ہے، لیکن یہ فاش غلط فہمی ہے کہ سائنس ’’سب کچھ‘‘ ہے۔ شاید یہ واقعہ میرے ذہن سے محو ہوجاتا، لیکن بعدازاں وقتاً فوقتاً ایسے تجربات و مشاہدات ہوتے رہے جنہوں نے اس واقعے کی یادیں تازہ رکھیں۔ حالات و واقعات کی بناء پر رفتہ رفتہ مجھے یہ احساس ہوا کہ صرف اہالیانِ مذہب کی اکثریت ہی نہیں، بلکہ سائنس پڑھنے والے طلباء اور سائنس پڑھانے والے اساتذہ بھی بطورِ مجموعی اس امر سے ناآشنا ہیں کہ سائنس کیا ہے۔ یہی عدم واقفیت یا تو انہیں سائنس سے بدگمان کردیتی ہے یا پھر وہ سائنس کے اتنے گرویدہ ہوجاتے ہیں کہ اسے مذہب کا متبادل سمجھنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔ یہ دونوں صورتیں ہی عدم توازن کی غماز ہیں اور ان کا نتیجہ خیر پر مبنی ہونے کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ یہ تمہید اور پس منظر بیان کرنے کے بعد اب میں اپنے اصل موضوع کی طرف آتا ہوں۔ زیرِ نظر تحریر دو حصوں میں تقسیم کی گئی ہے۔ پہلے حصے میں راقم نے یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ سائنس کیا ہے اور یہ کیسے کام کرتی ہے۔ دوسرے حصے میں سائنس کی وہ حدود و قیود واضح کی گئی ہیں جنہیں ہم عموماً نظر انداز کرجاتے ہیں اور طرح طرح کی حماقتوں کے مرتکب ہوتے ہیں۔(علیم احمد مدیر گلوبل سائنس) سانس کیا ہے؟ سائنس کی بنیادی تعریف لغوی اعتبار سے دیکھا جائے تو انگریزی لفظ ’’سائنس‘‘ (Science)، لاطینی کے ’’سائنسیا‘‘ یا ’’سائنشیا‘‘ (Sciencia) سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ’’جاننا‘‘ (To Know) ہے۔ ’’سائنس‘‘ کا اردو اور عربی ترجمہ ’’علم‘‘ کے عنوان سے کیا جاتا ہے جو اس کے لغوی ماخذ سے مطابقت رکھتا ہے، کیونکہ ’’جاننا‘‘ اور ’’علم رکھنا‘‘ کم و بیش ایک ہی کیفیت کی ترجمانی کرتے ہیں۔ تاہم آج یہ ممکن نہیں کہ ہر علم کو ’’سائنس‘‘ قرار دیا جاسکے۔ اس کا اندازہ ’’سائنس‘‘ کی بنیادی تعریف سے لگایا جاسکتا ہے:یعنی: ’’قابلِ اعادہ مشاہدات، پیمائشوں، اور تجربات کے ذریعے طبیعی کائنات اور اس کے اجزاء کا مطالعہ کرنا تاکہ اس کی نوعیت اور طرزِ عمل کی وضاحت کرنے والے عمومی قوانین دریافت کئے جاسکیں، ان کی تصدیق و توثیق کی جاسکے، یا انہیں بہتر بنایا جاسکے، سائنس کہلاتا ہے۔‘‘ بحوالہ: پینگوئن ڈکشنری آف سائنس۔ اشاعت ششم (1986ء) مطلب یہ کہ اگر کوئی ’’علم‘‘ مذکورہ بالا تعریف پر پورا نہیں اُترتا تو وہ دورِ جدید کی اصطلاح میں ’’سائنس‘‘ شمار نہیں کیا جائے گا۔ اسی وجہ سے ارضیات، حیاتیات، کیمیا، طبیعیات، ریاضی، فلکیات اور کونیات وغیرہ کو ’’سائنسی مضامین‘‘ کہا جاتا ہے لیکن روحانیات، مذہب، تاریخ، مابعد الطبیعیات اور عمرانیات وغیرہ ’’غیر سائنسی مضامین‘‘ کہلاتے ہیں۔ لیکن اس سے یہ مطلب ہر گز نہیں لینا چاہئے کہ ان کی اہمیت، سائنسی مضامین سے کم ہے۔ اگرچہ یہ مضامین، سائنس کی تعریف پر پورے نہیں اُترتے لیکن ’’علم‘‘ اور حقیقت کا درجہ رکھتے ہیں (اس حوالے سے تفصیلی بحث ’’سائنس کیا نہیں؟‘‘ والے حصے میں آئے گی)۔ سائنس، زمانۂ قدیم میں یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں کہ سائنس کی بنیادی تعریف ہمیشہ سے وہی نہیں رہی جو میں اوپر کی سطور میں بیان کر چکا ہوں، بلکہ یہ وقت کے ساتھ ساتھ خود بھی بدلتی اور بہتر ہوتی رہی ہے۔ اگر آج سے لگ بھگ ڈھائی ہزار سال پہلے کا زمانہ دیکھیں تو تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ یونانی دانشوروں نے اپنے مخصوص منطقی (Logical) انداز سے کائنات اور مظاہر کائنات کا مطالعہ کیا، جسے انہوں نے ’’فلاسفیا‘‘ (Philosophia) یعنی ’’علم سے محبت‘‘ کا نام دیا۔ گویا یہ کہا جاسکتا ہے کہ قدیم یونانی عہد کا ’’فلسفی‘‘ اپنے زمانے کا ’’سائنس داں‘‘ تھا۔ وہ ’’فلاسفیا‘‘ کے منطقی اصولوں کی پابندی کرتے ہوئے کائنات اور مظاہرِ کائنات کے بارے میں نت نئی باتیں تلاش کرنے کا اہل تصور کیا جاتا تھا۔ ان فلسفیوں کے نزدیک علم حاصل کرنے کے تین اصول سب سے اہم تھے: 1۔ آپ کو فطرت کے پہلوؤں (مظاہرِ کائنات) کے بارے میں لازماً مشاہدات جمع کرنے چاہئیں؛ 2۔ آپ کیلئے اشد ضروری ہے کہ یہ مشاہدات، ترتیب وار انداز میں منظم کریں؛ (یہ اس لئے اہم تھا کہ ضرورت پڑنے پر ان کا فوری استعمال آسان رہے۔) 3۔ ان منظم اور ترتیب وار مشاہدات کو استعمال کرتے ہوئے، آپ پر یہ بھی لازم ہے کہ کوئی ایسا اصول/ قانون اخذ کریں جو ان مشاہدات کی عمومی وضاحت (General Explanation) فراہم کرنے کے قابل ہو۔ یہ تین اصول، یونانی فلسفیوں کے نزدیک بے حد اہم تھے۔ غالباً ان کا پہلا اور کامیاب ترین اطلاق جیومیٹری (Geometry) کے میدان میں کیا گیا تھا۔ ان تین اصولوں سے فائدہ اٹھانے کیلئے انہوں نے بطورِ خاص دو تکنیکیں وضع کی تھیں: اوّل تجرید (Abstraction)؛ اور دوم عمومیت (Generalization)۔ ان دو تکنیکوں کو ہم ایک تاریخی مثال سے سمجھ سکتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یونانیوں سے بہت پہلے مصریوں نے کسی طرح سے یہ دریافت کرلیا تھا کہ اگر ایک رسّی لے کر اسے 12 مساوی حصوں میں تقسیم کردیا جائے تو ایک اچھوتی مثلث (Triangle) بنائی جاسکتی ہے۔ اس مثلث کا ایک ضلع (Side) تین حصوں پر، دوسرا چار، اور تیسرا ضلع پانچ حصوں پر مشتمل ہوگا۔ اس مثلث میں ایک زاویہ قائمہ (Right Angle) یعنی 90 درجے کا زاویہ بھی ہوگا جو اس مقام پر بنے گا جہاں تین (3) اور چار (4) حصوں جتنی لمبائی والے اضلاع آپس میں ملتے ہیں۔ اور یوں دنیا پہلی مرتبہ ’’قائمۃ الزاویہ مثلث‘‘ (Right Angled Triangle) سے روشناس ہوئی۔وہ مصری کون تھا جس نے یہ مثلث ’’ایجاد‘‘ کی تھی؟ اس بارے میں تاریخ کے اوراق پر کوئی ریکارڈ موجود نہیں۔ خیر! قائمۃ الزاویہ مثلث دریافت کرنے کے بعد مصریوں نے اس میں مزید کسی دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا اور مذکورہ ایک مثال سے آگے بھی نہیں بڑھے۔ (بعض حالیہ تحقیقات یہ بتاتی ہیں کہ قائمۃ الزاویہ مثلث مکمل طور پر دریافت کرنے سہرا دراصل مصریوں ہی کے سر بندھنا چاہئے لیکن یہ موقعہ اس تاریخی پہلو پر بحث کا نہیں۔) جب قائمۃ الزاویہ مثلث کی یہ مثال یونانی فلسفیوں تک پہنچی تو انہوں نے اس کی شکل اور خصوصیات کے بارے میں پورے تجسس کے ساتھ چھان بین شروع کردی۔ سوال یہ پیدا ہوا کہ آخر کوئی مثلث، قائمۃ الزاویہ مثلث بنتی ہی کیوں ہے؟ آخر زاویہ قائمہ (90 ڈگری کا زاویہ) اس کے چھوٹے اضلاع کے درمیان ہی کیوں بنتا ہے؟ کیا یہ ممکن نہیں کہ جہاں اس مثلث کا سب سے بڑا اور سب سے چھوٹا ضلع آپس میں ملتے ہوں، وہاں زاویہ قائمہ بن جائے؟ ایسے ہی سوالات و جوابات اور تحقیق و تجزیئے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچنے میں کامیاب ہوگئے کہ مصریوں کا قائمۃ الزاویہ مثلث دریافت کرلینا ایک اتفاق تھا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ رسّی اور اسے 12 مساوی حصو ں میں تقسیم کرنے والی مثال تک کبھی محدود نہ رہتے۔ انہوں نے دریافت کیا کہ قائمۃ الزاویہ مثلث بنانے کیلئے رسّی کے بجائے دھاگا یا لکڑی وغیرہ بھی استعمال کئے جاسکتے ہیں اور ایسا کرنے سے مثلث کی ساخت اور خصوصیات پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ مزید یہ کہ قائمۃ الزاویہ مثلث تو سیدھی لکیروں (خطوطِ مستقیم) کے ایک خاص انداز سے آپس میں ملنے کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے یہ مشاہدہ بھی کیا کہ کوئی ایسی عملی مثال موجود نہیں جسے ’’سیدھی لکیر‘‘ قرار دیا جاسکے، کیونکہ ان کے زیرِ مطالعہ اشیاء میں کسی نہ کسی حد تک ٹیڑھ پن ضرور موجود ہوتا تھا۔ یہیں سے انہوں نے ’’مثالی خطوطِ مستقیم‘‘ (Ideal Straight Lines) کا تصور قائم کیا۔ یعنی ایسی لکیر جو ’’بالکل سیدھی ہو اور جس میں ذرّہ برابر بھی ٹیڑھ پن نہ ہو‘‘ وہ ’’مثالی خطِ مستقیم‘‘ کہلائے گی۔ چونکہ معمول کی زندگی یا روز مرہ کی مثالوں میں وہ اس طرح کی سیدھی لکیریں تلاش نہیں کرسکتے تھے، لہٰذا انہوں نے یہ کہا کہ ’’مثالی خطِ مستقیم‘‘ ایک ایسی چیز ہے جس کے بارے میں صرف سوچا جاسکتا ہے، تصور کیا جاسکتا ہے لیکن اصل نظامِ قدرت میں اس کا مشاہدہ ممکن نہیں۔ بہرکیف! مثالی خطوطِ مستقیم کے تصور تک رسائی کے اس سفر کے دوران ہی یونانی فلسفیوں نے ’’تجرید‘‘ نامی طریقے کی بنیاد رکھی۔ اس طریقے کے تحت صرف اور صرف انہی خصوصیات/ اشیاء پر توجہ دی جاتی ہے جو کوئی مسئلہ حل کرنے کیلئے ضروری ہوتی ہیں (یا ضروری سمجھی جاتی ہیں)۔ ان سے ہٹ کر باقی کی تمام تفصیلات، خصوصیات اور اشیاء کو اضافی یا ’’غیر مبادی‘‘ (non-essential) قرار دے کر نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ قائمۃ الزاویہ مثلث کی اس مثال میں سیدھی لکیروں کا ایک خاص انداز سے آپس میں ملنا بنیادی اہمیت رکھتا ہے جبکہ رسّی، لکڑی یا دھاگے کی حیثیت اضافی (یا ’’غیر مبادی‘‘) ہے۔ انہی خطوط پر کام کرتے ہوئے جیومیٹری کے قدیم یونانی ماہرین نے یہ بھی دریافت کیا کہ ہر مسئلے کو علیحدہ علیحدہ حل کرنے کے بجائے مسائل کی ’’جماعت بندی‘‘ (Classification) کی جاسکتی ہے۔ مطلب یہ کہ ایک نوعیت کے سارے مسائل، ایک جماعت میں رکھ دیئے؛ دوسری نوعیت کے مسائل دوسری جماعت میں… وغیرہ۔ اسی طرح جب کسی مسئلے کا حل تلاش کیا جائے یا پیش کیا جائے تو اسے صرف ایک مسئلے تک محدود ہونا نہیں چاہئے، بلکہ اس قابل ہونا چاہئے کہ وہ اس نوعیت کے سارے مسائل (یعنی مسائل کی جماعت) کا حل فراہم کرسکے۔ شاید آپ اسے ہضم کرنے میں دشواری محسوس کررہے ہیں۔ چلئے میں پھر مثال سے سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔ آپ یہ دریافت کرسکتے ہیں کہ قائمۃ الزاویہ مثلث کے اضلاع صرف 3، 4 اور 5 والی نسبت ہی میں نہیں ہوتے بلکہ 5، 12 اور 13؛ یا 7، 24 اور 25 کے تناسبوں سے آپس میں ملنے والی سیدھی لکیریں (خطوطِ مستقیم) بھی قائمہ الزاویہ مثلث ہی بنائیں گی۔ مگر یہ توصرف چند اعداد ہیں جن کا کوئی واضح مطلب نہیں نکلتا۔ اب یونانی فلسفیوں نے سوچا کہ قائمۃ الزاویہ مثلث کے اضلاع میں کوئی ایسا تناسب، کوئی ایسا تعلق، کوئی ایسا رشتہ ضرور ہونا چاہئے جسے ایسی تمام مثلثوں میں قدرِ مشترک کا درجہ دیا جاسکے۔ علاوہ ازیں اس باہمی تعلق یا نسبت کو عمومی شکل میں بھی ہونا چاہئے تاکہ کسی بھی مثلث کیلئے اس کی جانچ پڑتال ممکن ہوسکے۔ خاصی تگ و دو اور محتاط دلیل و حجت کے بعد آخرکار وہ اس حتمی نتیجے پر پہنچے کہ کوئی مثلث (جس کے اضلاع کی لمبائی ہم x، y اور z تصور کر لیتے ہیں) صرف اور صرف اسی وقت قائمۃ الزاویہ مثلث کہلائے گی، جب اس کے اضلاع میں یہ تناسب موجود ہوگا: x^2 + y^2 = z^2 قائمۃ الزاویہ مثلث کی ایک مثال یہاں z سے سب سے لمبا ضلع ہے جبکہ x اور y اس مثلث کے چھوٹے اضلاع ہیں۔ یہ مسئلہ تقریباً 525 قبل مسیح میں فیثاغورث (Pythagoras) نامی یونانی ریاضی داں نے ثابت کیا تھا اور آج بھی یہ اسی کی مناسبت سے ’’مسئلہ فیثاغورث‘‘ (Pythagoras’ theorem) کہلاتا ہے۔ دسویں جماعت تک سائنس پڑھنے والا ہر طالب علم اس مسئلے سے ضرور آگاہ ہوگا۔ اس مسئلے کا سب سے دلچسپ اور اہم ترین پہلو یہ ہے کہ اس کی درستگی اور صداقت پر قائمۃ الزاویہ مثلث کی جسامت سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یعنی اس عمومی ’’فارمولے‘‘ کی سچائی صرف ایک دو مثالوں تک محدود نہیں بلکہ اسے ان گنت اقسام کی قائمۃ الزاویہ مثلثوں کیلئے پرکھ کر درست ثابت کیا جاسکتا ہے۔یہیں سے یونانی فلسفیوں نے یہ بھی دریافت کیا کہ اگر کوئی ثبوت (پروف)، جو کسی ایک مسئلے کو حل کرتا ہے، ایک مثال میں صحیح طور پر کارآمد ہے تو اس کے درست ہونے کیلئے لازم ہے کہ وہ اس نوعیت کی تمام ممکنہ مثالوں میں بھی مسائل کو حل کرنے اور ہمیں درست نتیجے تک پہنچانے کے قابل ہو۔ یہی وہ چیز ہے جسے یونانیوں نے ’’عمومیت‘‘ (Generalization) کا نام دیا تھا۔ مسئلہ فیثاغورث کی اس زبردست کامیابی کی وجہ سے جیومیٹری ان کے نزدیک دریافت اور فارمولا سازی کا ایک اہم ذریعہ بن گئی۔ خود اعتمادی اور یونانیوں کی فاش غلطیاں جیومیٹری میں کامیابی کی وجہ سے یونانی فلسفیوں کو اپنے طریقۂ استدلال پر بے اندازہ اعتماد ہوگیا اور حد سے بڑھی ہوئی اسی خود اعتمادی کی وجہ سے انہوں نے بہت فاش غلطیاں بھی کیں۔ان میں یہ خیال جڑ پکڑ گیا کہ استنباط (deduction) ہی علم حاصل کرنے کا قابلِ احترام اور معزز طریقہ ہے۔ (استنباط یا استخراج سے مراد یہ ہے کہ دستیاب اور مصدقہ معلومات و حقائق کو بنیاد بناتے ہوئے، انہی سے نئی باتیں ’’اخذ‘‘ (deduce) کی جائیں۔) یونانی فلسفی بخوبی جانتے تھے کہ بہت سے معاملات میں استنباط کے ذریعے علم کا حصول مناسب نہیں تھا۔ مثلاً اگر مجھے اپنی میز کے دو کونوں (Corners) کے درمیان فاصلہ معلوم کرنا ہو تو مجھے کیا کرنا چاہئے؟ ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں میرے لئے یہ مناسب نہیں ہوگا کہ میں تجریدی اصولوں کی بنیاد پر استنباط کا سہارا لیتے ہوئے یہ ’’اخذ‘‘ کروں کہ ان دونوں کونوں کا درمیانی فاصلہ اتنا ہوگا (یا اتنا ہونا چاہئے)۔ اس کے برعکس یہ مسئلہ (یعنی میز کے دو کونوں کا درمیانی فاصلہ معلوم کرنا) حل کرنے کیلئے موزوں ترین طریقہ یہی ہے کہ میز کے ان دو کونوں کا فاصلہ ’’ناپ کر‘‘ معلوم کرلیا جائے، نہ کہ تجرید اور استنباط سے اُلجھ کر اپنا وقت برباد کیا جائے۔ مگر یونانی فلسفیوں کے نزدیک اس طرح تجربے سے حاصل کیا گیا علم، کم تر درجے کا علم تھا۔وہ ضرورت پڑنے پر فطرت کا مطالعہ بھی کرلیا کرتے تھے، مگر یہ ’’ضرورت‘‘ ان کیلئے باعثِ شرم ہوتی تھی۔ وہ عقیدے کی حد تک یہ یقین رکھتے تھے کہ علم کی اعلیٰ ترین قسم وہی ہے جو صرف تفکر و تدبر اور تخیل و تصور کے استعمال سے حاصل کی جائے۔ ان کے نزدیک کم تر درجے کا علم وہ تھا جس کا براہِ راست تعلق روز مرہ زندگی سے ہو۔ ان کے خیال میں تجربہ ایک ’’مشقت‘‘ کا نام تھا اور یونانی معاشرے میں مشقت کرنے والے ’’غلام‘‘ کہلاتے تھے… ادنیٰ، حقیر اور بے حیثیت غلام۔ یہی وجہ ہے کہ یونانی تہذیب میں تجربے اور عمل کو حصولِ علم کیلئے معزز واسطہ نہیں سمجھا گیا۔واقعہ مشہور ہے کہ افلاطون اپنی درسگاہ (اکیڈمی) میں اپنے ایک شاگرد کو ریاضیاتی مسائل کے بارے میں کچھ ہدایات دے رہا تھا۔ شاگرد نے سوال کیا : ’’مگر ان سب کا عملی مقصد (یا فائدہ) کیا ہے؟‘‘اس سوال پر افلاطون کو اپنی ہتک محسوس ہوئی۔ اس نے غلام کو بلایا، اسے حکم دیا کہ وہ طالب علم کے ہاتھ پر ایک سکّہ رکھے۔ سکّہ دینے کے بعد اس نے اپنے شاگرد سے کہا :’’اب تمہیں یہ سوچنے کرنے کی کوئی ضرورت نہیں کہ تمہیں دی گئی ہدایات کا قطعاً کوئی مقصد نہیں تھا۔‘‘اور اسی کے ساتھ اُس طالب علم کو درسگاہ سے نکال دیا گیا۔یہ واقعہ پڑھ کر آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ تجرباتی علوم کو یونان میں کتنا کم تر سمجھا جاتا تھا۔ یہ کیفیت آمدِ اسلام کے بعد نمایاں طور پر تبدیل ہوگئی کیونکہ اسلامی فلسفے کی رو سے ’’علم‘‘ اور ’’عمل‘‘ کو یکساں مقام حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان سائنس دانوں نے تجرباتی علوم کی اس اہمیت کو اجاگر کیا جسے یونانی فلسفی ’’کم تر‘‘ کہہ کر نظر انداز کرتے رہے تھے۔ بلا خوفِ تردید یہ کہا جاسکتا ہے کہ دیگر اقوام کی طرح مسلمانوں نے بھی سائنسی ترقی میں اپنا کردار ادا کیا ہے جسے فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ ’’سائنس داں‘‘ (Scientist) کی اصطلاح بہت پرانی نہیں۔ یہ لفظ 1830ء کے عشرے میں ایک ماہرِ طبیعیات اور سائنسی مؤرخ، ولیم ویویل (William Whewell) نے وضع کیا تھا۔ اس سے پہلے سائنس کیلئے ’’مطالعۂ فطرت‘‘ (اسٹڈی آف نیچر) اور سائنس داں کیلئے ’’فطری فلسفی‘‘ (نیچرل فلاسفر) جیسے الفاظ رائج تھے۔ پڑھنے والوں کی دلچسپی کیلئے اضافہ کرتا چلوں کہ انیسویں صدی عیسوی کے دوران، جب مغرب میں لفظ ’’سائنس‘‘ نیا نیا متعارف ہوا تھا اور ہندوستان میں سرسید احمد خان نے مسلمانوں کو جدید علوم کی طرف راغب کرنے کی کوششوں کا آغاز کیا تھا، تو اپنے انہی خیالات کی بناء پر سرسید احمد خان کو بعض کٹر مذہبی حلقے ’’نیچری‘‘ بھی کہتے تھے۔ یہ پھبتی دراصل اُس زمانے میں مشہور ’’نیچرل فلاسفر‘‘ ہی کی بگڑی ہوئی شکل تھی۔ سائنسی مطالعات، تنازعات اور بحران اب موقع آگیا ہے کہ سائنس کی حالیہ تعریف کا مزید تفصیل سے جائزہ لیا جائے اور قارئین کو یہ بتانے کی کوشش کی جائے کہ سائنس، عمومی حالات میں کس طرح کام کرتی ہے اور اس میں تبدیلیاں کیسے آتی ہیں۔ سائنس ایک ایسی دانشورانہ سرگرمی ہے جو ہمارے شعور کو فطرت کی انتہائی تجریدی اور بنیادی سطحوں تک وسعت عطا کرتی ہے۔ سائنس داں یہ جاننا چاہتا ہے کہ کائنات (اپنی تمام تر جزئیات سمیت) کس طرح تشکیل پائی ہے، اور یہ کیسے کام کرتی ہے۔ سائنسی مطالعات کا آغاز شکوک وشبہات (Doubts) اور تنازعات (Conflicts) سے ہوتا ہے۔ عموماً ایسا کوئی تنازعہ، نظریئے (Theory) اور مشاہدے (Observation) کے درمیان ہوتا ہے۔ اس تنازعے کے دوران نظری ماڈل (Theoretical Model) اور طبیعی دنیا (Physical World) کے بارے میں حاصل ہونے والی شہادتوں (مشاہدات) کا آپس میں تعلق جوڑنا مشکل ہوجاتا ہے۔ پھر ایک تنازعہ اور اٹھتا ہے جس کا وجود، مروجہ طبیعی قوانین (قوانینِ فطرت) کی بالادستی قائم رکھنے کی ’’خواہش‘‘ اور کسی سائنسی انقلاب (Scientific Revolution) کے ذریعے انہیں تبدیل کرنے کی ’’ضرورت‘‘ کے مابین ہوتا ہے۔ پہلا تنازعہ حل کرنے کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ اصل دنیا/ طبیعی دنیا کے بارے میں مشاہدات بہتر بنائے جائیں (جو ہمارے لئے حواس کا کام کرتے ہیں) اور اس کے متعلق اپنی سمجھ بوجھ کو مزید گہرا کیا جائے۔ اس کے علاوہ یہ ضرورت بھی پڑسکتی ہے کہ مظاہرِ قدرت (Natural Phenomena) کی وضاحت فراہم کرنے والے سائنسی نظریات، یعنی نظری ماڈل کو بہتر بنایا جائے۔ اس طرح کا کوئی نظری ماڈل، طبیعی قوانین اور ریاضی کے بنیادی حقائق (Mathematical Axioms) کا مجموعہ ہوسکتا ہے۔ کسی زیرِ بحث تنازعے کا تصفیہ کرنے کیلئے متعلقہ مشاہدات کی روشنی میں (مروجہ طبیعی قوانین کی بنیادوں پر قائم) نظری ماڈل/ ماڈلز کا تجزیہ کیا جاسکتا ہے۔ نظری ماڈل اور مشاہدات کے درمیان موجود فرق ہی کسی نظری ماڈل کے معیار کا تعین کرتا ہے۔ یہ فرق (deviation) جتنا کم ہوگا، ماڈل کو اتنا ہی بہتر مانا جائے گا۔ مشاہدہ (Observation) ہی وہ چیز ہے جو نظری ماڈل اور حقیقی دنیا کے مابین تعلق پیدا کرتا ہے۔ لیکن ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا، اور ایسے مواقع بھی آتے ہیں جب حقیقی دنیا کا مشاہدہ، نظری ماڈل سے مطابقت میں نہیں رہتا۔ یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ مشاہدہ کرنے والا (Observer یا شاہد) بذاتِ خود ایک طرح کی نمونہ جاتی دنیا (Model World) ہوتا ہے، اور وہ اس باہمی تعلق کی وضاحت کرتے ہوئے خود بھی تنازعات کا باعث بن سکتا ہے۔ عام طور سے کسی نظری ماڈل کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ اعداد و شمار کی صورت میں ’’پیش گوئی‘‘ (Prediction) بھی فراہم کرے، یعنی پیش گوئی کی نوعیت ’’مقداری‘‘ (Quantitative) ہونی چاہئے۔ یہ اعداد و شمار (Numbers) اکثر مکمل طور پر درست نہیں ہوتے کیونکہ ان کا حساب لگاتے وقت ’’تخمینی عمل‘‘ (Approximation) سے مدد لی جاتی ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ اگر کسی حساب کے دوران ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ جواب/ نتیجہ 99.99999 آنا چاہئے تو ہم اسے اپنی سہولت کی خاطر 100 کردیتے ہیں۔ اس کی ایک بہت اچھی مثال ’’پائی‘‘ (Pi) سے دی جاسکتی ہے۔ یہ ایک غیر ناطق عدد (Irrational Number) ہے جو کسی دائرے کے محیط (Circumference) اور اس کے قطر (Diameter) میں تعلق ظاہر کرتا ہے۔ اس کی ٹھیک ٹھیک قیمت کا تعین آج تک نہیں کیا جاسکا، لیکن عملی طور پر اسے 3.14159 بتایا جاتا ہے۔ اسکولوں اور کالجوں میں بچوں کو پڑھانے کیلئے اس کی قیمت 22/7 بتائی جاتی ہے جو صرف دو درجے اعشاریہ (3.14) تک درست ہے، اس سے آگے نہیں۔ جیسے جیسے زیادہ بہتر پیمائشوں اور حساس مشاہدات کی ضرورت بڑھتی چلی جاتی ہے، ویسے ویسے پائی کی آٹھ درجے اعشاریہ، دس درجے اعشاریہ، یا اس سے بھی زیادہ درست قیمت استعمال کرنا پڑتی ہے۔ اگر ایسے حالات میں پائی کی قیمت 22/7 سے معلوم کی جائے تو اس کی بنیاد پر لگایا گیا تخمینہ ہماری پیمائشوں اور مشاہدات کو گمراہ کن حد تک غلط کرسکتا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ غلطی، تخمینی عمل کی غلطی ہوگی نہ کہ کسی نظری ماڈل کی۔ سائنسی نظریات پر کام کرنے والا شخص یعنی نظریات داں (Theorist)، فطرت کے نظام کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے اور دستیاب علم کی روشنی میں ایک نیا تصور، ایک نیا ’’مفروضہ‘‘ (Idea) پیش کرتا ہے۔ مفروضہ پیش کرنے والا کچھ پیش گوئیاں بھی کرتا ہے جو اس کے مفروضے کی مطابقت میں ہوتی ہیں۔ اب اگلی ذمہ داری مشاہدہ کرنے والے کے کاندھوں پر آجاتی ہے۔ وہ نظامِ قدرت کا مطالعہ کرتا ہے اور یہ دیکھتا ہے کہ اس مفروضے میں کی گئی پیش گوئیاں درست ہیں یا نہیں؟ اور اگر درست ہیں تو کس حد تک؟ اگر یہ مفروضہ، حقیقت (مشاہدات) سے مطابقت رکھتا ہے تو یہ حقیقی دنیا کا ماڈل قرار پاتا ہے۔ لیکن اگر ایسا نہیں ہوتا تو اس مفروضے کو ایک ’’قیاس آرائی‘‘ (conjecture) سے زیادہ کچھ نہیں سمجھا جاتا۔ تاہم اگر کوئی مفروضہ، حقیقی دنیا کا ماڈل بننے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو اسے ایک اور مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس مرحلے میں کئی دوسرے لوگ، مختلف حالات کے تحت اس ماڈل کی پیش گوئیوں اور صداقت کو پرکھتے ہیں۔ اگر اب بھی تمام حالات کے تحت یہ ماڈل، حقیقی دنیا کی درست عکاسی کرتا ہے تو پھر یہ ایک ’’نظریہ‘‘ (Theory) بن جاتا ہے۔اگر کوئی نظریہ درست طور پر پیش گوئی کرتا رہے، اور اگر اسے وقت کے وسیع تر پیمانے پر بھی درست پایا جائے، تو پھر یہ نظریہ ’’قانونِ فطرت‘‘ (Natural Law) کی حیثیت سے تسلیم کرلیا جاتا ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کسی قانونِ فطرت کا انحصار طبیعی دنیا کی دستیاب معلومات، اور (اس قانونِ فطرت میں استعمال کئے گئے) ریاضی کے مروجہ (یعنی اُس دَور کے تسلیم شدہ) حقائق پر ہوتا ہے۔ ایک نظریات داں اسی طرح کام کرتے ہوئے حقیقی دنیا کے نئے اور بہتر سے بہتر ماڈل تیار کرتا، اور نظامِ کائنات کی بہتر تفہیم کیلئے جستجو کرتا رہتا ہے۔ یہ امکان ہمیشہ رہتا ہے کہ طبیعی (حقیقی) دنیا کے بارے میں ہماری معلومات تبدیل ہوجائیں، یا ریاضی کے بنیادی، مروجہ اور تسلیم شدہ حقائق (Axioms) بھی بدل جائیں۔ جب بھی ایسا ہوتا ہے تو نظریات داں ایک نئے مفروضے کی کھوج کرتا ہے تاکہ حقیقی دنیا کے بارے میں ہماری سمجھ بوجھ کو ایک نئے انقلاب سے ہمکنار کیا جاسکے۔ سائنس اپنی فطرت میں معقولیت پسندانہ (Dialectical) ہے۔ یہ ’’پیراڈائم‘‘ (Paradigm) میں تبدیلی کے ساتھ ترقی کرتی ہے۔ پیراڈائم، اصولوں کا مجموعہ (Set) ہوتا ہے۔ اگر ہم طبیعیات کی مثال لیں تو یہ اصول، قوانینِ قدرت (Laws of Nature) ہوتے ہیں۔ سائنس کے ترقی کرنے کا ایک عمومی طریقہ تو یہ ہے کہ پرانے/ متروک ماڈلوں اور نظریات کی جگہ نئے ماڈلز اور نظریات کو دے دی جائے۔ کم و بیش تمام سائنسی نظریات میں کچھ نہ کچھ بے قاعدگیاں ضرور ہوتی ہیں۔ یعنی انہیں کچھ نہ کچھ ایسے مواقع کا سامنا ضرور کرنا پڑتا ہے جب یہ نظریات، حقیقت کی درست تشریح نہیں کر پاتے (یا پھر حقیقت ان کی فراہم کردہ تشریح سے مختلف ہوتی ہے)۔ایسی صورت میں نظریئے کو تبدیل کرکے بہتر بنانا ضروری ہوجاتا ہے۔ بڑی تبدیلی اور چھوٹی تبدیلی میں بہ آسانی فرق کیا جاسکتا ہے۔ بڑی تبدیلیاں ہمیشہ پیراڈائم میں تبدیلی (Paradigm Shift) کے ساتھ وجود میں آتی ہیں۔ جب بھی ایسا ہوتا ہے تو ہم سائنس کی متعلقہ شاخ میں ایک انقلاب دیکھتے ہیں۔ البتہ بیشتر اوقات میں، جب سائنس اپنے انقلابی دور سے نہیں گزر رہی ہوتی، معمول کی سائنس (Normal Science) پر کام کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اس مرحلے میں سائنس داں، اپنے دَور کی موجودہ پیراڈائم استعمال کرتے ہوئے، نظریات وضع کرتے ہیں اور انہی کی بنیاد پر تکنیکی ترقی دیکھنے میں آتی ہے۔ دوسری جانب تجربات کے ماہرین (Experimentalists) بھی مصروف رہتے ہیں اور ان نظریات کا حقیقت سے موازنہ کرکے ان کی درستگی (Accuracy) جانچتے رہتے ہیں۔ اس عمل کے دوران وہ ایسے نمونے، یا بے قاعدگیاں (Anomalies) بھی دریافت کرلیتے ہیں جن کی وضاحت اس نظریئے سے نہیں ہوپاتی۔ یہی بے قاعدگیاں آگے چل کر نظریئے میں بہتری، اور کبھی کبھار پیراڈائم میں تبدیلی کی وجہ بھی بن جاتی ہیں۔ کچھ مواقع ایسے بھی آتے ہیں جب عمومی سائنس کی پیش رفت رک جاتی ہے اور مروجہ پیراڈائم کی بنیاد پر کوئی نیا نظریہ قائم کرنا، ناممکن ہوجاتا ہے۔ اس مرحلے پر عموماً کوئی بے قاعدگی نمو پذیر ہوتی اور بڑھتی چلی جاتی ہے… نظریہ اور حقیقت اکٹھے ہونے سے انکار کردیتے ہیں۔ پھر سائنس داں اس بے قاعدگی پر مختلف طریقوں، اور مختلف سمتوں سے حملہ آور ہوتے ہیں۔ اگر یہ بے قاعدگی پھر بھی قائم رہتی ہے اور ان تمام حملوں کو جھیل جاتی ہے تو ’’بحران‘‘ (Crisis) وجود میں آتا ہے۔ اس موقع پر پیراڈائم میں تبدیلی ایک لازمی ضرورت بن جاتی ہے، کیونکہ اس کی تمام بنیادوں کی خامیاں واضح ہوچکی ہوتی ہیں۔ کوئی بھی نئی پیراڈائم ایک غیر متعین اور خاصے پیچیدہ وقفے کے بعد نمودار ہوتی ہے۔ مثلاً انیسویں صدی کے اختتام تک کلاسیکی میکانیات (Classical Mechanics) کو طبیعیات میں بطور پیراڈائم تسلیم کیا جاتا تھا۔ مگر آج سے کوئی سو سال پہلے کچھ ایسے مشاہدات ہوئے جن کی وضاحت، کلاسیکی میکانیات سے نہیں ہوسکی۔ چند برس بعد کوانٹم میکانیات (Quantum Mechanics) سامنے آئی۔ بیسویں صدی کے ابتدائی چالیس سال تک کوانٹم اور کلاسیکی میکانیات میں زبردست چپقلش چلتی رہی لیکن آخر کار 1950ء کے عشرے تک کوانٹم میکانیات کو طبیعیات میں ایک نئی پیراڈائم کے طور پر تسلیم کرلیا گیا۔ یہ بات دلچسپی سے پڑھی جائے گی کہ کلاسیکی میکانیات نے کم از کم دو سو سال پیراڈائم کی حیثیت سے گزارے لیکن آج یہ کیفیت ہے کہ کوانٹم میکانیات کو اپنے پیراڈائم تسلیم کئے جانے کے صرف پچاس سال بعد ایک شدید بحران کا سامنا ہے۔ ماہرین واضح طور پر محسوس کررہے ہیں کہ کوانٹم میکانیات کی نظری بنیادوں (Theoretical Foundations) میں بہت سی خامیاں موجود ہیں اور یہ متعدد مظاہر قدرت کی کامیاب، یا قابلِ اعتماد وضاحت فراہم کرنے سے قاصر ہے۔ ماہرین یہ محسوس کررہے ہیں کہ اب ایک نئی پیراڈائم کی ضرورت ہے۔ مگر فی الحال ان کے پاس قوانین قدرت کا ایسا کوئی مجموعہ نہیں جسے کسی نئی اور متبادل پیراڈائم کا درجہ دیا جاسکے۔ کوئی نہیں جانتا کہ طبیعیات کی آئندہ پیراڈائم کیا ہوگی… اور کب وجود میں آئے گی۔تاہم یہ بات یادر کھنے والی ہے کہ اگر کوئی نئی پیراڈائم درست ہے تو اسے صرف پرانی پیراڈائم میں موجود بے قاعدگیوں ہی کی معقول وضاحت نہیں کرنی چاہئے، بلکہ اس کیلئے یہ بھی لازم ہے کہ وہ مسلمہ حقائق کو بھی پوری درستگی کے ساتھ، قابلِ قبول اور معقولیت پسندانہ انداز میں واضح کرے۔: ایک بے منزل سفر اب تک کی بحث میں ہم نے دیکھا کہ سائنس، علم اور حصولِ علم کی ایک مخصوص شکل ہے، جو ایک خاص طریقے کے تحت عمل کرتے ہوئے مادّی کائنات اور اس میں موجود اشیاء (اور مظاہر) کی وضاحت فراہم کرتی ہے۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہوچکا ہے کہ سائنس میں مفروضہ، استنباط، تجربہ ، مشاہدہ، نتیجہ اور اس کا اطلاق کیا مقام رکھتے ہیں۔ علاوہ ازیں اب ہم اس حقیقت سے بھی واقف ہوچکے ہیں کہ سائنس ہمارے سامنے مادّی کائنات کی جو تصویر پیش کرتی ہے، اسے مکمل نہیں کہا جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ سائنسی نظریات اور مشاہدات میں فرق پایا جاتا ہے اور انہی بے قاعدگیوں کی وجہ سے قوانینِ فطرت کے مجموعے (پیراڈائم) میں تبدیلی کی ضرورت پڑتی ہے اور ہمیں ایک نئی پیراڈائم سے واسطہ پڑتا ہے۔ دنیا کو بدلنے والی سائنس، خود بھی تغیر سے دو چار رہتی ہے۔ اسی تغیر اور بے ثباتی کے سہارے سائنس کا سفر جاری رہتا ہے… لیکن یہ ایک ایسا سفر ہے جس کی کوئی منزل نہیں… اور شاید ہونی بھی نہیں چاہئے۔ سائنسی تاریخ کے مطالعے سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ جب کبھی سائنس دانوں نے سائنس کو مکمل محسوس کیا تو یہ ان کی بہت بڑی بھول ثابت ہوئی۔انیسویں صدی کے اختتام پر ماہرین طبیعیات کی عمومی رائے یہ تھی کہ بیسویں صدی کے طبیعیات دانوں کے پاس دریافت کرنے کیلئے کچھ بھی نہیں ہوگا کیونکہ طبیعیات مکمل ہوچکی ہے۔ بہت جلد یہ ان کی خام خیالی ثابت ہوئی، جس کا تذکرہ ہم پہلے کرچکے ہیں۔ سائنس ایک ایسا سفر ہے جو کبھی ختم نہ ہوگا۔ ہم مادّی کائنات اور مظاہرِ قدرت کو بہتر سے بہتر انداز میں سمجھنے کا دعویٰ تو کرسکتے ہیں، مگر یہ نہیں کہہ سکتے کہ مزید بہتری کی گنجائش ختم ہوگئی ہے۔ اس بارے میں مجھے اسٹیفن ہاکنگ کی رائے سے مکمل اتفاق ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ہمارے سائنسی نظریات بہتر ہوتے رہیں گے، جن کی روشنی میں ہم کائنات کی واضح تر تصویر دیکھ سکیں گے اور اس کے مظاہر کو مزید خوبی کے ساتھ سمجھ سکیں گے۔ لیکن شاید ہم ایسے کسی سائنسی نظریئے تک کبھی نہ پہنچ پائیں جو ہر اعتبار سے مکمل ہو، کسی بھی نوعیت کی بے قاعدگی سے پاک ہو، اور کائنات کے ایک ایک مظہر کی (چاہے وہ ایٹم سے بھی مختصرپیمانے کا ہو یا پوری کائنات جتنا وسیع) وضاحت فراہم کرسکے۔ بالفرضِ محال، اگر ایسا ہو بھی گیا تو سائنس کا سفر اختتام پذیر ہوجائے گا، سائنس کو اس کی منزل مل جائے گی، خوب سے خوب تر کی تلاش ختم ہوجائے گی اور جستجو کی موت واقع ہوجائے گی! قسط دوئم […]