کیا یہی کم حیران کُن بات ہے کہ انسان، جو کہ مادے کی محض ایک ترتیب کا نتیجہ ہے، خود اپنے اخذ کردہ نتائج پر بے انتہا مطمئن ہوکر خود کو ہر ذمہ داری سے بَری سمجھنے لگے؟ پچھلے دنوں ایک صاحب سے سائنسی دریافت اور نتائج کی سند پر بات ہورہی تھی۔ بحث یہ تھی کہ کیا سائنس کے نتائج پر اعتماد کرنے کی کوئی حتمی وجہ موجود ہے ؟ ایک مقبول اور غیر متعارض نتیجے کی بھی خارج میں کیا سند ہے کہ وہ اُسی طرح ہے جس طرح انہیں سمجھا گیا ہے۔؟
کہنے لگے کہ سائنس کسی اٹکل پچو کا نام نہیں۔ بہت سے تجربات درکار ہوتے ہیں جو کسی ایک نتیجے کا ماخذ بنتے ہیں۔ ان سے سوال کیا گیا کہ یہ تجربات کون کرتا ہے؟ کہنے لگے انسان ہی کرتا ہے۔ ہم نے سوال کیا کہ کیا انسان کے پاس ان تجربات کی سند کے لیے کوئی حتمی کسوٹی موجود ہے؟ کہنے لگے کہ ایک ہی تجربہ مختلف اوقات اور حالات میں مختلف لوگوں کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ اور ہر بار جب ایک ہی نتیجہ فراہم ہو تو یہی حتمی کسوٹی ہے جو نتیجے کی سند بنتی ہے۔ عرض کیا کہ کیا ہر صورت میں یہ تجربہ انسان ہی کرے گا؟ اگر ہاں تو نوعِ انسان کے اس مشاہدے یا تجربے کا آلہ کیا ہے؟ کہنے لگے ہاں جی بالکل انسان ہی کرے گا۔ اور حواسِ خمسہ وہ آلات ہیں جن سے تجربات اور مشاہدات کی مطابقت کے بعد نتیجہ قائم کیا جاتا ہے۔
اس پر عرض کیا کہ کیا خود “حواسِ خمسہ” کی کوئی حیثیت ہے؟ آپ کس بنیاد پر ان کو معتبر مانتے ہیں؟
کہنے لگے میاں یہ ایک انسان کا نہیں بلکہ مسلسل مختلف لوگوں کا ہمیشہ ایک ہی نتیجے پر پہنچنا ہی کسی مظہر کے طریقۂ برتاؤ کی سند بن جاتا ہے۔
عرض کیا کہ اگر آخری سند حواسِ خمسہ ہی ہیں تو یہاں بہت سے سوالات پیدا ہوتے ہیں۔مثلاً
1. حواسِ خمسہ جو کہ مادہ کی ایک خاص ترتیب سے ظہور پذیر ہوئے ہیں ان میں خارج سے مطابقت نہیں پائی جاتی۔
2. یہ کہ حواسِ خمسہ ایک خاص قسم کے مشاہدات سے باہر بے بس ہوں۔
3. یہ بھی کہ حواسِ خمسہ سے وجود میں آنے والے مظاہر در حقیقت خارج میں کوئی وجود ہی نہ رکھتے ہوں۔
4. حواسِ خمسہ “شعور” کے تشکیل کردہ عناصر میں سے ایک عنصر کا نام ہے۔ ممکن ہے کہ حواسِ خمسہ شعور کے حکم پر ایک خاص طریقے پر کام کرتے ہوں اور اس سے ہٹ کر وہ ایسے نتائج نہ دے سکیں جیسا کہ وہ اب دیتے ہیں۔
وہ کہنے لگے کہ جب ایک ہی مشاہدہ یا تجربہ ایک سے زائد لوگ کرتے ہیں تو یہ حتمی ہی مانا جاتا ہے۔ اس میں حواس کی سند پر سوال اٹھانے کا کیا فائدہ؟
عرض کیا، کہ جناب صرف شغل کے لیے ممکنات کو تصور کرکے دیکھیں۔ ایک آدمی اندھا ہے۔ اس کے لیے ماربل کا فرش یا ٹائل کسی امتیاز کے حامل نہیں ہیں۔ یا دوسرا آدمی قوتِ شامہ سے عاری ہے۔ اس کے لیے عطر اور فضلہ دونوں کا قرب میں موجود ہونا برابر ہے۔ ایک انسان قوتِ لامسہ سے محروم ہے۔ اس کے لیے ٹاٹ اور مخمل ایک ہی جیسے ہیں۔ اب سوچیے کہ اگر حواسِ خمسہ ہی حتمی سند ہیں تو ان کی غیر موجودگی میں مشاہدات کی صورت کیا ہوگی؟!!!
کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ جو مشاہدات اور تجربات ہیں در حقیقت یہ شعور کے ذریعے ہمارے حواسِ خمسہ ہی کی “تخلیق” ہوتے ہوں۔ ؟ !!
ممکن ہے کہ ہم جو بھی تجربہ کرتے ہیں اور اس میں مطابقت دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں وہ صرف ہمارے دماغ کی ہی تخلیق ہو، خارج میں یہ سب قطعی طور پر مختلف ہو۔؟ !!
