کارل مارکس نے انسان کی تمام خواہشات اور جبلتوں کی بنیاد اس کی بھوک کی جبلت (instinct) کو بنایا ہے کہ انسان سب کچھ اپنے پیٹ کی خواہش مٹانے کی خاطر کرتا ہے۔ ایڈلر نے کہا کہ انسان کی تمام خواہشات اور جبلتوں کی جڑ دوسروں پر فوقیت اور بڑائی حاصل کرنے کا جذبہ (urge to dominate) ہے اور یہی ہر انسان کی زندگی کا مقصد ہے۔ فرائیڈ نے کہا کہ انسان کی تمام جبلتوں اور خواہشات کی اصل اس کی جنس کا جذبہ ہے اور انسان کے ہر عمل کا سبب اور محرک (motive) یہی جذبہ ہوتا ہے۔
ہر فلسفی کی یہ خواہش رہی ہے کہ وہ انسان کی کسی ایسی خواہش اور جبلت کو تلاش کر لے کہ جس کے گرد انسان کی تمام جبلتیں اور خواہشات گھومتی ہوں۔ اور اس طرح وہ کوئی ایسا فلسفہ مرتب کر دے کہ جس کے مطابق انسان کے تمام اعمال اور افعال کا محرک اور سبب صرف اور صرف وہی جبلت اور خواہش قرار پائے۔ انسان کی تمام خواہشوں میں اصل خواہش اور جبلت کون سی ہے، اس پر ہم پھر کبھی گفتگو کریں گے کہ آج ہمیں اس بارےفرائیڈ کی حرکتوں پر کچھ گفتگو کرنی ہے۔
بلاشبہ فرائیڈ ایک ذہین انسان تھا، نسلی طور جرمن یہودی تھا لیکن بعد میں الحاد کی طرف مائل ہو گیا۔ اس نے کہا کہ انسان اس دنیا میں جو کچھ کر رہا ہے، اپنے جنسی جذبے کو پورا کرنے کے لیے کر رہا ہے یہاں تک کہ ماں بیٹی کی نسبت اپنے بیٹے سے جو زیادہ محبت رکھتی ہے اور باپ اپنے بیٹوں کی نسبت اپنی بیٹی کی طرف جو زیادہ میلان رکھتا ہے، تو اس کی وجہ بھی جنسی محبت ہے۔
فرائیڈ اس میں تو درست ہے کہ خاندانی الجھاؤ ہوتا ہے لیکن اس کی وجہ مخالف جنس کی خواہش (oedipus complex) قرار دیتے ہوئے قطعی طور غلط تجزیہ کرتا ہے۔اولا یہ کہ ساری دنیا کے باپ بیٹیوں کی طرف جھکاؤ نہیں رکھتے بلکہ ایک بہت بڑی اکثریت بیٹوں کی طرف داری کرتے ہیں یہاں تک کہ بیٹیوں کے وجود سے بیوی کو طلاق تک دے دیتے ہیں۔ فرائیڈ کی تھیوری میں اس کا کیا جواب ہے؟
دوسری بات یہ کہ بیٹیوں کی طرف جھکاؤ کی ایک بنیادی وجہ الہامی تعلیمات پر ایمان بھی ہے۔ مثلا ھمارے یہاں عام طور پر بیٹیوں کا زیادہ احترام و خیال کیا جاتا ہے بوجہ مذھبی تعلیمات جبکہ بیٹوں کی پھینٹی بھی لگا لی جاتی ہے۔ چنانچہ یہ کہنا کہ بیٹیوں کی طرف یہ جھکاؤ جنس کی وجہ سے ہے ایک لغو بات ہے
سادہ توجیہ یہی ہے کہ مسلمانوں میں بیٹیوں سے زیادہ پیار مذہبی تعلیمات کی وجہ سے کیا جاتا ہے لیکن دنیا ساری مسلمان نہیں ہے لہذا اس اصول سے تھیوری مکمل نہیں ہوتی ہے اور اس سے بھی سادہ بات یہ ہے کہ بیٹیوں سے باپوں کی پیار کی وجہ ایک نہیں زیادہ ہوتی ہیں ایک تجزیہ بھی ہوسکتا ہے کہ خاندان میں ماں کا جھکاؤ عام طور بیٹے کی طرف اس لیے زیادہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے خاوند کو اپنا حریف سمجھنے کے سبب سے اس کے مقابلے میں گھر ہی سے اپنے لیے ایک سہارا تلاش کرتی ہے اور یہ سہارا اسے بیٹے کی صورت میں میسر آتا ہے لہذا ماں کی توجہ بیٹوں کی طرف زیادہ ہو جاتی ہے۔
اب بیٹی جب والدہ کے بیٹوں کی طرف زیادہ میلان کو واضح طور محسوس کرتی ہے تو اسے یہ ماں کی زیادتی معلوم ہوتی ہے اور اس کے اور ماں کے مابین تعلقات میں ایک کھچاؤ پیدا ہو جاتا ہے۔ اس کھچاؤ کے نتیجے میں بیٹی کا رجحان منطقی طور باپ کی طرف ہو جاتا ہے۔ اس طرح خاندان تقسیم ہو جاتا ہے اور باپ اپنے بیٹوں اور ان کی ماں کو ایک ایسی پارٹی سمجھنا شروع کر دیتا ہے جو خاندان میں اس کی حیثیت اور اختیار کو چیلنج کر رہی ہو۔ یہ سادہ سی کہانی ہے کہ جس کا محرک فرائیڈ نے دھکے سے جنسی جذبہ بنانے کی کوشش کی ہے۔
پورے انسانی وجود کو کسی ایک ہی جذبے میں محصور کردینا اور دیگر تمام جذبات کو اس کی تسکین کا ذریعہ ثابت کرنے کی کوشش کرنا بالکل غیر معتدل انداز ہے جو ان لوگوں نے اپنایا۔ ان کے مقابلے میں تو صوفیاء کے یہاں انسانی نفس اور جذبات کا زیادہ بہترتجزیہ ملتا ہے
استفادہ تحریر، ڈاکٹر زبیر، ڈاکٹر زاہد مغل