یہ بھی تو ممکن ہے کہ کائنات کے “لامحدود ممکنات” کو مطابقت کے قانون پر پرکھنے والا انسان شاید کائنات میں مطابقت کی بجائے اپنے ذہنی انتشار کو مطابقت کے ذریعے تسکین دینے کی کوششوں میں مصروف ہو!!!
ہو تو کچھ بھی سکتا ہے۔
سوچ کر دیکھیے!
-مزمل شیخ بسمل
کہنے لگے کہ سائنس کسی اٹکل پچو کا نام نہیں۔ بہت سے تجربات درکار ہوتے ہیں جو کسی ایک نتیجے کا ماخذ بنتے ہیں۔ ان سے سوال کیا گیا کہ یہ تجربات کون کرتا ہے؟ کہنے لگے انسان ہی کرتا ہے۔ ہم نے سوال کیا کہ کیا انسان کے پاس ان تجربات کی سند کے لیے کوئی حتمی کسوٹی موجود ہے؟ کہنے لگے کہ ایک ہی تجربہ مختلف اوقات اور حالات میں مختلف لوگوں کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ اور ہر بار جب ایک ہی نتیجہ فراہم ہو تو یہی حتمی کسوٹی ہے جو نتیجے کی سند بنتی ہے۔ عرض کیا کہ کیا ہر صورت میں یہ تجربہ انسان ہی کرے گا؟ اگر ہاں تو نوعِ انسان کے اس مشاہدے یا تجربے کا آلہ کیا ہے؟ کہنے لگے ہاں جی بالکل انسان ہی کرے گا۔ اور حواسِ خمسہ وہ آلات ہیں جن سے تجربات اور مشاہدات کی مطابقت کے بعد نتیجہ قائم کیا جاتا ہے۔
اس پر عرض کیا کہ کیا خود “حواسِ خمسہ” کی کوئی حیثیت ہے؟ آپ کس بنیاد پر ان کو معتبر مانتے ہیں؟
کہنے لگے میاں یہ ایک انسان کا نہیں بلکہ مسلسل مختلف لوگوں کا ہمیشہ ایک ہی نتیجے پر پہنچنا ہی کسی مظہر کے طریقۂ برتاؤ کی سند بن جاتا ہے۔
عرض کیا کہ اگر آخری سند حواسِ خمسہ ہی ہیں تو یہاں بہت سے سوالات پیدا ہوتے ہیں۔مثلاً
1. حواسِ خمسہ جو کہ مادہ کی ایک خاص ترتیب سے ظہور پذیر ہوئے ہیں ان میں خارج سے مطابقت نہیں پائی جاتی۔
2. یہ کہ حواسِ خمسہ ایک خاص قسم کے مشاہدات سے باہر بے بس ہوں۔
3. یہ بھی کہ حواسِ خمسہ سے وجود میں آنے والے مظاہر در حقیقت خارج میں کوئی وجود ہی نہ رکھتے ہوں۔
4. حواسِ خمسہ “شعور” کے تشکیل کردہ عناصر میں سے ایک عنصر کا نام ہے۔ ممکن ہے کہ حواسِ خمسہ شعور کے حکم پر ایک خاص طریقے پر کام کرتے ہوں اور اس سے ہٹ کر وہ ایسے نتائج نہ دے سکیں جیسا کہ وہ اب دیتے ہیں۔
وہ کہنے لگے کہ جب ایک ہی مشاہدہ یا تجربہ ایک سے زائد لوگ کرتے ہیں تو یہ حتمی ہی مانا جاتا ہے۔ اس میں حواس کی سند پر سوال اٹھانے کا کیا فائدہ؟
عرض کیا، کہ جناب صرف شغل کے لیے ممکنات کو تصور کرکے دیکھیں۔ ایک آدمی اندھا ہے۔ اس کے لیے ماربل کا فرش یا ٹائل کسی امتیاز کے حامل نہیں ہیں۔ یا دوسرا آدمی قوتِ شامہ سے عاری ہے۔ اس کے لیے عطر اور فضلہ دونوں کا قرب میں موجود ہونا برابر ہے۔ ایک انسان قوتِ لامسہ سے محروم ہے۔ اس کے لیے ٹاٹ اور مخمل ایک ہی جیسے ہیں۔ اب سوچیے کہ اگر حواسِ خمسہ ہی حتمی سند ہیں تو ان کی غیر موجودگی میں مشاہدات کی صورت کیا ہوگی؟!!!
کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ جو مشاہدات اور تجربات ہیں در حقیقت یہ شعور کے ذریعے ہمارے حواسِ خمسہ ہی کی “تخلیق” ہوتے ہوں۔ ؟ !!
ممکن ہے کہ ہم جو بھی تجربہ کرتے ہیں اور اس میں مطابقت دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں وہ صرف ہمارے دماغ کی ہی تخلیق ہو، خارج میں یہ سب قطعی طور پر مختلف ہو۔؟ !!
یہ بھی تو ممکن ہے کہ کائنات کے “لامحدود ممکنات” کو مطابقت کے قانون پر پرکھنے والا انسان شاید کائنات میں مطابقت کی بجائے اپنے ذہنی انتشار کو مطابقت کے ذریعے تسکین دینے کی کوششوں میں مصروف ہو!!!
ہو تو کچھ بھی سکتا ہے۔
سوچ کر دیکھیے!
-مزمل شیخ بسمل